Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

وحی سے کیا مراد ہے؟ وحی سے مراد یہاں پر الہام ، ہدایت اور ارشاد ہے ۔ شہد کی مکھیوں کو اللہ کی جانب سے یہ بات سمجھائی گئی کہ وہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور چھتوں میں شہد کے چھتے بنائے ۔ اس ضعیف مخلوق کے اس گھر کو دیکھئے کتنا مضبوط کیسا خوبصورت اور کیسی کاری گری کا ہوتا ہے ۔ پھر اسے ہدایت کی اور اس کے لئے مقدر کر دیا کہ یہ پھلوں ، پھولوں اور گھاس پات کے رس چوستی پھرے اور جہاں چاہے جائے ، آئے لیکن واپس لوٹتے وقت سیدھی اپنے چھتے کو پہنچ جائے ۔ چاہے بلند پہاڑ کی چوٹی ہو ، چاہے بیابان کے درخت ہوں ، چاہے آ بادی کے بلند مکانات اور ویرانے کے سنسان کھنڈر ہوں ، یہ نہ راستہ بھولے ، نہ بھٹکتی پھرے ، خواہ کتنی ہی دور نکل جائے ۔ لوٹ کر اپنے چھتے میں اپنے بچوں ، انڈوں اور شہد میں پہنچ جائے ۔ اپنے پروں سے موم بنائے ۔ اپنے منہ سے شہد جمع کرے اور دوسری جگہ سے بچے ۔ ذللا کی تفسیر اطاعت گزر اور مسخر سے بھی کی گئی ہے پس یہ حال ہو گا سالکہ کا جیسے قرآن میں آیت ( وَذَلَّــلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَمِنْهَا يَاْكُلُوْنَ 72؀ ) 36-يس:72 ) میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لوگ شہد کے چھتے کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک لے جاتے ہیں ۔ لیکن پہلا قول بہت زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ اس کے طریق کا حال ہے ۔ ابن اجریر دونوں قول صحیح بتلاتے ہیں ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکھی کی عمر چالیس دن کی ہوتی ہے سوائے شہد کی مکھی کے ۔ کئی مکھیاں آگ میں بھی ہوتی ہیں شہد کے رنگ مختلف ہوتے ہیں سفید زرد سرخ وغیرہ جیسے پھل پھول اور جیسی زمین ۔ اس ظاہری خوبی اور رنگ کی چمک کے ساتھ اس میں شفا بھی ہے ، بہت سی بیماریوں کو اللہ تعالیٰ اس سے دور کر دیتا ہے یہاں فیہ الشفاء للناس نہیں فرمایا ورنہ ہر بیماری کی دوا یہی ٹھہرتی بلکہ فرمایا اس میں شفا ہے لوگوں کے لئے پس یہ سرد بیماریوں کی دوا ہے ۔ علاج ہمیشہ بیماریوں کے خلاف ہوتا ہے پس شہد گرم ہے سردی کی بیماری میں مفید ہے ۔ مجاہد اور ابن جریر سے منقول ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن میں شفا ہے ۔ یہ قول گو اپنے طور پر صحیح ہے اور واقعی قرآن شفا ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد لینا سیاق کے مطابق نہیں ۔ اس میں تو شہد کا ذکر ہے ، اسی لئے مجاہد کے اس قول کی اقتدا نہیں کی گئی ۔ ہاں قرآن کے شفا ہونے کا ذکر آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) میں ہے اور آیت ( وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ 57؀ ) 10- یونس:57 ) میں ہے اس آیت میں تو مراد شہد ہے چنانچہ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ کسی نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ ، وہ گیا ، شہد دیا ، پھر آیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے تو بیماری اور بڑھ گئی ۔ آپ نے فرمایا جا اور شہد پلاؤ ۔ اس نے جا کر پھر پلایا ، پھر حاضر ہو کر یہی عرض کیا کہ دست اور بڑھ گئے آپ نے فرمایا اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، جا پھر شہد دے ۔ تیسری مرتبہ شہد سے بفضل الٰہی شفا حاصل ہو گئی ۔ بعض اطباء نے کہا ہے ممکن ہے اس کے پیٹ میں فضلے کی زیادتی ہو ، شہد نے اپنی گرمی کی وجہ سے اس کی تحلیل کر دی ۔ فضلہ خارج ہونا شروع ہوا ۔ دست بڑھ گئے ۔ اعرابی نے اسے مرض کا بڑھ جانا سمجھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور شہد دینے کو فرمایا اس سے زور سے فضلہ خارج ہونا شروع ہوا پھر شہد دیا ، پیٹ صاف ہو گیا ، بلا نکل گئی اور کامل شفا بفضل الہی حاصل ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جو بہ اشارہ الہی پوری ہو گئی ۔ بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھاس اور شہد سے بہت الفت تھی ۔ آپ کا فرمان ہے کہ تین چیزوں میں شفا ہے ، پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور داغ لگوانے میں لیکن میں اپنی امت کو داغ لگوانے سے روکتا ہوں ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ تمہاری دواؤں میں سے کسی میں اگر شفا ہے تو پچھنے لگانے میں ، شہد کے پینے میں اور آگ سے دغوا نے میں جو بیماری کے مناسب ہو لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا ۔ مسلم کی حدیث میں ہے میں اسے پسند نہیں کرتا بلکہ نا پسند رکھتا ہوں ۔ ابن ماجہ میں ہے تم ان دونوں شفاؤں کی قدر کرتے رہو شہد اور قرآن ۔ ابن جریر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی شفا چاہے تو قرآن کریم کی کسی آیت کو کسی صحیفے پر لکھ لے اور اسے بارش کے پانی سے دھولے اور اپنی بیوی کے مال سے اس کی اپنی رضامندی سے پیسے لے کر شہد خرید لے اور اسے پی لے پس اس میں کئی وجہ سے شفا آ جائے گی اللہ تعالیٰ عز و جل کا فرمان ہے آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) یعنی ہم نے قرآن میں وہ نازل فرمایا ہے جو مومنین کے لیے شفا ہے اور رحمت ہے اور آیت میں ہے آیت ( وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِيْدِ Ḍ۝ۙ ) 50-ق:9 ) ہم آسمان سے با برکت پانی برساتے ہیں ۔ اور فرمان ہے آیت ( وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ ۭ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْۗــــــًٔـا مَّرِيْۗـــــــًٔـا Ć۝ ) 4- النسآء:4 ) یعنی اگر عورتیں اپنے مال مہر میں سے اپنی خوشی سے تمہیں کچھ دے دیں تو بیشک تم اسے کھاؤ پیو سہتا پچتا ۔ شہد کے بارے میں فرمان الہی ہے فیہ شفاء للناس شہد میں لوگوں کے لئے شفاء ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص ہر مہینے میں تین دن صبح کو شہد چاٹ لے اسے کوئی بڑی بلا نہیں پہنچے گی ۔ اس کا ایک راوی زبیر بن سعید متروک ہے ۔ ابن ماجہ کی اور حدیث میں آپ کا فرمان ہے کہ تم سنا اور سنوت کا استعمال کیا کرو ان میں ہر بیماری کی شفا ہے سوائے سام کے ۔ لوگوں نے پوچھا سام کیا ؟ فرمایا موت ۔ سنوت کے معنی ثبت کے ہیں اور لوگوں نے کہا ہے سنوت شہد ہے جو گھی کی مشک میں رکھا ہوا ہو ۔ شاعر کے شعر میں یہ لفظ اس معنی میں آیا ہے پھر فرماتا ہے کہ مکھی جیسی بےطاقت چیز کا تمہارے لئے شہد اور موم بنانا اس کا اس طرح آ زادی سے پھرنا اپنے گھر کو نہ بھولنا وغیرہ یہ سب چیزیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے میری عظمت ، خالقیت اور مالکیت کی بڑی نشانیاں ہیں ۔ اسی سے لوگ اپنے اللہ کے قادر حکیم علیم کریم رحیم ہونے پر دلیل حاصل کر سکتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 وَحَیً سے مراد الہام اور وہ سمجھ بوجھ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طبعی ضروریات کی تکمیل کے لئے حیوانات کو بھی عطا کی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے اور اس سورة کا نام النحل اسی نسبت سے ہے کہ صرف اسی سورت میں نحل کا ذکر آیا ہے اور اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تاکہ وہاں سے اپنے لیے غذا حاصل کرسکے حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔- [٦٦] یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے انسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجینئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔ اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انھیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیاں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ : وحی کا اصل معنی تو اشارۂ سریعہ ہے، یعنی خفیہ طریقے سے بات سمجھا دینا، جو دوسرا نہ سمجھے۔ یہاں مراد الہام ہے، یعنی دل میں ڈال دینا۔ شہد کی مکھی اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ ہے، اس لیے عرب زبان میں اس کا نام ہی ” النَّحْلِ “ رکھا گیا، جو ” نَحَلَ یَنْحَلُ “ (ف) کا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، اس کا معنی عطیہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (ۭوَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ ۭ ) [ النساء : ٤ ] ” اور عورتوں کو ان کے مہر بطور عطیہ (خوش دلی سے) دو ۔ “ اللہ تعالیٰ نے انسان بلکہ ہر مخلوق کی طبیعت اور فطرت میں اس کے فائدے اور نقصان کی پہچان رکھ دی ہے ۔- یہی وہ فطری رہنمائی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة شمس میں فرمایا : (وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا ۝۽فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا) [ الشمس : ٧، ٨ ] ” اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ٹھیک بنایا پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری (کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔ “ البتہ انسان اور دوسری مخلوق کا فرق یہ ہے کہ دوسرے سب فطری ہدایت کے پابند رہتے ہیں، مثلاً جانوروں کو دیکھ لیں، جب ان کا پیٹ بھر جائے تو مجال نہیں کہ ایک لقمہ بھی کھائیں۔ گدھا جسے سب سے کند ذہن سمجھا جاتا ہے، اللہ کی فطری ہدایت کے تحت بچے کو بھی سوار کرلیتا ہے اور پانی کا نالہ آنے پر ٹھہر کر اندازہ کرتا ہے، اگر پار کرسکتا ہو تو چھلانگ لگائے گا ورنہ نہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو فطرت کی ہدایت کو جب چاہتا ہے عمل میں لاتا ہے، نہیں چاہتا تو عمل میں نہیں لاتا، کئی دفعہ اتنا کھا جاتا ہے کہ بدہضمی یا ہیضے کا شکار ہوجاتا ہے۔- اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا ۔۔ : ” يَعْرِشُوْنَ “ چھپر بنانے سے مراد گھروں کے باہر یا کھیتوں میں بیٹھنے کے لیے سائے والے چھپر بھی ہیں اور بانسوں اور سرکنڈوں وغیرہ کے وہ کھلے چھپر بھی جو انگوروں کی بیلیں چڑھانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ” مِنْ “ تینوں جگہ تبعیض کے لیے ہے، یعنی ہر پہاڑ، درخت اور چھپر گھر بنانے کے قابل نہیں، ان میں سے مناسب جگہوں کا انتخاب کرو۔ اس کے بعد کھانے پر کوئی پابندی نہیں، ہر پھل میں سے کھاؤ، یعنی

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (یہ بات بھی غور کے قابل ہے کہ) آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈالی کہ تو پہاڑوں میں گھر (یعنی چھتہ) بنا لے اور درختوں میں (بھی) اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں (بھی چھتہ لگا لے چناچہ ان سب موقعوں پر وہ چھتہ لگاتی ہے) پھر ہر قسم کے (مختلف) پھلوں سے (جو تجھ کو مرغوب ہوں) چوستی پھر پھر (چوس کر چھتہ کی طرف واپس آنے کے لئے) اپنے رب کے راستوں میں چل جو (تیرے لئے باعتبار چلنے کے اور یاد رہنے کے) آسان ہیں (چنانچہ بڑی بڑی دور سے بےراستہ بھولے ہوئے اپنے چھتے کو لوٹ آتی ہے پھر جب چوس کر اپنے چھتہ کی طرف لوٹتی ہے تو) اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (یعنی شہد) جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں اس میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں) کے لئے شفاء ہے اس میں (بھی) ان لوگوں کے لئے (توحید کی اور منعم ہونے کی) بڑی دلیل ہے جو سوچتے ہیں )- معارف و مسائل :- اَوْحٰى۔ وحی یہاں اپنے اصطلاحی مفہوم میں نہیں ہے بلکہ لغوی معنی میں ہے وہ یہ کہ متکلم مخاطب کو کوئی خاص بات مخفی طور پر اس طرح سمجھا دے کہ دوسرا شخص اس بات کو نہ سمجھ سکے۔- النَّحْلِ ، شہد کی مکھی اپنی عقل و فراست اور حسن تدبیر کے لحاظ سے تمام حیوانات میں ممتاز جانور ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو خطاب بھی امتیازی شان کا کیا ہے باقی حیوانات کے بارے میں تو قانون کلی کے طریقہ پراَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى فرمایا لیکن اس ننھی سی مخلوق کے بارے میں خاص کرکے اَوْحٰى رَبُّكَ فرمایا جس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ یہ دوسرے حیوانات سے بہ نسبت عقل و شعور اور سوجھ بوجھ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔- شہد کی مکھیوں کی فہم و فراست کا اندازہ ان کے نظام حکومت سے بخوبی ہوتا ہے اس ضعیف جانور کا نظام زندگی انسانی سیاست وحکمرانی کے اصول پر چلتا ہے تمام نظم ونسق ایک بڑی مکھی کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو تمام مکھیوں کی حکمرانی ہوتی ہے اس کی تنظیم اور تقسیم کار کی وجہ سے پورا نظام صحیح سالم چلتا رہتا ہے اس کے عجیب و غریب نظام اور مستحکم قوانین و ضوابط کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے خود یہ ملکہ تین ہفتوں کے عرصہ میں چھ ہزار سے بارہ ہزار تک انڈے دیتی ہے یہ اپنی قد وقامت اور وضع وقطع کے لحاظ سے دوسری مکھیوں سے ممتاز ہوتی ہے یہ بلکہ تقسیم کار کے اصول پر اپنی رعایا کو مختلف امور پر مامور کرتی ہے ان میں سے بعض دربانی کے فرائض انجام دیتی ہیں اور کسی نامعلوم اور خارجی فرد کو اندر داخل نہیں ہونے دیتیں بعض انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں بعض نابالغ بچوں کی تربیت کرتی ہیں بعض معماری اور انجنیرنگ کے فرائض ادا کرتی ہیں ان کے تیار کردہ اکثر چھتوں کے خانے بیس ہزار سے تیس ہزار تک ہوتے ہیں بعض موم جمع کرکے معماروں کے پاس پہنچاتی رہتی ہیں جن سے وہ اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں یہ موم نباتات پر جمے ہوئے سفید قسم کے سفوف سے حاصل کرتی ہیں گنے پر یہ مادہ بکثرت نظر آتا ہے ان میں سے بعض مختلف قسم کے پھولوں اور پھلوں پر بیٹھ کر اس کو چوستی ہیں جو ان کے پیٹ میں شہد میں تبدیل ہوجاتا ہے یہ شہد ان کی اور ان کے بچوں کی غذا ہے اور یہی ہم سب کے لئے بھی لذت وغذا کا جوہر اور دوا و شفاء کا نسخہ ہے یہ مختلف پارٹیاں نہایت سرگرمی سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتی ہیں اور اپنی ملکہ کے حکم کو دل وجان سے قبول کرتی ہیں ان میں سے اگر کوئی گندگی پر بیٹھ جائے تو چھتے کے دربان اسے باہر روک لیتے ہیں اور ملکہ اس کو قتل کردیتی ہے ان کے اس حیرت انگیز نظام اور حسن کارکردگی کو دیکھ کر انسان حیرت میں پڑجاتا ہے (از الجواہر)- بُيُوْتًا سے جو ہدایت دی گئی ہے ان میں سے یہ پہلی ہدایت ہے جس میں گھر بنانے کا ذکر ہے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہر جانور اپنے رہنے سہنے کے لئے گھر تو بناتا ہی ہے پھر اس اہتمام سے گھروں کی تعمیر کا حکم مکھیوں کو دینے میں کیا خصوصیت ہے پھر یہاں لفظ بھی بیوت کا استعمال فرمایا جو عموما انسانی رہائش گاہوں کے لئے بولا جاتا ہے اس سے اشارہ ایک تو اس طرف کردیا کہ مکھیوں کو چونکہ شہد تیار کرنا ہے اس کے لئے پہلے سے ایک محفوظ گھر بنالیں دوسرا اس طرف اشارہ کردیا کہ جو گھر یہ بنائیں گی وہ عام جانوروں کے گھروں کی طرح نہیں ہوں گے بلکہ ان کی ساخت و بناوٹ غیر معمولی قسم کی ہوگی چناچہ ان کے گھر عام جانوروں کے گھروں سے ممتاز ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر انسانی عقل بھی ششدر رہ جاتی ہے ان کے گھر مسدس شکل کے ہوتے ہیں پرکار اور مسطر سے بھی اگر ان کی پیمائش کی جائے تو بال برابر بھی فرق نہیں رہتا مسدس شکل کے علاوہ وہ دوسری کسی شکل مثلا مربع اور مخمس وغیرہ کو اس لئے اختیار نہیں کرتیں کہ ان کے بعض کونے بیکار رہ جاتے ہیں ،- اللہ تعالیٰ نے مکھیوں کو محض گھر بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کا محل وقوع بھی بتلا دیا کہ وہ کسی بلندی پر ہونا چاہئے کیونکہ ایسے مقامات پر شہد کو تازہ اور صاف چھنی ہوئی ہوا پہنچتی رہتی ہے وہ گندی ہوا سے بچا رہتا ہے اور توڑ پھوڑ سے بھی محفوظ رہتا ہے چناچہ فرمایا۔- مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ یعنی ان گھروں کی تعمیر پہاڑوں درختوں اور بلند عمارتوں پر ہونی چاہئے تاکہ شہد بالکل محفوظ طریقہ سے تیار ہو سکے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ 68؀ۙ- وحی - وإمّا بإلقاء في الرّوع کما ذکر عليه الصلاة والسلام : «إنّ روح القدس نفث في روعي» «2» ، وإمّا بإلهام نحو : وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص 7] ، وإمّا بتسخیر نحو قوله :- وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل 68] أو بمنام کما قال عليه الصلاة والسلام : «انقطع الوحي وبقیت المبشّرات رؤيا المؤمن» فالإلهام والتّسخیر - ( و ح ی ) الوحی - وحی کی تیسری صؤرت القاء فی لروع کی ہے یعنی دل میں کسی بات کا ڈال دیتا جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ۔ اور کبھی وحی بذریعہ الہام ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص 7] ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اسکو دودھ پلاؤ اور کبھی وحی تسخیر ی ہوتی ہے یعنی کسی چیز کو اس کے کام پر مامور کرنا جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل 68] اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا : ۔ اور کبھی نیند میں خواب کے ذریعے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وحی تو منقطع ہوچکی ہے مگر بیشرات یعنی رویا مومن باقی رہ گئے ہیں اور وحی کی ان ہر سہ اقسام یعنی الہام تسخیر - نحل - النَّحْل : الحَيَوانُ المخصوصُ. قال تعالی:- وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل 68] والنَّحْلَةُ والنِّحْلَةُ : عَطِيَّة علی سبیل التّبرُّع، وهو أخصُّ من الهِبَة، إذ كلُّ هِبَةٍ نِحْلَةٌ ، ولیس کلُّ نِحْلَةٍ هِبَةً ، واشتقاقه فيما أرى «1» أنه من النَّحْل نظرا منه إلى فعله، فكأنَّ نَحَلْتُهُ : أعطیته عطيّةَ النَّحْلِ ، وذلک ما نبّه عليه قوله : وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ الآية [ النحل 68] . وبيَّن الحکماء أنّ النّحل يقع علی الأشياء کلّها فلا يضرّها بوجه، وينفع أعظْمَ نفعٍ ، فإنه يعطي ما فيه الشِّفاء کما وصفه اللهُ تعالی، وسُمِّيَ الصَّدَاقُ بها من حيثُ إنه لا يجب في مقابلته أكثرُ من تمتُّع دون عِوَضِ ماليٍّ ، وکذلک عطيَّةُ الرَّجُل ابْنَهُ. يقال : نَحَلَ ابنَه كذا، وأَنْحَلَهُ ، ومنه :- نَحَلْتُ المرأةَ ، قال تعالی: وَآتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحْلَةً- [ النساء 4] والانْتِحَالُ : ادِّعَاءُ الشیءِ وتناوُلُه، ومنه يقال : فلان يَنْتَحِلُ الشِّعْرَ.- ونَحِلَ جِسْمُهُ نُحُولًا : صار في الدّقّة کالنَّحْل، ومنه : النَّوَاحِلُ للسُّيُوف أي : الرِّقَاق الظُّبَات تصوُّراً لنُحُولِهَا، ويصحُّ أن يُجْعَل النِّحْلَة أصلا، فيُسَمَّى النَّحْل بذلک اعتبارا بفعله . والله أعلم .- ( ن ح ل )- النحل شہد کی مکھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل 68] اور تمہارے پروردگار نے شہد کی کھیوں کو ارشاد فرمایا ۔ النحلۃ والنحلۃ اس عطیہ کو کہتے ہیں جو تبرعا دیا جائے ۔ یہ ہبہ سے خاص ہے کیونکہ ہر ہبہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر نحلۃ کو ہبہ نہیں کہتے میرے خیال میں یہ نحل سے مشتق ہے اور اس میں مکھی کے فعل کے معنی ملحوظ ہیں تو گویا نحلتہ کے معنی نحل کی طرح عطیہ دینے کے ہیں جس پر کہ آیت : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ الآية [ النحل 68] میں متنبہ کیا ہے حکماء کا بیان ہے کہ نحل جن پودوں سے غذا لیتی ہے انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ الٹا فائدہ پہنچاتی ہے اور شہد جیسی شفا بخفی چیز لوگوں کو حاصل کر کے دیتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق بیان فرمایا ہے ۔ اور نحلۃ ونحلۃ صداق یعنی عورتوں کے مہر کو بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے مقابلہ میں سوائے لذت اندوزی کے اور کوئی مالی معاوضہ حاصل نہیں ہوتا اسی سے اولاد کو عطیہ دینے بر نحل ابنہکذا وانحلہ بولتے ہیں ۔ اور اسی سے نحلت المرءۃ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَآتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحْلَةً [ النساء 4] اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیدیا کرو ۔ اور محل جسمہ کے معنی دبلا ہو کر مکھی کی طرح باریک ہوجانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تیز تلواروں کو ان کی دھاروں کے باریک ہونے کی وجہ سے فواحل کہا جاتا ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نحلۃ کو اصل قرادوے کر نحل کو اس سے مشتق مانا جائے ۔ کیونکہ مکھی سے جو شہد حاصل ہوتا ہے وہ بھی فائدہ بخش ہونے کے لحاظ سے ایک قسم کی عطا ہی ہوتی ہے ۔ الا نتحال کے معنی کسی چیز کا ادعاء کرنے اور لینے کے ہیں اسی سے فلان ینتحل الشعر کا محاورہ ہے جس کے معنی شعری سر قہ کرنے کے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها - [ البقرة 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] ، وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل 68] ، وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] . قال أبو عبیدة «2» : يبنون، واعْتَرَشَ العنبَ : رَكَّبَ عَرْشَهُ ، - ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ یعرشون کے معنی یبنون ہیں یعنی جو وہ عمارتیں بناتے تھے اعترش العنب انگور کی بیل کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹی بنائی

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٨) اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تو پہاڑوں میں اپنا چھتا بنالے اور درختوں میں بھی اور عمارتوں میں بھی چھتا بنا لے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ )- یعنی شہد کی مکھی کی فطرت میں یہ چیز ودیعت کردی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :56 وحی کے لغوی معنی ہیں خفیہ اور لطیف اشارے کے جسے اشارہ کرنے والے اور اشارہ پانے والے کے سوا کوئی اور محسوس نہ کر سکے ۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ اِلقاء ( دل میں بات ڈال دینے ) اور الہام ( مخفی تعلیم و تلقین ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی اپنی مخلوق کو جو تعلیم دیتا ہے وہ چونکہ کسی مکتب و درسگاہ میں نہیں دی جاتی بلکہ ایسے لطیف طریقوں سے دی جاتی ہے کہ بظاہر کوئی تعلیم دیتا اور کوئی تعلیم پاتا نظر نہیں آتا ، اس لیے اس کو قرآن میں وحی ، الہام اور القاء کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اب یہ تینوں الفاظ الگ الگ اصطلاحوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ لفظ وحی انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے ۔ الہام کو اولیاء اور بندگان خاص کے لیے خاص کر دیا گیا ہے ۔ اور القاء نسبۃ عام ہے ۔ لیکن قرآن میں یہ اصطلاحی فرق نہیں پایا جاتا ۔ یہاں آسمانوں پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق ان کا سارا نظام چلتا ہے ( وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَھَا ۔ حٰمِ السجدہ ) ۔ زمین پر بھی وحی ہوتی ہے جس کا اشارہ پاتے ہی وہ اپنی سرگزشت سنانے لگتی ہے ۔ ( یَوْ مَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا ۔ الزلزال ) ۔ ملائکہ پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں ۔ ( اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ ۔ الانفال ) شہد کی مکھی کو اس کا پورا کام وحی ( فطری تعلیم ) کے ذریعہ سے سکھایا جاتا ہے جیسا کہ آیت زیر بحث میں آپ دیکھ رہے ہیں ۔ اور یہ وحی صرف شہد کی مکھی تک ہی محدود نہیں ہے ۔ مچھلی کو تیرنا ، پرندے کو اڑنا اور نوزائیدہ بچے کو دودھ پینا بھی وحی خداوندی ہی سکھایا کرتی ہے ۔ پھر ایک انسان کو غور و فکر اور تحقیق و تجسس کے بغیر جو صحیح تدبیر ، یا صائب الرائے ، یا فکر و عمل کی صحیح راہ سجھائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے ( وَاَوْحِیْنَآ اِلیٰ اُمِّ مُوْسیٰٓ اَنْ اَرْ ضِعِیْہِ ۔ القصص ) ۔ اور اس وحی سے کوئی انسان بھی محروم نہیں ہے ۔ دنیا میں جتنے اکتشافات ہوئے ہیں ، جتنی مفید ایجادیں ہوئی ہیں ، بڑے بڑے مدبرین ، فاتحین ، مفکرین اور مصنفین نے جو معرکے کے کام کیے ہیں ، ان سب میں اس وحی کی کار فرمائی نظر آتی ہے ۔ بلکہ عام انسانوں کو آئے دن اس طرح کے تجربات ہوتے رہتے ہیں کہ کبھی بیٹھے بیٹھے دل میں ایک بات آئی ، یا کوئی تدبیر سوجھ گئی ، یا خواب میں کچھ دیکھ لیا ، اور بعد میں تجربے سے پتہ چلا کہ وہ ایک صحیح رہنمائی تھی جو غیب سے انہیں حاصل ہوئی تھی ۔ ان بہت سی اقسام میں سے ایک خاص قسم کی وحی وہ ہے جس سے انبیاء علیہم السلام نوازے جاتے ہیں اور یہ وحی اپنی خصوصیات میں دوسری اقسام سے بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ اس میں وحی کیے جانے والے کو پورا شعور ہوتا ہے کہ یہ وحی خدا کی طرف سے آرہی ہے ۔ اسے اس کے من جانب اللہ ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے ۔ وہ عقائد اور احکام اور قوانین اور ہدایات پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اور اسے نازل کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ نبی اس کے ذریعہ سے نوع انسانی کی رہنمائی کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: چھتریاں اٹھانے سے مراد وہ ٹٹیاں ہیں جن پر مختلف قسم کی بیلیں چڑھائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر شہد کی مکھی کے گھر بنانے کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ وہ جو چھتے بناتی ہے وہ عجیب و غریب صنعت کا شاہکار ہوتے ہیں اور عام طور پر وہ یہ چھتے اونچی جگہوں پر بناتی ہے تاکہ اس میں بننے والا شہد زمین کی کثافتوں سے بھی محفوظ رہے۔ اور اسے تازہ ہوا بھی میسر آئے۔ توجہ اس طرف دلائی جا رہی ہے کہ یہ سب کچھ اسے اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے معارف القراان ج : 5 ص 362 تا 367