ابلیس لعین کا انکار اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کی پیدائش کا ذکر اس نے فرشتوں میں کیا اور پیدائش کے بعد سجدہ کرایا ۔ اس حکم کو سب نے تو مان لیا لیکن ابلیس لعین نے انکار کر دیا اور کفر و حسد انکار و تکبر فخر و غرور کیا ۔ صاف کہا کہ میں آگ کا بنایا ہوا یہ خاک کا بنایا ہوا ۔ میں اس سے بہتر ہوں اس کے سامنے کیوں جھکوں ؟ تو نے اسے مجھ پر بزرگی دی لیکن میں انہیں گمراہ کر کے چھوڑوں گا ۔ ابن جریر نے یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے ۔ کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا ان سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ، تم اسے سجدہ کرنا انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے سنا اور تسلیم کیا ۔ مگر ابلیس جو پہلے کے منکروں میں سے تھا ۔ اپنے پر جما رہا ، لیکن اس کا ثبوت ان سے نہیں ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے واللہ اعلم ۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌ۔۔ : اولاً انسان کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر فرمایا، اب اس کے بعد اس کا قصہ ذکر فرمایا۔ (رازی) ” وَاِذْ قَالَ “ سے پہلے ” اُذْکُرْ “ مقدر مانتے ہیں کہ اے مخاطب عاقل وہ وقت یاد کر جب۔۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔
(٢٨) اور وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے کہا جو کہ زمین پر تھے اور تقریبا وہ دس ہزار تھے کہ میں ایک بشر کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گاڑے کی بنی ہوگی پیدا کرنے والا ہوں۔
آیت ٢٨ (وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ )- یہاں پھر وہی ثقیل اصطلاح (صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) استعمال ہوئی ہے۔ انسانی تخلیق کی ابتدا کے بارے میں ایک نکتہ یہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ قرآن میں جہاں بھی تخلیق کے ان ابتدائی مراحل کا ذکر آیا ہے ‘ وہاں لفظ آدم استعمال نہیں ہوا ‘ بلکہ بشر اور انسان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پورے قرآن میں صرف سورة آل عمران کی آیت ٥٩ ایسی ہے جہاں اس ابتدائی تخلیق کے ضمن میں آدم کا ذکر اس طرح آیا ہے : (اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) ” یقیناً عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔ اس کو مٹی سے بنایا پھر کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ “