جمعہ کا دن ہر امت کے لئے ہفتے میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے ایسا مقرر کیا ہے جس میں وہ جمع ہو کر اللہ کی عبادت کی خوشی منائیں ۔ اس امت کے لئے وہ دن جمعہ کا دن ہے ، اس لئے کہ وہ چھٹا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا کمال کیا ۔ اور ساری مخلوق پیدا ہو چکی اور اپنے بندوں کو ان کی ضرورت کی اپنی پوری نعمت عطا فرما دی ۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہی دن بنی اسرائیل کے لئے مقرر فرمایا گیا تھا لیکن وہ اس سے ہٹ کر ہفتے کے دن کو لے بیٹھے ، یہ سمجھے کہ جمعہ کو مخلوق پوری ہو گئی ، ہفتہ کے دن اللہ نے کوئی چیز پیدا نہیں کی ۔ پس تورات جب اتری ان پر وہی ہفتے کا دن مقرر ہوا اور انہیں حکم ملا کہ اسے مضبوطی سے تھامے رہیں ، ہاں یہ ضرور فرما دیا گیا تھا کہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی آئیں تو وہ سب کے سب کو چھوڑ کر صرف آپ ہی کی اتباع کریں ۔ اس بات پر ان سے وعدہ بھی لے لیا تھا ۔ پس ہفتے کا دن انہوں نے خود ہی اپنے لئے چھانٹا تھا ۔ اور آپ ہی جمعہ کو چھوڑا تھا ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے زمانہ تک یہ اسی پر رہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پھر آپ نے انہیں اتوار کے دن کی طرف دعوت دی ۔ ایک قول ہے کہ آپ نے توراۃ کی شریعت چھوڑی نہ تھی سوائے بعض منسوخ احکام کے اور ہفتے کے دن کی محافظت آپ نے بھی برابر داری رکھی ۔ جب آپ آسمان پر چڑھا لئے گئے تو آپ کے بعد قسطنطین بادشاہ کے زمانے میں صرف یہودیوں کی ضد میں آ کر صخرہ سے مشرق جانب کو اپنا قبلہ انہوں نے مقرر کر لیا اور ہفتے کی بجائے اتوار کا دن مقرر کر لیا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم فرماتے ہیں ہم سب سے آخر والے ہیں اور قیامت کے دن سب سے آگے والے ہیں ۔ ہاں انہیں کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ۔ یہ دن بھی اللہ نے ان پر فرض کیا لیکن ان کے اختلاف نے انہیں کھو دیا اور اللہ رب العزت نے ہمیں اس کی ہدایت دی پس یہ سب لوگ ہمارے پیچھے پیچھے ہیں ۔ یہودی ایک دن پیچھے نصارنی دو دن ۔ آپ فرماتے ہیں ہم سے پہلے کی امتوں کو اللہ نے اس دن سے محروم کر دیا یہود نے ہفتے کا دن رکھا نصاری نے اتوار کا اور جمعہ ہمارا ہوا ۔ پس جس طرح دنوں کے اس اعتبار سے وہ ہمارے پیچھے ہیں ۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہمارے پیچھے ہی رہیں گے ۔ ہم دنیا کے اعتبار سے پچھلے ہیں اور قیامت کے اعتبار سے پہلے ہیں یعنی تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلے ہمارے ہوں گے ۔ ( مسلم )
124۔ 1 اس اختلاف کی نیت کیا ہے ؟ اس کی تفصیل میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لئے جمعہ کا دن مقرر فرمایا تھا، لیکن بنو اسرائیل نے اختلاف کیا اور ہفتے کا دن تعظیم و عبادت کے لئے پسند کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ انہوں نے جو دن پسند کیا ہے، وہی دن رہنے دو ، بعض کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا تھا تعظیم کے لئے ہفتے میں کوئی ایک دن متعین کرلو۔ جس کے تعین میں ان کے درمیان اختلاف ہوا۔ پس یہود نے اپنے مذہبی قیاس کی بنیاد پر ہفتے کا دن اور نصاریٰ نے اتوار کا دن یہودیوں کی مخالفت کے جذبے سے اپنے لئے مقرر کیا تھا، اسی طرح عبادت کے لئے انہوں نے اپنے کو یہودیوں سے الگ رکھنے کے لئے بیت المقدس کی شرقی جانب کو بطور قبلہ اختیار کیا۔ جمعہ کا دن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مقرر کئے جانے کا ذکر حدیث میں موجود ہے (صحیح بخاری)
[١٢٦] ہفتہ کی چھٹی یہود کے اصرار پر مقرر کی گئی :۔ ہفتہ کے دن کی تعظیم کا بھی ملت ابراہیمی میں کوئی حکم نہ تھا بلکہ جمعہ کا دن ہی مقرر کیا گیا تھا اور مسلمان بھی جمعہ ہی کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور ہفتہ کا دن یہودیوں پر یوں مسلط کیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں جمعہ کی تعظیم کے لیے کہا تو کہنے لگے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا۔ وہ جمعہ کے دن فارغ ہوا اور ساتویں (ہفتہ) کے دن آرام کیا تو ہم بھی ہفتہ کے دن چھٹی کیا کریں گے اللہ کے آرام کے متعلق یہود کا یہ تصور انتہائی غلط تھا۔ تاہم ان کی اپنے نبی سے ضد کے نتیجہ میں ان پر ہفتہ کا دن مقرر کیا گیا اور سختی یہ کی گئی کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار سے مکمل طور پر چھٹی کریں۔ اور اللہ کی عبادت میں سارا دن گزاریں۔ پھر جس طرح انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس کا تفصیلی بیان سورة بقرہ آیت نمبر ٦٥ اور سورة اعراف آیت نمبر ١٦٦ کے تحت گذر چکا ہے۔- سبت کے بارے یہود نے پہلا اختلاف تو یہ کیا کہ جمعہ کے دن کے بجائے ہفتہ کے دن پر اصرار کیا۔ پھر یہود کا ایک قبیلہ جو بستی ایلہ میں مقیم تھا، سبت کی تعظیم پر قائم نہ رہا اور حیلوں بہانوں سے اس دن مچھلیوں کے شکار کی راہ ہموار کرلی۔ اور جب انھیں دوسرا فریق منع کرتا تو زبانی وہ یہی کہتے تھے کہ ہم نے کب سبت کی حرمت کو توڑا ہے۔ ہم سبت کے دن کب شکار کرتے ہیں۔ شکار تو ہم اتوار کو کرتے ہیں پھر عیسیٰ آئے تو وہ بھی موسوی شریعت کی پیروی کی تعلیم دیتے رہے۔ اور ہفتہ کے دن کی تعظیم کی تاکید کرتے رہے مگر بعد میں نصاریٰ نے اختلاف کیا اور ہفتہ کی بجائے اتوار کا دن چھٹی کا دن قرار دے دیا۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ہم پیچھے آئے ہیں مگر قیامت کے دن پہلے ہوں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اہل کتاب کو کتاب پہلے ملی اور ہمیں بعد میں ملی۔ پس وہ دن جو اللہ نے ان پر فرض کیا تھا اس میں انہوں نے اختلاف کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دن بتادیا کہ وہ ہمارے پیچھے رہ گئے یہود تو ایک دن پیچھے رہے اور نصاریٰ اس کے بعد مزید ایک دن - [١٢٧] ایک قسم کے اختلاف تو وہ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے اور دوسرا یہ کہ یہود یہ کہتے تھے کہ سیدنا ابراہیم ہمارے دین پر تھے یعنی یہودی تھے۔ اور نصاریٰ یہ کہتے تھے کہ سیدنا ابراہیم ہمارے دین پر تھے یعنی نصاریٰ تھے۔ پھر مشرکین مکہ ہوں یا یہود، نصاریٰ ہوں یا مسلمان سب اپنا رشتہ سیدنا ابراہیم سے جوڑتے ہیں اور انھیں اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے گا کہ سچا کون تھا۔ اور جھوٹا کون اور ان میں اختلافات کی حقیقت کیا تھی۔ ؟
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ ۔۔ : یعنی ہفتے کے دن کی تعظیم جیسے ملت اسلام میں نہیں ہے، ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں بھی نہ تھی۔ یہ دن تو بعد میں صرف ان لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا تھا جنھوں نے اس میں اختلاف کیا تھا، اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر جمعہ کے دن کی تعظیم واجب کی تھی، مگر انھوں نے اس میں اختلاف کرکے ہفتے کا دن مقرر کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر اسی دن کی تعظیم فرض کردی کہ اس میں شکار مت کرو۔ اس کی تائید ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، بَیْدَ أَنَّھُمْ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، ثُمَّ ھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْھِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ فَالنَّاسُ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ، الْیَھُوْدُ غَدًا وَالنَّصَارَی بَعْدَ غَدٍ ) [ بخاری، الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ : ٨٧٦ ] ” ہم سب سے بعد میں آنے والے ہیں، جو قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے، باوجود اس کے کہ ان لوگوں کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی، پھر یہ ان کا دن جو ان پر فرض کیا گیا تو انھوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس (جمعہ کے دن) کی ہدایت دی، سو لوگ اس میں ہمارے پیچھے ہیں، یہودی ہم سے بعد والے دن اور عیسائی اس سے بھی اگلے دن۔ “ صحیح مسلم کی حدیث میں اس فرض کردہ دن کی تعیین موجود ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا جس سے اختلاف کرکے یہود نے ہفتہ اور نصاریٰ نے اتوار مقرر کرلیا۔ [ دیکھیے مسلم، الجمعۃ، باب - ہدایۃ ھذہ الأمۃ لیوم الجمعۃ : ٨٥٥ ]
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَي الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۭ وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِـيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ١٢٤- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- سبت - أصل السَّبْتُ : القطع، ومنه سبت السّير :- قطعه، وسَبَتَ شعره : حلقه، وأنفه : اصطلمه، وقیل : سمّي يوم السَّبْت، لأنّ اللہ تعالیٰ ابتدأ بخلق السموات والأرض يوم الأحد، فخلقها في ستّة أيّام کما ذكره، فقطع عمله يوم السّبت فسمّي بذلک، وسَبَتَ فلان : صار في السّبت وقوله : يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] ، قيل : يوم قطعهم للعمل، وَيَوْمَ لا يَسْبِتُونَ [ الأعراف 163] ، قيل : معناه لا يقطعون العمل، وقیل : يوم لا يکونون في السّبت، وکلاهما إشارة إلى حالة واحدة، وقوله :- إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل 124] ، أي : ترک العمل فيه، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً- [ النبأ 9] ، أي : قطعا للعمل، وذلک إشارة إلى ما قال في صفة اللّيل : لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] .- ( س ب ت ) السبت - کے اصل معنی قطع کرنے کے ہیں اور اسی سے کہا جاتا ہے سبت السیر اس نے تسمہ گو قطع کیا سینت شعرۃ اس نے اپنے بال مونڈے سبت انفہ اس کی کاٹ ڈالی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہفتہ کے دن کو یوم السبت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی تھی اور چھ دن میں تخلیق عالم فرماکر سینچر کے دن اسے ختم کردیا تھا اسی سے سبت فلان ہے جس کے معنی ہیں وہ ہفتہ کے دن میں داخل ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] سنیچر کے دن ( مچھلیاں ) سینہ سیر ہوکر ان کے سامنے آجاتیں ۔ میں بعض نے یوم سبتھم سے ان کے کاروں بار کو چھوڑنے کا دن مراد لیا ہے اس اعتبار سے یوم لا یسبتون کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز وہ کاروبار چھوڑ تے اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ روز سینچر نہ ہوتا ان ہر دو معنی کا مآل ایک ہی ہے اور آیت : ۔ إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل 124] میں سبت سے مراد سینچر کے دن عمل کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سنیچر کے روز کام چھوڑنے کا حکم صرف لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] اس لئے دیا گیا تھا اور آیت : ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] اور نیند کو ( موجب ) راحت بنایا ۔ میں سبات کے معنی ہیں حرکت وعمل کو چھوڑ کر آرام کرنا اور یہ رات کی اس صفت کی طرف اشاریہ ہے جو کہ آیت : ۔ تاکہ تم رات میں راحت کرو لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] . میں مذکور ہے یعنی رات کو راحت و سکون لے لئے بنایا ہے - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے
(١٢٤) اور ہفتہ تعظیم تو ان ہی لوگوں پر لازم کی گئی تھی، جنہوں نے جمعہ کی تعظیم میں اختلاف کیا تھا اور آپ کا پروردگار قیامت کے دن یہودی ونصاری کے درمیان فیصلہ کردے گا جس دین میں یہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
آیت ١٢٤ (اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَي الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ )- دراصل بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لیے جمعہ کا دن ہی مقرر فرمایا تھا مگر انہوں نے اپنی شرارت کی وجہ سے اس کی ناقدری کی اور اسے چھوڑ کر ہفتہ کا دن اختیار کرلیا۔ چناچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس حیثیت میں ہفتہ کا دن ہی مقرر کردیا۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :121 یہ کفار مکہ کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے ۔ اس میں یہ بیان کرنے کی حاجت نہ تھی کہ سبت بھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور ملت ابراہیمی میں حرمتِ سبت کا کوئی وجود نہ تھا ، کیونکہ اس بات کو خود کفار مکہ بھی جانتے تھے ۔ اس لیے صرف اتنا ہی اشارہ کر نے پر اکتفا کیا گیا کہ یہودیوں کے ہاں سبت کے قانون میں جو سختیاں تم پاتے ہو یہ ابتدائی حکم میں نہ تھیں بلکہ یہ بعد میں یہودیوں کی شرارتوں اور احکام کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ان پر عائد کی گئی تھیں ۔ قرآن مجید کے اس اشارے کو آدمی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ ایک طرف بائیبل کے ان مقامات کو نہ دیکھے جہاں سبت کے احکام بیان ہوئے ہیں ( مثلاً ملاحظہ ہو خروج باب ۲۰ ، آیت ۸ تا ۱۱ ۔ باب ۲۳ ، آیت ۱۲ و ۱۳ ۔ باب ۳۱ ، آیت ۱۲ تا ۱۷ ۔ باب ۳۵ ، آیت ۲ و ۳ ۔ گنتی باب ۱۵ ، آیت ۳۲ تا ۳٦ ) ، اور دوسری طرف ان جسارتوں سے واقف نہ ہو جو یہودی سبت کی حرمت کو توڑنے میں ظاہر کرتے رہے ( مثلًا ملاحظہ ہو یر میاہ باب ۱۷ ، آیت ۲۱ تا ۲۷ ۔ حِزقِی ایل ، باب ۲۰ ، آیت ۱۲ تا ۲٤ ) ۔
52: یہ ایک دوسرا استثنا ہے جس میں یہودیوں کے لیے بعض وہ چیزیں ممنوع کردی گئی تھیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں جائز تھیں۔ اور وہ یہ کہ یہودیوں کے لیے سنیچر کے دن معاشی سرگرمیاں ممنوع کردی گئی تھیں۔ پھر ان میں بھی اختلاف رہا کہ کچھ لوگوں نے اس پابندی پر عمل کیا اور کچھ نے نہیں کیا۔ بہر حال یہ بھی ایک استثنائی حکم تھا جو صرف یہودیوں کو دیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت اس سے خالی تھی۔ لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام قرار دیدے۔