Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 عرب کے بعض قبیلے (خزاعہ اور کنانہ) فرشتوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یعنی ایک ظلم تو یہ کیا کہ اللہ کی اولاد قرار دی۔ جب کہ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ پھر اولاد بھی مونث، جسے وہ اپنے لئے پسند ہی نہیں کرتے اللہ کے لئے اسے پسند کیا، جسے دوسرے مقام پر فرمایا کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے یہاں فرمایا کہ تم تو یہ خواہش رکھتے ہو کہ بیٹے ہوں، بیٹی کوئی نہ ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٤] اہل عرب کی دیویاں ان کے مقام اور ان کے پرستار :۔ ہندی، یونانی اور مصری تہذیبوں کی طرح مشرکین عرب کے بھی دیوتا کماوردیویاں زیادہ تھیں اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں، اسی طرح وہ فرشتوں کو بھی اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ان کی تین مشہور دیویاں، لات، عزیٰ اور منات تھیں۔ لات الٰہ کی مونث ہے۔ عزیٰ عزیز کی اور منات، منان کی۔ لات کا استھان یا آستانہ طائف میں تھا اور بنو ثقیف اس کے پرستار تھے۔ عزیٰ قریش مکہ کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان یا آستانہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں مقام حراص پر واقع تھا۔ چناچہ ابو سفیان سپہ سالار قریش نے احد کے میدان میں جنگ میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اس دیوی کا نعرہ لگایا اور کہا تھا لَنَا عُزّٰی وَلَاعُزّٰی لَکُم اور منات کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر واقع تھا۔ بنو خزاعہ، اوس اور خزرج اس دیوی کے پرستار تھے۔ نیز اس کا باقاعدہ حج اور طواف کیا جاتا تھا۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہوجاتے تو وہیں سے منات کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند ہونے لگتیں اور جو لوگ اس دوسرے حج کی نیت کرلیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے۔ گویا مشرکین عرب دوہرا ظلم ڈھاتے تھے۔ ایک تو ان کو اللہ کا شریک بنانے کا دوسرے شریک بھی ایسے جنہیں وہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔- [ ٥٥] یعنی ان کے اللہ کے بارے میں یہ مشرکانہ عقائد اس قدر گھٹیا اور گستاخانہ قسم کے تھے کہ خود تو اپنے لیے بیٹیوں کا وجود بھی باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ محض اس وجہ سے کہ کوئی ان کا داماد بنے گا اور یہ خود اس کے سسر ہوں گے لیکن اللہ کے معاملہ میں دوہرا ظلم ڈھاتے۔ ایک تو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے اور دوسرے اولاد بھی بیٹیاں۔ گویا اچھی چیز تو اپنے لیے پسند کرتے تھے اور ناقص اللہ کے لیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ ۔۔ : یہ ان کے اللہ تعالیٰ پر دو عیب لگانے کا بیان ہے، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد قرار دی، حالانکہ وہ اولاد سے پاک ہے۔ دوسرا عیب یہ کہ فرشتوں کو جو اللہ کے بندے ہیں، اللہ کی اولاد قرار دیا اور اولاد بھی مؤنث، جبکہ وہ اپنے لیے لڑکے پسند کرتے ہیں، لڑکیوں کو اپنے لیے باعث ذلت قرار دیتے ہیں، یہ کتنی بڑی بےانصافی ہے۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے ” سُبْحٰنَهٗ “ (وہ پاک ہے) کہہ کر اپنی ذات سے ہر قسم کی اولاد کی نفی فرمائی، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، کیونکہ پھر اس کی بیوی بھی ماننا پڑے گی، جب کہ خاوند بیوی کا محتاج ہوتا ہے اور اولاد باپ کی شریک اور جانشین ہوتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ محتاجی، شرکت اور زوال تینوں سے پاک ہے، کیونکہ یہ تینوں اس کے لیے عیب ہیں، وہ ”ۚلَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ “ ہے اور وہ اکیلا ہی غنی ہے، باقی سب اس کے محتاج ہیں، فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ) [ فاطر : ١٥ ] ” اے لوگو تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بےپروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ “ صرف اسی کے لیے بقا ہے، باقی سب کچھ فانی ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (١٠١) ، سورة بنی اسرائیل (٤٠) ، سورة صافات (١٥١ تا ١٥٤) ، سورة زخرف (١١) اور سورة نجم (٢١، ٢٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ ۙ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ 57؀- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- شها - أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من - دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی:- زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ- [ الأنبیاء 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ.- ( ش ھ و ) الشھوہ - کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) اور یہ لوگ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات تو اولاد اور شریک سے پاک ہے اور یہ لوگ خود اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ ۙ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ )- اللہ تعالیٰ کی اولاد کے طور پر وہ لوگ اس سے بیٹیاں منسوب کرتے ہیں جبکہ خود اپنے لیے وہ بیٹے پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے لیے اولاد تجویز بھی کی تو بیٹیاں تجویز کیں جو خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :50 مشرکین عرب کے معبودوں میں دیوتا کم تھے ، دیویاں زیادہ تھیں ، اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں ۔ اسی طرح فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :51 یعنی بیٹے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اول تو اللہ تعالیٰ اولاد کی ضروت سے پاک ہے دوسرے یہ خود اپنے لیے بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے، بلکہ بیٹوں کی ولادت کے خواہش مند رہتے ہیں، جو بذات خود بڑی گمراہی کی بات ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسکی بیٹیاں ہیں۔