Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 جب سب نعمتوں کا دینے والا صرف ایک اللہ ہے تو پھر عبادت کسی اور کی کیوں ؟ 53۔ 2 اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ایک ہونے کا عقیدہ قلب وجدان کی گہرائیوں میں راسخ ہے جو اس وقت ابھر کر سامنے آجاتا ہے جب ہر طرف سے مایوسی کے بادل گہرے ہوجاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥١] صرف اللہ تعالیٰ کے حاجت روا اور مشکل کشا ہونے کی یہ صریح شہادت تمہارے اپنے اندر موجود ہے۔ سخت مصیبت کے وقت جب ہر قسم کے سہارے ٹوٹتے نظر آتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے تمہاری اصل فطرت ابھر آتی ہے تو تم خالصتاً اللہ ہی کو پکارتے اور اسی کے سامنے فریاد کرنے لگتے ہو۔ کیونکہ انسان کی اصل فطرت اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو مالک ذی اختیار نہیں جانتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ ۔۔ :” نِّعْمَةٍ “ (نعمت) نکرہ ہونے کی وجہ سے عام تھی، ” مِّنْ “ کے ساتھ عموم کی مزید تاکید ہوگئی کہ جو بھی نعمت تمہارے پاس ہے، یعنی تمہارا وجود، صحت، عافیت، مال، غرض چھوٹی یا بڑی جو بھی نعمت ہے، وہ سب اللہ کی عطا کردہ ہے۔ ” تَجْــــَٔــرُوْنَ “ ” جَأَرَ یَجْأَرُ جُؤَارًا “ (ف) مدد طلب کرنے کے لیے اونچی آواز نکالنا، گڑ گڑانا۔ اصل میں یہ لفظ جنگلی جانوروں کے چیخنے چلانے کے لیے آتا ہے، جیسا کہ گائے کی آواز کے لیے ” خُوَارٌ“ ، بکری کے لیے ” ثُغَاءٌ“ اونٹ کے لیے ” رُغَاءٌ“ اور بھیڑیے اور کتے کے لیے ” عُوَاءٌ“ آتا ہے۔ ” فَتَمَتَّعُوْا “ سو تم فائدہ اٹھا لو، یہ امر ڈانٹنے کے لیے ہے۔ ان آیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس (٢١ تا ٢٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ 53؀ۚ- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - جأر - قال تعالی: فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ [ النحل 53] ، وقال تعالی: إِذا هُمْ يَجْأَرُونَ [ المؤمنون 64] ، لا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ [ المؤمنون 65] ، جَأَرَ : إذا أفرط في الدعاء والتضرّع تشبيها بجؤار الوحشیات، کا لظباء ونحوها .- ( ج ء ر )- الجئر ا ( ف ) کے اصل معنی وحشیات جیسے ہرن وغیرہ کے گھبراہٹ کے وقت زور سے آواز نکالنے اور چیخنے کے ہیں پھر تشبیہ کے طور پر وعا اور تضرع میں افراط اور مبالغہ کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ [ النحل 53] تو اسی کے سامنے آہ وگریہ کرتے ہو ۔ إِذا هُمْ يَجْأَرُونَ [ المؤمنون 64] تو اس وقت چلائیں گے ۔ لا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ [ المؤمنون 65] آج مت چلاؤ ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٣) اور تمہارے پاس جو کچھ نعمت ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، ان بتوں کی طرف سے نہیں، پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے فریاد اور اس کے سامنے آہ وزاری کرتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ )- تکلیف کی کیفیت میں تم اللہ کو ہی یاد کرتے ہو اسی کی جناب میں گڑ گڑاتے آہ وزاری کرتے اور دعائیں مانگتے ہو۔ اس حالت میں تمہیں کوئی دوسرا معبود یاد نہیں آتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :46 یعنی یہ توحید کی ایک صریح شہادت تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے ۔ سخت مصیبت کے وقت جب تمام من گھڑت تصورات کا زنگ ہٹ جاتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے تمہاری اصل فطرت ابھر آتی ہے جو اللہ کے سوا کسی الٰہ ، کسی رب ، اور کسی مالک ذی اختیار کو نہیں جانتی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام حواشی نمبر ۲۹ و نمبر ٤۱ ۔ یونس ، حاشیہ نمبر ۳۱ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani