Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 پس یہ وعظ و نصیحت کی باتیں سنتے ہیں نہ انھیں سمجھتے ہیں اور نہ وہ نشانیاں ہی دیکھتے ہیں جو انھیں حق کی طرف لے جانے والی ہیں۔ بلکہ یہ ایسی غفلت میں مبتلا ہیں جس نے ہدایت کے راستے ان کے لئے مسدود کردیئے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ ۔۔ : دیکھنے اور سننے سے حق دکھائی اور سنائی دیتا ہے اور سوچنے سے سمجھ میں آتا ہے، مگر ان کے عناد اور ضد کی وجہ سے ان تینوں چیزوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی، سو وہ حق کی طلب میں انھیں استعمال ہی نہیں کرتے، بلکہ آخرت سے بالکل بیخبر اور بےفکر ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ١٠٨؁- طبع - الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو :- سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] ، - ( ط ب ع ) الطبع ( ف )- کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٨) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور یہ لوگ آخرت کے کام سے بالکل غافل ہیں اور اس کو انھوں نے پس پشت ڈال رکھا ہے اور توحید سے غافل اور اس کے منکر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani