باز پرس لازمی ہو گی مشرکوں کی بےعقلی اور بےڈھنگی بیان ہو رہی ہے کہ دینے والا اللہ ہے سب کچھ اسی کا دیا ہوا اور یہ اس میں سے اپنے جھوٹے معبودوں کے نام ہو جائے جن کا صحیح علم بھی انہیں نہیں پھر اس میں سختی ایسی کریں کہ اللہ کے نام کا تو چاہے ان کے معبودوں کے ہو جائے لیکن ان کے معبودوں کے نام کیا گیا اللہ کے نام نہ ہو سکے ایسے لوگوں سے ضرور باز پرس ہو گی اور اس افترا کا بدلہ انہیں پورا پورا ملے گا ۔ جہنم کی آگ ہو گی اور یہ ہوں گے ۔ پھر ان کی دوسری بے انصافی اور حماقت بیان ہو رہی ہے کہ اللہ کے مقرب غلام فرشتے ان کے نزدیک اللہ کی بیٹیاں ہیں یہ خطا کر کے پھر ان کی عبادت کرتے ہیں جو خطا پر خطا ہے ۔ یہاں تین جرم ان سے سرزد ہوئے اول تو اللہ کے لئے اولاد ٹھہرانا جو اس سے یکسر پاک ہے ، پھر اولاد میں سے بھی وہ قسم اسے دینا جسے خود اپنے لئے بھی پسند نہیں کرتے یعنی لڑکیاں ۔ کیا ہی الٹی بات ہے کہ اپنے لئے اولاد ہو ؟ پھر اولاد بھی وہ جو ان کے نزدیک نہایت ردی اور ذلیل چیز ہے ۔ کیا حماقت ہے کہ انہیں تو اللہ لڑکے دے اور اپنے لئے لڑکیاں رکھے ؟ اللہ اس سے بلکہ اولاد سے پاک ہے ۔ انہیں جب خبر ملے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو مارے ندامت و شرم کے منہ کالا پڑ جائے ، زبان بند ہو جائے ، غم سے کمر جھک جائے ۔ زہر کے گھو نٹ پی کر خاموش ہو جائے ۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرے ۔ اسی سوچ میں رہے کہ اب کیا کروں اگر لڑکی کو زندہ چھوڑتا ہوں تو بڑی رسوائی ہے نہ وہ وارث بنے نہ کوئی چیز سمجھی جائے لڑکے کو اس پر ترجیح دی جائے غرض زندہ رکھے تو نہایت ذلت سے ۔ ورنہ صاف بات ہے کہ جیتے جی گڑھا کھودا اور دبا دی ۔ یہ حالت تو اپنی ہے پھر اللہ کے لئے یہی چیز ثابت کرتے ہیں ۔ کیسے برے فیصلے کرتے ہیں ؟ کتنی بےحیائی کی تقسیم کرتے ہیں اللہ کے لئے جو بیٹی ثابت کریں اسے اپنے لئے سخت تر باعث توہین و تذلیل سمجھیں ۔ اصل یہ ہے کہ بری مثال اور نقصان انہی کافروں کے لئے ہے اللہ کے لئے کمال ہے ۔ وہ عزیز و حکیم ہے اور ذوالجلال والاکرام ہے ۔
56۔ 1 یعنی جن کو یہ حاجت روا، مشکل کشا اور معبود سمجھتے ہیں، وہ پتھر کی مورتیاں ہیں یا جنات و شیاطین ہیں، جن کی حقیقت کا ان کو علم ہی نہیں۔ اسی طرح قبروں میں مدفون لوگوں کی حقیقت بھی کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ وہاں کیا معاملہ ہو رہا ہے ؟ وہ اللہ کے پسندیدہ افراد میں ہیں یا کسی دوسری فہرست میں ؟ ان باتوں کو کوئی نہیں جانتا لیکن ان ظالم لوگوں نے ان کی حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باوجود، انھیں اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے ان کے لیے بھی نذر ونیاز کے طور پر حصہ مقرر کرتے ہیں بلکہ اللہ کا حصہ رہ جائے تو بیشک رہ جائے ان کے حصے میں کمی نہیں کرتے جیسا کہ سورة الانعام میں بیان کیا گیا ہے۔ 56۔ 2 تم جو اللہ پر افترا کرتے ہو کہ اس کا شریک یا شرکا ہیں، اس کی بابت قیامت والے دن تم سے پوچھا جائے گا۔
[٥٣] یعنی یہ مشرک اپنے صدقات و خیرات میں اللہ کا شریک اور حصہ دار ان چیزوں کو بناتے ہیں جو بےجان بت ہیں یا قبروں میں پڑے ہوئے ہیں جو نہ سن سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں، نہ جواب دے سکتے ہیں۔ انھیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور نہ ہی وہ اپنی جگہ سے حرکت کرسکتے ہیں اور اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کو اپنے ان خود ساختہ معبودوں کے متعلق کسی مستند ذریعہ علم سے یہ تحقیق نہیں ہوا ہے کہ اللہ میاں نے واقعی ان معبودوں کو اپنا شریک بنا رکھا ہے اور نظام کائنات کے کچھ کام یا اپنی سلطنت کے کچھ علاقے انھیں سونپ رکھے ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ انھیں معبود بنائے رکھنے پر مصر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات میں تصرف کرسکتے اور دوسروں کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پھر چونکہ اپنے ان عقائد کو مذہبی عقیدہ سمجھتے ہوئے ان خرافات کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں لہذا اللہ ان سے ٹھیک طرح نمٹ لے گا اور ان کے اس جرم کی قرار واقعی سزا دے گا۔
وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ ۔۔ :” لَا يَعْلَمُوْنَ “ کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ مشرک لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق کا حصہ ان خداؤں کے لیے مقرر کردیتے ہیں جو کچھ بھی نہیں جانتے، کیونکہ عالم الغیب والشہادہ تو صرف اللہ ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ان کے لیے مقرر کردیتے ہیں جن کے متعلق یہ کچھ نہیں جانتے۔ نہ انھیں ان کی حقیقت معلوم ہے نہ ان کا بےاختیار ہونا، محض گمان اور سنی سنائی باتوں پر بنیاد رکھ کر ہمارا دیا ہوا ان کے نام کردیتے ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (٣٦ تا ٣٨) اور سورة یونس (٦٦) شروع آیت میں ان مشرکین کا ذکر سارے کا سارا غائب کے صیغوں کے ساتھ کرنے کے بعد آخر میں (بطور التفات) انھیں براہ راست ڈانٹنے کے لیے مخاطب کرلیا اور قسم کھا کر فرمایا کہ مجھے اپنی قسم کہ تم جو کچھ طوفان باندھتے رہے ہو ہر صورت اس کے متعلق پوچھے جاؤ گے۔
وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ ۭ تَاللّٰهِ لَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ 56- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نَّصِيبُ :- الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53]- ( ن ص ب ) نصیب - و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
(٥٦) اور ہم نے جو ان کو کھیتیاں اور جانور دیئے ہیں یہ ان میں ان بتوں کا حصہ لگاتے ہیں جن کے معبود ہونے کا ان کو کچھ علم نہیں اور پھر اس میں سے صرف مردوں کا کھانے کی اجازت دیتے ہیں، قسم ہے اللہ کی تم سے تمہاری ان جھوٹوں کی قیامت کے دن بالضرور باز پرس ہوگی۔
آیت ٥٦ (وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ )- اللہ تعالیٰ ہی کے عطا کردہ رزق میں سے وہ لوگ اللہ کے ان شریکوں کے لیے بھی حصے نکالتے تھے جن کے بارے میں کوئی علمی سند یا واضح دلیل بھی ان کے پاس موجود نہیں تھی۔ یہ مضمون سورة الانعام کی آیت ١٣٦ میں بھی آچکا ہے کہ وہ لوگ اپنی کھیتیوں کی پیداوار اور جانوروں میں سے جہاں اللہ کے لیے حصہ نکالتے تھے وہاں اپنے جھوٹے معبودوں کے حصے کے لیے بھی خاص اہتمام کرتے تھے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :48 یعنی جن کے متعلق کسی مستند ذریعہ علم سے انہیں یہ تحقیق نہیں ہوا ہے کہ اللہ میاں نے ان کو واقعی شریک خدا نامزد کر رکھا ہے ، اور اپنی خدائی کے کاموں میں سے کچھ کام یا اپنی سلطنت کے علاقوں میں سے کچھ علاقے ان کو سونپ رکھے ہیں ۔
24: عرب کے مشرکین اپنی زرعی پیداوار اور جانوروں کا ایک حصہ بتوں کے نام پر نذر کردیتے تھے۔ اس کی طرف اشارہ ہے کہ جن بتوں کی نہ حقیقت ان کو معلوم ہے نہ ان کے وجود کی کوئی دلیل ان کے پاس ہے، اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق کو ان کے لیے نذر کردیتے ہیں۔ اس رسم کی تفصیل سورۃ انعام آیت 136 میں گذری ہے۔