Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

123۔ 1 مِلَّۃَ کے معنی ایسا دین جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی نبی کے ذریعے لوگوں کے لئے شروع کے موافق اور ضروری قرار دیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اس بات کے کہ آپ تمام انبیاء سمیت اولاد آدم کے سردار ہیں، آپ کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امتیازی اور خصوصی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ایسے اصول میں تمام انبیاء کی شریعت اور ملت ایک ہی رہی جس میں رسالت کے ساتھ توحید وعقبیٰ و بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٥] چار بنیادی اشیاء ہی سیدنا ابراہیم کی شریعت میں حرام تھیں :۔ یعنی اگر آج کوئی ملت ابراہیمی کا پیرو کار موجود ہے تو وہ صرف یہ نبی آخر الزمان ہے جسے ہم نے ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ نہ مشرکین مکہ سیدنا ابراہیم کے پیرو کار ہیں اور نہ یہود اور نہ نصاریٰ حالانکہ یہ سب اپنا سلسلہ سیدنا ابراہیم سے ملانا چاہتے ہیں اور اسے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ مشرک ہیں اور سیدنا ابراہیم مشرک نہ تھے۔ مشرکین مکہ کا شرک تو واضح ہے۔ یہود کا شرک یہ تھا کہ انہوں نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا بنایا۔ نیز کئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا جس کی پاداش میں اللہ نے بھی وہ چیزیں ان پر حرام کردی تھیں۔ اور نصاریٰ بھی مشرک ہیں جنہوں نے ایک کے بجائے تین چار خدا بنا رکھے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ ۔۔ : یعنی حلال و حرام اور دین سے متعلق تمام معاملات میں اصل نہ یہودیت ہے، نہ نصرانیت ہے اور نہ شرک کہ جس کا ارتکاب یہ کفار مکہ کر رہے ہیں، بلکہ اصل ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے جو خالص توحید سے عبارت تھی اور اس میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو بعد میں یہودیوں پر ان کی شرارت کی وجہ سے حرام کردی گئیں، اس لیے آپ کے لیے پیروی کے لائق اگر کوئی ملت ہے تو وہ صرف ملت ابراہیمی ہے۔ (ابن کثیر)- لفظ ” ثُمَّ “ یہاں حقیقی ترتیب کے لیے نہیں بلکہ ترتیب ذکری کے لیے ہے اور آخر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل میں سے یہ ایک بہت بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، یعنی ان فضائل کے ساتھ پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی اس فضیلت کو دیکھو کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (جو اگرچہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں، مگر ساری اولاد آدم کے سردار ہیں) کو بھی یہی حکم دیا گیا کہ آپ نے ملت ابراہیم کی پیروی کرنی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ملت ابراہیم کے پیروکار ہونے میں جہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر ہے وہیں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت بھی ظاہر ہے کہ آپ کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے باعث فضیلت ٹھہرا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ملت ابراہیمی کا اتباع :- حق تعالیٰ نے جو شریعت و احکام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا فرمائے تھے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت بھی بعض خاص احکام کے علاوہ اس کے مطابق رکھی گئ اور اگرچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء ورسل (علیہم السلام) سے افضل ہیں مگر یہاں افضل کو مفضول کے اتباع کا حکم دینے میں دو حکمتیں ہیں۔- اول تو یہ کہ وہ شریعت پہلے دنیا میں آ چکی ہے اور معلوم و معروف ہوچکی ہے آخری شریعت بھی چونکہ اس کے مطابق ہونے والی تھی اس لئے اس کو اتباع کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے دوسرے بقول علامہ زمخشری یہ حکم اتباع بھی منجملہ اکرام و اعزاز خلیل اللہ کے ایک خاص اعزاز ہے اور اس کی خصوصیت کی طرف لفظ ثم سے اشارہ کردیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے تمام فضائل و کمالات ایک طرف اور ان سب پر فائق یہ کمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے افضل رسول وحبیب کو ان کی ملت کے اتباع کا حکم فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٢٣؁- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - ملل - المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها،- ( م ل ل ) الملۃ - ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ہم نے آپ کو حکم دیا کہ آپ دین ابراہیمی پر قائم رہیے جو کہ سچے مسلمان تھے اور وہ مشرکین کے دین پر نہیں تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :120 یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا مکمل جواب ہے ۔ اس جواب کے دو اجزا ہیں ۔ ایک یہ کہ خدا کی شریعت میں تضاد نہیں ہے ، جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے ، بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملت ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں ۔ مثلا یہودی اونٹ نہیں کھاتے ، مگر مِلّتِ ابراہیمی میں وہ حلال تھا ۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ ، بطخ ، خرگوش وغیرہ حرام ہیں ، مگر ملت ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں ۔ اس جواب کے ساتھ ساتھ کفار مکہ کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیم علیہ السلام سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو ، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو ۔ ملّتِ ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی اور اس کے ساتھی ہیں جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani