Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

لوط علیہ السلام کو ہدایا ت حضرت لوط علیہ السلام سے فرشتے کہہ رہے ہیں کہ رات کا کچھ حصہ گزر تے ہی آپ اپنے والوں کو کر یہاں سے چلے جائیں ۔ خود آپ ان سب کے پیچھے رہیں تاکہ ان کی اچھی طرح نگرانی کر چکیں ۔ یہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی کہ آپ لشکر کے آخر میں چلاکرتے تھے تاکہ کمزور اور گرے پڑے لوگوں کا خیال رہے ۔ پھر فرما دیا کہ جب قوم پر عذاب آئے اور ان کا شور و غل سنائی دے تو ہرگز ان کی طرف نظریں نہ اٹھانا ، انہیں اسی عذاب و سزا میں چھوڑ کر تمہیں جانے کا حکم ہے ، چلے جاؤ گویا ان کے ساتھ کوئی تھا جو انہیں راستہ دکھاتا جائے ۔ ہم نے پہلے ہی سے لوط ( علیہ السلام ) سے فرما دیا تھا کہ صبح کے وقت یہ لوگ مٹا دئیے جائیں گے ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ان کے عذاب کا وقت صبح ہے جو بہت ہی قریب ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] آپ کی تبلیغ کا مرکز سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ عذاب اسی شہر اور اس کے مضافات پر آیا تھا۔ ان کا علاقہ عراق اور فلسطین کے درمیان واقع تھا جہاں آج کل شرق اردن ہے۔ یہاں سے آپ کو شام کی طرف ہجرت کرجانے کا حکم دیا گیا تھا۔- یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ سورة ہود میں واقعہ کی ترتیب یہ ہے کہ جب فرشتے سیدنا لوط (علیہ السلام) کے ہاں آئے تو قوم کے بدمعاش اور غنڈے فوراً سیدنا لوط کے گھر پہنچ گئے۔ اور آپ کو اپنے ان مہمانوں کو ان غنڈوں سے بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ تاآنکہ آپ نے یہ فرمایا کہ کاش مجھ میں ان کی مدافعت کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا تو اس وقت فرشتوں نے اپنا تعارف کرایا اور تسلی دی کہ آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اور یہاں ترتیب یہ ہے کہ عذاب کا ذکر پہلے آیا ہے اور باقی تفصیلات بعد میں۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مضمون کے تسلسل اور مناسبت کی بنا پر عذاب کا ذکر پہلے کردیا گیا ہے ورنہ واقعہ کی اصل ترتیب وہی ہے جو پہلے سورة ہود میں مذکور ہوئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ : لوط (علیہ السلام) کو ان کے پیچھے چلنے کا حکم اس لیے دیا کہ وہ ان کی اچھی طرح حفاظت کرسکیں، کوئی پیچھے نہ رہ جائے، سب مسلسل چلتے رہیں اور ٹھہر کر آنے والوں کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ ہماری نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ بھی یہی تھا، چناچہ جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں پیچھے رہتے، کمزوروں کو آگے چلاتے اور سواری پر اپنے پیچھے بٹھاتے اور ان کے لیے دعا فرماتے۔ [ أبوداوٗد، الجہاد، باب لزوم الساقۃ : ٢٦٣٩ ]- وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ : کیونکہ مڑ کر دیکھنے میں وہ تیزی باقی نہیں رہے گی جو اللہ کے عذاب کی جگہ سے بھاگنے میں ہونی چاہیے اور وطن چھوڑتے وقت حسرت سے اسے بار بار دیکھنے کے بجائے بس آگے بڑھتے جاؤ، تاکہ نہ دل کسی اور طرف متوجہ ہو اور نہ اللہ کے ذکر و شکر اور تمہاری رفتار میں کوئی کمی واقع ہو، نہ قوم کی بدترین بربادی دیکھتے ہوئے دل میں کوئی رقت پیدا ہو۔- وَّامْضُوْا حَيْثُ تُؤْمَرُوْنَ : وہ جگہ اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں فرمائی، نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے۔ تعجب ہوتا ہے کہ بعض مفسرین اس کے بغیر ہی ” قِیْلَ “ (کہا جاتا ہے) کہہ کر کبھی شام، کبھی اردن اور کبھی مصر کا نام لیتے ہیں، یہ اندھیرے میں تیر پھینکنے والی بات ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَيْثُ تُؤْمَرُوْنَ 65؀ - سری - السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1]- ( س ر ی و ) السریٰ- کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :- فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ - قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - دبر - دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ- دُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ، أي :- قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ- «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الھمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - لفت - يقال : لَفَتَهُ عن کذا : صرفه عنه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس 87] أي : تصرفنا، - ( ل ف ت ) لفتہ عن کذا - ۔ کسی چیز سے پھیر دینا ۔ قرآن میں ہے : قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس 87] کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ( جس راہ پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیردو ۔- مضی - المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ- [ الزخرف 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال 38] .- ( م ض ی ) المضی - والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٥۔ ٦٦) سو آپ رات کے کسی حصہ میں یعنی سحر کے وقت اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے چلے جائیے اور آپ سب کے پیچھے ہو لیجیے اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے اور صعر (شام) کی طرف سب چلے جانا اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو صعر جانے کا حکم دیا یا اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اس بات سے مطلع کیا کہ صبح ہوتے ہی آپ کی قوم کی جڑ کٹ جائے گی (اور فرشتوں کی آمد کی خبر سن کر جو کہ شکل سے آدمی تھے) شہر کے لوگ حضرت لوط (علیہ السلام) کے مکان پر اپنے ناپاک مقصد کے تحت خوب خوشیاں کرتے ہوئے آئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (فَاَسْرِ بِاَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَہُمْ وَلاَ یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ) ” - یعنی آپ لوگ صبح ہونے سے پہلے پہلے یہاں سے نکل جائیں۔ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اب دوستی اور ہمدردی جیسے جذبات کا اظہار کسی بھی شکل میں نہیں ہونا چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :37 یعنی اس غرض سے اپنے گھر والوں کے پیچھے چلو کہ ان میں سے کوئی ٹھیرنے نہ پائے ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :38 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی تم پتھر کے ہو جاؤ گے ، جیسا کہ بائیبل میں بیان ہوا ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے کی آوازیں اور شور و غل سن کر تماشا دیکھنے کے لیے نہ ٹھیر جانا ۔ یہ نہ تماشا دیکھنے کا وقت ہے ، اور نہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا ۔ ایک لمحہ بھی اگر تم نے معذب قوم کے علاقے میں دم لے لیا تو بعید نہیں کہ تمہیں بھی اس ہلاکت کی بارش سے کچھ گزند پہنچ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: حضرت لوط (علیہ السلام) کو پیچھے چلنے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ آپ اپنے تمام ساتھیوں کی نگرانی کرسکیں، خاص طور پر ان سب کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پیچھے ہونے کی وجہ سے کسی کو یہ جرات نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ اس حکم کی خلاف ورزی کرے۔