Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خشک مٹی صلصال سے مراد خشک مٹی ہے ۔ اسی جیسی آیت ( خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 14۝ۙ ) 55- الرحمن:14 ) ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو حما کہتے ہیں ۔ چکنی مٹی کو مسنون کہتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تر مٹی ۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی ۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے ۔ سموم کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور حرور کہتے ہیں دن کی گرمی کو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں ۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر ۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے ۔ صحیح میں وارد ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس آیت سے مراد حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، بھیگی ہوئی، گوندھی ہوئی بدبودار خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (صلصال) ہوگیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صلصالِ کو قرآن میں دوسری جگہ (فخار کی ماند کہا گیا ہے (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ) 55 ۔ الرحمن :14) پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧ ١] آدم کی پیدائش مٹی سے ہوئی :۔ مٹی کے لیے عربی زبان میں عام لفظ تراب ہے جو ہر طرح کی مٹی پر بولا جاسکتا ہے۔ جیسے سیدنا آدم کے متعلق ایک مقام پر فرمایا : (خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 59؀) 3 ۔ آل عمران :59) تاہم تراب کا لفظ عموماً خشک مٹی کے لیے بولا جاتا ہے اور انسان کے پتلے کی ساخت میں مٹی کی جن اقسام کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ طین یعنی گیلی مٹی یا وہ خشک مٹی جس میں پانی ملایا گیا ہو طین لازب چپک دار گیلی مٹی ( چکنی مٹی) اس کے بعد اسی مٹی کو حَمَاٍمَّسْنُوْنٍ کی شکل دی گئی یعنی ایسی مٹی یا گارا جو گل سڑ کر سیاہ رنگ کی ہوگئی ہو خمیر اٹھ رہا ہو اور بو پیدا ہوگئی ہو۔ ایسی ہی مٹی سے آدم کا پتلا بنایا گیا۔ پھر اسے حرارت یا آگ میں اس قدر تپایا گیا کہ وہ کھنکھنانے سے کھن کھن کی آواز پیدا کرتا ایسی مٹی کو صَلْصَالٍ اور صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ کا نام دیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہی تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ۔۔ : اس سورت میں آیت (١٦) (وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا ) سے دلائلِ توحید کا بیان چلا آ رہا ہے، جب اوپر کی آیات میں مختلف چیزوں کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر کیا تو اب انسان کے پیدا کیے جانے کو بطور دلیل ذکر کیا جا رہا ہے، الغرض یہ دلائلِ توحید میں ساتویں قسم ہے۔ (کبیر)- مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ : عربی زبان میں خشک مٹی کو ” تُرَابٌ“ کہتے ہیں، جب اسے بھگو دیا جائے تو وہ ” طِیْنٌ“ کہلاتی ہے، پھر جب مدت تک پڑی رہنے سے وہ سیاہ ہوجائے تو اسے ” حَمَاٍ “ کہتے ہیں، بدبو بھی آنے لگے تو ” حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ “ (بدبو دار کیچڑ) کہتے ہیں، پھر جب وہ خشک ہو کر کھن کھن بجنے لگے تو وہ ” صَلْصَالٍ “ کہلاتی ہے۔ ” مَّسْنُوْنٍ “ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس کی تصویر بنائی گئی ہو، جیسا کہ ” سُنَّۃُ الْوَجْہِ “ کا معنی ” صُوْرَۃُ الْوَجْہِ “ آتا ہے اور ” مَّسْنُوْنٍ “ کا معنی ملائم و نرم بھی ہے۔ آیات و تفاسیر سے آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پوری زمین سے خشک مٹی لی، جیسا کہ سورة آل عمران (٥٩) میں آدم (علیہ السلام) کو ” تُرَاب “ سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَھَا مِنْ جَمِیْعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْھُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّھْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ ) [ أبوداوٗد، السنۃ، باب في القدر : ٤٦٩٣۔ ترمذی : ٢٩٥٥۔ أحمد : ٤؍٤٠٠، ح : ١٩٦٠١، و صححہ الألباني ]” اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی سے پیدا فرمایا، جو اس نے ساری زمین سے لی، تو بنی آدم اس زمین کے اندازے کے مطابق وجود میں آئے، ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور اس کے مابین لوگ ہیں اور نرم، سخت خبیث، طیب اور اس کے مابین بھی ہیں۔ “ پھر اس میں پانی ڈالا تو وہ ” طِیْنٌ“ ہوگئی، پھر اسے مدتوں پڑا رہنے دیا، جب وہ کالی سیاہ اور ملائم و نرم ہوگئی تو آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ اور شکل و صورت بنائی، فرمایا : (وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ) [ الأعراف : ١١ ] جب وہ سوکھ کر کھن کھن بجنے لگا تو اس میں اپنی خاص پیدا کردہ روح پھونکی، جیسا کہ اس جگہ ” صَلْصَالٍ “ کا ذکر ہے اور اس کے خوب خشک ہونے کا ذکر سورة رحمن (١٤) میں ہے، فرمایا : (مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ) کہ وہ کھنکھنانے والی مٹی آگ میں پکی ہوئی مٹی کی طرح کھنکھنانے والی تھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور ہم نے انسان کو (یعنی اس نوع کی اصل اول آدم (علیہ السلام) کو) بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی ہوئی تھی پیدا کیا (یعنی اول گاڑے کو خوب خمیر کیا کہ اس میں بو آنے لگی پھر وہ خشک ہوگیا کہ وہ خشک ہونے سے کھن کھن بولنے لگا جیسا مٹی کے برتن چٹکی مارنے سے بجا کرتے ہیں پھر اس خشک گارے سے آدم کا پتلا بنایا جو بڑی قدرت کی علامت ہے) اور جن کو (یعنی اس نوع کی اصل ابو الجان کو) اس کے قبل (یعنی آدم (علیہ السلام) کے قبل) آگ سے کہ وہ (غایت لطافت کی وجہ سے) ایک گرم ہوا تھی پیدا کرچکے تھے مطلب یہ کہ چونکہ اس آگ میں اجزائے دخانیہ نہ تھے اس لئے وہ مثل ہوا کے نظر نہ آتی تھی کیونکہ آگ کا نظر آنا اجزائے کثیفہ کے اختلاط سے ہوتا ہے اس کو دوسری آیت میں اس طرح فرمایا ہے وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) اور وہ وقت یاد کرنے قابل ہے جب آپ کے رب نے ملائکہ سے (ارشاد) فرمایا کہ میں ایک بشر کو (یعنی اس کے پتلے کو) بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی ہوگی پیدا کرنے والا ہوں سو میں جب اس کو (یعنی اس کے اعضائے جسمانیہ کو) پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی (طرف سے) جان ڈال دوں تو تم سب اس کے روبرو سجدہ میں گر پڑنا سو (جب اللہ تعالیٰ نے اس کو بنا لیا تو) سارے کے سارے فرشتوں نے (آدم (علیہ السلام) کو) سجدہ کیا مگر ابلیس نے کہ اس نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ شامل کرنے ہو (یعنی سجدہ نہ کیا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس تجھ کو کون سا امر باعث ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا کہنے لگا کہ میں ایسا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں جس کو آپ نے بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی ہے پیدا کیا ہے (یعنی ایسے حقیر و ذلیل مادہ سے بنایا گیا ہے کیونکہ میں نورانی مادہ آتش سے پیدا ہوا ہوں تو نورانی ہو کر ظلمانی کو کیسے سجدہ کروں) ارشاد ہوا تو (اچھا پھر) آسمان سے نکل کیونکہ بیشک تو (اس حرکت سے) مردود ہوگیا اور بیشک تجھ پر میری) لعنت قیامت تک رہے گی (جیسا دوسری آیت میں ہے عَلَيْكَ اللَّعْنَتِی یعنی قیامت تک جو محل رحمت نہ ہو تو پھر قیامت میں تو مرحوم ہونے کا احتمال ہی نہیں پس جس وقت تک احتمال تھا اس کی نفی کردی اور اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اس میں تو مہلت مانگنے سے پہلے ہی مہلت دینے کا وعدہ ہوگیا بات یہ ہے کہ مقصود قیامت تک عمر دینا نہیں ہے کہ یہ شبہ ہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ حیات دنیویہ میں تو ملعون ہے گو وہ قیامت تک ممتد کیوں نہ ہو) کہنے لگا (کہ اگر مجھ کو آدم کی وجہ سے مردود کیا ہے) تو پھر مجھ کو (مرنے سے) مہلت دیجئے قیامت کے دن تک (تاکہ ان سے اور ان کی اولاد سے خوب بدلہ لوں) ارشاد ہوا (جب تو مہلت مانگتا ہے) تو (جا) تجھ کو معین وقت کی تاریخ تک مہلت دی گئی کہنے لگا اے میرے رب بسبب اس کے کہ آپ کے ان بندوں کے جو ان میں منتخب کئے گئے ہیں (یعنی آپ نے ان کو میرے اثر سے محفوظ رکھا ہے) ارشاد ہوا کہ (ہاں) یہ (منتخب ہوجانا جس کا طریقہ اعمال صالحہ و اطاعت کاملہ ہے) ایک سیدھا راستہ ہے جو مجھ تک پہنچتا ہے (یعنی اس پر چل کر ہمارے مقرب ہوجاتا ہے) واقعی میرے ان (مذکور) بندوں پر تیرا ذرا بھی بس نہ چلے گا ہاں مگر جو گمراہ لوگوں میں تیری راہ پر چلنے لگے (تو چلے) اور (جو لوگ تیری راہ پر چلیں گے) ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے جس کے سات دروازے ہیں ہر دروازہ (میں سے جانے) کیلئے ان لوگوں کے الگ الگ حصے ہیں (کہ کوئی کسی دروازے سے جائے گا کوئی کسی دروازے سے)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 26؀ۚ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - صلل - أصل الصَّلْصَالِ : تردُّدُ الصّوتِ من الشیء الیابس، ومنه قيل : صَلَّ المسمارُ «3» ، وسمّي الطّين الجافّ صَلْصَالًا . قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] ، مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] ، والصُّلْصَلَةُ : بقيّةُ ماءٍ ، سمّيت بذلک لحکاية صوت تحرّكه في المزادة، وقیل : الصَّلْصَالُ : المنتن من الطین، من قولهم : صَلَّ اللحمُ ، قال : وکان أصله صَلَّالٌ ، فقلبت إحدی الّلامین، وقرئ : (أئذا صَلَلْنَا) «1» أي : أنتنّا وتغيّرنا، من قولهم : صَلَّ اللّحمُ وأَصَلَّ.- ( ص ل ل )- اصل میں صلصان کے معنی کسی خشک چیز سے آواز آنا کے ہیں اسی سے صل المسار کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی میخ کو کسی چیز میں ٹھونکنے سے آواز پیدا ہونا کے ہیں اور ( گھنگنے والی ) خشک مٹی کو بھی صلصال کہاجاتا ہے قرآن میں ہے : مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی مٹی سے مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] کھنکنے والی خشک مٹی یعنی سنے ہوئے گارے سے ۔ اور صلصلۃ کے معنی باقی ماندہ پانی کے میں کیونکہ مشکیزہ میں باقی ماندہ پانی کے ہلنے سے کھنکناہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے بعض نے کہا ہے کہ صلصان کے معنی سڑی ہوئی مٹی کے ہیں اور یہ صل اللحم سے مشتق ہے جس کے معنی گوشت کے بدبودار ہوجانے کے ہیں صلصان اصل میں صلال ہے ایک لام کو صاد سے بدل دیا گیا ہے اور آیت کریمہ :(أئذا صَلَلْنَا) کیا جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے ۔ میں ایک قرات صللنا بھی ہے یعنی جب ہم گل سٹر گئے اور یہ صل اللحم واصل کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ - حماء - ۔ گارا۔ کیچڑ۔ الحمی سے حماء مادہ۔ الحمأ سیاہ بدبودار مٹی۔ احما تھا۔ میں نے اسے کیچڑ سے بھر دیا۔ اور جگہ قرآن میں ہے عین حمئۃ۔ سیاہ بدبودار۔ کیچڑ والا چشمہ۔- مسنون - وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ- [ البقرة 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» .- سنن - اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦۔ ٢٧) اور ہم نے آدم (علیہ السلام) کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی تھی پیدا کیا اور ابو الجن کو آدم (علیہ السلام) سے پہلے ایسی آگ سے جس میں دھواں نہیں تھا پیدا کرچکے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ )- حَمَاٍ مَسْنُون سے سنا ہوا گارا مراد ہے ‘ جس سے بدبو بھی اٹھ رہی ہو۔ اس رکوع میں یہ ثقیل اصطلاح تین مرتبہ استعمال ہوئی ہے۔ انسان کے مادۂ تخلیق کے حوالے سے قرآن میں جو مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘ ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر تراب یعنی مٹی کا ذکر ہے ‘ چناچہ فرمایا : (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ) ( الروم : 20) ۔ مٹی میں پانی مل کر گارا بن جائے تو اس گارے کو عربی میں ” طِین “ کہتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی تخلیق کے سلسلے میں طین کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورة الاعراف میں ہم شیطان کا یہ قول پڑھ آئے ہیں : (خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ ) مجھے تو نے بنایا آگ سے اور اس (آدم) کو بنایا مٹی سے “۔ طین کے بعد ” طین لازب “ کا مرحلہ ہے۔ سورة الصّٰفٰت میں فرمایا گیا : (اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ) ” طین لازب “ اصل میں وہ گارا ہے جو عمل تخمیر ( ) کی وجہ سے لیس دار ہوچکا ہو۔ عام طور پر گارے میں کوئی بھوسہ وغیرہ ملانے سے اس کی یہ شکل بنتی ہے۔ ” طین لازب “ کے بعد اگلا مرحلہ ” حماٍ مسنون “ کا ہے۔ اگر لیس دار گارا زیادہ دیر تک پڑا رہے اور اس میں سٹراند پیدا ہوجائے تو اس کو ” حماٍ مسنون “ کہا جاتا ہے۔ پھر اگر یہ سنا ہو اگارا (حماٍ مسنون) خشک ہو کر سخت ہوجائے تو یہ کھنکنے لگتا ہے۔ آپ نے کسی دریا کے ساحل کے قریب یا کسی دلدلی علاقے میں دیکھا ہوگا کہ زمین کے اوپر خشک پپڑی سی آجاتی ہے ‘ جس پر چلنے سے یہ آواز پیدا کر کے ٹوٹتی ہے۔ ایسی مٹی کے لیے قرآن نے ” صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ “ (الرحمن : ١٤) کی اصطلاح استعمال کی ہے ‘ یعنی ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی۔- انسان کے مادہ تخلیق کے لیے مندرجہ بالا تمام الفاظ میں سے صرف ایک بنیادی لفظ ہی کفایت کرسکتا تھا کہ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا ‘ لیکن اس ضمن میں ان مختلف الفاظ (تُرَاب ‘ طِین ‘ طِین لازب ‘ صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون اور صلصالٍ کالفَخَّار) کے استعمال میں یقیناً کوئی حکمت کارفرما ہوگی۔ ممکن ہے یہ تخلیق کے مختلف مراحل ( ) کا ذکر ہو اور اگر ایسا ہے تو نظریہ ارتقاء ( ) کے ساتھ بھی اس کی تطبیق ( ) ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ انسان کی تخلیق اگر خصوصی طور پر بھی عمل میں آئی ہو تو ہوسکتا ہے کہ باقی حیوانات ارتقائی انداز میں پیدا کیے گئے ہوں۔ بہرحال زمین کی حیوانی حیات کے بارے میں سائنس بھی قرآن سے متفق ہے کہ یہ تمام مخلوق مٹی اور پانی سے بنی ہے۔ ادھر قرآن فرماتا ہے کہ مبدأ حیات پانی ہے اور اس سلسلے میں سائنس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ساحلی علاقوں میں مٹی اور پانی کے اتصال سے دلدل بنی ‘ پھر اس دلدل کے اندر عمل تخمیر ( ) کے ذریعے سڑاند پیدا ہوئی تو وہاں ایلجی ( ) یا امیبا ( ) کی صورت میں نباتاتی یا حیوانی حیات کا آغاز ہوا۔ چناچہ سائنسی تحقیق یہاں قرآن سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے ‘ گویا : ” متفق گر دید رائے بو علی بارائے من “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :17 یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا ہے ، جیسا کہ نئے دور کے ڈارونییت سے متاثر مفسرین قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتداء براہ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأِ ٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔ حَمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہو چکی ہو ، یا بالفاظ دیگر خمیر اٹھ آیا ہو ۔ مسنون کے دو معنی ہیں ۔ ایک معنی ہیں متغیر ، منتن اور املس ، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہو گئی ہو ۔ دوسرے معنی میں مصوَّر اور مصبوب ، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو ۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہو جانے کے بعد بجنے لگے ۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہے جس کا مفصل واقعہ سورۃ بقرہ (30، 34) میں گذر چکا ہے اور وہاں فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے سے متعلق ضروری نکات بھی بیان ہوچکے ہیں