67۔ 1 یہ آیت اس وقت اتری تھی جب شراب حرام نہیں تھی، اس لئے حلال چیزوں کے ساتھ اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس میں سَکَرً ا کے بعد رِزْقًا حَسَنًا ہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شراب رزق حسن نہیں ہے۔ نیز یہ سورت مکی ہے۔ جس میں شراب کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ پھر مدنی سورتوں میں بتدریج اس کی حرمت نازل ہوگئی۔
[٦٤] مکی دور میں شراب کی ناپسندیدگی پر اشارہ :۔ چار قسم کے مشروب ہیں جو اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں اور یہ مشروب انسان کو اللہ نے اس دنیا میں عطا فرمائے ہیں اور اہل جنت کو جنت میں بھی بافراط عطا فرمائے گا۔ ایک پانی، دوسرے دودھ، تیسرے شراب چوتھے شہد (٤٧: ١٥) ان میں سے دو کا ذکر پہلی دو آیات میں گزر چکا ہے۔ اس آیت میں شراب کا ذکر اور اس سے بعد کی آیت میں شہد کا۔- اس آیت میں کھجور اور انگور کا ذکر اس لیے ہوا کہ یہی پھل عرب میں زیادہ تر پائے جاتے تھے ورنہ اور بھی کئی قسم کے پھلوں اور غلوں سے شراب کشید کی جاتی ہے اور جن چیزوں سے یہ شراب تیار کی جاتی ہے خواہ پھل ہوں یا غلے ہوں۔ سب پاکیزہ قسم کا رزق ہے اور عمدہ رزق سے مراد پھلوں کا رس یا جوس یا شکر یا شیرہ یا نبیذ یا ملک شیک و سرکہ، کشمش، منقہ، اور چھوہارے جن سے شراب بنتی ہے اور یہ سب چیزیں انسان کی تربیت اور صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں علاوہ ازیں خوشگوار اور مزیدار بھی ہیں۔ مگر جب اسی رس میں سڑانڈ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ الکوحل کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے جس کے پینے سے انسان بدمست ہوجاتا ہے۔ لہذا یہ عمدہ رزق نہ رہا۔ یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ سورت مکی ہے اور شراب مدنی دور میں حرام ہوئی تھی۔ مکی دور میں اگرچہ شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ تاہم اسے عمدہ رزق سے خارج کردیا گیا۔ جس میں یہ اشارہ پایا جاتا تھا کہ یہ کسی وقت حرام قرار دے دی جائے گی۔- اور اہل جنت کو جو شراب مہیا کی جائے گی اس میں سے اس کے مضر پہلو کو ختم کردیا جائے گا یعنی جنتی لوگ شراب پئیں گے تو نہ ان کا سر چکرائے گا، نہ مستی پیدا ہوگی نہ کوئی لغو باتیں کریں گے اور نہ ان کی عقل مستور ہوگی اور یہی وہ نقصانات ہیں جن کی وجہ سے شراب کو اس دنیا میں حرام قرار دیا گیا ہے۔- اور ان چیزوں میں نشانی یہ ہے کہ ایک ہی چیز میں وہ مادہ بھی موجود ہے جو انسان کے لیے حیات بخش غذا بن سکتا ہے اور وہ مادہ بھی موجود ہے جو سڑ کر نشہ آور شراب یا الکوحل میں تبدیل ہوجاتا ہے اب یہ انسان کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ ان سرچشموں سے پاک رزق حاصل کرتا ہے یا عقل کو زائل کردینے والی شراب کا۔
وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ ۔۔ : ” النَّخِيْلِ “ اور ” اَلنَّخْلُ “ اسم جنس ہیں، کھجور کا درخت۔ اگر ایک درخت واضح کرنا ہو تو ” تاء “ لگا دیتے ہیں، ” نَخِیْلَۃٌ“ اور ” نَخْلَۃٌ“۔ ” نَخَلَ یَنْخُلُ “ کا معنی ہے چھان کر عمدہ حصہ الگ کرنا، چھاننا۔ اس لیے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ چونکہ کھجور پھلوں میں منتخب ترین پھل ہے، اس لیے اسے ” نَخِیْلٌ“ کہتے ہیں۔ اس کے پھل کے مختلف وقتوں کے لحاظ سے الگ الگ نام ہیں، ” اَلْبَلَحُ “ پھر ” اَلْبُسْرُ “ پھر ” اَلرُّطَبُ “ پھر ” اَلتَّمْرُ “۔ اس لیے اس کے درخت کا نام لیا اور انگور کے پھل کا نام جمع کے ساتھ ” وَالْاَعْنَابِ “ لیا، کیونکہ انگور کی بیشمار قسمیں ہیں، البتہ اس کی بیل کو عربی میں ” اَلْکَرْمُ “ کہتے ہیں۔ ” سَكَرًا “ نشہ آور چیز، یہ ” سَکَرٌ“ اور ” سُکْرٌ“ دونوں طرح پڑھا جاتا ہے، جیسے ” رَشَدٌ“ اور ” رُشْدٌ“- دودھ والے جانوروں کے بعد پھلوں کی نعمت ذکر فرمائی۔ عرب میں یہ دو پھل زیادہ تھے، پھر یہ تازہ بھی کھائے جاتے ہیں اور ذخیرہ بھی ہوسکتے ہیں۔ ان سے بیشمار مصنوعات بھی بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بنائی ہوئی چیزوں کو دو قسمیں قرار دیا، ایک نشہ آور اور ایک رزق حسن۔ اس سے اشارہ فرمایا کہ نشہ بھی اگرچہ فائدے سے خالی نہیں مگر وہ اچھا رزق نہیں۔ یہ آئندہ شراب کی حرمت کی تمہید ہے اور بطور نعمت اس لیے ذکر کیا کہ مکہ میں شراب حلال تھی اور یہ سورت مکی ہے۔- لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ : رزق حسن میں لذت و قوت تو ہے، مگر سکر کی طرح عقل سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا نقصان نہیں، یہ بات عقل والے ہی سمجھتے ہیں۔
خلاصہ تفسیر :- اور (نیز) کھجور اور انگوروں (کی حالت میں غور کرنا چاہئے کہ ان) کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں (جیسے خرمائے خشک وکشمش اور شربت اور سرکہ) بناتے ہو بیشک اس میں (بھی توحید اور منعم ہونے کی) ان لوگوں کے لئے بڑی دلیل ہے جو عقل (سلیم) رکھتے ہیں۔- معارف و مسائل :- پچھلی آیتوں میں حق تعالیٰ کی ان نعمتوں کا ذکر تھا جو انسانی غذائیں پیدا کرنے میں عجیب و غریب صنعت وقدرت کا مظہر ہیں اس میں پہلے دودھ کا ذکر کیا جس کو قدرت نے حیوان کے پیٹ میں خون اور فضلہ کی آلائشوں سے الگ کر کے صاف ستہری غذاء انسان کے لئے عطاء کردی جس میں انسان کو کسی مزید صنعت کی ضرورت نہیں اسی لئے یہاں لفظ نُسْقِيْكُمْ استعمال فرمایا کہ ہم نے پلایا دودھ۔- اس کے بعد فرمایا کہ کھجور اور انگور کے کچھ پھلوں میں سے بھی انسان اپنی غذا اور نفع کی چیزیں بناتا ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ کھجور اور انگور کے پھلوں سے اپنی غذاء اور منفعت کی چیزیں بنائی گئیں ایک نشہ آور چیز جس کو خمر یا شراب کہا جاتا ہے دوسری رزق حسن یعنی عمدہ رزق کہ کھجور اور انگور کو تروتازہ کھانے میں استعمال کریں یا خشک کر کے ذخیرہ کرلیں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کھجور اور انگور کے پھل انسان کو دیدئیے اور اس سے اپنی غذا وغیرہ بنانے کا اختیار بھی دے دیا اب یہ اس کا انتخاب ہے کہ اس سے کیا بنائے نشہ آور چیز بنا کر عقل کو خراب کرے یا غذا بنا کر قوت حاصل کرے۔- اس تفسیر کے مطابق اس آیت سے نشہ آور چیز یعنی شراب کے حلال ہونے پر کوئی استدلال نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں مقصود قدرت کے عطیات اور ان کے استعمال کی مختلف صورتوں کا بیان ہے جو ہر حال میں نعمت خداوندی ہے جیسے تمام غذائیں اور انسانی منفعت کی چیزیں کہ ان کو بہت سے لوگ ناجائز طریقوں پر بھی استعمال کرتے ہیں مگر کسی کے غلط استعمال سے اصل نعمت تو نعمت ہونے سے نہیں نکل جاتی اس لئے یہاں یہ تفصیل بتلانے کی ضرورت نہیں کہ ان میں کون سا استعمال حلال ہے کون سا حرام تاہم ایک لطیف اشارہ اس میں بھی اس طرف کردیا گیا کہ سکر کے مقابل رزق حسن رکھا جس سے معلوم ہوا کہ سکر اچھا رزق نہیں ہے سکر کے معنی جمہور مفسرین کے نزدیک نشہ آور چیز کے ہیں (روح المعانی قرطبی جصاص)- یہ آیات باتفاق امت مکی ہیں اور شراب کی حرمت اس کے بعد مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی نزول آیت کے وقت اگرچہ شراب حلال تھی اور مسلمان عام طور پر پیتے تھے مگر اس وقت بھی اس آیت میں اشارہ اس طرف کردیا گیا کہ اس کا پینا اچھا نہیں بعد میں صراحۃ شراب کو شدت کے ساتھ حرام کرنے کے لئے قرآنی احکام نازل ہوگئے (ہذا ملخص مافی الجصاص والقرطبی)
وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ 67- ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - نخل - النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ- [ القمر 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ- [ الشعراء 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ.- ( ن خ ل ) النخل - ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛- عنب - العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی:- وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ- [ الإسراء 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد 4] ،- ( عن ن ب ) العنب - ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد 4] اور انگوروں کے باغ ۔ - سكر - السُّكْرُ : حالة تعرض بيت المرء وعقله، وأكثر ما يستعمل ذلک في الشّراب، وقد يعتري من الغضب والعشق، ولذلک قال الشاعر :- 237-- سکران : سکر هوى، وسکر مدامة- «2» ومنه : سَكَرَاتُ الموت، قال تعالی: وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] ، والسَّكَرُ :- اسم لما يكون منه السّكر . قال تعالی: تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] ، والسَّكْرُ : حبس الماء، وذلک باعتبار ما يعرض من السّدّ بين المرء وعقله، والسِّكْرُ : الموضع المسدود، وقوله تعالی: إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا - [ الحجر 15] ، قيل : هو من السَّكْرِ ، وقیل : هو من السُّكْرِ- ( س ک ر )- الکرس ۔ اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی عقل کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اس کا عام استعمال شراب کی مستی پر ہوتا ہے اور کبھی شدت غضب یا غلبہ یا غلبہ عشق کی کیفیت کو سکر سے تعبیر کرلیا جاتا ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے ( 231 ) سکران ھوی وسکر مدامۃ نشے دو ہیں ایک نشہ محبت اور دوسرا نشہ شراب اور اسی سے سکرت الموت ( موت کی بیہوشی ) ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] اور موت کی بےہوشی کھولنے کو طاری ہوگئی ۔ السکرۃ ( بفتح السین والکاف ) نشہ آور چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق رکھا تے ہو ) اور شراب سے انسان اور اس کی عقل کے درمیان بھی چونکہ دیوار کی طرح کوئی چیز حائل ہوجاتی ہے اس اعتبار سے سکر کے معنی پانی کو بند لگانے اور روکنے کے آجاتے ہیں اور اس بند کو جو بانی روکنے - کے لئے لگایا جائے سکر کہا جاتا ہے ( یہ فعل بمعنی مفعول ہے ) اور آیت : ۔ إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا[ الحجر 15] کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں ۔ میں سکرت بعض کے نزدیک سک سے ہے اور بعض نے سکرا سے لیا ہے اور پھر سکر سے سکون کے معنی لے کر پر سکون رات کو لیلۃ ساکرۃ کہا جاتا ہے ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
سکر یعنی نشہ آور مشروب - قول باری ہے (ومن ثمرات النخیل والاعناب تتخذون منہ سکراو رزقا حسنا) ۔- اسی طرح کھجور کے درختوں اور انگور کے بیلوں سے بھی جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی) آیت میں وارد لفظ سکر کی تفسیر میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ حسن اور سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ دونوں نے فرمایا کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں میں سے حاصل ہونے والا رس اور شیرہ اگر حرام ہے تو وہ سکر کہلائے گا اور اگر حلال ہے تو وہ رزق حسن ہوگا۔ ابراہیم نخعی، شعبی اور ابو رزین سے مروی ہے کہ سکر شراب کو کہتے ہیں۔ جریر نے مغیرہ سے انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ سکر شراب کو کہتے ہیں۔ ابن شرمہ نے ابو زرعہ بن عمرو بن جریر سے روایت کی ہے کہ سکر شراب کو کہتے ہیں لیکن یہ شراب کھجور کی ہوتی ہے۔ ان حضرات کا قول ہے کہ شراب کی تحریم کی بنا پر اس کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الوسطی نے روایت بیان کی۔ انہوں نے جعفر بن محمد بن الیمان نے انہیں ابو عبیدہ نے۔ انہیں عبد الرحمن نے سفیان سے، انہوں نے اسود بن قیس سے، انہوں نے عمرو بن سفیان سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ آپ نے فرمایا اس سے مراد ان دونوں درختوں کے پھلوں کی وہ صورت ہے جو حرام کردی گئی ہے اور پھلوں کی وہ صورت جو حلال ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ قول بھی پہلے حضرات کے قول کی طرح ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبیہ نے، انہیں حجاج نے ابن جریح اور عثمان بن عطاء خراسانی سے اور ان دونوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ آپ نے قول باری (تتخذون منہ سکرا) کی تفسیر میں فرمایا۔ ” سکر نبیذ کو کہتے ہیں اور رزق حسن زبیب یعنی متقی کو “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب سلف نے سکر کی تفسیر شراب، نبی د اور حرام مشروب سے کی تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکر کا اسم ان تمام پر واقع ہوتا ہے۔ پھر سلف کا یہ کہنا کہ تحریم خمر کے حکم کی بنا پر اس کا حکم منسوخ ہوچکا ہے اس پر دلالت کرتا ہے آیت سکر کی اباحت کی مقتضی ہے جس میں شراب اور نبیذ دونوں داخل ہیں۔ البتہ ان دونوں میں سے شراب کی حرمت ثابت ہوگئی ہے لیکن نبیذ کی تحریم ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ظاہر آیت کی بنا پر نبیذ کی حلت واجب ہے۔ اس لئے کہ اس حکم کا نسخ ثابت نہیں ہے جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تحریم خمر کے حکم کی بنا پر نبیذ کی حلت کا حکم بھی منسوخ ہوچکا ہے اس کا یہ دعویٰ دلالت شرعیہ کے بغیر درست نہیں ہوسکتا اس لئے کہ خمرہ اسم نبیذ کو شامل نہیں ہوتا۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ” سکر عجمیوں کی شرابوں کا نام ہے اور رزق حسن اس مشروب کا نام ہے جسے لوگ نبیذ کی صورت میں بناتے ہیں نیز سرکے کا نام ہے جسے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ یہ آیت نازل ہوئی اور شراب حرام نہیں ہوئی۔ شراب کی حرمت کا حکم تو سورة مائدہ میں آیا ہے۔ “ امام ابو یوسف نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں ایوب بن جابر الحنفی نے اشعث بن سلیمان سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں یمن کی طرف روانہ کیا تو یہ حکم دیا کہ لوگوں کو نشہ آور مشروب یعنی سکر سے روکیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس حرام سکر سے نقیع تم مراد ہے یعنی خشک کھجور کی شراب جو پانی میں بھگو کر بنائی جاتی ہے۔
(٦٧) اور کھجور اور انگوروں کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز (اب یہ منسوخ ہے) اور عمدہ پاکیزہ کھانے کی چیز بناتے ہو جیسا کہ سرکہ، خرمائے خشک، کشمش وغیرہ ان مذکورہ باتوں میں ان کے لیے توحید کی بڑی دلیل ہے جو کہ تصدیق کرتے ہیں۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :55 اس میں ایک ضمنی اشارہ اس مضمون کی طرف بھی کہ پھلوں کے اس عرق میں وہ مادہ بھی موجود ہے جو انسان کے لیے حیات بخش غذا بن سکتا ہے ، اور وہ مادہ بھی موجود ہے جو سڑ کر الکوہل میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اب یہ انسان کی اپنی قوت انتخاب پر منحصر ہے کہ وہ اس سرچشمے سے پاک رزق حاصل کرتا ہے یا عقل و خرد زائل کر دینے والی شراب ۔ ایک اور ضمنی اشارہ شراب کی حرمت کی طرف بھی ہے کہ وہ پاک رزق نہیں ہے ۔
27: یہ سورت مکی ہے۔ جب یہ نازل ہوئی تو اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی، لیکن اسی آیت میں شراب کو پاکیزہ رزق کے مقابلے میں ذکر فرمایا کر ایک لطیف اشارہ اس طرف کردیا گیا تھا کہ شراب پاکیزہ رزق نہیں ہے۔