Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فرشتے بصورت انسان لفظ ضعیف واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے زور اور سفر ۔ یہ فرشتے تھے جو بصورت انسان سلام کر کے حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے پاس آئے تھے ۔ آپ نے بچھڑا کاٹ کر اس کا گوشت بھون کر ان مہمانوں کے سامنے لا رکھا ۔ جب دیکھا کہ وہ ہاتھ نہیں ڈالتے تو ڈر گئے اور کہا کہ ہمیں تو آپ سے ڈر لگنے لگا ۔ فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں ، پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت سنائی ۔ جیسے کہ سورہ ھود میں ہے ۔ تو آپ نے اپنے اور اپنی بیوی صاحبہ کے بڑھاپے کو سامنے رکھ کر اپنا تعجب دور کرنے اور وعدے کو ثابت کرنے کے لئے پوچھا کہ کیا اس حالت میں ہمارے ہاں بچہ ہو گا ؟ فرشتوں نے دوبارہ زور دار الفاظ میں وعدے کو دہرایا اور ناامیدی سے دور رہنے کی تعلیم کی ۔ تو آپ نے اپنے عقیدے کا اظہار کر دیا کہ میں مایوس نہیں ہوں ۔ ایمان رکھتا ہوں کہ میرا رب اس سے بھی بڑی باتوں پر قدرت کاملہ رکھتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨] سیدنا ابراہیم کے مہمان فرشتے :۔ یہ مہمان فرشتے تھے جو اصل میں تو لوط (علیہ السلام) کی قوم کی طرف بھیجے جارہے تھے کہ ان کی بستی کو تباہ کر ڈالیں۔ پہلے وہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف آئے اور انھیں مہمان اس لیے کہا گیا کہ وہ اجنبی صورت میں آئے تھے وہ انھیں ایک بیٹے یعنی سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت دینے آئے تھے۔ یہ واقعہ پہلے سورة ہود کی آیت نمبر ٦٩ تا ٧٤ میں بھی گزر چکا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ” ضَيْفِ “ یہ ” ضَافَ یَضِیْفُ “ کا مصدر ہے، جو مائل ہونے کے معنی میں آتا ہے، مہمان چونکہ کسی کی طرف مائل ہو کر ہی آتا ہے، اس لیے اسے ” ضَیْفٌ“ کہتے ہیں، یہ واحد، تثنیہ اور جمع سبھی کے لیے ” ضَیْفٌ“ واحد ہی آتا ہے، جیسا کہ اس آیت میں جمع کے لیے آیا ہے بعض لوگ اس کی جمع ” اَضْیَافٌ“ یا ” ضُیُوْفٌ“ بھی استعمال کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان (لوگوں) کو ابراہم (علیہ السلام) کے مہمانوں (کے قصہ) کی بھی اطلاع دیجئے (وہ قصہ اس وقت واقع ہوا تھا) جب کہ وہ (مہمان جو کہ واقع میں فرشتے تھے اور بشکل انسانی ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو مہمان سمجھا) ان کے (یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے) پاس آئے پھر (آ کر) انہوں نے السلام علیکم کہا (ابراہیم (علیہ السلام) ان کو مہمان سمجھ کر فورا ان کے لئے کھانا تیار کر کے لائے مگر چونکہ وہ فرشتے تھے انہوں نے کھایا نہیں تب) ابراہیم (علیہ السلام دل میں ڈرے کہ یہ لوگ کھانا کیوں نہیں کھاتے کیونکہ وہ فرشتے بشکل بشر تھے ان کو بشر ہی سمجھا اور کھانا نہ کھانے سے شبہ ہوا کہ یہ لوگ کہیں مخالف نہ ہوں اور) کہنے لگے کہ ہم تو تم سے خائف ہیں انہوں نے کہا کہ آپ خائف نہ ہوں کیونکہ ہم (فرشتے ہیں منجانب اللہ ایک بشارت لے کر آئے ہیں اور) آپ کو ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں جو بڑا عالم ہوگا (مطلب یہ کہ نبی ہوگا کیونکہ آدمیوں میں سب سے زیادہ علم انبیاء (علیہم السلام) کو ہوتا ہے مراد اس فرزند سے اسحاق (علیہ السلام) ہیں اور دوسری آیتوں میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے ساتھ یعقوب (علیہ السلام) کی بشارت بھی مذکور ہے) ابراہیم (علیہ السلام) کہنے لگے کہ کیا تم مجھ کو اس حالت میں (فرزند کی) بشارت دیتے ہو کہ مجھ پر بوڑھاپا آ گیا سو (ایسی حالت میں مجھ کو) کس چیز کی بشارت دیتے ہو (مطلب یہ کہ یہ امر فی نفسہ عجیب ہے نہ یہ کہ قدرت سے بعید ہے) وہ (فرشتے) بولے کہ ہم آپ کو امر واقعی کی بشارت دیتے ہیں (یعنی تولد فرزند یقینا ہونے والا ہے) سو آپ ناامید نہ ہوں (یعنی اپنے بڑھاپے پر نظر نہ کیجئے کہ ایسے اسباب عادیہ پر نظر کرنے سے وساوس ناامیدی کے غالب ہوتے ہیں) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بھلا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے بجز گمراہ لوگوں کے (یعنی میں نبی ہو کر گمراہوں کی صفت سے کب موصوف ہوسکتا ہوں محض مقصود اس امر کا عجیب ہونا ہے باقی اللہ کا وعدہ سچا اور مجھ کو امید سے بڑھ کر اس کا کامل یقین ہے بعد اس کے فراست نبوت سے آپ کو معلوم ہوا کہ ان ملائکہ کے آنے سے علاوہ بشارت کے اور بھی کوئی مہم عظیم مقصود ہے اس لئے) فرمانے لگے کہ (جب قرائن سے مجھ کو یہ معلوم ہوگیا کہ تمہارے آنے کا کچھ اور بھی مقصود ہے) تو (یہ بتلاؤ کہ) اب تم کو کیا مہم در پیش ہے اے فرشتو فرشتوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف (ان کو سزا دینے کے لئے) بھیجے گئے ہیں (مراد قوم لوط ہے) مگر لوط (علیہ السلام) کا خاندان کہ ہم ان سب کو (عذاب سے) بچا لیں گے (یعنی ان کو بچنے کا طریقہ بتلا دیں گے کہ ان مجرموں سے علیحدہ ہوجائیں) بجر ان کی (یعنی لوط (علیہ السلام) کی) بی بی کے کہ اس کی نسبت ہم نے تجویز کر رکھا ہے کہ وہ ضرور اسی قوم مجرم میں رہ جائے گی (اور ان کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوگی) - پھر جب وہ فرشتے خاندان لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو چونکہ بشکل بشر تھے اس لئے) کہنے لگے تم تو اجنبی لوگوں کو پریشان کیا کرتے ہیں) انہوں نے کہا نہیں (ہم آدمی نہیں) بلکہ ہم (فرشتے ہیں) آپ کے پاس وہ چیز (یعنی وہ عذاب) لے کر آئے ہیں جس میں یہ لوگ شک کیا کرتے تھے اور ہم آپ کے پاس یقینی ہونے والی چیز (یعنی عذاب) لے کر آئے ہیں اور ہم (اس خبر دینے میں) بالکل سچے ہیں سو آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر (یہاں سے) چلے جائیے اور آپ سب کے پیچھے ہو لیجئے (تاکہ کوئی رہ نہ جائے یا لوٹ نہ جائے اور آپ کے رعب اور ہیبت کی وجہ سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے جس کی ممانعت کردی گئی ہو) اور تم میں سے کوئی پیچھا پھر کر بھی نہ دیکھے (یعنی سب جلدی چلے جائیں) اور جس جگہ (جانے کا) تم کو حکم ہوا ہے اس طرف سب کے سب چلے جاؤ (تفسیر در منثور میں بحوالہ سدی نقل کیا ہے کہ وہ جگہ ملک شام ہے جس کی طرف ہجرت کرنے کا ان حضرات کو حکم دیا گیا تھا) اور ہم نے (ان فرشتوں کے واسطے سے) لوط (علیہ السلام) کے پاس یہ حکم بھیجا کہ صبح ہوتے ہی بالکل ان کی جڑ کٹ جائے گی (یعنی بالکل ہلاک و برباد ہوجائیں گے فرشتوں کی یہ گفتگو وقوع کے اعتبار سے اس قصہ بیان کرنے سے جو بات مقصود ہے یعنی نافرمانوں پر عذاب اور فرمانبرداروں کی نجات و کامیابی وہ پہلے ہی اہتمام کے ساتھ معلوم ہوجائے اگلا قصہ یہ ہے) اور شہر کے لوگ (یہ خبر سن کر کہ لوط (علیہ السلام) کے یہاں حسین لڑکے آئے ہیں) خوب خوشیاں مناتے ہوئے (اپنی فاسد نیت اور برے ارادہ کے ساتھ لوط (علیہ السلام) کے گھر پہونچے) لوط (علیہ السلام) نے (جو اب تک ان کو آدمی اور اپنا مہمان ہی سمجھ رہے تھے ان کے فاسد ارادوں کا احساس کر کے) فرمایا کہ یہ لوگ میرے مہمان ہیں (ان کو پریشان کر کے) مجھ کو (عام لوگوں میں) رسوا نہ کرو (کیونکہ مہمان کی توہین میزبان کی توہین ہوتی ہے اگر تمہیں ان پردیسیوں پر رحم نہیں آتا تو کم از کم میرا خیال کرو کہ میں تمہاری بستی کا رہنے والا ہوں اس کے علاوہ جو ارادہ تم کر رہے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب کا سبب ہے) تم اللہ سے ڈرو اور مجھ کو (ان مہمانوں کی نظر میں) رسوا مت کرو (کہ مہمان یہ سمجھیں گے کہ اپنی بستی کے لوگوں میں بھی ان کی کوئی وقعت نہیں) وہ کہنے لگے (کہ یہ رسوائی ہماری طرف سے نہیں آپ نے خود اپنے ہاتھوں خریدی ہے کہ ان کو مہمان بنایا) کیا ہم آپ کو دنیا بھر کے لوگوں (کو اپنا مہمان بنانے) سے (بارہا) منع نہیں کرچکے (نہ آپ ان کو مہمان بناتے نہ اس رسوائی کی نوبت آتی) لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (یہ تو بتلاؤ کہ اس بیہودہ حرکت کی کیا ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہمیں کسی کو مہمان بنانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی قضاء شہوت کے طبعی تقاضے کے لئے) یہ میری (بہو) بیٹیاں (جو تمہارے گھروں میں ہیں) موجود ہیں اگر تم میرا کہنا مانو (تو شریفانہ طور پر اپنی عورتوں سے اپنا مطلب پورا کرو مگر وہ کس کی سنتے تھے) آپ کی جان کی قسم اپنی مستی میں مدہوش تھے پس سورج نکلتے نکلتے ان کو سخت آواز نے آ دبایا (یہ ترجمہ مشرقین کا ہے اس سے پہلے جو مصبحین کا لفظ آیا ہے جس کے معنی صبح ہوتے ہوتے کے ہیں ان دونوں کا اجتماع اس اعتبار سے ممکن ہے کہ صبح سے ابتدا ہوئی اور اشراق تک خاتمہ ہوا) پھر (اس سخت آواز کے بعد) ہم نے ان بستیوں (کی زمین کو الٹ کر ان) کا اوپر کا تختہ (تو) نیچے کردیا (اور نیچے کا تختہ اوپر کردیا) اور ان لوگوں پر کنکر کے پتھر برسانا شروع کئے اس واقعہ میں بہت سے نشانات ہیں اہل بصیرت کے لئے (مثلا ایک تو یہ کہ برے فعل کا نتیجہ آخر کار برا ہوتا ہے اگر کچھ دن کی مہلت اور ڈھیل مل جائے تو اس سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے دوسرے یہ کہ دائمی اور باقی رہنے والی راحت وعزت صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی اطاعت پر موقوف ہے تیسرے یہ کہ اللہ کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کر کے فریب میں مبتلا نہ ہوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے وہ ظاہری اسباب کے خلاف بھی جو چاہے کرسکتا ہے وغیر ذلک۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ 51۝ۘ- ضيف - والضَّيْفُ : من مال إليك نازلا بك، وصارت الضِّيَافَةُ متعارفة في القری، وأصل الضَّيْفِ مصدرٌ ، ولذلک استوی فيه الواحد والجمع في عامّة کلامهم، وقد يجمع فيقال : أَضْيَافٌ ، وضُيُوفٌ ، وضِيفَانٌ. قال تعالی: ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر 51] - ( ض ی ف ) الضیف - الضیف ۔ اصل میں اسے کہتے ہیں کو تمہارے پاس ٹھہرنے کے لئے تمہاری طرف مائل ہو مگر عرف مین ضیافت مہمان نوازی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اصل میں چونکہ یہ مصدر ہے اس لئے عام طور پر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی اس کی جمع اضیاف وضیوف وضیفاف بھی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر 51] بھلا تمہارے اس ابراھیم کے مہمانوں کی خبر پہنچتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥١۔ ٥٢) آپ ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کی یعنی حضرت جبریل (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ جو بارہ فرشتے اور آئے تھے ان کی اطلاع دیجیے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آکر انکو سلام کیا جب انہوں نے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے ہاں کھانا نہیں کھایا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہم تم سے خوف زدہ ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ )- یہ واقعہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہم سورة ہود کے ساتویں رکوع میں بھی پڑھ چکے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :30 یہاں حضرت ابراہیم اور ان کے بعد متصلا قوم لوط کا قصہ جس غرض کے لیے سنایا جا رہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے اس سورۃ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ آیات ۷ -۸ میں کفار مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ” اگر تم سچے نبی ہو تو ہمارے سامنے فرشتوں کے لے کیوں نہیں آتے؟ “ اس کا مختصر جواب وہاں صرف اس قدر دے کر چھوڑ دیا گیا تھا کہ ” فرشتوں کو ہم یوں ہی نہیں اتار دیا کرتے ، انہیں تو ہم جب بھیجتے ہیں حق کے ساتھ ہی بھیجتے ہیں“ ۔ اب اس کا مفصل جواب یہاں ان دونوں قصوں کے پیرائے میں دیا جا رہا ہے ۔ یہاں انہیں بتایا جا رہا ہے کہ ایک ” حق “ تو وہ ہے جسے لے کر فرشتے ابراہیم کے پاس آئے تھے ، اور دوسرا حق وہ ہے جسے لے کر وہ قوم لوط پر پہنچے تھے ۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تمہارے پاس ان میں سے کونسا حق لے کر فرشتے آسکتے ہیں ۔ ابراہیم والے حق کے لائق تو ظاہر ہے کہ تم نہیں ہو ۔ اب کیا اس حق کے ساتھ فرشتوں کو بلوانا چاہتے ہو جسے لے کر وہ قوم لوط کے ہاں نازل ہو ئے تھے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: مہمانوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے تھے۔ اُوپر یہ بیان کیا گیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت بھی بہت وسیع ہے، اور عذاب بھی بڑا سخت ہے، لہٰذا ایک اِنسان کو نہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا چاہئے، اور نہ اس کے عذاب سے بے فکر ہو کر بیٹھنا چاہئے۔ اس مناسبت سے اُن مہمانوں کا یہ واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے، کیونکہ اِس واقعے میں اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا بھی بیان ہے کہ یہ فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بڑھاپے میں حضرت اسحاق علیہ السلام جیسے بیٹے کی پیدائش کی خبر لے کر آئے، اور اﷲ تعالیٰ کے سخت عذاب کا بھی ذکر ہے کہ انہی فرشتوں کے ذریعے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل کیا گیا۔ یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ سورۂ ہود آیت (۱۱:۶۹ تا ۸۳) میں گذر چکا ہے۔ اس کے مختلف حصوں کی وضاحت ہم نے وہاں کی ہے۔