Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قصاص اور حصول قصاص قصاص میں اور حق کے حاصل کرنے میں برابری اور انصاف کا حکم ہو رہا ہے ۔ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں اگر کوئی تم سے کوئی چیز لے لے تو تم بھی اس سے اسی جیسی لے لو ۔ ابن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے تو مشرکوں سے درگزر کرنے کا حکم تھا ۔ جب ذرا حیثیت دار لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اگر اللہ کی طرف سے بدلے کی رخصت ہو جائے تو ہم بھی ان کتوں سے نبڑ لیا کریں اس پر یہ آیت اتری آخر یہ بھی جہاد سے منسوخ ہو گئی ۔ حضرت عطا بن یسار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورہ نحل پوری مکے شریف میں اتری ہے مگر اس کی تین آخری آیتیں مدینے شریف میں اتری ہیں ۔ جب کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئے گئے اور آپ کے اعضائے جسم بھی شہادت کے بعد کاٹ لئے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ اب جب مجھے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں پر غلبہ دے تو میں ان میں سے تیس شخصوں کے ہاتھ پاؤں اسی طرح کاٹوں گا ۔ مسلمانوں کے کان میں جب اپنے محترم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ پڑے تو ان کے جوش بہت بڑھ گئے اور کہنے لگے کہ واللہ ہم ان پر غالب آ کر ان کی لاشوں کے وہ ٹکڑے ٹکڑے کریں گے کہ عربوں نے کبھی ایسا دیکھا ہی نہ ہو گا اس پر یہ آیتیں اتریں ( سیرت ابن اسحاق ) لیکن یہ روایت مرسل ہے اور اس میں ایک راوی ایسا بھی ہے جن کا نام ہی نہیں لیا گیا ، مبہم چھوڑا گیا ۔ ہاں دوسری سند سے یہ متصل بھی مروی ہے ۔ بزار میں ہے کہ جب حضرت حمزہ بن عبد المطلب رحمۃ اللہ علیہ شہید کر دئے گئے ۔ آپ پاس کھڑے ہو کر دیکھنے لگے آہ اس سے زیادہ دل دکھانے والا منظر اور کیا ہو گا کہ محترم چچا کی لاش کے ٹکڑے آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے ہیں ۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلا کہ آپ پر اللہ کی رحمت ہو ، جہاں تک میرا علم ہے ، میں جانتا ہوں کہ آپ رشتے ناتے کے جوڑنے والے نیکیوں کو لپک کر کرنے والے تھے ۔ واللہ دوسرے لوگوں کے درد و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تو آپ کے اس جسم کو یونہی چھوڑ دیتا یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالیٰ درندوں کے پیٹوں میں سے نکالتا یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ فرمایا جب ان مشرکوں نے یہ حرکت کی ہے تو واللہ میں بھی ان میں کے ستر شخصوں کی یہی بری حالت بناؤں گا ۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے اور یہ آیتیں آتری تو آپ اپنی قسم کے پورا کرنے سے رک گئے اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا ۔ لیکن سند اس کی بھی کمزور ہے ۔ اس کے راوی صالح بشیر مری ہیں جو ائمہ اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تو انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں ۔ شعبی اور ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبان سے نکلا تھا کہ ان لوگوں نے جو ہمارے شہیدوں کی بےحرمتی کی ہے اور ان کے اعضاء بدن کاٹ دئیے ہیں واللہ ہم بھی ان سے اس کا بدلہ لے کر ہی چھوڑیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیتیں اتاریں ۔ مسند احمد میں ہے کہ جنگ احد میں ساٹھ انصاری شہید ہوئے اور چھ مہاجر رضی اللہ عنہم اجمعین تو اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان سے نکل گیا کہ جب ہم ان مشرکوں پر غلبہ پائیں تو ہم بھی ان کے ٹکڑے کئے بغیر نہ رہیں گے ۔ چنانچہ فتح مکہ والے دن ایک شخص نے کہا کہ آج کے دن کے بعد قریش پہچانے بھی نہ جائیں گے ۔ اسی وقت ندا ہوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کو پناہ دیتے ہیں سوائے فلاں فلاں کے ( جن کے نام لئے گئے ہیں ) اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے ۔ اس آیت کریمہ کی مثالیں قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس میں عدل کی مشروعیت بیان ہوئی ہے اور افضل طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ جیسے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ 27؀ ) 10- یونس:27 ) میں کہ برائی کا بدلہ لینے کی رخصت عطا فرما کر پھر فرمایا ہے کہ جو درکزر کر لے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اسی طرح آیت ( والجروح قصاص ) میں بھی زخموں کا بدلہ لینے کی اجازت دے کر فرمایا ہے کہ جو بطور صدقہ معاف کر دے یہ معافی اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گی ۔ اسی طرح اس آیت میں بھی برابر بدلہ لینے کے جواز کا ذکر فرما کر پھر ارشاد ہوا ہے کہ اگر صبر کر لو تو یہ بہت ہی بہتر ہے ۔ پھر صبر کی مزید تاکید کی اور ارشاد فرمایا کہ یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں یہ ان ہی سے ہو سکتا ہے جن کی مدد پر اللہ ہو اور جنہیں اس کی جانب سے توفیق نصیب ہوئی ہو ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے مخالفین کا غم نہ کھا ، ان کی قسمت میں ہی مخالفت لکھ دی گئی ہے نہ ان کے فن فریب سے آزردہ خاطر ہو ۔ اللہ تجھے کافی ہے ، وہی تیرا مدد گار ہے ، وہی تجھے ان سب پر غالب کرنے والا ہے اور ان کی مکاریوں اور چلاکیوں سے بچانے والا ہے ۔ ان کی عداوت اور ان کے برے ارادے تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ ملائیکہ اور مجاہدین اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی تائید ہدایات اور اس کی توفیق ان کے ساتھ ہے ، جن کے دل اللہ کے ڈر سے اور جن کے اعمال احسان کے جوہر سے مال مال ہوں ۔ چنانچہ جہاد کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی اتاری تھے کہ آیت ( اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ 12۝ۭ ) 8- الانفال:12 ) میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو ، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہما السلام سے فرمایا تھا آیت ( قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى 46؁ ) 20-طه:46 ) تم خوف نہ کھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں ، دیکھتا سنتا ہوں ۔ غار میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا آیت ( اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا 40؀ ) 9- التوبہ:40 ) غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۔ پس یہ ساتھ تو خاص تھا ۔ اور مراد اس سے تائید و نصرت الہٰی کا ساتھ ہونا ہے ۔ اور عام ساتھ کا بیان آیت ( وھو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر ) اور آیت ( يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ) 58- المجادلة:7 ) اور آیت ( وما یکون فی شان ) الخ میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے ، جہاں بھی تم ہو اور وہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہے اور جو تین شخص کوئی سرگوشی کرنے لگیں ان میں چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور پانچ میں چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم و بیش میں بھی جہاں وہ ہوں ، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور تم کسی حال میں ہو یا تلاوت قرآن میں ہو یا تم اور کوئی کام میں لگے ہوئے ہو ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں پس ان آیتوں میں ساتھ سے مراد سننے دیکھنے کا ساتھ ہے تقویٰ کے معنی ہیں حرام کاموں اور گناہ کے کاموں کو اللہ کے فرمان پر ترک کر دینے کے ۔ اور احسان کے معنی ہیں پروردگار کی اطاعت و عبادت کو بجا لانا ۔ جن لوگوں میں یہ دونوں صفتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان میں رہتے ہیں ، جناب باری ان کی تائید اور مدد فرماتا رہتا ہے ۔ ان کے مخالفین اور دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان سب پر کامیابی عطا فرماتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت محمد بن حاطب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو باایمان پرہیزگار اور نیک کار ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

126۔ 1 اس میں اگرچہ بدلہ لینے کی اجازت ہے بشرطیکہ تجاوز نہ ہو، ورنہ یہ خود ظالم ہوجائے گا، تاہم معاف کردینے اور صبر اختیار کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٩] بدلہ لینے میں انصاف ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے :۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا ابی بن کعبص فرماتے ہیں کہ احد کے دن انصار کے چونسٹھ اور مہاجرین کے چھ آدمی شہید ہوگئے ان میں سیدنا حمزہ بھی تھے جن کا کفار نے مثلہ کیا۔ چناچہ انصار نے کہا۔ اگر ہمیں ان پر کبھی فتح ہوئی تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں گے پھر جب مکہ فتح ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦۔ ) 16 ۔ النحل :126) ۔ کسی شخص نے کہا۔ آج کے بعد قریش نہ رہیں گے مگر آپ نے فرمایا، چار شخصوں کے علاوہ باقی سب قریش سے ہاتھ روک لو (ترمذی۔ کتاب التفسیر)- واضح رہے کہ یہ سورت اگرچہ مکی ہے تاہم یہ چند آیات مدینہ میں اس وقت نازل ہوئیں جب احد کے میدان میں مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا۔ اور انصار نے بدلہ لینے کا عہد کیا تھا۔ جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے اور ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دعوت و تبلیغ کی راہ میں اگر تمہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں۔ پھر تمہیں ان پر کسی وقت قدرت حاصل ہو تو تمہیں ان سے بدلہ لینے کی اجازت ہے مگر اس بدلہ میں زیادتی ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ اور اگر تم برداشت کرکے درگزر کردو تو یہ بات بدلہ لینے سے بہت زیادہ بہتر ہے اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں درگزر کا نتیجہ تمہارے حق میں بہت بہتر ثابت ہوگا۔ بہرحال اس آیت میں حکم عام ہے جس کا اطلاق ہر ایسے موقع پر ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ : واؤ عطف سے معلوم ہوا کہ اس کا تعلق پچھلی آیت سے ہے کہ اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو بدلے میں اتنی زیادتی تم بھی کرو۔ اس آیت سے دو مسئلے واضح طور پر ثابت ہوتے ہیں، ایک یہ کہ قتل وغیرہ کا قصاص اسی طریقے سے لینا جس طریقے سے قاتل نے قتل کیا ہے، جائز ہے اور اس کی تائید اس یہودی سے قصاص والی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس نے ایک بچی کا سر دو پتھروں میں کچل دیا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بھی اسی طرح قتل کرنے کا حکم دیا۔ [ دیکھیے مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب ثبوت القصاص فی القتل۔۔ : ١٧؍١٦٧٢ ] اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے آپ کے چرواہوں کو قتل کرنے والے اور اونٹنیاں لے جانے والے مجرموں کو بھی قصاص میں اسی طرح آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، جیسا کہ انھوں نے کیا تھا۔ [ دیکھیے بخاری، الحدود، باب المحاربین من أہل الکفر و الردۃ : ٦٨٠٢ ] اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ظالم کے ظلم کے برابر بدلہ جائز ہے زیادہ نہیں، فرمایا : (فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ) [ البقرۃ : ١٩٤ ] ” پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے زیادتی کی۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مثلہ کرنے سے منع فرمایا اس سے مراد قصاص کے علاوہ صورتیں ہیں اور ابن ماجہ کی روایت (٢٦٦٧) ( لَا قَوَدَ إِلاَّ بالسَّیْفِ ) (قصاص تلوار کے سوا جائز نہیں) ثابت نہیں، بلکہ ضعیف ہے، تفصیلی بحث ارواء الغلیل (٧؍٢٨٥، ٢٨٩، ح : ٢٢٢٩) میں ملاحظہ فرمائیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی کے مال میں خیانت کرے، یا اس کا مال یا کوئی چیز لے کر واپس نہ دے، پھر مظلوم کو اس کا مال یا کوئی چیز ہاتھ آجائے، یا وہ اس کے پاس امانت رکھے تو اسے اپنے مال کے برابر اس میں سے رکھ لینا جائز ہے۔ امام بخاری (رض) نے ” کِتَابُ الْمَظَالِمِ “ میں ” بَابُ قِصَاصِ الْمَظْلُوْمِ إِذَا وَجَدَ مَالَ ظَالِمِہِ “ (مظلوم کا قصاص لینا جب اسے اس پر ظلم کرنے والے کا مال مل جائے) میں اسی آیت سے ابن سیرین (رح) کا یہ استدلال نقل فرمایا ہے اور مزید احادیث سے اسے مدلل کیا ہے۔ بعض لوگ ایک روایت کی بنا پر اسے منع کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَدِّ الْأَمَانَۃَ إِلٰی مَنِ اءْتَمَنَکَ وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَکَ ) [ أبوداوٗد، البیوع، باب في الرجل یأخذ حقہ من تحت یدہ : ٣٥٣٥ ] ” جو شخص تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کرو اور جو تمہاری خیانت کرے اس کی خیانت مت کرو۔ “ اگرچہ اس حدیث پر کلام ہے، مگر صحیح ماننے کی صورت میں بھی اپنا مال واپس لینے کو خیانت نہیں کہا جاسکتا۔ حافظ ابن حزم (رض) نے ” المحلٰی “ کی ” کتاب التفلیس “ کے آخر میں اس مسئلہ پر نہایت عمدہ بحث تحریر فرمائی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔- وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ : کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالم سے انھیں ان کا بدلہ خود لے کر دے گا اور اپنے ہاں سے انھیں صبر کا اجر عظیم عطا فرمائے گا، اللہ نے فرمایا : (وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ 39؀ وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ ) [ الشوری : ٣٩، ٤٠ ] ” اور وہ لوگ کہ جب ان پر زیادتی واقع ہوتی ہے وہ بدلہ لیتے ہیں۔ اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے، پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، بیشک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ “ صحیح بخاری میں ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ وہ (صحابہ کرام) ذلت قبول کرنے کو ناپسند کرتے تھے، مگر جب قدرت پالیتے تو معاف کردیتے تھے۔ [ دیکھیے بخاری،- المظالم، باب الانتصار من الظالم، بعد ح : ٢٤٤٦ ]- شاہ عبد القادر (رض) نے ” اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ “ سے لے کر یہاں تک کا خلاصہ بیان فرمایا : ” پہلے جو فرمایا سمجھاؤ بھلی طرح سے، اس میں رخصت دی کہ بدی کے بدلے بدی بری نہیں، مگر صبر زیادہ بہتر ہے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

داعی حق کو کوئی ایذاء پہونچائے تو بدلہ لینا بھی جائز ہے مگر صبر بہتر ہے :- اس کے بعد کی تین آیتوں میں داعیان حق کے لئے ایک اور اہم ہدایت ہے وہ یہ کہ بعض اوقات ایسے سخت دل جاہلوں سے سابقہ پڑتا ہے کہ ان کو کتنی ہی نرمی اور خیرخواہی سے بات سمجھائی جائے وہ اس پر بھی مشتعل ہوجاتے ہیں زبان درازی کر کے ایذاء پہونچاتے ہیں اور بعض اوقات اس سے بھی تجاوز کر کے ان کو جسمانی تکلیف پہونچانے بلکہ قتل تک سے بھی گریز نہیں کرتے ایسے حالات میں دعوت حق دینے والوں کو کیا کرنا چاہئے۔- اس کے لئے وَاِنْ عَاقَبْتُمْ الخ میں ایک تو ان حضرات کو قانونی حق دیا گیا کہ جو آپ پر ظلم کرے آپ کو بھی اس سے اپنا بدلہ لینا جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ بدلہ لینے میں مقدار ظلم سے تجاوز نہ ہو جتنا ظلم اس نے کیا ہے اتنا ہی بدلہ لیا جائے اس میں زیادتی نہ ہونے پائے اور آخر آیت میں مشورہ دیا کہ اگرچہ آپ کو انتقام لینے کا حق ہے لیکن صبر کریں اور انتقام نہ لیں تو یہ بہتر ہے۔- آیات مذکورہ کا شان نزول اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و صحابہ کی طرف سے تعمیل حکم :- جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے غزوہ احد میں ستر صحابہ کی شہادت اور حضرت حمزہ (رض) کو قتل کر کے مثلہ کرنے کے واقعہ میں نازل ہوئی صحیح بخاری کی روایت اسی کے مطابق ہے دارقطنی نے بروایت ابن عباس نقل کیا ہے کہ :- غزوہ احد میں جب مشرکین لوٹ گئے تو صحابہ کرام (رض) اجمعین میں سے ستر اکابر کی لاشیں سامنے آئیں جن میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم حضرت حمزہ (رض) بھی تھے چونکہ مشرکین کو ان پر بڑا غیظ تھا اس لئے ان کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش پر اپنا غصہ اس طرح نکالا کہ ان کی ناک کان اور دوسرے اعضاء کاٹے گئے پیٹ چاک کیا گیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس منظر سے سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے فرمایا کہ میں حمزہ کے بدلے میں مشرکین کے ستر آدمیوں کا اسی طرح مثلہ کروں گا جیسا انہوں نے حمزہ کو کیا ہے اس واقعہ میں یہ تین آیات نازل ہوئیں وَاِنْ عَاقَبْتُمْ الخ (تفسیر قرطبی) بعض روایات میں ہے کہ دوسرے حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین کے ساتھ بھی ان ظالموں نے اسی طرح کا معاملہ مثلہ کرنے کا کیا تھا (کما رواہ الترمذی واحمد وابن خزیمہ وابن حبان فی صحیحہما عن ابی بن کعب)- اس میں چونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرط غم میں بلا لحاظ تعداد ان صحابہ کے بدلے میں ستر مشرکین کے مثلہ کرنے کا عزم فرمایا تھا جو اللہ کے نزدیک اس اصول عدل و مساوات کے مطابق نہ تھا جس کو آپ کے ذریعے دنیا میں قائم کرنا منظور تھا اس لئے ایک تو اس پر متنبہ فرمایا گیا کہ بدلہ لینے کا حق تو ہے مگر اسی مقدار اور پیمانہ پر جس مقدار کا ظلم ہے بلالحاظ تعداد چند کا بدلہ ستر سے لینا درست نہیں دوسرے آپ کو مکارم اخلاق کا نمونہ بنانا مقصود تھا اس لئے یہ نصیحت کی گئی کہ برابر سرابر بدلہ لینے کی اگرچہ اجازت ہے مگر وہ بھی چھوڑ دو اور مجرموں پر احسان کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔- اس پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب ہم صبر ہی کریں گے کسی ایک سے بھی بدلہ نہیں لیں گے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیا (مظہری عن البغوی) فتح مکہ کے موقع پر جب یہ تمام مشرکین مغلوب ہو کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) اجمعین کے قبضہ میں تھے یہ موقع تھا کہ اپنا وہ عزم و ارادہ پورا کرلیتے جو غزوہ احد کے وقت کیا تھا مگر آیات مذکورہ کے نزول کے وقت ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ارادے کو چھوڑ کر صبر کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے اس لئے فتح مکہ کے وقت ان آیات کے مطابق صبر کا عمل اختار کیا گیا شاید اسی بنا پر بعض روایات میں یہ مذکور ہوا ہے کہ یہ آیتیں فتح مکہ کے وقت نازل ہوئی تھیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ان آیات کا نزول مکرر ہوا ہو اول غزوہ احد میں نازل ہوئیں اور پھر فتح مکہ کہ وقت دوبارہ نازل ہوئیں (کما حکاہ المظہری عن ابن الحصار)- مسئلہ : اس آیت نے بدلہ لینے میں مساوات کا قانون بتایا ہے اسی لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل کر دے اس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے گا جو زخمی کر دے تو اتنا ہی زخم اس کرنے والے کو لگایا جائے گا جو کسی ہاتھ یا پاؤں کاٹے پھر قتل کردے۔- البتہ اگر کسی نے پتھر مار کر کسی کو قتل کیا یاتیروں سے زخمی کر کے قتل کیا تو اس میں نوعیت قتل کی صحیح مقدار متعین نہیں کی جاسکتی کہ کتنی ضربوں سے یہ قتل واقع ہوا ہے اور مقتول کو کتنی تکلیف پہنچی ہے اس معاملہ میں حقیقی مساوات کا کوئی پیمانہ نہیں ہے اس لئے اس کو تلوار ہی سے قتل کیا جائے گا (جصاص)- مسئلہ : آیت کا نزول اگرچہ جسمانی تکالیف اور جسمانی نقصان پہونچانے کے متعلق ہوا ہے مگر الفاظ عام ہیں جس میں مالی نقصان پہنچانا بھی داخل ہے اسی لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ جو شخص کسی سے اس کا مال غصب کرے تو اس کو بھی حق حاصل ہے کہ حق کے مطابق اس سے مال چھین لے یا یا چوری کر کے لے لے بشرطیکہ جو مال لیا ہے وہ اپنے حق کی جنس سے ہو مثلا نقد روپیہ لیا ہے تو اس کے بدلے میں اتنا ہی نقد روپیہ اس سے غصب یا چوری کے ذریعے لے سکتا ہے غلہ کپڑا وغیرہ لیا ہے تو اسی طرح کا غلہ کپڑا لے سکتا ہے مگر اس جنس کے بدلے میں دوسری جنس نہیں لے سکتا مثلا روپے کے بدلے میں کپڑا یا کوئی دوسری استعمالی چیز زبردستی نہیں لے سکتا اور بعض فقہا نے مطلقا اجازت دی ہے خواہ جنس حق سے ہو یا کسی دوسری جنس سے اس مسئلہ کی کچھ تفصیل قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھی ہے اور تفصیلی بحث کتب فقہ میں مذکور ہے۔- آیت وَاِنْ عَاقَبْتُمْ میں عام قانون مذکور تھا جس میں سب مسلمانوں کے لئے برابر کا بدلہ لینا جائز مگر صبر کرنا افضل و بہتر بتلایا گیا ہے اس کے بعد کی آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی خطاب فرما کر صبر کرنے کی تلقین و ترغیب دی گئی ہے کیونکہ آپ کی شان عظیم اور منصب بلند کے لئے دوسروں کی نسبت سے وہی زیادہ موزوں و مناسب ہے اس لئے فرمایا واصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا باللّٰہ یعنی آپ تو انتقام کا ارادہ ہی نہ کریں صبر ہی کو اختیار کریں اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ آپ کا صبر اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوگا یعنی صبر کرنا آپ کے لئے آسان کردیا جائے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦؁- عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ظلم و زیادتی کا بدلہ کتنا لیا جائے ؟- قول باری ہے (وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتھم لھو خیر للصابرین اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے) شعبی، قتادہ اور عطاء بن یسار سے مروی ہے رجب مشرکین نے احد میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا مثلہ کیا تو مسلمانوں نے یہ کہا اگر ہمیں اللہ تعالیٰ ان مشرکین پر غلبہ عطا کرے گا تو ہم اس سے بڑھ کر ان کا مثلہ کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مجاہد اور ابن سیرین کا قول ہے کہ آیت ہر اس شخص کے بارے میں ہے جو غصے کی حالت میں یا کسی اور وجہ کی بنا پر ظلم و زیادتی کر بیٹھے۔ اس سے صرف اتنا ہی بدلہ لیا جائے گا جتنا اس نے ظلم کیا ہوگا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک کسی سبب کے پس منظر میں آیت کا نزول ان تمام صورتوں میں اس کے عموم کے اعتبار سے مانع نہیں ہوتا جو آیت کے الفاظ کے دائرے میں آتی ہوں۔ اس لئے آیت کو ان تمام صورتوں کے لئے استعمال کرنا واجب ہے جو آیت کے مقتضیٰ کے تحت آتی ہیں چناچہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا اس کے بدلے میں اسے قتل کردیا جائے گا جو شخص کسی کو زخمی کرے گا اسے بھی اسی طرح زخمی کردیا جائے گا۔ اگر کسی نے کسی کا پہلے ہاتھ کاٹا ہو اور پھر قتل کردیا ہو تو مقتول کے دلی کو یہ حق ہوگا کہ پہلے اس کا ہاتھ کاٹے اور پھر قتل کر دے۔- آیت کا اقتضاء یہ بھی ہے کہ کسی شخص نے اگر کسی کا پتھر سے سر کچل کر ہلاک کردیا ہو یا ٹکٹکی پر باندھ کر تیر برسا کر اسے قتل کردیا ہو تو قاتل کو تلوار مار کر قتل کردیا جائے گا اس لئے کہ اسے بدلے کے طور پر اس صورت میں قتل کرنا ممکن نہیں جس صورت میں اس نے مقتول کی جان لی تھی کیونکہ ہمیں اس امر کا پوری طرح علم نہیں ہتا کہ قاتل نے مقتول کو کتنی ضربات لگائی تھیں اور مقتول کو کس قدر تکلیف برداشت کرنی پڑی تھی۔ ہمارے لئے تو صرف یہ ممکن ہے کہ تلوار کے ذریعے قاتل کی جان لے کر مقتول کے قتل کا بدلہ لے لیا جائے۔ اس لئے اس صورت میں آیت کے حکم پر اسی طریقے سے عمل پیرا ہونا واجب ہوگا۔ اس میں پہلا طریقہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کسی نے کسی کا مال استعمال میں لا کر ختم کردیا ہو تو اس پر اس کا مثل واجب ہوگا۔ اگر کوئی شخص کسی شخص کا س اگر ان (ایک قسم کی مضبوط لکڑی) غصب کر کے اسے اپنے مکان میں لگا دے یا گندم غصب کر کے اسے پیس لے ، تو ان دونوں صورتوں میں ان کا مثل اس پر واجب ہوگا۔ اس لئے کہ گندم میں کیلی یعنی ناپ کے ذریعے مثل کا حصول ممکن ہے اور لکڑی میں اس کی قیمت کے ذریعے مثل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس پر آیت کی دلالت موجود ہے۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قاتل اور مجرم کو معاف کردینا قصاص لینے سے افضل ہے چناچہ ارشاد ہے (ولئن صبر تم لھو خیر للصابرین)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٦) اور اگر تم ان کی اموات کا بدلہ لینے لگو تو اسی قدر بدلہ لو جتنا کہ تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا ہے اور اگر صبر کرو اور بدلہ نہ لو تو یہ چیز آخرت میں بڑے ثواب کا باعث ہے۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ وان عاقبتم فعاقبوابمثل “۔ (الخ)- امام حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اور بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دلائل میں اور بزار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوہریر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت حضرت حمزہ (رض) شہید کر دے گئے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس کھڑے ہوئے تھے اور مشرکین نے حضرت حمزہ (رض) کا مثلہ یعنی ناک دکان ڈالے تھے تو آپ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا میں ان کے بدلے میں کفار میں سے ستر آدمیوں کو قتل کروں اور تو آپ اسی حالت میں کھڑے تھے تو جبریل امین سورة نحل کی ان آخری آیتوں کو لے کر تشریف لائے یعنی اگر بدلہ لینے لگو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا کہ تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا سو ان آیتوں کے نزول کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ارادہ بدل دیا۔- نیز امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحسین کے ساتھ اور امام حاکم نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کیا ہے کہ غزوہ احد میں انصار میں سے چونسٹھ اور مہاجرین میں سے چھ حضرات شہید ہوئے ان میں حضرت حمزہ (رض) بھی تھے، سب کا مثلہ کردیا گیا تھا یہ منظر دیکھ کر انصار کہنے لگے کہ اگر آج کے کی طرح کسی دن ہمیں ان ان پر موقع مل گیا تو ہم ان کی اس سے زیادہ بری حالت کردی گے چناچہ جب فتح مکہ کا دن آیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اس حدیث سے آیت کا نزول فتح مکہ تک موخر معلوم ہوتا ہے اور اس سے پہلے جو حدیث روایت کی ہے اس سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ یہ آیت غزوہ احد میں نازل ہوئی ہے۔- غرض کہ ابن حصار نے تمام روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو یہ بات یاد دلانے کے لیے اس آیت کو دوبارہ نازل فرمایا ہے چناچہ اولا مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور پھر غزوہ احد میں اور پھر فتح مکہ کے دن نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani