ابلیس کے سیاہ کارنامے ابلیس کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اللہ کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر کہا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے کہا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں بھی اولاد آدم کے لئے زمین میں تیری نافرمانیوں کو خوب زینت دار کر کے دکھاؤں گا ۔ اور انہیں رغبت دلا دلا کر نافرمانیوں میں مبتلا کروں گا ، جہاں تک ہو سکے گا کوشش کروں گا کہ سب کو ہی بہکا دوں ۔ لیکن ہاں تیرے خالص بندے میرے ہاتھ نہیں آ سکتے ۔ ایک اور آیت میں بھی ہے کہ گو تو نے اسے مجھ پر برتری دی ہے لیکن اب میں بھی اس کی اولاد کے پیچھے پڑ جاؤں گا ، چاہے کچھ تھوڑے سے چھوٹ جائیں باقی سب کو ہی لے ڈوبوں گا ۔ اس پر جواب ملا کہ تم سب کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے ۔ اعمال کا بدلہ میں ضرور دوں گا نیک کو نیک بد کو بد جیسے فرمان ہے کہ تیرا رب تاک میں ہے ۔ غرض لوٹنا اور اور لوٹنے کا راستہ اللہ ہی کی طرف ہے ۔ علیٰ کی ایک قرأت علیٰ بھی ہے ۔ جسے آیت ( وَاِنَّهٗ فِيْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ Ćۭ ) 43- الزخرف:4 ) میں ہے یعنی بلند لیکن پہلی قرأت مشہور ہے ۔ جن بندوں کو میں نے ہدایت پر لگا دیا ہے ان پر تیرا کوئی زور نہیں ہاں تیرا زور تیرے تابعداروں پر ہے ۔ یہ استثناء منقطع ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ بستیوں سے باہر نبیوں کی مسجدیں ہوتی تھیں ۔ جب وہ اپنے رب سے کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے تو وہاں جا کر جو نماز مقدر میں ہوتی ادا کر کے سوال کرتے ۔ ایک دن ایک نبی کے اور اس کے قبلہ کے درمیان شیطان بیٹھ گیا ۔ اس نبی نے تین بار کہا آیت ( اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ) ۔ شیطان نے کہا اے اللہ کے نبی آخر آپ میرے داؤ سے کیسے بچ جاتے ہیں ؟ نبی نے کہا تو بتا کہ تو بنی آدم پر کس داؤ سے غالب آ جاتا ہے ؟ آخر معاہدہ ہوا کہ ہر ایک صحیح چیز دوسرے کو بتا دے تو نبی اللہ نے کہا سن اللہ کا فرمان ہے کہ میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں ۔ صرف ان پر جو خود گمراہ ہوں اور تیری ماتحتی کریں ۔ اس اللہ کے دشمن نے کہا یہ آپ نے کیا فرمایا اسے تو میں آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے جانا ہوں ، نبی نے کہا اور سن اللہ کا فرمان ہے کہ جب شیطانی حرکت ہو تو اللہ سے پناہ طلب کر ، وہ سننے جاننے والا ہے ۔ واللہ تیری آہٹ پاتے ہی میں اللہ سے پناہ چاہ لیتا ہوں ۔ اس نے کہا سچ ہے اسی سے آپ میرے پھندے میں نہیں پھنستے ۔ نبی اللہ علیہ السلام نے فرمایا اب تو بتا کہ تو ابن آدم پر کسے غالب آ جاتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں اسے غصے اور خواہش کے وقت دبوچ لیتا ہوں ۔ پھر فرماتا ہے کہ جو کوئی بھی ابلیس کی پیروی کرے ، وہ جہنمی ہے ۔ یہی فرمان قرآن سے کفر کرنے والوں کی نسبت ہے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ جہنم کے کئی ایک دروازے ہیں ہر دروازے سے جانے والا ابلیسی گروہ مقرر ہے ۔ اپنے اپنے اعمال کے مطابق ان کے لئے دروازے تقسیم شدہ ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا جہنم کے دروازے اس طرح ہیں یعنی ایک پر ایک ۔ اور وہ سات ہیں ایک کے بعد ایک کر کے ساتوں دروازے پر ہو جائیں گے ۔ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سات طبقے ہیں ۔ ابن جریر سات دروازوں کے یہ نام بتلاتے ہیں ۔ جہنم ۔ نطی ۔ حطمہ ۔ سعیر ۔ سقر ۔ حجیم ۔ ھاویہ ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ باعتبار اعمال ان کی منزلیں ہیں ۔ ضحاک کہتے ہیں مثلا ایک دروازہ یہود کا ، ایک نصاری کا ، ایک صابیوں کا ، ایک مجوسیوں کا ، ایک مشرکوں کافروں کا ، ایک منافقوں کا ، ایک اہل توحید کا ، لیکن توحید والوں کو چھٹکارے کی امید ہے باقی سب نامید ہو گئے ہیں ۔ ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بعض دوزخیوں کے ٹخنوں تک آگ ہو گی ، بعض کی کمر تک ، بعض کی گردنوں تک ، غرض گناہوں کی مقدار کے حساب سے ۔
[٢٠۔ الف ] ابلیس نے اپنی گمراہی کا الزام اللہ کے ذمہ لگا دیا اور اس کی جو وجہ بتلائی وہ سورة اعراف کی آیت نمبر ١٦ کے حاشیہ نمبر ١٤ میں ملاحظہ فرمایئے۔- [ ٢١] ابلیس کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریقے :۔ ابلیس نے کہا میں دنیا کی زندگی، اس کی لذتوں اور اس کے عارضی فوائد کو انسانوں کے لیے ایسا خوشنما بنا کر پیش کروں گا کہ وہ اس دنیا کی دلچسپیوں میں ایسے محو رہیں گے کہ خلافت اور اس کی ذمہ داریوں اور آخرت کی باز پرس کو بالکل بھول جائیں گے اور تجھے بھی یا تو بالکل فراموش کردیں گے یا تجھے یاد رکھنے کے باوجود تیری نافرمانیاں کرتے رہیں گے اور دوسروں کو تیری خدائی میں شریک بناتے رہیں گے اور میرے اس پھندے سے صرف وہی لوگ بچ سکیں گے جو اپنے ایمان میں مضبوط، مستقل مزاج اور ثابت قدم رہنے والے ہوں گے۔
لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمْ : میں ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا، کیا چیز، آیت کے سیاق وسباق سے عبارت یہ بنتی ہے کہ میں ان کے لیے زمین میں بھی خواہش نفس اور اللہ کی نافرمانی کو مزین اور خوش نما بنا کر پیش کروں گا، جیسا کہ آسمان میں ان کو ممنوعہ پودے کا کھانا خوش نما بنا کر پیش کیا اور گمراہ کردیا تھا، فرمایا : (وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى) [ طہٰ : ١٢١ ] دوسرا معنی یہ ہے کہ میں انھیں تمام زینت زمین ہی میں دکھاؤں گا کہ جو کچھ ہے یہیں ہے، تاکہ وہ نہ آخرت کی طرف توجہ کریں اور نہ اس کا یقین کریں، سو اس طرح میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا، جیسا کہ فرمایا : ( وَلٰكِنَّهٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ ) [ الأعراف : ١٧٦ ] ” اور لیکن وہ زمین ہی کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا، سو اس کی مثال کتے کی سی ہے۔ “
قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ 39ۙ- غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى- [ النجم 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی «1» .- وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال :- وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر :- 346-- ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما - «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم :- غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی:- قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر 39] .- ( غ و ی ) الغی - ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو فلط اعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمعراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ رغاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں گے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا لوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) لے راہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے کیونکہ انسان کا سب سے بڑا فرض ی ہے کہ وہ اپنے دوست کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہم انہیں اپنی طرف سے فائدہ پہنچایا اور انہیں اپنے جیسا سمجھا تھا اور یہی معنی آیت ؛ فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ہم نے تم کو بھی گمراہ کیا ( اور ) ہم نے خود بھی گمراہ تھے ۔ کے ہیں ۔ فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] جیسا کہ تم نے مجھے رستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لئے ( گناہوں کو ) آراستہ کر دکھاؤں گا اور ان ۔ کو بہکاؤں گا ۔ - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں
(٣٩۔ ٤٠) کہنے لگا میرے رب آپ نے مجھ کو بحکم تکوین ہدایت سے گمراہ کیا ہے تو میں دنیا میں آدم (علیہ السلام) کی اولاد کے سامنے لذات وشہوات کو آراستہ کرکے لاؤں گا اور ان سب کو ہدایت سے گمراہ کروں گا سوائے آپ کے ان بندوں کے جن کو آپ نے میرے اثر سے محفوظ رکھا ہے یا سوائے موحدین کے۔
آیت ٣٩ (قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ )- یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ابلیس اپنی اس گمراہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رہا ہے۔- (لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ )- کہ میں اولاد آدم کے لیے زمین میں دنیا کی رونقوں اور اس کی آرائش و زیبائش کو اس حد تک پرکشش بنا دوں گا کہ وہ اس میں گم ہو کر آپ کو اور آپ کے احکام کو بھول جائیں گے۔ اس طرح میں ان سب کو آپ کے سیدھے راستے سے گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :22 یعنی جس طرح تو نے اس حقیر اور کم تر مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر مجھے مجبور کر دیا کہ تیرا حکم نہ مانوں ، اسی طرح اب میں ان انسانوں کے لیے دنیا کو ایسا دلفریب بنا دوں گا کہ یہ سب اس سے دھوکا کھا کر تیرے نافرمان بن جائیں گے ۔ بالفاظ دیگر ابلیس کا مطلب یہ تھا کہ میں زمین کی زندگی اور اس کی لذتوں اور اس کے عارضی فوائد و منافع کو انسان کے لیے ایسا خوشنما بنا دوں گا کہ وہ خلافت اور اس کی ذمہ داریوں اور آخرت کی باز پرس کو بھول جائیں گے اور خود تجھے بھی یا تو فراموش کر دیں گے ، یا تجھے یاد رکھنے کے باوجود تیرے احکام کی خلاف ورزیاں کریں گے ۔
15: یعنی ایسی دلکشی پیدا کروں گا جو انہیں تیری نافرمانی پر آمادہ کرے گی۔