Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خوشگوار دودھ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا گواہ ہے اونٹ گائے بکری وغیرہ بھی اپنے خالق کی قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں ۔ بطونہ میں ضمیر کو یا تو نعمت کے معنی پر لوٹایا ہے یا حیوان پر چوپائے بھی حیوان ہی ہیں ۔ ان حیوانوں کے پیٹ میں جو الا بلا بھری ہوئی ہوتی ہے ۔ اسی میں سے پروردگار عالم تمہیں نہایت خوش ذائقہ لطیف اور خوشگوار دودھ پلاتا ہے ۔ دوسری آیت میں بطونہا ہے دونوں باتیں جائز ہیں ۔ جیسے آیت ( كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ 11۝ۚ فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ 12۝ۘ ) 80 ۔ عبس:12-11 ) میں ہے اور جیسے آیت ( وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ 35؀ ) 27- النمل:35 ) میں ہے پس جاء میں مذکر لائے ۔ مراد اس سے مال ہے جانور کے باطن میں جو گوبر خون وغیرہ ہے ، معدے میں غذا پہنچی وہاں سے خون رگوں کی طرف دوڑ گیا ، دودھ تھن کی طرف پہنچا ، پیشاب نے مثانے کا راستہ پکڑا ، گوبر اپنے مخرج کی طرف جمع ہوا نہ ایک دو سرے سے ملے نہ ایک دوسرے کو بدلے ۔ یہ خالص دودھ جو پینے والے کے حلق میں با آرام اتر جائے اس کی خاص نعمت ہے ۔ اس نعمت کے بیان کے ساتھ ہی دوسری نعمت بیان فرمائی کہ کھجور اور انگور کے شیرے سے تم شراب بنا لیتے ہو ۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے ہے ۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کی شراب ایک ہی حکم میں ہے جیسے مالک رحمتہ اللہ علیہ شافعی رحمتہ اللہ علیہ احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اور یہی حکم ہے اور شرابوں کا جو گہیوں جو ، جوار اور شہد سے بنائی جائیں جیسے کہ احادیث میں مفصل آ چکا ہے ۔ یہ جگہ اس کی تفصیل کی نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں شراب بناتے ہو جو حرام ہے اور اور طرح کھاتے پیتے ہو جو حلال ہے مثلاً خشک کھجوریں ، کشمش وغیرہ اور نیند شربت بنا کر ، سرکہ بنا کر اور کئی اور طریقوں سے ۔ پس جن لوگوں کو عقل کا حصہ دیا گیا ہے ، وہ اللہ کی قدرت و عظمت کو ان چیزوں اور ان نعمتوں سے بھی پہچان سکتے ہیں ۔ دراصل جو ہر انسانیت عقل ہی ہے ۔ اسی کی نگہبانی کے لئے شریعت مطہرہ نے نشے والی شرابیں اس امت پر حرام کر دیں ۔ اسی نعمت کا بیان سورہ یٰسین کی آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِيْهَا مِنَ الْعُيُوْنِ 34؀ۙ ) 36-يس:34 ) میں ہے یعنی زمین میں ہم نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ لگا دئیے اور ان میں پانی کے چشمے بہا دئیے تاکہ لوگ اسکا پھل کھائیں ، یہ انکے اپنے بنائے ہوئے نہیں ۔ کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہیں کریں گے ؟ وہ ذات پاک ہے جس نے زمین کی پیداوار میں اور خود انسانوں میں اور اس مخلوق میں جسے یہ جانتے ہی نہیں ہر طرح کی جوڑ جوڑ چیزیں پیدا کر دی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 اَنْعَام (چوپائے) سے اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ، دنبہ) مراد ہوتے ہیں۔ 66۔ 2 یہ چوپائے جو کچھ کھاتے ہیں، معدے میں جاتا ہے، اسی خوراک سے دودھ، خون، گوبر اور پیشاب بنتا ہے، خون رگوں میں اور دودھ تھنوں میں اسی طرح گوبر اور پیشاب اپنے اپنے مخرج میں منتقل ہوجاتا ہے اور دودھ میں نہ خون کی رنگت شامل ہوتی ہے اور نہ گوبر پیشاب کی بدبو۔ سفید اور شفاف دودھ باہر آتا ہے جو نہایت آسانی سے حلق سے نیچے اتر جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٣] دودھ کی پیدائش میں اللہ کی قدرتیں :۔ فرث کا اطلاق صرف اس قسم کی لید یا گوبر پر ہوتا ہے جو پیٹ یا معدہ میں موجود ہو اور جب مقعد کے راستہ گوبر وغیرہ کی صورت میں نکل آئے تو وہ فرث نہیں ہے بلکہ اسے روث کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی کے بعد دوسری بڑی مشروب نعمت دودھ کا ذکر فرمایا۔ دودھ کی پیدائش حیرت انگیز طریقے سے مادہ کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ اسی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے۔ اس میں ایک تو اللہ کی قدرت یہ ہے کہ ایک ہی جنس کے نر ہوں یا مادہ۔ دونوں ایک جیسی خوراک کھاتے ہیں۔ اس خوراک میں سے کام کی چیز جس سے انسان کی زندگی قائم رہتی ہے خون بنتا ہے۔ باقی فضلہ مقعد وغیرہ کے راستہ خارج ہوجاتا ہے لیکن مادہ میں اسی ایک ہی خوراک سے ایک تیسری چیز دودھ بھی بنتا ہے اور وہ صرف مادہ میں ہی بنتا ہے نر میں نہیں بنتا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ خون اور گوبر جیسی دو حرام اور گندی چیزوں سے تیسری چیز دودھ جو حاصل ہوتا ہے وہ حلال، نہایت سفید، خوش رنگ، پاکیزہ، خوشگوار اور مزیدار ہوتا ہے پھر یہ محض ایک مشروب ہی نہیں بلکہ انسانی جسم کی تربیت کے لیے مکمل غذا کا کام دیتا ہے۔ یہ صرف پیاس کو نہیں بجھاتا بلکہ بھوک بھی مٹا دیتا ہے۔ اور شیردار جانور کے بچوں کی ابتدائی تربیت اسی دودھ پر ہی ہوتی ہے۔ پھر مویشیوں کے پیٹ میں یہ دودھ اس قدر افراط سے پیدا ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کی تربیت کے بعد مویشیوں کے مالکوں کو بھی خاصی مقدار میں دودھ حاصل ہوجاتا ہے۔- دودھ پلانے والی مادہ کے جسم میں دودھ تیار کرنے والے اعضاء تو اس کی بلوغت کے وقت نمودار ہوجاتے ہیں جنہیں عرف عام میں پستان کہا جاتا ہے۔ اور دودھ کے بننے کے بارے میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مادہ کے پستان یا دودھ بنانے والی یہ مشینری صرف اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے جب مادہ کو حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس سے پہلے اگرچہ پستان موجود ہوتے ہیں مگر وہ کوئی کام نہیں کرتے اور جب حمل قرار پاتا ہے تو یہ مشینری اپنے فطری کام کا آغاز کردیتی ہے۔ حتیٰ کہ بچہ کی پیدائش تک مادہ کا خون دودھ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور نوزائیدہ بچہ کو بروقت اللہ تعالیٰ اس کی خوراک مہیا کردیتا ہے اور بچہ کو دودھ پینے کا سلیقہ بھی سکھا دیتا ہے۔ اور یہ کام کچھ اس انداز سے سرانجام پاتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بےپناہ قدرتوں، حکمتوں اور مصلحتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۔۔ :” الْاَنْعَامِ “ لفظاً مفرد ہے، افعال کا وزن یہاں جمع کے لیے نہیں بلکہ یہ اسم جمع ہے، جیسے ” رَھْطٌ“ ، ” قَوْمٌ“ اور ” بَقْرٌ“ وغیرہ۔ یہاں لفظ کی رعایت سے اس کے لیے واحد مذکر کی ضمیر ” بُطُوْنِهٖ “ لائی گئی ہے، سورة مومنون (٢١) میں ” نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا “ جمع کے معنی کی رعایت سے مؤنث کی ضمیر لائی گئی ہے۔ ” الْاَنْعَامِ “ اصل میں اونٹوں کو کہتے ہیں، کیوں وہ بہت بڑی نعمت ہیں، اس کے ساتھ گائے اور بھیڑ بکری کو بھی ” الْاَنْعَامِ “ کہہ لیتے ہیں۔ سورة انعام (١٤٣، ١٤٤) ، میں ان کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ ” لَعِبْرَةً “ میں تنوین تعظیم کی ہے، بہت بڑی عبرت، معنی ہے عبور کرنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا، ایک چیز سے ایسی نصیحت حاصل کرنا جو دوسری جگہ کام دے۔ ” نُسْقِيْكُمْ “ قرآن میں ” سَقٰی “ اور ” أَسْقٰی “ دونوں لفظ آئے ہیں، اکثر لوگ ان کا ایک ہی معنی کردیتے ہیں، جبکہ ان میں فرق ہے، ” سَقٰی یَسْقِیْ “ پلانا اور ” أَسْقٰی یُسْقِیْ “ پلانے کے لیے دینا، یعنی ہم تمہیں پلانے کے لیے دیتے ہیں، خود پی لو یا کسی کو پلا دو ۔ ” فَرْثٍ “ چوپاؤں کی ہضم شدہ خوراک جب تک اوجھڑی میں رہے، جب باہر نکلے تو اسے ” رَوْثٌ“ کہتے ہیں۔ ” لَّبَنًا خَالِصًا “ گوبر کی بو اور رنگ اور خون کی سرخی دونوں سے خالص، سفید اور لذیذ دودھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کتنی عظیم نشانی ہے، کوئی ہے جو گوبر اور خون میں سے خالص دودھ کشید کرسکے ؟ ” سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ “ ” سَاغَ یَسُوْغُ “ جو آسانی سے حلق میں اتر جائے۔ دودھ ایک مکمل غذا ہے، اس لیے بچے کی مکمل پرورش کے لیے دودھ ہی کافی ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر میرے پاس شراب کا ایک برتن اور دودھ کا ایک برتن اور شہد کا ایک برتن لایا گیا تو میں نے دودھ کو پسند کیا تو جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا، یہ فطرت ہے، آپ بھی اس پر ہیں اور آپ کی امت بھی۔ [ بخاری، الأشربۃ، باب شرب اللبن۔۔ : ٥٦١٠، عن أنس بن مالک (رض) ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ الْوَسَاءِدُ وَالدُّھْنُ وَاللَّبَنُ ) [ ترمذی الأدب، باب ما جاء في کراھیۃ رد الطیب : ٢٧٩٠، عن ابن عمر۔۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٢؍١١٨، ح : ٦١٩ ] ” تین چیزیں رد نہیں کی جاتیں، گاؤ تکیے، تیل (خوشبو) اور دودھ۔ “ - 3 اللہ تعالیٰ نے اپنے اکیلے معبود ہونے اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل کے لیے چوپاؤں میں سے ایک چیز کا ذکر فرمایا۔ دیکھیے وہ گھاس اور چارا جو حیوان کھاتے ہیں، وہ پانی اور مٹی سے پیدا ہوتا ہے۔ مٹی اور پانی کو گھاس اور چارے میں بدلنا، پھر جانور کے پیٹ میں اسے خون سے بدلنا، پھر اسے دودھ میں بدلنا کس قدر باعث عبرت ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری طرح قادر ہے کہ تمام چیزوں کو ایک حالت سے دوسری جس حالت میں چاہے بدل دے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (نیز) تمہارے لئے مواشی میں بھی غور درکار ہے (دیکھو) ان کے پیٹ میں جو گوبر اور خون (کا مادہ) ہے اس کے درمیان میں سے (دودھ کا مادہ کہ ایک حصہ خون کا ہے بعد ہضم کے جدا کر کے تھن کے مزاج سے ان کا رنگ بدل کر اس کو) صاف اور گلے میں آسانی سے اترنے والا دودھ (بنا کر) ہم تم کو پینے کو دیتے ہیں ،- معارف و مسائل :- بطونہ کی ضمیر انعام کی طرف راجع ہے لفظ انعام جمع مونث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ بطونہا کہا جاتا جیسا کہ سورة مؤمنین میں اسی طرح نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا فرمایا گیا ہے - قرطبی نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ سورة مؤ منون میں معنی جمع کی رعایت کر کے ضمیر مؤ نث لائی گئی اور سورة نحل میں لفظ جمع کی رعایت سے ضمیر مذکر استعمال ہوئی اور محاورات عرب میں اس کی نظیریں بیشمار ہیں کہ لفظ جمع کی طرف ضمیر مفرد راجع کی جاتی ہے۔- گوبر اور خون کے درمیان سے صاف دودھ نکالنے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جانور جو گھاس کھاتا ہے جب وہ اس کے معدہ میں جمع ہوجاتا ہے تو معدہ اس کو پکاتا ہے معدہ کے اس عمل سے غذا کا فضلہ نیچے بیٹھ جاتا ہے اوپر دودھ ہوجاتا ہے اور اس کے اوپر خون پھر قدرت نے یہ کام جگر کے سپرد کیا ہے کہ ان تینوں قسموں کو الگ الگ ان کے مقامات میں تقسیم کردیتا ہے خون کو الگ کر کے رگوں میں منتقل کردیتا ہے اور دودھ کو الگ کر کے جانور کے تھنوں میں پہنچا دیتا ہے اور اب معدہ میں صرف فضلہ باقی رہ جاتا ہے جو گوبر کی صورت میں نکلتا ہے۔- مسئلہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ لذیذ اور شیرین کھانے کا استعمال زہد کے خلاف نہیں ہے جبکہ اس کو حلال طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اور اس میں اسراف اور فضول خرچی نہ کی گئی ہو حضرت حسن بصری نے ایسا ہی فرمایا ہے (قرطبی - مسئلہ : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم کوئی کھانا کھاؤ تو یہ کہو اللہم بارک لنا فیہ واطعمنا خیرا منہ (یعنی یا اللہ اس میں ہمارے لئے برکت عطا فرما اور آئندہ اس سے اچھا کھانا نصیب فرما) اور فرمایا کہ جب دودھ پیو تو یہ کہو اللہم بارک لنا فیہ وزدنا منہ (یعنی یا اللہ ہمارے لئے اس میں برکت دیجئے اور زیادہ عطا فرمائیے) اس سے بہتر سوال اس لئے نہیں کیا کہ انسانی غذا میں دودھ سے بہتر کوئی دوسری غذا نہیں ہے اسی لئے قدرت نے ہر انسان وحیوان کی پہلی غذا دودھ ہی بنائی ہے جو ماں کی چھاتیوں سے اسے ملتی ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ 66؀- نعام - [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- عبرت - والعِبْرَةُ : بالحالة التي يتوصّل بها من معرفة المشاهد إلى ما ليس بمشاهد . قال تعالی: إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] ، فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر 2]- عبرت - والاعتبار اس حالت کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ کسی دیکھی چیز کی وساطت سے ان دیکھے نتائج تک پہنچا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے ۔- فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ [ الحشر 2] اے اصحاب بصیرت اس سے عبرت حاصل کرو ۔- سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر :- 58-- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس - «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر :- ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن .- قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» .- وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- فرث - قال تعالی: مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل 66] ، أي : ما في الکرش، يقال : فَرَثْتُ كبده . أي : فتنتها، وأَفْرَثَ فلان أصحابه : أوقعهم في بليّة جارية مجری الفرث .- ( ف ر ث )- الفرث جو کچھ جانور کی اجھڑی کے اندر ہوتا ہے اسے فرث کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل 66] گوبر اور لہو میں سے کس طرح خالص دودھ فرث کبدہ میں نے اس لے جگر کو پارہ پارہ کردیا ۔ افرث فلان اصحابہ فلاں نے اپنے ساتھیوں کو ایسی مصیبت میں مبتلا کردیا جو بمنزلہ فرث کے تھی ( یعنی ریزہ ریزہ کردینے کردینے والی ۔- لبن - اللَّبَنُ جمعه : أَلْبَانٌ. قال تعالی: وَأَنْهارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ [ محمد 15] ، وقال :- مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل 66] ، ولَابِنٌ: كثر عنده لبن، ولَبَنْتُهُ : سقیته إياه، وفرس مَلْبُونٌ ، وأَلْبَنَ فلان : كثر لبنه، فهو مُلْبِنٌ. وأَلْبَنَتِ الناقة فهي مُلْبِنٌ: إذا کثر لبنها، إمّا خلقة، وإمّا أن يترک في ضرعها حتی يكثر، والْمَلْبَنُ : ما يجعل فيه اللّبن، وأخوه بِلِبَانِ أمّه، قيل : ولا يقال : بلبن أمّه «1» . أي : لم يسمع ذلک من العرب، وکم لَبَنُ غنمک «2» أي : ذوات الدّرّ منها . واللُّبَانُ : الصّدر، واللُّبَانَةُ أصلها الحاجة إلى اللّبن، ثم استعمل في كلّ حاجة، وأمّا اللَّبِنُ الذي يبنی به فلیس من ذلک في شيء، الواحدة :- لَبِنَةٌ ، يقال : لَبَّنَه يُلَبِّنُهُ «3» ، واللَّبَّانُ : ضاربه .- ( ل ب ن ) اللبن - ۔ دودھ ج البان ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْهارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ [ محمد 15] اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلے گا ۔ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل 66] من بین فرث ودم لبنا خالصا ۔ اور اس غذا سے جو نہ فضلہ بنی ہو اور نہ فون ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں ۔ لابن ۔ بہت دودھ والا ۔ لبنتہ میں نے اسے دودھ پلایا ۔ فرس ملنون ۔ دودھ سے پر ورش کیا ہوا گھوڑا ۔ البن فلان بہت سے دودھ کا مالک ہونا اور ایسے آدمی کو ملبن کہا جاتا ہے ۔ البنت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی بہت دودھ والی ہوگئی عام اس سے کہ طبعی طور پر ہو یا تھنوں میں دودھ چھوڑنے کی وجہ سے ہو ۔ الملبن دودھ دوہنے کا برتن اور ھو اخوہ بلبان امہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کا ر ضاعی بھائی ہے اور اس محاورہ میں لبان امہ کی بجائے لبن امہ کہنا ۔ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ اہل عرب سے مسموع نہیں ہے کیونکہ یہ اہل عرب سے مسموع نہیں ہے ۔ کم لبن غنمک یعنی تیری بکریوں میں دودھ دودھ والی کتنی ہیں ۔ اللبان کے منعی صدر یعنی سینہ کے ہیں اور لبانۃ کے اصل معنی تو دودھ کی ضرورت کے ہیں مگر مطلق ضرورت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اللبن جس کے منعی عمارتی اینٹ کے ہیں اور اس کا واحد لبنۃ ہے اس کا لبن ( دودھ ) سے کوئی معنوی تعلق نہیں ہے اللبن ( اینٹ ) سے لبنہ ( یلبنہ کے معنی اینٹ سے مارنے کے ہیں اور اینٹ بنانے والے کو لبان کہا جاتا ہے ۔- خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، ويقال : خَلَّصْته فَخَلَصَ ، ولذلک قال الشاعر :- 146-- خلاص الخمر من نسج الفدام - «3» قال تعالی: وَقالُوا ما فِي بُطُونِ هذِهِ الْأَنْعامِ خالِصَةٌ لِذُكُورِنا [ الأنعام 139] ، ويقال : هذا خالص وخالصة، نحو : داهية وراوية، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم . وقوله : وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ- [ البقرة 139] ، إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] ، فإخلاص المسلمین أنّهم قد تبرّؤوا ممّا يدّعيه اليهود من التشبيه، والنصاری من التثلیث، قال تعالی: مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [ الأعراف 29] ، وقال : لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قالُوا إِنَّ اللَّهَ ثالِثُ ثَلاثَةٍ [ المائدة 73] ، وقال : وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ [ النساء 146] ، وهوكالأوّل، وقال : إِنَّهُ كانَ مُخْلَصاً وَكانَ رَسُولًا نَبِيًّا [ مریم 51] ، فحقیقة الإخلاص : التّبرّي عن کلّ ما دون اللہ تعالی.- ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ خلصتہ فخلص میں نے اسے صاف کیا تو وہ صاف ہوگیا اسی بنا پر شاعر نے کہا ہے جیسے شراب صافی سے صاف ہوکر نکل آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا ما فِي بُطُونِ هذِهِ الْأَنْعامِ خالِصَةٌ لِذُكُورِنا [ الأنعام 139] اور یہ بھی کہتے ہیں جو بچہ ان چار پایوں کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردو کے لئے ہے ۔ محاورہ میں ( مذکر ومؤنث ) دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ میں مخلص بندہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ نہ تو یہود کی طرح تشبیہ کا عقیدہ رکھتے تھے اور نہ ہی عیسایوں کی طرح کے تثلیث قائل تھے چناچہ تثلیث کے متعلق فرمایا : ۔ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قالُوا إِنَّ اللَّهَ ثالِثُ ثَلاثَةٍ [ المائدة 73] وہ لوگ ( بھی ) کافر ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے اور مسلمانوں کے متعلق فرمایا : ۔ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [ الأعراف 29] کہ اخلاص کیساتھ ۔ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ [ النساء 146] اور خالص خدا کے فرمانبرردار ہوگئے ۔ نیز موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّهُ كانَ مُخْلَصاً وَكانَ رَسُولًا نَبِيًّا [ مریم 51] بیشک وہ ہمارے برگزیدہ اور پیغمبر مرسل تھے ۔ اور حقیقتا اخلاص ماسوری اللہ سے بیزار ہونیکا کا نام ہے ۔- ساغ - سَاغَ الشّراب في الحلق : سهل انحداره، وأَسَاغَهُ كذا . قال : سائِغاً لِلشَّارِبِينَ- [ النحل 66] ، وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم 17] ، وسَوَّغْتُهُ مالا مستعار منه، وفلان سوغ أخيه : إذا ولد إثره عاجلا تشبيها بذلک .- ( س و غ )- ساغ الشراب فی لخلق کے معنی شراب کے آسانی کے ساتھ حلق سے نیچے اتر جانا کے ہیں واساغہ کزا ( افعال ) کے معنی حلق سے نیچے اتار نے کے چناچہ قرآن میں ہے ۔ سائِغاً لِلشَّارِبِينَ [ النحل 66] پینے والوں کے لئے خوش گوار ہے ۔ وَلا يَكادُ يُسِيغُهُ [إبراهيم 17] اور گلے سے نہیں اتار سکے گا ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے سو غتہ مال میں نے اس کے لئے مال خوشگوار بنادیا یعنی مباح کردیا اور پھر اس کے کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان سوغ اخیہ کا محاورہ اس بچے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو اپنے بھائی کے بعد جلدی دی پیدا ہو ( یہ مذکر ومونث دونوں کے حق ميں بولا جاتا ہے - شرب - الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ- [يونس 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُوقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنهوقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ- [ البقرة 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر :- 264-- فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین - «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر :- 265-- تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور - «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7»- ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل .- ( ش ر ب ) الشراب - کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور ہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشر بۃ ہے اور شرتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیا سے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گور خر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ) گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوز ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الا قران حتیٰ وقص تھا بقوح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال مین کہ انہوں نے حمل کرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ مین جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الو فر ) ( 259 ) تغلفل حبت لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن د سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشر بتنی مالم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزم لگانا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جانوروں کے دودھ کے بارے میں - قول باری ہے (نسقیکم مما فی بطونہ من بین فرس ودم لبنا خالصا سائقا للثاربین۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں یعنی خالص دودھ جو پینے والوں کے لئے نہایت خوشگوار ہے) آیت میں مردہ بکری سے نکالے ہوئے دودھ کی طہارت پر دو وجوہ سے دلالت موجود ہے۔ اول دودھ کی اباحت میں لفظ کا عموم جس میں زندہ حالت میں جانور سے نکالے ہوئے دودھ اور مردہ حالت میں نکالے ہوئے دودھ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے خارج ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس دودھ کی طہارت کا حکم لگا دیا حالانکہ دودھ پیدا ہونے کی جگہ وہی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پیدا ہونے کی جگہ کی نجاست کی وجہ سے دودھ نجس نہیں ہوتا۔ مردہ جانور کا تھن اس کی جائے پیدائش ہے۔ اس کی وجہ سے دودھ اسی طرح نجس نہیں ہوتا جس طرح گوبر اور خون کی مجاورت اور پڑوس کی بنا پر نجس نہیں ہوتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٦) اور مویشی میں سے ہم تمہارے لیے صاف مزے دار دودھ نکال کر تمہارے پینے کو دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً )- چوپایوں کی تخلیق میں بھی تمہارے لیے بڑا سبق ہے۔ ان کو دیکھو غور کرو اور اللہ کی حکمتوں کو پہچانو

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :54 گوبر اور خون کے درمیان “ کا مطلب یہ ہے کہ جانور جو غذا کھاتے ہیں اس سے ایک طرف تو خون بنتا ہے ، اور دوسری طرف فضلہ ، مگر انہی جانوروں کی صنف اناث میں اسی غذا سے ایک تیسری چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو خاصیت ، رنگ و بو ، فائدے اور مقصد میں ان دونوں سے بالکل مختلف ہے ۔ پھر خاص طور پر مویشیوں میں اس چیز کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ضرورت پوری کرنے کے بعد انسان کے لیے بھی یہ بہترین غذا کثیر مقدار میں فراہم کرتے رہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani