[٦ ١] کافر یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں گے یا ہماری خاک کا ذرہ ذرہ منتشر ہوجائے گا تو ہم دوبارہ کیسے پیدا کیے جائیں گے۔ یہ اعتراض کرنے والے لوگ نہ تو اللہ کی صفت حکمت کی معرفت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے لامحدود علم کی وسعت کی۔ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ سب سے کو دوبارہ پیدا کرے پھر انھیں ان کے اچھے یا برے اعمال کی جزا و سزا دے اور اس کا علم اس قدر وسیع ہے کہ وہ ان کی خاک کے منتشر شدہ ذرات تک کو جانتا ہے اور انھیں اکٹھا کرکے انھیں دوبارہ زندگی بخش کر اپنے پاس حاضر کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔
وَاِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ ۔۔ : کفار دوبارہ زندہ ہونے کے منکر تھے، توحید کے دلائل کے بعد نہایت تاکید کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا، کیونکہ یہ اللہ کے حکیم وعلیم ہونے کا لازمی نتیجہ ہے اور اس کے بغیر بندہ نہ مومن ہوتا ہے، نہ باز پرس کے یقین کے بغیر کوئی نیکی ہوسکتی ہے اور نہ گناہ سے بچا جاسکتا ہے۔
وَاِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ ۭ اِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ 25ۧ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
(٢٥) بیشک آپ کا پروردگار تمام اولین وآخرین کو قیامت کے دن جمع فرمالے گا وہ اس فیصلہ میں حکمت والا ہے اور ان کے حشر اور ثواب و عتاب کو جاننے والا ہے۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :16 یعنی اس کی حکمت سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سب کو اکٹھا کرے اور اس کا علم سب پر اس طرح حاوی ہے کہ کوئی متنفس اس سے چھوٹ نہیں سکتا ، بلکہ کسی اگلے پچھلے انسان کی خاک کا کوئی ذرہ بھی اس سے گم نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے جو شخص حیات اخروی کو مستبعد سمجھتا ہے وہ خدا کی صفت حکمت سے بے خبر ہے ، اور جو شخص حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ جب مرنے کے بعد ہماری خاک کا ذرہ ذرہ منتشر ہوجائے گا تو ہم کیسے دوبارہ پیدا کیے جائیں گے ، وہ خدا کی صفت علم کو نہیں جانتا ۔