حکمت سے مراد کتاب اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اللہ تعالیٰ رب العالمین اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ اللہ کی مخلوق کو اس کی طرف بلائیں ۔ حکمت سے مراد بقول امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اور اچھے وعظ سے مراد جس میں ڈر اور دھمکی بھی ہو کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں ۔ اور اللہ کے عذابوں سے بچاؤ طلب کریں ۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ اگر کسی سے مناظرے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ نرمی اور خوش لفظی سے ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ ڰ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَاِلٰـهُنَا وَاِلٰــهُكُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ 46 ) 29- العنكبوت:46 ) اہل کتاب سے مناظرے مجادلے کا بہترین طریقہ ہی برتا کرو الخ ۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی نرمی کا حکم ہوا تھا ۔ دونوں بھائیوں کو یہ کہہ کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا کہ اسے نرم بات کہنا تاکہ عبرت حاصل کرے اور ہوشیار ہو جائے ۔ گمراہ اور ہدایت یاب سب اللہ کے علم میں ہیں ۔ شقی و سعید سب اس پر واضح ہیں ۔ وہاں لکھے جا چکے ہیں اور تمام کاموں کے انجام سے فراغت ہو چکی ہے ۔ آپ تو اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہیں لیکن نہ ماننے والوں کے پیچھے اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالئے ۔ آپ ہدایت کے ذمے دار نہیں آپ صرف آگاہ کرنے والے ہیں ، آپ پر پیغام کا پہنچا دینا فرض ہے ۔ حساب ہم آپ لیں گے ۔ ہدایت آپ کے بس کی چیز نہیں کہ جسے محبوب سمجھیں ، ہدایت عطا کر دیں لوگوں کی ہدایت کے ذمے دار آپ نہیں یہ اللہ کے قبضے اور اس کے ہاتھ کی چیز ہے ۔
125۔ 1 اس میں تبلیغ ودعوت کے اصول بیان کئے گئے ہیں جو حکمت، اصلاحات کی مناسبت پر مبنی ہیں۔ جدال بالأحسن، درشتی اور تلخی سے بچتے ہوئے نرم ومشفقانہ لب و لہجہ اختیار کرنا ہے۔ 125۔ 2 یعنی آپ کا کام مذکورہ اصولوں کے مطابق وعظ و تبلیغ ہے، ہدایت کے راستے پر چلا دینا، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، اور وہ جانتا ہے کہ ہدایت قبول کرنے والا کون ہے اور کون نہیں ؟
[١٢٨] تبلیغ کے لئے داعی کو تین ہدایات :۔ یہاں سے خطاب رسول اللہ کی طرف ہے۔ اور اس آیت میں تبلیغ دین کے متعلق تین ہدایات دی گئی ہیں۔ پہلی ہدایت حکمت ہے حکمت کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو موقع محل دیکھ کر دعوت دی جائے۔ یعنی اس وقت دعوت دی جائے جب مخاطب کے دل میں سننے کی خواہش ہو اور وہ سننے کو تیار ہو اور دوسرے جو بات کہی جائے وہ مخاطب کے عقل و فہم کو ملحوظ رکھ کر کی جائے۔ عمدہ نصیحت سے مراد یہ ہے کہ جو بات آپ کہیں میٹھے اور دلنشیں انداز میں کہیں جو مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ عقلی دلیل کے ساتھ ترغیب و ترہیب اور جذبات کو اپیل کرنے والی باتوں کی طرف بھی توجہ دلائیں آپ کے دل میں اس کے لیے تڑپ ہونی چاہیے۔ حتیٰ کہ مخاطب یہ سمجھے کہ آپ فی الواقع اس کے ہمدرد ہیں۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ آپ مخاطب پر اپنی علمی برتری جتلانے اور اسے مرعوب کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپس میں دلائل سے بات کرنے کی نوبت آئے تو اس کی بات غور سے سنیں اور اپنی دلیل بھی شائستہ زبان میں پیش کریں اور اس کا مقصد افہام و تفہیم ہو۔ ایک دوسرے کو مات کرنا مقصود نہ ہو۔ اور اگر کج بحثی تک نوبت پہنچ جائے تو پھر بحث کو بند کردیں۔ کیونکہ اس صورت میں عین ممکن ہے مخاطب ضد میں آکر پہلے سے بھی زیادہ گمراہی میں مبتلا ہوجائے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو تین ہدایات، حکمت، موعظۃ الحسنہ اور جدال بالاحسن فرمائی ہیں۔ تو یہ سب الگ الگ تین قسم کے لوگوں کے لیے ہیں۔ یعنی مخالفین میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو اہل عقل و خرد ہوتے ہیں جو صرف معقول دلائل سے ہی قائل ہوسکتے ہیں۔ انھیں آپ حکیمانہ انداز میں دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کیجئے۔ دوسرے وہ لوگ جو زیادہ ذہین تو نہیں ہوتے مگر عقل سلیم رکھتے ہیں ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہوتے۔ انھیں پند و نصیحت اور انذار اور تبشیر سے سمجھائیے۔ یہی چیزان کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوگی۔ تیسرے وہ لوگ جو کج بحث، ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ ان سے آپ کو دلیل بازی سے کام لینا ہوگا۔ الزامی جوابات اور مناظرہ کی صورت بھی پیش آسکتی ہے لیکن ان سے بھی احسن طریقہ سے دلیل بازی کیجئے۔ انھیں صرف حقائق سے آگاہ کرنا آپ کے ذمہ ہے۔ منوا کے چھوڑنا آپ کے ذمہ نہیں۔ اور جب آپ دیکھیں کہ مخاطب کچھ سمجھنے کی بجائے ضد بازی پر اتر آیا ہے تو پھر اس سے اعراض کیجئے۔ اور ایسے لوگوں پر اپنا وقت اور محنت صرف نہ کیجئے۔ اس کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ فرمائیے جو حق کے متلاشی ہوں۔
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ : ” اُدْعُ “ کا مفعول یہاں مذکور نہیں کہ کسے دعوت دے، اس لیے مراد عام ہوگا، یعنی غیر مسلم اور مسلم سب کو دعوت دے۔ یا اسے فعل لازم کے قائم مقام قرار دیا جائے، اس وقت مراد یہ ہوگی کہ ہمیشہ دعوت دیتا رہ۔ رب کے راستے سے مراد اسلام اور اس کی تفصیلات ہیں۔ ” بِالْحِكْمَةِ “ ” حِکْمَۃٌ“ کا لفظ موقع کے مطابق کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، چناچہ قاموس میں اس کے یہ معانی لکھے ہیں :” اَلْعَدْلُ وَالْعِلْمُ وَالْحِلْمُ وَالنُّبُوَّۃُ وَالْقُرْآنُ وَالإِْنْجِیْلُ “ اور لکھا ہے کہ ” أَحْکَمَہُ “ کا معنی ” أَتْقَنَہُ “ ہے، یعنی اس نے اسے خوب پختہ اور مضبوط کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت دو چیزوں سے خالی نہیں ہونی چاہیے، ان میں سے ایک حکمت ہے، یعنی ایسی محکم اور پختہ دلیل جو حقیقت کے عین مطابق ہو، جس میں کوئی غلطی نہ ہو اور مخاطب کے نزدیک بھی مسلم ہو، خواہ وہ عناد کی وجہ سے اسے نہ مانے۔ اسے برہان بھی کہتے ہیں : (قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ البقرۃ : ١١١ ] ” کہہ دے لاؤ اپنی دلیل، اگر تم سچے ہو۔ “ اس لیے حکمت کو دلیل برہانی کہتے ہیں۔ - وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ : ” اچھی نصیحت “ سے مراد ایسی بات ہے جو مخاطب کے دل کو نیکی کے عمل کے لیے نرم کرے، یا بدی کے خلاف ابھار دے، ترغیب کے ذریعے سے یا ترہیب (ڈرانے) کے ساتھ، جیسا کہ فرمایا : (ۤ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا) [ النساء : ٦٣ ] ” سو تو ان سے دھیان ہٹا لے اور انھیں وعظ (نصیحت) کر اور ان سے ایسی بات کہہ جو ان کے دلوں میں بہت اثر کرنے والی ہو۔ “ اسے دلیل خطابی کہتے ہیں۔ دعوت کے اس اسلوب میں حسن و خوبی اور نرمی و ملائمت کو ملحوظ رکھنا اور بدزبانی و سخت کلامی سے پرہیز لازم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجا تو حکم دیا : ( فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى ) [ طٰہٰ : ٤٤ ] ” پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔ “ - وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ : دعوت کے دوران میں اگر حکمت اور موعظۂ حسنہ کے باوجود مخاطب بحث اور مجادلے (جھگڑے) پر اتر آئیں تو آپ بھی ان سے مجادلہ کریں، کیونکہ پھر اس کے بغیر چارہ نہیں، مگر یہ ہر حال میں احسن (زیادہ اچھا) ہونا چاہیے۔ کس سے احسن ؟ جواب یہ ہے کہ سب سے بہتر یا کم از کم ان کے مجادلے سے بہتر طریقے کے ساتھ ہو، کیونکہ باب مفاعلہ میں دو فریق ہوتے ہیں، یہاں ایک تم ہو اور ایک وہ، اس لیے احسن کا مطلب یہ ہوگا ان کے طریقے سے بہتر، جس میں گالی گلوچ اور ذاتی حملے وغیرہ نہ ہوں، بلکہ ایسی بات ہو جس سے وہ لاجواب ہوجائیں۔ انبیاء اور ان کے حقیقی وارث علماء کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے خاص طور پر نوازتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی والد کو حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ دعوت (دیکھیے مریم : ٤٢) ، پھر بت توڑ کر بت پرستوں کے ساتھ بحث میں ان کو لاجواب کرنا (دیکھیے انبیاء : ٥١ تا ٦٨) ، پھر سورج، چاند اور ستاروں کے پوجنے والوں کو بحث میں لاجواب کرنا (دیکھیے انعام : ٧٦ تا ٨٣) ، پھر بادشاہ وقت کو رب ہونے کے دعویٰ میں لاجواب کرنا (دیکھیے بقرہ : ٢٥٨) اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا مجادلہ و بحث میں لاجواب ہو کر عذاب لانے کا مطالبہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ (دیکھیے ہود : ٣٢) موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے مکالمے بھی اس کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ قرآن مجید مشرکین اور اہل کتاب سے مجادلۂ احسن پر مشتمل آیات سے بھرا پڑا ہے، بلکہ یہ قرآن مجید کے بنیادی مضامین میں سے ایک ہے۔ دیکھیے ” الفوز الکبیر “ از شاہ ولی اللہ۔ - بعض لوگوں نے کہا کہ اس قسم کی آیات مکی سورتوں میں ہیں، اس لیے یہ جہاد کے احکام کے ساتھ منسوخ ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ احکام اب بھی مؤثر ہیں اور اگر کوئی شخص حکمت، موعظۂ حسنہ اور مجادلۂ احسن کے بعد بھی نہ مانے تو اس کے لیے جہاد کا استثنا مکی سورتوں ہی میں موجود ہے۔ چناچہ سورة عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ ڰ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ ) [ العنکبوت : ٤٦ ] ” اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، مگر وہ لوگ جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا۔ “ ظاہر ہے کہ مجادلۂ احسن کے بعد بھی ظلم پر قائم رہنے والوں کے لیے جہاد کے سوا کیا علاج ہوسکتا ہے ؟ یہ ایک فطری حقیقت ہے جیسا کہ فند زِمّانی نے کہا ہے - فَلَمَّا صَرَّحَ الشَّرُّ- وَأَمْسٰی وَھُوَ عُرْیَانُ- وَلَمْ یَبْقَ سِوَی الْعُدْوَانِ- دِنَاھُمْ کَمَا دَانُوْا - ” پھر جب لڑائی بالکل ظاہر ہوگی اور ننگی ہو کر سامنے آگئی اور زیادتی کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو ہم نے بھی بدلے میں ان سے وہی کیا جو انھوں نے کیا تھا۔ “ بلکہ اس آیت سے اگلی آیت میں بھی جہاد کا ذکر موجود ہے، صرف غور کی ضرورت ہے۔ - اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ ۔۔ : اس آیت کے فوائد میں سے دو فائدے زیادہ ظاہر ہیں، ایک تو یہ کہ آپ کسی شخص کے ایمان نہ لانے پر اسے دعوت دینا ترک نہ کریں، آپ کو علم نہیں، ہوسکتا ہے وہ ان خوش نصیبوں میں سے ہو جنھیں ہدایت نصیب ہونی ہے، یہ علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا ” اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ “ (بےشک تیرا رب ہی اسے زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے بھٹکا ہوا ہے) تو آگے بظاہر اتنا ہی کہنا کافی تھا ” بِالْمُهْتَدِيْنَ “ (اور ہدایت پانے والوں کو بھی) مگر اللہ تعالیٰ نے ” هُوَ اَعْلَمُ “ کو دوبارہ ذکر فرمایا۔ مقصد یہ ہے کہ کافر لوگ بیشک اپنے آپ کو ہدایت یافتہ اور مسلمانوں کو گمراہ سمجھتے رہیں، مگر اصل گمراہ کون ہے اور اصل ہدایت یافتہ کون ہے، یہ علم تیرے رب ہی کے پاس ہے۔
خلاصہ تفسیر :- ربط آیات :- سابقہ آیات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کے اثبات سے مقصود یہ تھا کہ امت آپ کے احکام کی تعمیل کر کے رسالت کے حقوق ادا کریں مذکورہ آیات میں خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ادائے رسالت کے حقوق اور آداب کی تعلیم ہے جس کے غموم میں تمام مؤمنین شریک ہیں مختصر تفسیر یہ ہے :- آپ اپنے رب کی راہ (یعنی دین اسلام) کی طرف (لوگوں کو) حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلائیے (حکمت سے وہ طریقہ دعوت مراد ہے جس میں مخاطب کے احوال کی رعایت سے ایسی تدبیر اختیار کی گئی ہو جو مخاطب کے دل پر اثر انداز ہو سکے اور نصیحت سے مراد یہ ہے کہ خیرخواہی و ہمدردی کے جذبہ سے بات کہی جائے اور اچھی نصیحت سے مراد یہ ہے کہ عنوان بھی نرم ہو دل خراش توہین آمیز نہ ہو) اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے بحث کیجئے (یعنی اگر بحث مباحثے کی نوبت آجائے تو وہ بھی شدت اور خشونت سے اور مخاطب پر الزام تراشی اور بےانصافی سے خالی ہونا چاہئے بس اتنا کام آپ کا ہے پھر اس تحقیق میں نہ پڑیئے کہ کس نے مانا کس نے نہیں مانا یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے پس) آپ کا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو بھی جو اس کے راستہ سے گم ہوگیا اور وہی راہ پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے اور (اگر کبھی مخاطب علمی بحث و مباحثہ کی حد سے آگے بڑھ کر عملی جدال اور ہاتھ یا زبان سے ایذاء پہنچانے لگیں تو اس میں آپ کو اور آپ کے متبین کو بدلہ لینا بھی جائز ہے اور صبر کرنا بھی پس) اگر (پہلی صورت اختیار کرو یعنی) بدلہ لینے لگو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا ہے (اس سے زیادتی نہ کرو) اور اگر (دوسری صورت یعنی ایذاؤں پر) صبر کرو تو وہ (صبر کرنا) صبر کرنے والوں کے حق میں بہت ہی اچھی بات ہے (کہ مخالف پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور دیکھنے والوں پر بھی اور آخرت میں موجب اجر عظیم ہے) اور (صبر کرنا اگرچہ سبھی کے لئے بہتر ہے مگر آپ کی عظمت شان کے لحاظ سے آپ کو خصوصیت کے ساتھ حکم ہے کہ آپ انتقام کی صورت اختیار نہ کریں بلکہ) آپ صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا خدا ہی کی توفیق خاص سے ہے ّیعنی ان کے ایمان نہ لانے پر یا مسلمانوں کو ستانے) پر غم نہ کیجئے اور جو کچھ یہ تدبیریں کیا کرتے ہیں اس سے تنگدل نہ ہو جئے (ان کی مخالف تدبیروں سے آپ کا کوئی ضرر نہ ہوگا کیونکہ آپ کا احسان اور تقوی کی صفات حاصل ہیں اور) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے (یعنی ان کا مددگار ہوتا ہے) جو پرہیزگار ہوتے ہیں اور نیک کردار ہوتے ہیں۔- معارف و مسائل :- دعوت و تبلیغ کے اصول اور مکمل نصاب :- اس آیت میں دعوت و تبلیغ کا مکمل نصاب اس کے اصول اور آداب کی پوری تفصیل چند کلمات میں سموئی ہوئی ہے تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت ہرم ابن حیان کی موت کا وقت آیا تو عزیزوں نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ وصیت فرمائیے تو فرمایا کہ وصیت تو لوگ اموال کی کیا کرتے ہیں وہ میرے پاس ہے نہیں لیکن میں تم کو اللہ کی آیات خصوصا سورة نحل کی آخری آیتوں کی وصیت کرتا ہوں کہ ان پر مضبوطی سے قائم رہو۔ وہ آیات یہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔- دعوۃ کے لفظی معنی بلانے کے ہیں انبیاء (علیہم السلام) کا پہلا فرض منصبی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے پھر تمام تعلیمات نبوت و رسالت اسی دعوت کی تشریحات ہیں قرآن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاص صفت الی اللہ ہونا ہے، (آیت) وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا (احزاب ٤٦) يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ (احقاف ٣١)- امت پر بھی آپ کے نقش قدم پر دعوت الی اللہ کو فرض کیا گیا ہے سورة آل عمران میں ارشاد ہے۔- (آیت) وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران ١٠٤) تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دیں (یعنی) نیک کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں) اور ایک آیت میں ارشاد ہے :- (آیت) وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ۔ گفتار کے اعتبار سے اس شخص سے اچھا کون ہوسکتا ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا :- تعبیر میں کبھی اس لفظ کو دعوت الی اللہ کا عنوان دیا جاتا ہے اور کبھی دعوت الی الخیر کا اور کبھی دعوت الی سبیل اللہ کا حاصل سب کا ایک ہے کیونکہ اللہ کی طرف بلانے سے اس کے دین اور صراط مستقیم ہی کی طرف بلانا مقصود ہے۔- اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی خاص صفت رب اور پھر اس کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اضافت میں اشارہ ہے کہ دعوت کا کام صفت ربوبیت اور تربیت سے تعلق رکھتا ہے جس طرح حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ کی تربیت فرمائی آپ کو بھی تربیت کے انداز سے دعوت دینا چاہئے جس میں مخاطب کے حالات کی رعایت کر کے وہ طرز اختیار کیا جائے کہ مخاطب پر بار نہ ہو اور اس کی تاثیر زیادہ سے زیادہ ہو خود لفظ دعوت بھی اس مفہوم کو ادا کرتا ہے کہ پیغمبر کا کام صرف اللہ کے احکام پہنچا دینا اور سنا دینا نہیں بلکہ لوگوں کو ان کی تعمیل کی طرف دعوت دینا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی کو دعوت دینے والا اس کے ساتھ ایسا خطاب نہیں کیا کرتا جس سے مخاطب کو وحشت ونفرت ہو یا جس میں اس کے ساتھ استہزاء و تمسخر کیا گیا ہو۔- بِالْحِكْمَةِ لفظ حکمت قرآن کریم میں بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوا ہے اس جگہ بعض ائمہ تفسیر نے حکمت سے مراد قرآن کریم بعض نے قرآن وسنت بعض نے حجت قطیعہ کو قرار دیا ہے اور روح المعانی نے نے بحوالہ بحرمحیط حکمت کی تفسیر یہ کی ہے۔- انھا الکلام الصواب الواقع من اجمل موقع (روح) یعنی حکمت اس درست کلام کا نام ہے جو انسان کے دل میں۔ اس تفسیر میں تمام اقوال جمع ہوجاتے ہیں اور صاحب روح البیان نے بھی تقریبا یہی مطلب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ حکمت سے مراد وہ بصیرت ہے جس کے ذریعہ انسان مقتضیات احوال کو معلوم کر کے اس کے مناسب کلام کرے وقت اور موقعہ ایسا تلاش کرے کہ مخاطب پر بار نہ ہو نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی اختیار کرے اور جہاں یہ سمجھے کہ صراحۃ کہنے میں مخاطب کو شرمندگی ہوگی وہاں اشارات سے کلام کرے یا کوئی ایسا عنوان اختیار کرے کہ مخاطب کو نہ شرمندگی ہو اور نہ اس کے دل میں اپنے خیال پر جمنے کا تعصب پیدا ہو۔ - وَالْمَوْعِظَةِ موعظۃ اور وعظ کے لغوی معنی یہ ہے کہ کسی خیر خواہی کی بات کو ایسی طرح کہا جائے کہ اس سے مخاطب کا دل قبولیت کے لئے نرم ہوجائے مثلا اس کے ساتھ قبول کرنے کے ثواب و فوائد اور نہ کرنے کے عذاب ومفاسد ذکر کئے جائیں (قاموس ومفردات راغب)- الْحَسَنَةِ کے معنی یہ ہیں کہ بیان اور عنوان بھی ایسا ہو جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہو اس کے شکوک و شبہات دور ہوں اور مخاطب یہ محسوس کرے کہ آپ کی اس میں کوئی غرض نہیں صرف اس کی خیرخواہی کے لئے کہہ رہے ہیں،- مَوْعِظَةِ کے لفظ سے خیر خواہی کی بات مؤ ثر انداز میں کہنا تو واضح ہوگیا تھا مگر خیر خواہی کی بات بعض اوقات دل خراش عنوان سے یا اس طرح بھی کہی جاتی ہے جس سے مخاطب اپنی اہانت محسوس کرے (روح المعانی اس طریقہ کو چھوڑنے کے لئے حسنہ کا اضافہ کردیا گیا۔- (آیت) وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ لفظ جادل، مجادلہ سے مشتق ہے اس جگہ مجادلہ سے مراد بحث ومناظرہ ہے اور بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ سے مراد یہ ہے کہ اگر دعوت میں کہیں بحث ومناظرہ کی ضرورت پیش آجائے تو وہ مباحثۃ بھی اچھے طریقہ سے ہونا چاہئے روح المعانی میں ہے کہ اچھے طریقہ سے یہ مراد ہے کہ گفتگو میں لطف اور نرمی اختیار کی جائے دلائل ایسے پیش کئے جائیں جو مخاطب آسانی سے سمجھ سے دلیل میں یہ مقدمات پیش کئے جائیں جو مشہور و معروف ہوں تاکہ مخاطب کے شکوک دور ہوں اور وہ ہٹ دھرمی کے راستہ پر نہ جائے اور قرآن کریم کی دوسری آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ احسان فی المجادلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں اہل کتاب کے بارے میں تو خصوصیت کے ساتھ قرآن کا ارشاد ہے (آیت) وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ اور دوسری آیت میں حضرت موسیٰ وھارون (علیہما السلام) کو (آیت) فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا۔ کی ہدایت دے کر یہ بھی بتلا دیا کہ فرعون جیسے سرکش کافر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا ہے۔- دعوت کے اصول وآداب :- آیت مذکورہ میں دعوت کے تین چیزوں کا ذکر ہے۔- اول حکمت۔ دوسرے موعظۃ حسنہ تیسرے مجادلہ بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بنا پر ہیں دعوت بالحکمۃ اہل علم وفہم کے لئے دعوت بالموعظہ عوام کے لئے مجادلہ ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں شکوک و شبہات ہوں یا جو عناد اور ہٹ دھرمی کے سبب بات ماننے سے منکر ہوں۔- سیدی حضرت حکیم الامۃ تھانوی نے بیان القرآن میں فرمایا کہ ان تین چیزوں کے مخاطب الگ الگ تین قسم کی جماعتیں ہونا سیاق آیت کے لحاظ سے بعید معلوم ہوتا ہے انتہی۔- ظاہر یہ ہے کہ یہ آداب دعوت ہر ایک کے لئے استعمال کرنے ہیں کہ دعوت میں سب سے پہلے حکمت سے مخاطب کے حالات کا جائزہ لے کر اس کے مناسب کلام تجویز کرنا ہے پھر اس کلام میں خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ ایسے شواہد اور دلائل سامنے لانا ہے جن سے مخاطب مطمئن ہو سکے اور طرز بیان و کلام ایسا مشفقانہ اور نرم رکھنا ہے کہ مخاطب کو اس کا یقین ہوجائے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں میری ہی مصلحت اور خیرخواہی کے لئے کہہ رہے ہیں مجھے شرمندہ کرنا یا میری حیثیت کو مجروح کرنا ان کا مقصد نہیں۔- البتہ صاحب روح المعانی نے اس جگہ ایک نہایت لطیف نکتہ یہ بیان فرمایا کہ آیت کے نسق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول دعوت اصل میں دو ہی چیزیں ہیں حکمت اور موعظت تیسری چیز مجادلہ، اصول دعوت میں داخل نہیں ہاں طریق دعوت میں کبھی اس کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔- صاحب روح المعانی کا استدلال اس پر یہ ہے کہ اگر یہ تینوں چیزیں اصول دعوت ہوتیں تو مقتضائے مقام یہ تھا کہ تینوں چیزوں کو عطف کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاتا بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ والجدال الاحسن مگر قرآن حکیم نے حکمت وموعظت کو تو عطف کے ساتھ ایک ہی نسق میں بیان فرمایا اور مجادلہ کے لئے الگ جملہ وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭاختیار کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجادلہ فی العلم دراصل دعوت الی اللہ کا رکن یا شرط نہیں بلکہ طریق دعوت میں پیش آنے والے معاملات کے متعلق ایک ہدایت ہے جیسا کہ اس کے بعد کی آیت میں صبر کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ طریق دعوت میں لوگوں کی ایذاؤں پر صبر کرنا ناگزیر ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اصول دعوت دو چیزیں ہیں حکمت اور موعظت جن سے کوئی دعوت خالی نہ ہونا چاہئے خواہ علماء و خواص کو ہو یا عوام الناس کو البتہ دعوت میں کسی وقت ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑجاتا ہے جو شکوک واوہام میں مبتلا اور داعی کے ساتھ بحث مباحثہ پر آمادہ ہیں تو ایسی حالت میں مجادلہ کی تعلیم دی گئی مگر اس کے ساتھ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭکی قید لگا کر بتلا دیا کہ جو مجادلہ اس شرط سے خالی ہو اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔- دعوت الی اللہ کے پیغمبرانہ آداب :- دعوت الی اللہ دراصل انبیاء (علیہم السلام) کا منصب ہے امت کے علماء اس منصب کو ان کا نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں تو لازم یہ ہے کہ اس کے آداب اور طریقے بھی انہی سے سیکھیں جو دعوت ان طریقوں پر نہ رہے وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ وجدال کا موجب ہوجاتی ہے۔- دعوت پیغمبرانہ کے اصول میں جو ہدایت قرآن کریم میں حضرت موسیٰ و ہارون کے لئے نقل کی گئی ہے کہ (آیت) فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى یعنی فرعون سے نرم بات کرو شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے یہ ہر داعی حق کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے کہ فرعون جیسا سرکش کافر جس کی موت بھی علم الہی میں کفر ہی پر ہونے والی تھی اس کی طرف بھی جب اللہ تعالیٰ اپنے داعی کو بھیجتے ہیں تو نرم گفتار کی ہدایت کے ساتھ بھیجتے ہیں آج ہم جن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ فرعون سے زیادہ گمراہ نہیں اور ہم میں سے کوئی موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کے برابر ہادی وداعی نہیں تو جو حق تعالیٰ نے اپنے دونوں پیغمبروں کو نہیں دیا کہ مخاطب سے سخت کلامی کریں اس پر فقرے کسیں اس کی توہین کریں وہ حق تعالیٰ ہمیں کہاں سے حاصل ہوگیا۔- قرآن کریم انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت و تبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھرا ہوا ہے اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ کسی اللہ کے رسول نے حق کے خلاف ان پر طعنہ زنی کرنیوالوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو اس کی چند مثالیں دیکھئے۔- سورة اعراف کے ساتویں رکوع میں آیات ٥٩ سے ٦٧ تک دو پیغمبر حضرت نوح اور حضرت ہود (علیہما السلام) کے ساتھ ان کی قوم کے مجادلے اور سخت سست الزامات کے جواب میں ان بزرگوں کے کلمات قابل ملاحظہ ہیں۔- حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے وہ الوالعزم پیغمبر ہیں جن کی طویل عمر دنیا میں مشہور ہے ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کی دعوت و تبلیغ اصلاح و ارشاد میں دن رات مشغول رہے مگر اس بدبخت قوم میں سے معدودے چند کے علاوہ کسی نے ان کی بات نہ مانی اور تو اور خود ان کا ایک لڑکا اور بیوی کافروں کے ساتھ لگے رہے ان کی جگہ آج کا کوئی مدعی دعوت و اصلاح ہوتا تو اس قوم کے ساتھ اس کا لب و لہجہ کیسا ہوتا اندازہ لگائیے پھر دیکھئے کہ ان کی تمام ہمدردی وخیر خواہی کی دعوت کے جواب میں قوم نے کیا کہا۔- (آیت) اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (اعراف) ہم تو آپ کو کھلی ہوئی گمراہی میں پاتے ہیں۔- ادھر سے اللہ کے پیغمبر بجائے اس کے کہ اس سرکش قوم کی گمراہیوں، بدکاریوں کا پردہ چاک کرتے جواب میں کیا فرماتے ہیں۔- (آیت) يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ ضَلٰلَةٌ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ میرے بھائیو مجھ میں کوئی گمراہی نہیں میں تو رب العلمین کا رسول اور قاصد ہوں (تمہارے فائدہ کی باتیں بتلاتا ہوں)- ان کے بعد آنے والے دوسرے اللہ کے رسول حضرت ہود (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے معجزات دیکھنے کے باوجود از راہ عناد کہا کہ آپ نے اپنے دعوے پر کوئی دلیل پیش نہیں کی اور ہم آپ کے کہنے سے اپنے معبودوں (بتوں) کو چھوڑنے والے نہیں ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم نے جو ہمارے معبودوں کی شان میں بےادبی کی ہے اس کی وجہ سے تم جنون میں مبتلا ہوگئے ہو حضرت ہود (علیہ السلام) نے یہ سب کچھ سن کر جواب دیا۔- اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَاشْهَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ یعنی میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان بتوں سے بری اور بیزار ہوں جن کو تو اللہ کا شریک مانتے ہو ( سورة ہود)- اور سورة اعراف میں ہے کہ ان کی قوم نے ان کو کہا :- اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ (اعراف) ہم تو آپ کو بیوقوفی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں۔- قوم کے اس دل آزار خطاب کے جواب میں اللہ کے رسول ہود (علیہ السلام) نہ ان پر کوئی فقرہ کستے ہیں نہ ان کی بےراہی اور کذب وافترا علی اللہ کی کوئی بات کہتے ہیں جواب کیا ہے صرف یہ کہ - (آیت) يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ سَفَاهَةٌ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ (اعراف) اے میری برادری کے لوگو مجھ میں بےوقوفی یا کم عقلی نہیں میں تو رب العلمین کا رسول ہوں۔- حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کو حسب دستور انبیاء اللہ کی طرف دعوت دی اور ان میں جو بڑا عیب ناپ تول میں کمی کرنے کا تھا اس سے باز آنے کی ہدایت فرمائی تو ان کی قوم نے تمسخر کیا اور توہین آمیز خطاب کیا)- (آیت) يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤ ُ نَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤ ُ ا ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور یہ کہ جن اموال کے ہم مالک ہیں ان میں اپنی مرضی کے موافق جو چاہیں نہ کریں واقعی آپ ہیں بڑے عقلمند دین پر چلنے والے۔- انہوں نے ایک تو یہ طعنہ دیا کہ تم جو نماز پڑھتے ہو یہی تمہیں بےوقوفی کے کام سکھاتی ہے دوسرے یہ کہ مال ہمارے ہیں ان کی خریدو فروخت کے معاملات میں تمہارا یا خدا کا کیا دخل ہے ہم جس طرح چاہیں ان میں تصرف کا حق رکھتے ہیں تیسرا جملہ تمسخر و استہزاء کا یہ کہا کہ آپ ہیں بڑی عقلمند بہت دین پر چلنے والے۔- معلوم ہوا کہ یہ لا دینی معاشیات کے پجاری صرف آج نہیں پیدا ہوئے ان کے بھی کچھ اسلاف ہیں جن کا نظریہ وہی تھا جو آج کے بعض نام کے مسلمان کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اسلام مانتے ہیں مگر معاشیات میں ہم سوشل ازم کو اختیار کرتے ہیں اس میں اسلام کا کیا دخل ہے بہرحال اس ظالم قوم کے اس مسخرے پن اور دل آزار گتفگو کا جواب اللہ کا رسول کیا دیتا ہے دیکھئے :- (آیت) قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَرَزَقَنِيْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَـنًا ۭ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا باللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ ( سورة ھود آیت ٨٨) اے میری قوم بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھ کو اپنی طرف سے عمدہ دولت یعنی نبوت دی ہو تو پھر میں کیسے اس کی تبلیغ نہ کروں اور میں خود بھی تو اس کے خلاف کوئی عمل نہیں کرتا جو تمہیں بتلاتا ہوں میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میری قدرت میں ہے اور مجھ کو جو کچھ اصلاح اور عمل کی توفیق ہوجاتی ہے وہ صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور تمام امور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجنے کے وقت جو نرم گفتار کی ہدایت منجانب اللہ دی گئی تھی اس کی پوری تعمیل کرنے کے باوجود فرعون کا خطاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ تھا۔- (آیت) قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِـنِيْنَ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِيْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ( سورة شعراء) فرعون کہنے لگا (اہا تم ہو) کیا ہم نے تم کو بچپن میں پرورش نہیں کیا اور تم اس عمر میں برسوں ہمارے پاس رہا سہا کئے اور تم نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی جو کی تھی (یعنی قبطی کو قتل کیا تھا) اور تم بڑی ناشکرے ہو۔ - اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنا یہ احسان بھی جتلایا کہ بچپن میں ہم نے تجھے پالا ہے پھر یہ احسان بھی جتلایا کہ بڑے ہونے کے بعد بھی کافی مدت تک تم ہمارے پاس رہے پھر یہ عتاب کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے جو ایک قبطی بغیر ارادہ قتل کے مارا گیا تھا اس پر غصہ وناراضی کا اظہار کر کے یہ بھی کہا کہ تم کافروں میں سے ہوگئے۔- یہاں کافروں میں سے ہونے کے لغوی معنی بھی ہو سکتے ہیں یعنی ناشکری کرنے والا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے تم پر احسانات کئے اور تم نے ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا جو احسان کی ناشکری تھی اور اصطلاحی معنی بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ فرعون خود خدائی کا دعویدار تھا تو جو اس کی خدائی کا منکر ہوا وہ کافر ہوا۔- اب اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب سنئے جو پیغمبرانہ آداب دعوت اور پیغمبرانہ اخلاق کا شاہکار ہے کہ اس میں سب سے پہلے تو اس کمزوری اور کوتاہی کا اعتراف کرلیا جو ان سے سرزد ہوگئی تھی یعنی اسرائیلی آدمی سے لڑنے والے قبطی کو ہٹانے کے لئے ایک مکا اس کے مارا تھا جس سے وہ مرگیا تو گو یہ قتل عمدا ارادۃ نہیں تھا مگر کوئی دینی تقاضا بھی نہیں تھا بلکہ شریعت موسوی کے لحاظ سے بھی وہ شخص قتل کا مستحق نہیں تھا اس لئے پہلے یہ اعتراف فرمایا۔- فَعَلْتُهَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ( سورة شعراء) یعنی میں نے یہ کام اس وقت کیا تھا جبکہ میں ناواقف تھا۔- مراد یہ ہے کہ یہ فعل عطاء نبوت سے پہلے سرزد ہوگیا تھا جب کہ مجھے اس بارے میں اللہ کا کوئی حکم معلوم نہیں تھا اس کے بعد فرمایا۔- فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ( سورة شعراء) پھر مجھ کو ڈر لگا تو میں تمہارے یہاں سے مفرور ہوگیا پھر مجھ کو میرے رب نے دانشمندی عطا فرمائی اور مجھ کو اپنی پیغمبروں میں شامل کردیا۔- پھر اس کے احسان جتلانے کا جواب یہ دیا کہ تمہارا یہ احسان جتانا صحیح نہیں کیونکہ میری پرورش کا معاملہ تمہارے ہی ظلم وعدوان کا نتیجہ تھا کہ تم نے اسرائیلی بچوں کے قتل کا حکم دے رکھا تھا اس لئے والدہ نے مجبور ہو کر مجھے دریا میں ڈالا اور تمہارے گھر تک پہنچنے کی نوبت آئی فرمایا۔- وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ( سورة شعراء) (رہا احسان جتلانا پرورش کا) وہ نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان رکھتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت میں ڈال رکھا تھا۔- اس کے بعد فرعون نے جب سوال کیا وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی رب العالمین کون ہے اور کیا ہے ؟ تو جواب میں فرمایا کہ وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس سب کا اس پر فرعون نے بطور استہزاء کے حاضرین سے کہا اَلَا تَسْمَعُوْنَ یعنی تم سن رہے ہو کہ یہ کیسی بےعقلی کی باتیں کہہ رہے ہیں اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا۔- (آیت) رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ (یعنی تمہارا اور تمہارے باپ دادوں کا بھی وہی رب پروردگار ہے۔- اس پر فرعون نے جھنجھلا کر کہا :- (آیت) اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ یعنی یہ جو تمہاری طرف اللہ کے رسول ہونے کا مدعی ہے وہ دیوانہ ہے۔- مجنون دیوانہ کا خطاب دینے پر بھی موسیٰ (علیہ السلام) بجائے اس کے کہ ان کا دیوانہ ہونا اور اپنا عاقل ہونا ثابت کرتے اس طرف کوئی التفات ہی نہیں کیا بلکہ اللہ رب العلمین کی ایک اور صفت بیان فرما دی۔- (آیت) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۭاِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ( سورة شعراء) وہ رب ہے مشرق و مغرب کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اگر تم کو کچھ عقل ہو۔ - یہ ایک طویل مکالمہ ہے جو فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہو رہا ہے جو سورة شعراء کے تین رکوع میں بیان ہوا ہے اللہ کے مقبول رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس مکالمہ کو اول سے آخر تک دیکھئے نہ کہیں جذبات کا اظہار ہے نہ اس کی بدگوئی کا جواب ہے نہ اس کی سخت کلامی کے جواب میں کوئی سخت کلمہ ہے بلکہ مسلسل اللہ جل شانہ کی صفات کمال کا بیان ہے اور تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔- یہ مختصر سا نمونہ ہے انبیاء (علیہم السلام) کے مجادلات کا جو اپنے معاند اور ضدی قوم کے مقابلہ میں کئے گئے ہیں اور مجادلہ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ جو قرآن کی تعلیم ہے اس کی عملی تشریح ہے۔- مجادلات کے علاوہ دعوت و تبلیغ میں ہر مخاطب اور ہر موقع کے مناسب کلام کرنے میں حکیمانہ اصول اور عنوان و تعبیر میں حکمت و مصلحت کی رعایتیں بھی جو انبیاء (علیہم السلام) نے اختیار فرمائی ہیں اور دعوت الی اللہ کو مقبول ومؤ ثر اور پائیدار بنانے کے لئے جو طرز عمل اختیار فرمایا ہے وہی دراصل دعوت کی روح ہے اس کی تفصیلات تو تمام تعلیمات نبوی (علیہ السلام) میں پھیلی ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند چیزیں دیکھئے۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت میں اس کا بڑا لحاظ رہتا تھا کہ مخاطب پر بار نہونے پائے صحابہ کرام (رض) اجمعین جیسے عشاق رسول جن سے کسی وقت بھی اس کا احتمال نہ تھا کہ وہ آپ کی باتیں سننے سے اکتا جائیں گے ان کے لئے بھی آپ کی عادت یہ تھی کہ وعظ و نصیحت روزانہ نہیں بلکہ ہفتہ کے بعض دنوں میں فرماتے تھے تاکہ لوگوں کے کاروبار کا حرج اور ان کی طبیعت پر بار نہ ہو۔- صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہفتہ کے بعض ایام ہی میں وعظ فرماتے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں اور دوسروں کو بھی آپ کی طرف سے یہی ہدایت تھی - حضرت انس (رض) کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- یسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا (صحیح بخاری کتاب العلم) لوگوں پر آسانی کرو دشواری نہ پیدا کرو اور ان کو اللہ کی رحمت کی خوشخبری سناؤ مایوس یا متنفر نہ کرو۔ - حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں تمہیں چاہئے کہ ربانی حکماء علماء اور فقہاء بنو۔ صحیح بخاری میں یہ قول نقل کر کے لفظ ربانی کی یہ تفسیر فرمائی کہ جو شخص دعوت و تبلیغ اور تعلیم میں تربیت کے اصول کو ملحوظ رکھ کر پہلے احکام بتلائے جو ابتدائی مرحلے میں مشکل ہوتے وہ عالم ربانی ہے آج کل جو وعظ و تبلیغ کا اثر بہت کم ہوتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عموما اس کام کرنے والے ان اصول و اداب کی رعایت نہیں کرتے لمبی تقریریں وقت بےوقت نصحیت مخاطب کے حالات کو معلوم کئے بغیر اس کو کسی کام پر مجبور کرنا ان کی عادت بن گئی ہے۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت و اصلاح کے کام میں اس کا بھی بڑا اہتمام تھا کہ مخاطب کی سبکی یا رسوائی نہ ہو اسی لئے جب کسی شخص کو دیکھتے کہ کسی غلط اور برے کام میں مبتلا ہے تو اس کو براہ راست خطاب کرنے کے بجائے مجمع عام کو مخاطب کر کے فرماتے تھے۔- مابال اقوام یفعلون کذا : لوگوں کو کیا ہوگیا کہ فلاں کام کرتے ہیں۔- اس عام خطاب میں جس کو سنانا اصل مقصود ہوتا وہ بھی سن لیتا اور دل میں شرمندہ ہو کر اس کے چھوڑنے کی فکر میں لگ جاتا۔- انبیاء (علیہم السلام) کی عام عادت یہی تھی کہ مخاطب کو شرمندگی سے بچاتے تھے اسی لئے بعض اوقات جو کام مخاطب سے سرزد ہوا ہے اسی کو اپنی طرف منسوب کر کے اصلاح کی کوشش فرماتے۔ سورة یسین میں ہے وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ یعنی مجھے کیا ہوگیا کہ میں اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت نہ کروں ظاہر ہے کہ یہ قاصد رسول تو ہر وقت عبادت میں مشغول تھے سنانا اس مخاطب کو تھا جو مشغول عبادت نہیں ہے مگر اس کام کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔- اور دعوت کے معنی دوسرے کو اپنے پاس بلانا ہے محض اس کے عیب بیان کرنا نہیں اور یہ بلانا اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ متکلم اور مخاطب میں کوئی اشتراک ہو اسی لئے قرآن عزیز میں انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کا عنوان اکثر یا قوم سے شروع ہوتا ہے جس میں برادرانہ رشتہ کا اشتراک پہلے جتلا کر اگے اصلاحی کلام کیا جاتا ہے کہ ہم تم تو ایک ہی برادری کے آدمی ہیں کوئی منافرت نہیں ہونی چاہئے یہ کہہ کر ان کی اصلاح کا کام شروع فرماتے ہیں۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو دعوت کا خط ہرقل شاہ روم کے نام بھیجا اس میں اول تو شاہ روم کو عظیم الروم کے لقب سے یاد فرمایا جس میں اس کا جائز اکرام ہے کیونکہ اس میں اس کے عظیم ہونے کا اقرار بھی ہے مگر رومیوں کے لئے اپنے لئے نہیں اس کے بعد ایمان کی دعوت اس عنوان سے دی گئی۔- (آیت) تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ ( سورة آل عمران) جس میں پہلے آپس کا ایک مشترک نقطہ و حدت ذکر کیا کہ توحید کا عقیدہ ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اس کے بعد عیسائیوں کی غلطی پر متنبہ فرمایا۔- تعلیمات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دھیان دیا جائے تو ہر تعلیم دعوت میں اسی طرح کہ آداب و اصول ملیں گے آج کل اول تو دعوت و اصلاح اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی طرف دھیان ہی نہ رہا اور جو اس میں مشغول بھی ہیں انہوں نے صرف بحث و مباحثہ اور مخالف پر الزام تراشی فقرے کسنے اور اس کی تحقیر و توہین کرنے کو دعوت و تبلیغ سمجھ لیا ہے جو خلاف سنت ہونے کی وجہ سے کبھی مؤ ثر ومفید نہیں ہوتا وہ سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی بڑی خدمت کی اور حقیقت میں وہ لوگوں کو متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔- مروجہ مجادلات کی دینی اور دنیوی مضرتیں :- آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اصل مقصود شرع دعوت الی اللہ ہے۔ جس کے دو اصول ہیں حکمت موعظت حسنہ مجادلہ کی صورت کبھی سر آپڑے تو اس کے لئے بھی احسن کی قید لگا کر اجازت دے دیگئی ہے مگر وہ حقیقۃ دعوت کا کوئی شعبہ نہیں بلکہ اس کے منفی پہلو کی ایک تدبیر ہے جس میں قرآن کریم میں بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ کی قید لگا کر جس طرح یہ بتلا دیا ہے کہ وہ نرمی خیر خواہی اور ہمدری کے جذبے سے ہونا چاہئے اور اس میں دلائل واضحہ مخاطب کے مناسب حال بیان کرنا چاہئے مخاطب کی توہین و تحقیر سے کلی اجتناب کرنا چاہئے اسی طرح اس کے احسن ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خود متکلم کے لئے مضر نہ ہوجائے کہ اس میں اخلاق رذیلہ حسد بغض تکبر جاہ پسندی وغیرہ پیدا نہ ہوجائے جو باطنی گناہ کبیرہ ہیں اور آج کل کے بحث و مباحثہ مناضرہ مجادلہ میں شاذو نادر ہی کوئی اللہ کا بندہ ان سے نجات پائے تو ممکن ہے ورنہ عادۃ ان سے بچنا سخت دشوار ہے۔- امام غزالی نے فرمایا کہ جس طرح شراب ام الخبائث ہے کہ خود بھی بڑا گناہ ہے اور دوسرے بڑے بڑے جسمانی گناہوں کا ذریعہ بھی ہے اسی طرح بحث و مباحثہ میں جب مقصود مخاطب پر غلبہ پانا اور اپنا علمی تفوق لوگوں پر ظاہر کرنا ہوجائے تو وہ بھی باطن کے لئے ام الخبائث ہے جس کے نتیجہ میں بہت سی روحانی جرائم پیدا ہوتے ہیں مثلا حسد بغض تکبر غیبت دوسرے کے عیوب کا تجسس اس کی برائی سے خوش اور بھلائی سے رنجیدہ ہونا قبول حق سے استکبار دوسرے کے قول پر انصاف اعتدال کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جواب دہی کی فکر خواہ اس میں قرآن وسنت میں کیسی ہی تاویلات کرنا پڑیں یہ تو وہ مہلکات ہیں جن میں باوقار علماء ہی مبتلاء ہوتے ہیں اور معاملہ جب ان کے متبعین میں پہنچتا ہے تو دست و گریبان اور جنگ وجدال کے معرکے گرم ہوجاتے ہیں انا للہ حضرت امام شافعی نے فرمایا :- علم تو اہل علم وفضل کے مابین ایک رحم متصل (رشتہ اخوت و برادری) ہے تو وہ لوگ جنہوں نے علم ہی کو عداوت بنا لیا ہے وہ دوسروں کو اپنے مذہب کی اقتداء کی دعوت کس طرح دیتے ہیں ان کے پیش نظر دوسرے پر غلبہ پانا ہی ہے تو پھر ان سے باہمی انس ومودت اور مروت کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے اور ایک انسان کے لئے اس سے بڑھ کر شر اور برائی اور کیا ہوگی کہ وہ اس کو منافقین کے اخلاق میں مبتلا کردے اور مؤمنین ومتقین کے اخلاق سے محروم کر دے۔- امام عزالی نے فرمایا کہ علم دین اور دعوت حق میں اشتغال رکھنے والا یا تو اصول صحیحہ کے تابع اور مہلک خطرات سے متجنب رہ کر سعادت ابدی حاصل کرلیتا ہے یا پھر اس مقام سے گرتا ہے تو شقاوت ابدی کی طرف جاتا ہے اس کا درمیان میں رہنا بہت مستبعد ہے کیونکہ جو علم نافع نہ ہو وہ عذاب ہی ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔- اشد الناس عذابا یوم القیمۃ عالم لم ینفعہ اللہ بعلمہ۔ سب سے سخت عذاب میں قیامت کے دن وہ عالم ہوگا جس کے علم سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نفع نہ بخشا ہو۔ - ایک دوسری حدیث صحیح میں ہے :- لاتتعلموا العلم لتباھوا بہ العلمآء ولتماروابہ السفھآء ولتصرفوا بہ وجوہ الناس الیکم فمن فعل ذلک فھو فی النار (ابن حدیث جابر باسناد صحیح کذا فی تخریج العراقی علی الاحیاء) علم دین کو اس غرض سے نہ سیکھو کہ اس کے ذریعہ دوسرے علماء کے مقابلہ میں فخر و عزت حاصل کرو یا کم علم لوگوں سے جھگڑے کرو یا اس کے ذریعہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرلو اور جو ایسا کرے گا وہ آگ میں ہے۔- اسی لئے ائمہ فقہاء اور اہل حق کا مسلک اس معاملے میں یہ تھا کہ علمی مسائل میں جھگڑا اور جدال ہرگز جائز نہیں سمجھتے تھے دعوت حق کے لئے اتنا کافی ہے کہ جس کو خطاء پر سمجھے اس کو نرمی اور خیر خواہی کے عنوان سے دلائل کے ساتھ اس کی خطاء پر متنبہ کر دے پھر وہ قبول کرلے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کرے جھگڑے اور بدگوئی سے کلی احتراز کرے حضرت امام مالک کا ارشاد ہے۔- کان مالک یقول المرآء و الجدال فی العلم یذھب بنور العلم عن قلب العبد وقیل لہ رجل لہ علم بالسنۃ فہل یجادل عنہا قال لا ولکن یخبر بالسنۃ فان قبل منہ والا سکت (او جزالمسالک شرح مؤ طا ص ١٥ ج ١) امام مالک نے فرمایا کہ علم میں جھگڑا اور جدال نور علم کو انسان کے قلب سے نکال دیتا ہے کسی نے عرض کیا کہ ایک شخص جس کو سنت کا علم ہو کیا وہ حفاظت سنت کیلئے جدال کرسکتا ہے فرمایا نہیں بلکہ اس کو چاہئے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کر دے پھر وہ قبول کرلے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کرے اس زمانے میں دعوت و اصلاح کا کام پوری طرح مؤ ثر نہ ہونے کے دو سبب ہیں۔ ایک تو یہ کہ فساد زمانہ اور حرام چیزوں کی کثرت کے سبب عام طور پر لوگوں کے قلوب سخت اور آخرت سے غافل ہوگئے ہیں اور قبول حق کی توفیق کم ہوگئی ہے اور بعض تو اس قہر میں مبتلا ہیں جس کی خبر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی تھی کہ آخر زمانے میں بہت سے لوگوں کے قلوب اوندھے ہوجائیں گے بھلے برے کی پہچان اور جائز و ناجائز کا امتیاز ان کے دل سے اٹھ جائے گا۔- اور دوسرے سبب یہ کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دعوت حق کے فرائض سے غفلت عام ہوگئی ہے عوام کا تو کیا ذکر خواص علماء وصلحاء میں اس ضرورت کا احساس بہت کم ہے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اپنے اعمال درست کر لئے جائیں تو یہ کافی ہے خواہ ان کی اولاد بیوی بھائی دوست احباب کیسے ہی گناہوں میں مبتلا رہیں ان کی اصلاح کی فکر گویا ان کے ذمہ ہی نہیں حالانکہ قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ ہر شخص کے ذمہ اپنے اہل و عیال اور متعلقین کی اصلاح کو فرض قرار دے رہی ہیں قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا اور پھر اگر کچھ لوگ دعوت و اصلاح کے فریضہ کی طرف توجہ دیتے بھی ہیں تو وہ قرآنی تعلیمات اور دعوت پیغمبرانہ کے اصول وآداب سے ناآشنا ہیں بےسوچے سمجھے جس کو جس وقت جو چاہا کہہ ڈالا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے حالانکہ یہ طرز عمل سنت انبیاء کے خلاف ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دین اور احکام دین پر عمل کرنے سے اور زیادہ دور پھینک دیتا ہے۔- خصوصا جہاں کسی دوسرے پر تنقید کا نام لے کر تنقیص اور استہزاء و تمسخر تک پہنچ جاتے ہیں حضرت امام شافعی نے فرمایا :- جس شخص کو کسی غلطی پر متنبہ کرنا ہے اگر تم نے اس کو تنہائی میں نرمی کے ساتھ سمجھایا تو یہ نصیحت ہے اور اگر علانیہ لوگوں کے سامنے اس کو رسوا کیا تو یہ فضیحت ہے۔- آج کل تو ایک دوسرے کے عیوب کو اخباروں اشتہاروں کے ذریعے منظر عام پر لانے کو دین کی خدمت سمجھ لیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین اور اس کی دعوت کی صحیح بصیرت اور آداب کے مطابق اس کی توفیق عطا فرمائیں۔- یہاں تک دعوت کے اصول اور آداب کا بیان ہوا اس کے بعد فرمایا (آیت) اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۚ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ یہ جملہ داعیان دین کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا ہے کیونکہ مذکور الصدر آداب دعوت کو استعمال کرنے باوجود جب مخاطب حق بات کو قبول نہ کرے تو طبعی طور پر انسان کو سخت صدمہ پہنچتا ہے اور بعض اوقات اس کا یہ اثر بھی ہوسکتا ہے کے کہ دعوت کا فائدہ نہ دیکھ کر آدمی پر مایوسی طاری ہوجائے اور کام ہی چھوڑ بیٹھے اس لئے اس جملے میں یہ فرمایا کہ آپ کا کام صرف دعوت حق کو اصول صحیحہ کے مطابق ادا کردینا ہے آگے اس کو قبول کرنا یا نہ کرنا اس میں نہ آپ کا کوئی دخل ہے نہ آپ کی ذمہ داری وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے وہی جانتا ہے کہ کون گمراہ رہے گا اور کون ہدایت پائے گا آپ اس فکر میں نہ پڑیں اپنا کام کرتے رہیں اس میں ہمت نہ ہاریں مایوس نہ ہوں اس سے معلوم ہوا کہ یہ جملہ بھی آداب دعوت ہی کا تکملہ ہے۔
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ١٢٥- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کاموں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
(١٢٥) اور آپ اپنے پروردگار کے دین کی طرف قرآن حکیم اور قرآن حکیم کی نصیحت آمیز آیتوں کے ذریعے سے لوگوں کو بلائیے اور ان کے ساتھ قرآن کریم اور کلمہ لا الہ الا اللہ “۔ کے طریقہ سے بحث کیجیے آپ کا رب اس شخص کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو اس کے دین سے گمراہ ہوا اور وہی اپنے دین پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
آیت ١٢٥ (اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ )- یہ دعوت الی الحق کا طریقہ اور اس کے آداب کا ذکر ہے جیسا کہ سورة یوسف ‘ آیت ١٠٨ میں فرمایا گیا : (قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِقف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ) ” ( اے نبی ) آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ میں خود بھی اور میرے پیروکار بھی (اس راستے پر گامزن ہیں) ۔ “ - (اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ )- اپنے موضوع کے حوالے سے یہ بہت عظیم آیت ہے۔ اس میں انسانی معاشرے کے اندر انسانوں کی تین بنیادی اقسام کے حوالے سے دعوت دین کے تین مدارج بیان کیے گئے ہیں ‘ مگر عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اور تشریح کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔- کسی بھی معاشرے میں علم و دانش کی بلند ترین سطح پر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس معاشرے کا دانشور طبقہ ( ) یا ذہین اقلیت ( ) کہا جاتا ہے۔ اس طبقے کی حیثیت اس معاشرے یا قوم کے دماغ کی سی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے بہت چھوٹی اقلیت پر مشتمل ہوتے ہیں مگر کسی معاشرے کی مجموعی سوچ اور اس کے مزاج کا رخ متعین کرنے میں ان کا کردار یا حصہ فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جذباتی تقاریر اور خوش کن وعظ متاثر نہیں کرسکتے ‘ بلکہ ایسے لوگ کسی سوچ یا نظر یے کو قبول کرتے ہیں تو مصدقہ علمی و منطقی دلیل سے قبول کرتے ہیں اور اگر رد کرتے ہیں تو ایسی ہی ٹھوس دلیل سے رد کرتے ہیں۔ - آیت زیر نظر میں بیان کردہ پہلا درجہ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے اور وہ ہے ” حکمت “۔ یہ علم و عقل کی پختگی کی بہت اعلیٰ سطح ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ٢٦٩ میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کو ’ خیر کثیر ‘ قرار دیا ہے : (وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا) ۔ قرآن میں تین مقامات (البقرۃ ١٢٩ ‘ آل عمران : ١٦٤ اور الجمعہ : ٢) پر ان مراحل اور درجات کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تحت حضور نے اپنے صحابہ کی تربیت فرمائی۔ ان میں بلند ترین مرحلہ یا درجہ حکمت کا ہے۔ حکمت کے سبب کسی انسان کی سوچ اور علم میں پختگی آتی ہے ‘ اس کی گفتگو میں جامعیت پیدا ہوتی ہے اور اس کی تجزیاتی اہلیت بہتر ہوجاتی ہے۔ اس طرح وہ کسی سے بات کرتے ہوئے یا کسی کو دین کی دعوت دیتے ہوئے معروضی صورت حال ‘ مخاطب کے ذہنی رجحان اور ترجیحات کا درست تجزیہ کرنے کے بعد اپنی گفتگو کے نکات اور دلائل کو ترتیب دیتا ہے۔ اسے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ کس وقت اسے کیا پیش کرنا ہے اور کس انداز میں پیش کرنا ہے۔ کون سا نکتہ بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے اور کون سی دلیل ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ بہر حال کسی بھی معاشرے کے وہ لوگ جو علم ‘ عقل اور شعور میں غیر معمولی اہلیت کے حامل ہوں ‘ ان کو دعوت دینے کے لیے بھی کسی ایسے داعی کی ضرورت ہے جو خود بھی علم و حکمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو اور ان سے برابری کی سطح پر کھڑے ہو کر بات کرسکے۔ کیونکہ جب قرآن اپنے مخالفین کو چیلنج کرتا ہے : (ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) (البقرۃ) ” اپنی دلیل لاؤ اگر تم واقعی سچے ہو “۔ تو ایسی صورت میں ہمارے مخالفین کو بھی حق ہے کہ وہ بھی ہم سے دلیل مانگیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم عقل اور منطق کی اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر ان کی تسلی و تشفی کا سامان فراہم کریں۔ لہٰذا آیت زیر نظر میں دعوت و تبلیغ کا پہلا درجہ حکمت بیان کیا گیا ہے جس کا حق ادا کرنے کے لیے داعی کا صاحب حکمت اور حکیم ہونا لازمی ہے۔- حکمت کے بعد دوسرا درجہ ” موعظہ حسنہ “ کا ہے ‘ یعنی اچھا خوبصورت وعظ۔ یہ درجہ عوام الناس کے لیے ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے ذہنوں میں عقل اور منطق کی چھلنیاں نہیں لگی ہوتیں۔ چناچہ ایسے لوگوں کے لیے منطقی مباحث اور فلسفیانہ تقاریر ” تکلیف مالا یطاق “ کے مترادف ہیں۔ ان کے دل کھلی کتاب اور ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں ‘ آپ ان پر جو لکھنا چاہیں لکھ لیں۔ ایسے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ان کے جذبات کو اپیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پر تاثیر وعظ اور خلوص و ہمدردی سے کی گئی بات سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان کو احساس ہوجاتا ہے کہ داعی ہم پر اپنے علم کا رعب نہیں ڈالنا چاہتا ‘ ہم پر دھونس نہیں جمانا چاہتا ‘ وہ ہم سے اظہار نفرت نہیں کر رہا ‘ ہماری تحقیر نہیں کر رہا ‘ بلکہ اس کے پیش نظر ہماری خیر خواہی ہے۔ چناچہ داعی کے دل سے نکلی ہوئی بات ” از دل خیزد ‘ بردل ریزد “ کے مصداق سیدھی ان کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ - دعوت حق کا تیسرا درجہ (جَادِلْہُمْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ) ان عناصر کے لیے ہے جو کسی معاشرے میں خلق خدا کو گمراہ کرنے کے مشن کے علمبردار ہوتے ہیں۔ آج کل بہت سی تنظیموں کی طرف سے باقاعدہ پیشہ وارانہ تربیت سے ایسے لوگ تیار کر کے میدان میں اتارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خلوص و اخلاص سے کی گئی بات کو کسی قیمت پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہر حال میں اپنے نظریے اور موقف کی طرف داری کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے ‘ چاہے وہ کسی علمی و عقلی دلیل سے ہو یا ہٹ دھرمی سے۔ ایسے لوگوں کو مسکت جواب دے کر لاجواب کرنا ضروری ہوتا ہے ‘ ورنہ بعض اوقات عوامی سطح کے اجتماعات میں ان کی بحث برائے بحث کی پالیسی بہت خطرناک ہوسکتی ہے ‘ جس سے عوام الناس کے ذہن منفی طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بحث و مباحثہ کے عمل کو ہمارے ہاں ” مناظرہ “ کہا جاتا ہے ‘ جبکہ قرآن نے اسے ” مجادلہ “ کہا ہے۔ بہرحال قرآن نے اپنے پیروکاروں کے لیے اس میں بھی اعلیٰ معیار مقرر کردیا ہے کہ مخالفین سے مجادلہ بھی ہو تو احسن انداز میں ہو۔ اگر آپ کا مخالف کسی طور سے گھٹیا پن کا مظاہرہ بھی کرے تب بھی آپ کو جواب میں اچھے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں ‘ جیسا کہ سورة الانعام کی آیت ١٠٨ میں حکم دیا گیا : (وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ) ” اور جن کو یہ (مشرک) اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کہ کہیں یہ بھی بغیر سوچے سمجھے مخالفت میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگ جائیں “۔ آج کل مختلف مذاہب کی تنظی میں مثلاً عیسائی مشنریز باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسلام کو ہدف بنانے کے لیے کچھ خاص موضوعات اور مسائل کو ایک مخصوص انداز میں پیش کرتی ہیں۔ یہ لوگ ایسے موضوعات و مسائل پر مناظرے کرنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کے ذریعے سپیشلسٹ ( ) تیار کرتے ہیں۔ ایسے پیشہ وارانہ لوگوں کے مقابلے اور مجادلے کے لیے داعیانِ حق کو خصوصی تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے ۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :122 یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہیں ۔ ایک حکمت ۔ دوسرے عمدہ نصیحت ۔ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے ، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت استعداد اور حالات کو سمجھ کر ، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے ۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جائے ، جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے ، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے ، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں ۔ عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفاء کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کی ا جائے ۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں ان کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی ابھارا جائے اور ان کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے ۔ ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلا ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو ۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے ۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :123 یعنی اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو ۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں ۔ اس کا مقصود حریف مقابل کو چپ کر دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو ۔ بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو ۔ اعلی درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو ۔ معقول اور دل لگتے دلائل ہوں ۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے ۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دور نہ نکل جائے ۔