Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 جِنّ کو جن اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ سورة رحمٰن میں جنات کی تخلیق ( مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) 55 ۔ الرحمن :15) سے بتلائی گئی ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ کہا گیا اس اعتبار سے لو والی آگ یا آگ کے شعلے کا ایک ہی مطلب ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨ ١] جنوں کی پیدائش آگ سے ہوئی :۔ جنوں کو ایسی آگ سے پیدا کیا گیا جس میں ہوا ملی ہوئی تھی۔ سموم بمعنی سخت گرم ہوا۔ یعنی اتنی گرم ہوا سے جو آگ جیسی گرم ہو اور ہر چیز کو جھلس کر رکھ دے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جنوں کی پیدائش میں غالب عنصر آگ تھا۔ ابلیس اصل میں جنوں کی جنس سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر اپنی ہمہ وقت عبادت گزاری کی وجہ سے فرشتوں کی صفوں میں شامل ہوگیا تھا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة بقرہ کا حاشیہ نمبر ٥٣)- جانّ اور جن کا لغوی مفہوم اور مراد :۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جس طرح آدمیوں یا انسانوں کے جد امجد کا نام آدم (علیہ السلام) ہے۔ اسی طرح جنوں کے جد امجد جانّ ہے۔ اور جن کا لغوی معنی کسی چیز کو ڈھانپ کر چھپا دینا ہے کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اور جنوں کو بھی جن اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے لیے غیر مرئی مخلوق ہے جو انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ جن اپنی شکل و صورت بدل سکتے ہیں کبھی یہ دیو، بھوت پریوں کی شکل میں انسانوں کے سامنے نمودار ہوتے ہیں اور کبھی سانپ کی شکل میں۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر تم گھروں میں سانپ دیکھو تو مارنے سے پہلے اسے کہہ لو کہ اگر وہ جن ہے تو چلا جائے۔ قرآن میں بھی جان کا لفظ سانپ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (٢٧ : ١٠) اور جان صرف ایسے سانپ کو کہتے ہیں جو عصا کی طرح لمبا اور پتلا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ : یہاں ” وَالْجَاۗنَّ “ سے مراد اکثر مفسرین نے جنوں کا باپ لیا ہے، بعض جنوں کی جنس مراد لیتے ہیں، بعض نے ابلیس مراد لیا ہے۔ اسے ” وَالْجَاۗنَّ “ یا جن (جَنَّ یَجُنُّ ، بمعنی ڈھانپنا، چھپانا) انسان کی آنکھوں سے چھپنے کی وجہ سے کہتے ہیں، جیسا کہ جنین اور جنون وغیرہ سب میں ڈھانپنے کا مفہوم شامل ہے۔ جنوں کے بارے میں فرمایا : (اِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ) [ الأعراف : ٢٧ ] ” بیشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھتے۔ “ - مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّار السَّمُوْمِ : ” السَّمُوْمِ “ دراصل سخت گرم ہوا (لوُ ) کو کہتے ہیں، ایک تو اس کے زہریلے ہونے کی و جہ سے (مِنَ السُّمِّ ) اور ایک اس لیے کہ وہ جسم کے مسامات کے اندر پہنچ جاتی ہے (مِنَ الْمَسَامِ ) ۔ مراد خالص آگ جو دھوئیں سے خالی اور اپنی تیزی کی و جہ سے لو کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ 27؀- كثر عشبها حتی صارت كأنها مجنونة، وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ- [ الحجر 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] ، قيل :- ضرب من الحيّات .- اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأ نَّها جَانٌّ [ النمل 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - سمم - السَّمُّ والسُّمُّ : كلّ ثقب ضيّق کخرق الإبرة، وثقب الأنف، والأذن، وجمعه سُمُومٌ. قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] ، وقد سَمَّهُ ، أي : دخل فيه، ومنه : السَّامَّةُ «3» للخاصّة الذین يقال لهم :- الدّخلل «4» ، الذین يتداخلون في بواطن الأمر، والسّمّ القاتل، وهو مصدر في معنی الفاعل، فإنه بلطف تأثيره يدخل بواطن البدن، والسَّمُومُ : الرّيح الحارّة التي تؤثّر تأثير السّمّ. قال تعالی: وَوَقانا عذاب السَّمُومِ [ الطور 27] ، وقال : فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ [ الواقعة 42] ، وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] .- ( س م م ) السم - ( بفتحہ سین وضمہ آں ) کے معنی تنگ سوارخ کے ہیں جیسے سوئی کا ناکہ یا ناک اور کان کا سوراخ ہوتا ہے ۔ اس کی جمع سموم آتی ہے قرآن میں ہے ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] یاہں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ نکل جائے ۔ اور سمہ ( ن ) کے معنی کسی چیز میں گھس جانا کے ہیں ۔ اور اسی سے السامۃ ہے یعنی وہ خاص لوگ جو ہر معاملہ میں گھس کر اس کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور انہیں دخل بھی کہا جاتا ہے ۔- السم - ۔ زہر قاتل کو کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے لطف تاثیر سے بدن کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور یہ اصل میں مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- السموم - ( لو ) گرم ہوا جو زہر کی طرح بدن کے اندر سرایت کی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔- وَوَقانا عذاب السَّمُومِ [ الطور 27] اور ہمیں لو کے عذاب سے بچالیا ۔ فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ [ الواقعة 42]( یعنی دوزخ کی ) لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں ۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] اور جنوں کو اس سے بھی پہلے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّار السَّمُوْمِ )- یہ لفظ ” سموم “ اردو میں بھی معروف ہے۔ موسم گرما میں صحرا میں چلنے والی تیز گرم ہوا کو باد سموم کہتے ہیں۔ آگ کے شعلے کا وہ حصہ جو بظاہر نظر آتا ہے اس کے گرد ہالے کی شکل میں اس کا وہ حصہ ہوتا ہے جو عام طور پر نظر نہیں آتا۔ شعلے کے اس نظر نہ آنے والے حصے کا درجہ حرارت نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں ” نار سموم “ سے مراد آگ کی وہی لپٹ یا لو مراد ہے جو شدید گرم ہوتی ہے اور اسی سے جنات کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ جنات کو اگرچہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے مگر وہ آگ نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے مگر ہم مٹی نہیں ہیں۔ دوسری اہم بات یہاں یہ واضح ہوئی کہّ جناتِ کو انسانوں سے بہت پہلے پیدا کیا گیا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :18 سموم گرم ہوا کو کہتے ہیں ، اور نار کو سموم کی طرف نسبت دینے کی صورت میں اس کے معنی آگ کے بجائے تیز حرارت کے ہوجاتے ہیں ۔ اس سے ان مقامات کی تشریح ہو جاتی ہے جہاں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن آگ سے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، الرحمٰن ، حواشی ۱٤ تا ۱٦ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: جس طرح انسان کے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اسی طرح جنات میں سب سے پہلے جس جن کو پیدا کیا گیا اس کا نام جان تھا اور اسے آگ سے پیدا کیا گیا