سورج چاند کی گردش میں پوشیدہ فوائد اللہ تعالیٰ اپنی اور نعمتیں یاد دلاتا ہے کہ دن رات برابر تمہارے فائدے کے لئے آتے جاتے ہیں ۔ سورج چاند گردش میں ہیں ، ستارے چمک چمک کر تمہیں روشنی پہنچا رہے ہیں ، ہر ایک ایسا صحیح اندازہ اللہ نے مقرر کر رکھا ہے جس سے وہ نہ ادھر ادھر ہوں نہ تمہیں کوئی نقصان ہو ۔ ہر ایک رب کی قدرت میں اور اس کے غلبے تلے ہے ۔ اس نے چھ دن میں آسمان زمین پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا دن رات برابر پے درپے آتے رہتے ہیں سورج چاند ستارے اس کے حکم سے کام میں لگے ہوئے ہیں خلق و امر کا مالک وہی ہے وہ رب العالمین بڑی برکتوں والا ہے ۔ جو سوچ سمجھ رکھتا ہو اس کے لئے تو اس میں اللہ کی قدرت و سلطنت کی بڑی نشانیاں ہیں ۔ ان آسمانی چیزوں کے بعد اب تم زمینی چیزیں دیکھو کہ حیوان ، کان ، نباتات ، جمادات ، وغیرہ مختلف رنگ روپ کی چیزیں بیشمار فوائد کی چیزیں اسی نے تمہارے لئے زمین پر پیدا کر رکھی ہیں ۔ جو لوگ اللہ کی نعمتوں کو سوچیں اور قدر کریں ان کے لئے تو یہ زبردست نشان ہے ۔
12۔ 1 کس طرح رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، چاند اور سورج کس طرح اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتے ہیں اور ان میں کبھی فرق واقع نہیں ہوتا، ستارے کس طرح آسمان کی زینت اور رات کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے مسافروں کے لئے دلیل راہ ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور سلطنت عظیمہ پر دلالت کرتے ہیں۔
[١٢] چاند سورج کی گردش کے فوائد :۔ اس آیت میں انسان کی ایک اور اہم ضرورت کا ذکر ہے یعنی انسان جب تک پوری طرح آرام نہ کرلے وہ آگے نہ کام کرسکتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کے ایک مقررہ حساب کے تحت آنے جانے کا انتظام فرما دیا۔ سورج کی گردش سے دن رات پیدا ہوتے ہیں۔ نیز سورج ہمیں روشنی بھی پہنچاتا ہے اور دھوپ اور حرارت بھی جو ہماری زندگی کے لیے نہایت ضروری چیزیں ہیں۔ اسی طرح چاند اور ستارے ہمیں رات کو روشنی بہم پہنچاتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو رات اس قدر تاریک اور گھناؤنی ہوجاتی ہے کہ راہ کا نظر آنا تو درکنار، انسان ایک دوسرے کو بھی دیکھ نہ سکتے۔ ان چیزوں کے علاوہ انسان کے لیے سورج، چاند اور ستاروں میں اور بھی بہت سے فوائد ہیں اور یہ صرف اس وجہ سے حاصل ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سیاروں کو انسان کی خدمت کے لیے مقررہ قواعد کا پابند بنادیا۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۔۔ : تسخیر کا معنی کسی چیز کو اس کا اختیار اور مرضی ختم کرکے اپنا تابع بنا کر اپنی مرضی کے مطابق چلانا ہے۔ رات اور دن کے ساتھ سورج اور چاند کے تعلق کی بنا پر چاروں کا ذکر اکٹھا کیا۔ ” لَكُمُ “ (تمھارے لیے) کا یہ مطلب نہیں کہ رات دن اور سورج چاند تمہارے تابع فرمان کردیے ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے زبردست حکم ہی کے تابع ہیں، اس کے مقرر کردہ نظام سے نہ بال برابر ادھر ادھر ہوسکتے ہیں نہ آنکھ جھپکنے کے برابر ادھر ادھر۔ (دیکھیے فاطر : ٤١) ” لَکُمْ “ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو تمہاری بقا، ضروریات اور منافع کے لیے پابند کر رکھا ہے۔ اسے لام انتفاع کہتے ہیں، اسی لیے ترجمہ ” تمہاری خاطر “ کیا گیا ہے۔ ” وَسَخَّرَ “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی یا اختیار استعمال ہی نہیں کرسکتے، صرف انسان کو آزمائش کے لیے کچھ اختیار دیا ہے، وہ بھی صحیح یا غلط راستہ اختیار کرنے کا، باقی وہ بھی اللہ تعالیٰ کے زبردست حکم کے آگے بےبس ہے، زندگی اور موت پر، فقرو غنا پر، صحت و بیماری پر، الغرض بیشمار چیزیں ہیں جن پر انسان کا کچھ اختیار نہیں۔ باقی تمام مخلوق کو جو مکمل مسخر کردیا اور ان کی مرضی بالکل ختم کردی تو یہ ان سے پوچھ کر ہی کیا، اگر وہ بھی آزمائش قبول کر کے کچھ اختیار چاہتے تو انھیں مل جاتا، مگر انھوں نے جرأت ہی نہیں کی اور مکمل خود سپردگی اختیار کی، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا) [ الأحزاب : ٧٢ ] ” بیشک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈرگئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے۔ “ اور انسان کے فائدے کی مثالوں کے لیے دیکھیے سورة نبا کی ابتدائی آیات اور سورة قصص (٧١، ٧٢) ۔- وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ۔۔ : ” وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ “ یہ ” وَسَخَّرَ “ کے مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب تھے، ” النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ“ کو مرفوع اور مبتدا و خبر کی صورت میں الگ فرمایا، کیونکہ سیاروں کا معاملہ سورج چاند سے بھی بیحد وسیع ہے۔ انسان کو اب تک جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق ایک ایک سیارہ اتنا عظیم ہے کہ سورج چاند اس کے مقابلے میں کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتے اور ایسی بیشمار کہکشائیں ہیں جن کا ہر سیارہ ہمارے سورج سے بھی بڑا ہے اور ہم سے اتنے دور ہیں کہ لاکھوں نوری سالوں میں بعض کی روشنی اب زمین تک پہنچی ہے اور بعض کی اب بھی نہیں، حالانکہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ ہمیں تو ان کے یہی فوائد معلوم ہیں کہ یہ رات کی تاریکی میں چراغ، آسمان کے لیے زینت، شیاطین سے آسمان کی حفاظت کا ذریعہ اور بر و بحر کی ظلمتوں میں راستہ بتانے والے ہیں، مگر جب چاند کی اتنی تاثیر ہے کہ اس کے عروج و زوال سے سمندر جیسی عظیم مخلوق مدو جزر کا شکار ہوجاتی ہے تو ان ستاروں کی کائنات پر تاثیر تو انھیں پیدا کرنے والا ہی جانتا ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ”(پہلی) چار چیزوں سے تو بندوں کے کام صریح طور پر وابستہ نظر آتے ہیں، مگر ستاروں سے انسانی فوائد کا تعلق ہونا صریح نہ تھا، اس لیے ان کو جدا کردیا۔ (فَتَدَبَّرْ ) “ ہاں سورج، چاند یا ستاروں کا تقدیر سے یا غیب کی بات معلوم کرنے سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان کے پاس بارش برسانے یا نفع نقصان کا کچھ اختیار ہے۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا اور ستاروں پر ایمان رکھنے والا ہے۔ (دیکھیے بخاری : ١٠٣٨) ستاروں کی تسخیر میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایک نہیں بہت سی نشانیاں ہیں، اس لیے لفظ آیات جمع ذکر فرمایا، مگر ان کے لیے جو عقل کو استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے نہیں جن کا ذکر سورة انفال (٢٢) یا سورة حج (٤٦) وغیرہ میں آیا ہے۔
(آیت) وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۔ رات اور دن کو مسخر بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو انسان کے کام میں لگانے کے لئے اپنی قدرت کا مسخر بنادیا کہ رات انسان کو آرام کے سامان مہیا کرتی ہے اور دن اس کے کام کے راستے ہموار کرتا ہے ان کو مسخر کرنے کے یہ معنی نہیں کہ رات اور دن انسان کے حکم کے تابع چلیں۔- (آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ۔ یعنی ان چیزوں میں چند دلائل ہیں عقل والوں کے لئے اس میں اشارہ اس کی طرف ہے کہ ان چیزوں کا حکم الہی کا مسخر ہونا ایسا ظاہر کہ اس میں بہت کچھ غور و فکر کی ضرورت نہیں جس کو ذرا بھی عقل ہوگی وہ سمجھ لے گا کیونکہ نباتات اور درختوں کے اگانے میں تو بظاہر کچھ نہ کچھ انسانی عمل کا دخل تھا بھی یہاں وہ بھی نہیں۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ 12ۙ- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- نجم - أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه :- نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار - عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1»- وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ.- ( ن ج م ) النجم - اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(١٢) اور اس نے تمہارے فوائد کے لیے رات دن کو مسخر کیا اور ستارے بھی اس کے حکم کے تابع ہے یقیناً ان مذکورہ چیزوں کے مسخر کرنے میں چند دلیلیں موجود ہیں، ان لوگوں کے لیے جو اس بات کو جانتے اور اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ ہی نے مسخر کیا ہے۔
آیت ١٢ (وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ )- انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رات اپنی جگہ اہم ہے اور دن کی اپنی اہمیت ہے۔ رات میں مجموعی طور پر ایک سکون ہے۔ یہ انسانوں اور دوسرے جانداروں کے لیے باعث راحت ہے ‘ اس میں وہ آرام کرتے ہیں ‘ سوتے ہیں اور صبح تازہ دم ہو کر اٹھتے ہیں۔ دوسری طرف دن میں بھاگ دوڑ ‘ محنت ‘ جدوجہد اور مختلف النوع انسانی سرگرمیاں ممکن ہوتی ہیں۔ اگر اس پہلو سے دنیا کے اجتماعی نظام کو دیکھا جائے تو یہ پورا نظام رات اور دن کے وجود کا مرہون منت نظر آتا ہے۔ نباتاتی نظام کو ہی لے لیجیے۔ اس کے لیے رات اور دن دونوں ہی ناگزیر ہیں۔ دن کو سورج کی روشنی اور تمازت سے نباتات کے لیے کا عمل ممکن ہوتا ہے جو ان کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔ فصلوں اور پھلوں کو بھی پکنے کے لیے سورج کی روشنی اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف رات کو نباتات کے عمل کے ذریعے سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ گویا رات اور دن کے بغیر نباتات کا وجود ممکن ہی نہیں ہے اور انسانی زندگی میں نباتات کے عمل دخل کا تصور کریں تو اس ایک مثال سے ہی یہ حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دن اور رات کو انسان کے لیے مسخر کردینا کتنی بڑی نعمت ہے۔- (وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ )- پورا نظام شمسی اور تمام اجرام فلکی اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کی نفع رسانی میں مصروف ہیں۔