Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ ۔۔ : بشارت اچھی خبر جس سے بشرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوں، یہاں بطور استہزا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ آل عمران : ٢١ ] ” سو انھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دے۔ “ ” ظَلَّ کَذَا “ وہ سارا دن اس طرح رہا۔ یہ ” صَارَ “ کے معنی میں بھی آتا ہے کہ وہ اس طرح ہوگیا۔ ” كَظِيْمٌ“ کا معنی ” کَتْمٌ“ (چھپانا) ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ ) [ آل عمران : ١٣٤ ] ” اور غصے کو پی جانے والے۔ “ یہ ” کَظَمَ الْقِرْبَۃَ “ سے لیا گیا ہے۔ جب مشکیزہ پانی سے بھر جائے، پھر اس کا منہ باندھ دیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی پھٹ جائے گا، مراد غم سے بھرا ہوا ہے، یعنی لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر سارا دن غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا رہتا ہے، مگر وہ غم سے بھرا ہونے کے باوجود اظہار نہیں کرتا۔ اپنے خیال میں اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، اس لیے اس خوش خبری کو وہ اتنا برا سمجھتا ہے کہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے، آیا اسے اپنے پاس رکھے اور جاہل معاشرے کی نظر میں ذلیل ہو کر رہنا برداشت کرے یا اسے مٹی میں چھپا دے، یعنی زندہ دفن کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصاً متوجہ کرنے کے لیے فرمایا ” اَلَا “ سن لو، خبردار ہوجاؤ، یہ دونوں فیصلے ہی بہت برے ہیں۔ لڑکی کو حقیر اور ذلیل کر کے رکھنا بھی اور اسے زندہ درگور کرنا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد دینے یا نہ دینے کے متعلق چار قسمیں بنائیں، سب سے پہلے لڑکیوں کو اپنا ہبہ اور عطیہ قرار دیا، فرمایا : ( يَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ 49؀ۙ اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا ۚ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَاۗءُ عَــقِـيْمًا ۭ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ ) [ الشورٰی : ٤٩، ٥٠ ] ” وہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے، یقیناً وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “ اسلام میں بیٹیوں کی پرورش کا اجر بہت بیان کیا گیا، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة شوریٰ کی آیت (٥٠) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور جب ان میں کسی کو بیٹی (پیدا ہونے) کی خبر دی جائے (جس کو اللہ کے لئے تجویز کرتے ہیں) تو (اس قدر ناراض ہو کہ) سارے دن اس کا چہرہ بےرونق رہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہے (اور) جس چیز کی اس کو خبر دی گئی ہے (یعنی تولد دختر) اس کی عار سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرے (اور دل میں اتار چڑھاؤ کرے کہ) آیا اس (مولود و جدید) کو ذلت (کی حالت) پر لئے رہے یا اس کو (زندہ یا مار کر) مٹی میں گاڑ دے خوب سن لو ان کی یہ تجویز بہت بری ہے (کہ اول تو خدا کے لئے ثابت کرنا یہی کس قدر بری بات ہے پھر اولاد بھی وہ جس کو خود اس قدر ذلیل وموجب عار سمجھیں پس) جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کی بری حالت ہے (دنیا میں بھی کہ ایسے جہل میں مبتلا ہیں اور آخرت میں بھی کہ مبتلائے عقوبت وذلت ہوں گے) اور اللہ تعالیٰ کے لئے تو بڑے اعلیٰ درجہ کے صفات ثابت ہیں (نہ وہ جو کہ یہ مشرکین بکتے ہیں) اور وہ بڑے زبردست ہیں (اگر ان کو دنیا میں شرک کی سزا دینا چاہیں تو کچھ مشکل نہیں لیکن ساتھ ہی) بڑی حکمت والے (بھی ہیں بمقتضائے حکمت بعد موت تک سزا کو مؤ خر فرما دیا ہے۔ )- معارف و مسائل :- ان آیتوں میں کفار عرب کی دو خصلتوں پر مذمت کی گئی ہے کہ اول تو وہ اپنے گھر میں لڑکی پیدا ہونے کو اتنا برا سمجھتے ہیں کہ شرمندگی کے سبب لوگوں سے چھپتے پھریں اور اس سوچ میں پڑجائیں کہ لڑکی پیدا ہونے سے جو میری ذلت ہوچکی ہے اس پر صبر کروں یا اس کو زندہ درگور کر کے پیچھا چھڑاؤں اور اس پر مزید جہالت یہ ہے کہ جس اولاد کو اپنے لئے پسند نہ کریں اللہ جل شانہ کی طرف اسی کو منسوب کریں کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ 58؀ۚ- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- سود - السَّوَادُ : اللّون المضادّ للبیاض، يقال : اسْوَدَّ واسْوَادَّ ، قال : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ- [ آل عمران 106] فابیضاض الوجوه عبارة عن المسرّة، واسْوِدَادُهَا عبارة عن المساءة، ونحوه : وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [ النحل 58] ، وحمل بعضهم الابیضاض والاسوداد علی المحسوس، والأوّل أولی، لأنّ ذلک حاصل لهم سُوداً کانوا في الدّنيا أو بيضا، وعلی ذلک دلّ قوله في البیاض :- وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة 22] ، وقوله : وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ باسِرَةٌ [ القیامة 24] ، وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْها غَبَرَةٌ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس 40- 41] ، وقال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عاصِمٍ كَأَنَّما أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِنَ اللَّيْلِ مُظْلِماً [يونس 27] ، وعلی هذا النحو ما روي «أنّ المؤمنین يحشرون غرّا محجّلين من آثار الوضوء» «1» ، ويعبّر بِالسَّوَادِ عن الشّخص المرئيّ من بعید، وعن سواد العین، قال بعضهم : لا يفارق سوادي سواده، أي : عيني شخصه، ويعبّر به عن الجماعة الكثيرة، نحو قولهم : ( عليكم بالسّواد الأعظم) «2» ،- سَّيِّدُ :- المتولّي للسّواد، أي : الجماعة الكثيرة، وينسب إلى ذلک فيقال :- سيّد القوم، ولا يقال : سيّد الثّوب، وسيّد الفرس، ويقال : سَادَ القومَ يَسُودُهُمْ ، ولمّا کان من شرط المتولّي للجماعة أن يكون مهذّب النّفس قيل لكلّ من کان فاضلا في نفسه :- سَيِّدٌ. وعلی ذلک قوله : وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] ، وقوله : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف 25] ، فسمّي الزّوج سَيِّداً لسیاسة زوجته، وقوله : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا - [ الأحزاب 67] ، أي : ولاتنا وسَائِسِينَا .- ( س و د ) السواد - ( ضد بیاض ) سیاہ رنگ کو کہتے ہیں اور اسود ( افعلال ) واسواد ( افعیلال ) کے معنی کسی چیز کے سیاہ ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ [ آل عمران 106] جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے سیاہ ۔ تو چہروں کے سفید ہونے سے اظہار مسرت اور سیاہ ہونے سے اظہار غم مراد ہے ایطرح آیت : وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [ النحل 58] حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( کے پیدا ہونے ) کی خوشخبری ملتی ہے تو اس کا منہ ( غم کے سبب ) کالا پڑجاتا ہے اور ( اس کے دل کو دیکھو تو ) وہ اندرہی خاک ہوجاتا ہے ۔ وہ بھی مسودا سے بھی مغموم ہونا ہی مراد ہے ۔ بعض نے آیت ۔ تبیض الخ میں حسی سفیدی اور سیاہی کے معنی مراد لئے ہیں ۔ لکین پہلا معنی زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ چیز تو قیامت کے دن اعمال کے اعتبار سے حاصل ہوگی عام اس سے کہ وہ دینا میں سیاہ فام ہوں یا سفید فام اور اسی سفیدی اور سیاہی کو دوسری آیات میں یوں فرمایا ہے : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة 22] اس دن بہت سے منہ رونق دارہوں گے وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ باسِرَةٌ [ القیامة 24] اور بہت سے منہ اس روز اداس ہوں گے ۔ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْها غَبَرَةٌ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس 40- 41] اور کتنے منہ ہوں گے جن پر گرد پڑرہی ہوگی ( اور ) سیاہی چڑھ رہی ہوگی ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عاصِمٍ كَأَنَّما أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِنَ اللَّيْلِ مُظْلِماً [يونس 27] اور ان کے منہ پر ذلت چھائے گی اور کوئی ان کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا ان کے مونہوں ( سیاہی ) کا یہ عالم ہوگا کہ ان ہر گویا اندھیری رات کے ٹکڑے اوڑھا دئیے گئے ہیں ۔ اسی طرح مومنین کے متعلق حدیث میں آیا ہے یحشرون غرا محجلین من آثار الوضوء کہ قیامت کے دن آثار وضو سے ان کے پاتھ پاؤں اور چہرے چمک رہے ہوں گے ۔ اور دور سے جو چیز نظر پڑے اسے بھی سواد کہا جاتا ہے اسی طرح آنکھ کی سیاہی کو بھی سوادلعین سے تعبیر کرلیتے ہیں جیسا کہ کسی نے کہا ہے لایفارق سوادی سوادہ میری آنکھ اس کے شخص سے جدا نہیں ہوتی اور بڑی جماعت کو بھی سواد کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ مروی ہے : مسلمانوں کی بڑی جماعت کا ساتھ نہ چھوڑو ( نہ اس سے علیدگی اختیار کرو ) - اور سید کے معنی - بڑی جماعت کا سردار کے ہیں چناچہ اضافت کے وقت سیدالقوم تو کہا جاتا ہے ۔ مگر سید الثوب یا سیدالفرس نہیں بالو جاتا اور اسی سے سادا القوم یسودھم کا محاورہ ہے چونکہ قوم کے رئیس کا مہذب ہونا شرط ہے اس اعتبار ہر فاضل النفس آدمی سید کہا جاتا چناچہ آیت وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] اور سردار ہوں گے اور عورت سے رغبت نہ رکھنے والے ۔ میں بھی سید کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف 25] اور دونوں کو عورت کا خاوند مل گیا ۔ میں خاوند کو سید کہا گیا ہے کیونکہ وہ بیوی کا نگران اور منتظم ہوتا ہے اور آیت : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا[ الأحزاب 67] اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا ۔ میں سادتنا سے دلاۃ اور حکام مراد ہیں ۔- كظم - الْكَظْمُ : مخرج النّفس، يقال : أخذ بِكَظَمِهِ ، والْكُظُومُ : احتباس النّفس، ويعبّر به عن السّكوت کقولهم : فلان لا يتنفّس : إذا وصف بالمبالغة في السّكوت، وكُظِمَ فلان : حبس نفسه . قال تعالی: إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم 48] ، وكَظْمُ الغَيْظِ : حبسه، قال :- وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] - ( ک ظ م ) الکظم - اصل میں مخروج النفس یعنی سانس کی نالي کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ احذ بکظمہ اس کی سانس کی نالي کو پکڑ لیا یعنی غم میں مبتلا کردیا ۔ الکظوم کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور خاموش ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ انتہائی خا موشی کے معیس کو ظاہر کرنے کے لئے فلان لا یتنفس کہا جاتا ہے ۔ فلاں سانس نہین لیتا یعنی خا موش ہے ۔ کظم فلان اس کا سانس بند کردیا گیا ( مراد نہایت غمگین ہونا ) چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم 48] کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم) غصہ میں بھرے تھے ۔ اور کظلم الغیظ کے معنی غصہ روکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ - وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو در کتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٨۔ ٥٩) اور جب ان میں سے کسی کی بیٹی کی پیدایش کی خبر دی جاتی ہے تو غم وناراضگی میں اس کے چہرے کا نور غائب اور وہ سیاہ چہرے اور دل ہی دل میں کڑہتا رہتا ہے اور لڑکی پیدا ہونے کی جو اس کو خبر دی گئی ہے، اس کے اظہار کو برا سمجھتے ہوئے لوگوں سے چھپائے پھرتا ہے اور سوچتا ہے آیا اس لڑکی کو ذلت وعار کی حالت میں لیے رہے یا اس کو مٹی میں زندہ درگور کر دے، اچھی طرح سن لو، ان کی یہ تجویز بہت ہی بری ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اپنے لیے لڑکوں کو پسند کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani