Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 شہد کی مکھی پہلے پہاڑوں میں، درختوں میں انسانی عمارتوں کی بلندیوں پر اپنا مسدس خانہ اور چھتہ اس طرح بناتی ہے کہ درمیان میں کوئی شگاف نہیں رہتا۔ پھر وہ باغوں، جنگلوں، وادیوں اور پہاڑوں میں گھومتی پھرتی ہے اور ہر قسم کے پھلوں کا جوس اپنے پیٹ میں جمع کرتی ہے اور پھر انھیں راہوں سے، جہاں جہاں سے وہ گزرتی ہے، واپس لوٹتی ہے اور اپنے چھتے میں آ کر بیٹھ جاتی ہے، جہاں اس کے منہ یا دبر سے وہ شہد نکلتا ہے جسے قرآن نے شراب سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی مشروب روح افزا۔ 69۔ 2 کوئی سرخ، کوئی سفید، کوئی نیلا اور کوئی زرد رنگ کا، جس قسم کے پھلوں اور کھیتوں سے وہ خوراک حاصل کرتی ہے، اسی حساب سے اس کا رنگ اور ذائقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ 69۔ 3 شِفَاء میں تنکیر تعظیم کے لئے ہے۔ یعنی بہت سے امراض کے لئے شہد میں شفا ہے۔ یہ نہیں کہ مطلقًا ہر بیماری کا علاج ہے۔ علمائے طب نے تشریح کی ہے کہ شہد یقیناً ایک شفا بخش قدرتی مشروب ہے۔ لیکن مخصوص بیماریوں کے لئے نہ کہ ہر بیماری کے لئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حلوا میٹھی چیز اور شہد پسند تھا (صحیح البخاری، کتاب الاشربہ۔ باب شراب الحلواء والعسل) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تین چیزوں میں شفا ہے۔ فصد کھلوانے (پچھنے لگانے) میں شہد کے پینے میں اور آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو داغ لگونے سے منع کرتا ہوں۔ حدیث میں ایک واقعہ بھی آتا ہے اسہال (دست) کے مرض میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد پلانے کا مشورہ دیا جس سے مزید فضلات خارج ہوئے اور گھر والے سمجھے کہ شاید مرض میں اضافہ ہوگیا ہے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری مرتبہ فرمایا اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جا اور اسے شہد پلا چناچہ تیسری مرتبہ میں اسے شفائے کاملہ حاصل ہوگئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٧] شہد کے چھتے اور مکھیوں میں نظم وضبط :۔ ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم و ضبط پایا جاتا ہے جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہاں سے آگئی۔ مکھیاں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دوردراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتہ کے خانوں میں لاکر ذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتہ یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم و ضبط، پیہم آمدورفت، ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کردی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا 69؀) 16 ۔ النحل :69) اور ذلول کا معنی کسی چیز کا اپنی سرکشی کی خو کو چھوڑ کر خوشی سے اطاعت پر آمادہ ہوجانا، مطیع و منقاد ہوجانا یا رام اور مسخر ہوجانا ہے اور ذُلُلاً کو اگر راہوں کی صفت تسلیم کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ مکھی کے لیے یہ راہیں خواہ کس قدر دور دراز ہوں یا پر پیچ ہوں وہ سب راہیں اللہ نے اس کے لیے نرم اور آسان بنادی ہیں۔ اور اگر اس لفظ کو مکھی کی صفت قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوتا کہ جو طور طریقے تیرے لیے اللہ نے مقرر کر رکھے ہیں برضاء ورغبت ان پر عمل پیرارہ۔ اور بعض اس کا یہ مطلب بتاتے ہیں کہ چھتہ کے خانوں تک پہنچنے کے لیے چھتہ پر پہنچ کر اپنے پروں کو سمیٹ لے۔ پھر شہد رکھنے کے بعد اسی طرح پر سمیٹے ہوئے چھتہ سے باہر نکل آ۔- [٦٨] شہد میں شفا اور دوسری خصوصیات :۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد، سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔ سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتا ہے الا یہ کہ مریض خود سوء مزاج کا شکار نہ ہو جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- ١۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ کے پاس آکر کہنے لگے میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے آپ نے فرمایا اس کو شہد پلاؤ وہ دوبارہ آکر کہنے لگا یارسول اللہ شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہوگیا آپ نے فرمایا اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جاؤ اسے پھر شہد پلاؤ اور تیسری بار آیا اور کہنے لگا میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں آپ نے پھر فرمایا اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہوگیا۔ (بخاری، کتاب الطب۔ باب الدواء بالعسل)- ٢۔ نیز عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تین چیزوں میں شفاء ہے۔ شہد پینے میں، پچھنے لگانے میں اور آگ سے داغ دینے میں مگر میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الطب، باب الشفاء فی ثلاثۃ)- اللہ تعالیٰ کے محیر العقول کارنامے :۔ شہد کی دوسری اہم خاصیت یہ ہے کہ جو اشیاء شہد میں رکھی جائیں وہ بڑی مدت تک اس میں برقرار و بحال رہتی ہیں اور اگر ادویہ ڈالی جائیں تو ان کا اثر حتیٰ کہ ان کی خوشبو بھی طویل عرصہ تک برقرار رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ اطباء ادویہ کو کوٹ چھان کر ان میں چینی کے بجائے شہد ملا کر معجونیں وغیرہ تیار کرتے ہیں جس سے سہہ گنا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ مٹھاس کی جگہ کام دیتی ہے۔ دوسرے ادویہ کے اثر کو تادیر محفوظ رکھتی ہے اور تیسرے شہد بذات خود بھی اکثر امراض کا علاج ہے اور اس لحاظ سے دواؤں کی تاثیر کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔- حیرانی کی بات یہ ہے کہ شہد کی مکھی بذات خود ایک زہریلا جانور ہے انسان کو ڈس جائے تو اس کی جلد متورم اور اس میں سخت سوزش پیدا ہوجاتی ہے اسی ذریعہ سے وہ اپنے چھتہ کی حفاظت کرنا خوب جانتی ہے جو لوگ چھتہ اتارنے کے فن میں ماہر ہوتے ہیں وہ جسم کو کپڑوں سے خوب لپیٹ کر اور جسم پر کئی طرح کی دوائیں مل کر چھتہ کو ہاتھ لگاتے ہیں اور جب چھتہ کو چھیڑنے کا (کاٹنے کا) وقت ہوتا ہے تو پہلے نیچے سے دھونی دیتے ہیں تاکہ مکھیاں اڑ کر دور چلی جائیں۔ بایں ہمہ مکھیاں مل کر اس شخص پر حملہ آور ہوتی ہیں لیکن اللہ نے چونکہ انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ سب جانوروں کو رام کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ لہذا وہ چھتہ اتار کر شہد حاصل کرلیتا ہے گویا ایسے زیریلے جانور کے اندر سے نکلا ہوا شہد انسان کی اکثر بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتا ہے نیز اس کے لیے ایک شیریں اور لذیذ غذا کا کام بھی دیتا ہے۔- مندرجہ بالا مشروبات کا ذکر محض اس لیے نہیں کیا کہ انسان کو بتایا جائے کہ اللہ نے اس کے لیے کس قدر لذیذ اور مفید اشیاء پیدا کی ہیں۔ بلکہ ان کے بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پھل یا مویشی یا جاندار پیدا کیے ہیں۔ ان سب کے ماحصل سے انسان ہی فائدہ اٹھاتا ہے۔ پھر اللہ کی ان معجز نما قدرتوں میں بھی غور و فکر کرے کہ یہ مویشی یا مکھیاں وغیرہ جن محیر العقول طریقوں سے انسان کو یہ چیزیں فراہم کرتی ہیں ان میں انسان کے غور و فکر کے لیے بڑا وسیع میدان موجود ہے۔ پھر وہ یہ بھی سوچے کہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو کوئی اور بنا سکتا ہے یا ان کی جبلت میں فطری تعلیم ودیعت کرسکتا ہے۔ اور اگر ان باتوں کا جواب نفی میں ہو تو پھر اس کا شریک بنانے یا انھیں شریک تسلیم کرنے کی ضرورت ہی کہاں پیش آتی ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

” ثُمَّ كُلِيْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ “ یہ امر اباحت کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں کہ ضرور ہی ہر پھل میں سے کھاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ جو چاہو کھاؤ، جیسے کہتے ہیں حرام چھوڑ کر ہر چیز کھاؤ، یعنی تمہیں اجازت ہے۔ اس حکم کی تعمیل مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ مکھیاں پہلے اپنا چھتا بناتی ہیں، پھر خوراک کے لیے نکلتی ہیں۔ - اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی فطرت میں اس کے نفع نقصان کی سمجھ رکھ دی ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى) [ طٰہٰ : ٥٠ ] ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔ “ مگر شہد کی مکھی کا خاص طور پر الگ ذکر بھی فرمایا : (وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ ) ” اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی فرمائی۔ “ اس لیے اہل علم نے اس کے گھر بنانے، اس کے نظام زندگی اور شہد بنانے کے عمل پر بہت تحقیق کرکے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ یہ چھوٹا سا جانور باقاعدہ ایک منظم حکومت کے تحت رہتا ہے۔ پورے چھتے کی ایک ہی ملکہ ہوتی ہے، جس کے حکم اور تقسیم کار کے مطابق تمام مکھیاں عمل کرتی ہیں۔ یہ ملکہ دوسری مکھیوں سے قدو قامت اور وضع قطع میں ممتاز ہوتی ہے۔ مکھیاں اس کے لیے خاص غذا مہیا کرتی ہیں، جسے ” غذاء الملکہ “ کہتے ہیں، جو نہایت مقوی ہوتی ہے۔ یہ ملکہ تین ہفتوں میں چھ ہزار سے بارہ ہزار تک انڈے دیتی ہے۔ اس کے حکم اور فرائض کی تقسیم کے مطابق تمام مکھیاں الگ الگ کام سرانجام دیتی ہیں۔ کچھ دربان ہوتی ہیں جو کسی اجنبی کو اندر نہیں آنے دیتیں، کچھ انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں، کچھ نئے نکلنے والے بچوں کی تربیت کرتی ہیں، کچھ موم کے ساتھ چھتا بنانے کے لیے معماری کا کام کرتی ہیں، کچھ وہ ہیں جو انھیں موم پہنچاتی ہیں۔ بعض سپاہی ہوتی ہیں، جن کا کام چھتے کی حفاظت اور دشمن کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے، کچھ پھولوں اور پھلوں سے رس چوستی ہیں جو ان کے پیٹوں کے کارخانے میں شہد بنتا ہے، وہ مکھیوں اور ان کے بچوں کے لیے خوراک اور انسان کے لیے غذا و دوا بنتا ہے، جب کہ موم انسان کی متعدد ضروریات، مثلاً روشنی، علاج وغیرہ کے کام آتا ہے۔ ان کا چھتا بھی قدرت کی کاریگری کا عجیب نمونہ ہے، ہر خانہ مسدس (چھ ضلعوں والا) ہوتا ہے جو مکھی کے جسم کے عین مطابق (گول اور لمبا) ہوتا ہے اور ہر ضلع ایسا برابر کہ پرکار اور مسطر سے بھی کوئی فرق نہیں نکلے گا۔ مسدس بنانے میں یہ حکمت ہے کہ گول یا مربع یا کسی بھی اور شکل کا ہوتا تو یا گھر کے اندر مکھی کے جسم سے زائد جگہ بچ جاتی یا گھروں کے باہر درمیان میں جگہ بچ جاتی۔ یہ مکھیاں صفائی کا نہایت اہتمام رکھتی ہیں، اپنے فضلے کے لیے الگ جگہ مقرر رکھتی ہیں۔ چھتے سے فضلہ ساتھ ہی ساتھ باہر نکالتی رہتی ہیں۔ ہمیشہ صاف پانی پیتی ہیں۔ کوئی گندگی سے آلودہ مکھی آجائے تو دربان اندر نہیں جانے دیتے، بلکہ انھیں مار دیا جاتا ہے۔ بےکار مکھیوں کو بھی قتل کردیا جاتا ہے، اگر کوئی مکھی مرجائے تو فوراً اسے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ گرمی کی شدت سے شہد گرنے کا خطرہ ہو تو پروں سے ہوا دے کر اسے ٹھنڈا رکھتی ہیں۔ ملکہ مکھی کے علاوہ کوئی اور ملکہ ظاہر ہو تو اسے قتل کردیا جاتا ہے، تاکہ نظام میں خرابی پیدا نہ ہو۔ جیسا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے دعوے دار کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ [ دیکھیے مسلم، الأمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین۔۔ : ٦٠؍١٨٥٢ ] غرض ایک عجیب منظم سلطنت ہے جو انسان کے فائدے کی خاطر مصروف عمل ہے۔ - فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا : ” ذُلُلًا “ ” ذَلُوْلٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی مطیع اور مسخر ہے اور یہ ” اسلکی “ سے حال ہے، یعنی گھر بنانے کے بعد شہد بنانے والی مکھیاں دن کو نکلتی ہیں اور بعض اوقات پھولوں اور پھلوں کی تلاش میں بہت دور نکل جاتی ہیں، پھر پیٹ میں پھلوں کا رس اور پاؤں میں موم کا مادہ لے کر دن بھر میں کئی چکر اپنے گھر کی طرف لگاتی ہیں۔ رات کو دوبارہ اپنے چھتے میں واپس آجاتی ہیں۔ اتنی دور سے ٹھیک اسی جگہ واپس آنا ممکن نہ تھا، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے کھیتوں، شہروں، صحراؤں اور پہاڑوں کے دور دراز اور بےنشان راستے اس کے لیے ایسے آسان اور مسخر کردیے ہیں کہ وہ انھی پر واپس پلٹ کر عین اپنے چھتے میں پہنچ جاتی ہے، کبھی دوسرے چھتے میں نہیں جاتی۔ ” اسلکی “ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ تیرے رب نے شہد بنانے کے لیے جو جو مرحلے اور طریقے رکھے ہیں، وہ سب تیری دسترس میں کردیے ہیں، سو تو ان پر چلتے ہوئے شہد تیار کر۔ - يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ : ” شَرَابٌ“ یعنی مشروب، اس سے معلوم ہوا کہ شہد اصل میں پینے کی چیز ہے، خالص پی لو یا دودھ یا پانی وغیرہ ملا کر۔ پھلوں، پھولوں، موسم اور علاقے کے لحاظ سے شہد مختلف رنگوں، ذائقوں اور خاصیتوں کا حامل ہوتا ہے، جبکہ دودھ سفید ہی ہوتا ہے، یہ بھی پروردگار کی کاریگری ہے۔- فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ : اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت ہے کہ ایک زہریلے کیڑے کے پیٹ میں تیار ہونے والے مشروب میں لوگوں کے لیے شفا رکھ دی ہے۔ یہاں ” شِفَاۗءٌ“ نکرہ ہے جو اثبات کے تحت آیا ہے، اس لیے اس کا ہر مرض کے لیے شفا ہونا تو واضح نہیں ہوتا۔ اسی طرح ” لِّلنَّاسِ “ کا الف لام بھی جنس یا استغراق کے لیے مانیں تو سب لوگوں کے لیے شفا مراد ہوگی، عہد کے لیے مانیں تو پھر انھی کے لیے شفا ہوگی جن کا علاج شہد سے ہوسکتا ہے۔ ” شِفَاۗءٌ“ میں تنوین کا ترجمہ بڑی شفا بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال شہد چونکہ بیشمار پھولوں اور پھلوں کا خلاصہ ہے، جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی بیماری کا علاج ہے، اس لیے شہد میں ہر بیماری کا علاج ہونا کچھ بعید نہیں۔ جس طرح اب کئی ہو میو اور دوسرے ڈاکٹر ایک ہی وقت میں بہت سی دواؤں کا مجموعہ دے دیتے ہیں کہ کوئی دوا تو بیماری کے مطابق ہوگی۔ غرض شہد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، اس میں لذت بھی ہے اور شفا بھی۔ شہد میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ نمی کو جذب کرتا ہے اور اس میں جراثیم زندہ نہیں رہ سکتے، اس لیے زخم اور پھوڑے پر لگانے سے وہ درست ہوجاتا ہے۔ آنکھوں اور پیٹ کی بیماریوں کا علاج ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسہال (دستوں) کے مریض کو بار بار شہد پلانے اور آخر کار اس کے تندرست ہونے کی حدیث صحیح بخاری (٥٧١٦) میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت اور احادیث سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ شہد ہر بیماری کا علاج ہے، مگر ہر بیماری کے لیے اس کی مقدار خوراک اور طریق استعمال تجربے اور تحقیق ہی سے طے ہوسکتے ہیں جو اطباء کا کام اور ان کی ذمہ داری ہے، مگر افسوس کہ اس پر مسلمان اطباء نے اتنی محنت نہیں کی کہ اس خزانے سے کما حقہ فائدہ اٹھا سکتے، البتہ اس کی ایک خاصیت سے تمام مسلم اطباء شروع سے فائدہ اٹھاتے آئے ہیں، وہ یہ کہ اس میں رکھی ہوئی چیز محفوظ ہوجاتی ہے، خراب نہیں ہوتی، اس لیے وہ تمام معجونیں، خمیرے اور جوارشیں محفوظ رکھنے کے لیے سیکڑوں برس سے شہد میں بناتے آ رہے ہیں، جس سے وہ دواؤں کو محفوظ رکھنے کے لیے الکحل جیسی حرام چیز کے محتاج نہیں ہوئے۔ (والحمد للہ) ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ۔۔ : شہد کی مکھی کے احوال سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کا علم غورو فکر کرنے والوں ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” تین پتے بتائے برے میں سے بھلا نکلنے کے : 1 جانور کے پیٹ سے دودھ۔ 2 نشے کے انگور اور کھجور سے روزی پاک۔ 3 اور مکھی کے پیٹ سے شہد۔ یعنی اس قرآن سے جاہلوں کی اولاد عالم نکلے گی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت میں یوں ہی ہوا، کافروں کی اولاد کامل ہوئی۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ثُمَّ كُلِيْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ یہ دوسری ہدایت ہے جس میں مکھی کو حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی رغبت اور پسند کے مطابق پھل پھول سے رس چوسے، یہاں مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فرمایا لیکن بظاہر یہاں لفظ كُلِّ سے دنیا بھر کے پھل پھول مراد نہیں ہیں بلکہ جن تک آسانی سے اس کی رسائی ہو سکے اور مطلب حاصل ہو سکے کل کا یہ لفظ ملکہ سبا کے واقعہ میں بھی وارد ہوا ہے وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ اور ظاہر ہے کہ وہاں بھی استغراق کلی مراد نہیں ہے کہ ملکہ سباء کے پاس ہوائی جہاز اور ریل موٹر ہونا بھی لازم آئے بلکہ اس وقت کی تمام ضروریات ومناسبات مراد ہیں یہاں بھی مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ سے یہی مراد ہے یہ مکھی ایسے ایسے لطیف اور قیمتی اجزاء چوستی ہے کہ آج کے سائنسی دور میں مشینوں سے بھی وہ جوہر نہیں نکالا جاسکتا۔- فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا یہ مکھی کو تیسری ہدایت دی جا رہی ہے کہ اپنے رب کے ہموار کئے ہوئے راستوں پر چل پڑ یہ جب گھر سے دور دراز مقامات پر پھل پھول کا رس چوسنے کے لئے کہیں جاتی ہے تو بظاہر اس کا اپنے گھر میں واپس آنا مشکل ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے راہوں کو آسان بنادیا ہے چناچہ وہ میلوں دور جاتی ہے اور بغیر بھولے بھٹکے اپنے گھر واپس پہنچ جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے فضاء میں اس کے لئے راستے بنا دیئے ہیں کیونکہ زمین کے پیچ دار راستوں میں بھٹکنے کا خطرہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے فضاء کو اس حقیر وناتواں مکھی کے لئے مسخر کردیا تاکہ وہ کسی روک ٹوک کے بغیر اپنے گھر آسانی سے آ جاسکے۔- اس کے بعد وحی کے اس حکم کا جو حقیقی ثمرہ تھا اس کو بیان فرمایا يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاس کہ اس کے پیٹ میں سے مختلف رنگ کا مشروب نکلتا ہے جس میں تمہارے لئے شفاء ہے رنگ کا اختلاف غذاء اور موسم کے اختلاف کی بناء پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کسی خاص علاقے میں کسی خاص پھل پھول کی کثرت ہو تو اس علاقہ کے شہد میں اس کا اثر وذائقہ ضرور ہوتا ہے شہد عموما چونکہ سیال مادہ کی شکل میں ہوتا ہے اس لئے اس کو شراب (پینے کی چیز) فرمایا اس جملے میں بھی اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور قدرت کاملہ کی قاطع دلیل موجود ہے کہ ایک چھوٹے سے جانور کے پیٹ سے کیسا منفعت بخش اور لذیذ مشروب نکلتا ہے حالانکہ وہ جانور خود زہریلا ہے زہر میں سے یہ تریاق واقعی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی عجیب مثال ہے پھر قدرت کی یہ بھی عجیب صنعت گری ہے کہ دودھ دینے والے حیوانات کا دودھ موسم اور غذا کے اختلاف سے سرخ و زرد نہیں ہوتا اور مکھی کا شہد مختلف رنگوں کا ہوجاتا ہے۔- فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاس شہد جہاں قوت بخش غذا اور لذت وطعم کا ذریعہ ہے وہاں امراض کے لئے نسخہ شفاء بھی ہے اور کیوں نہ ہو خالق کائنات کی یہ لطیف گشتی مشین جو ہر قسم کے پھل پھول سے مقوی عرق اور پاکیزہ جو ہر کشید کر کے اپنے محفوظ گھروں میں ذخیرہ کرتی ہے اگر جڑی بوٹیوں میں شفاء ودواء کا سامان ہے تو ان کے جوہر میں کیوں نہ ہوگا بلغمی امراض میں بلاواسطہ اور دوسری امراض میں دوسرے اجزاء کے ساتھ مل کر بطور دوا شہد کا استعمال ہوتا ہے اطباء معجونوں میں بطور خاص اس کو شامل کرتے ہیں اس کی اٰیک خاصیت یہ بھی ہے کہ خود بھی خراب نہیں ہوتا اور دوسری اشیاء کی طویل عرصہ تک حفاظت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہزارہا سال سے اطباء اس کو الکحل کی جگہ استعمال کرتے آئے ہیں شہد مسہل ہے اور پیٹ سے فاسد مادہ نکالنے میں بہت مفید ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک صحابی نے اپنے بھائی کی بیماری کا حال بیان کیا تو آپ نے اسے شہد پلانے کا مشورہ دیا دوسرے دن پھر آ کر اس نے بتلایا کہ بیماری بدستور ہے آپ نے پھر وہی مشورہ دیا تیسرے دن جب اس نے پھر کہا کہ اب بھی کوئی فرق نہیں ہے تو آپ نے فرمایا صدق اللہ وکذب بطن اخیک یعنی اللہ کا قول بلاریب سچا ہے تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے مراد یہ ہے کہ دوا کا قصور نہیں مریض کے مزاج خاص کی وجہ سے جلدی اثر ظاہر نہیں ہوا اس کے بعد پھر پلایا تو بیمار تندرست ہوگیا۔- یہاں قرآن کریم میں شفاء نکرہ تحت الاثبات ہے جس سے اس کا ہر مرض کے لئے تو شفاء ہونا معلوم نہیں ہوتا لیکن شفاء کی تنوین جو تعظیم کے لئے ہے اس بات پر ضرور دلالت کرتی ہے کہ شہد کی شفاء عظیم اور ممتاز نوعیت کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بعض اہل دل بندے وہ بھی ہیں جن کو شہد کے کسی بھی مرض کے لئے شفاء ہونے میں کوئی شبہ نہیں ان کو اپنے رب کے قول کے اس ظاہر ہی پر اس قدر مستحکم یقین اور مضبوط اعتقاد ہے کہ وہ پھوڑے اور آنکھ کا علاج بھی شہد سے کرتے ہیں اور جسم کے دوسرے امراض کا بھی حضرت ابن عمر (رض) کے متعلق روایات میں ہے کہ ان کے بدن پر اگر پھوڑا بھی نکل آتا تو اس پر شہد کا لیپ کر کے علاج کرتے بعض لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاس (قرطبی)- اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتے ہیں جیسا ان بندوں کا اپنے رب کے متعلق اعتقاد ہوتا ہے حدیث قدسی میں فرمایا انا عند ظن عبدی بی یعنی حق تعالیٰ نے فرمایا کہ بندہ جو کچھ مجھ سے گمان رکھتا ہے میں اس کے پاس ہوتا ہوں (یعنی اس کے مطابق کردیتا ہوں)- (آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کی مذکورہ بالا مثالیں بیان فرمانے کے بعد انسان کو پھر غور وفکر کی دعوت دی ہے کہ قدرت کی ان مثالوں میں غور وفکر کر کے تو دیکھ لو اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو پانی برسا کر زندہ کردیتا ہے وہ غلاظت ونجاست کے درمیان سے تمہارے لئے صاف و شفاف اور خوشگوار دودھ کی نالیاں بہاتا ہے وہ انگور و کھجور کے درختوں پر شیریں پھل پیدا کرتا ہے جن سے تم لذیذ شربتیں اور مزے دار مربے بناتے ہو وہ ایک چھوٹے سے زہریلے جاندار کے ذریعہ تمہارے لئے لذت وطعم اور غذا و شفاء کا بہترین سامان مہیا کرتا ہے کی اب بھی تم دیوی دیوتاؤں کو پکارو گے ؟ کیا اب بھی تمہاری عبادت و وفاء اپنے خالق ومالک کے بجائے پتھر اور لکڑی کی بےجان مورتیوں کے لئے ہوگی ؟ اور خوب سمجھ لو کیا یہ بھی تمہاری عقل میں آسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اندھے، بہرے اور بےشعور مادے کی کرشمہ سازی ہو ؟ صنعت وکاریگری کے یہ بیشمار شاہکار حکمت و تدبیر کے یہ حیرت انگیز کارنامے اور عقل و دانش کے یہ بہترین فیصلے اپنی زبان حال سے پکار پکار کر گویا ہیں کہ ہمارا ایک خالق ہے یکتا و حکمت والا خالق وہی عبادت ووفاء کا مستحق ہے وہی مشکل کشاء ہے اور شکر وحمد اسی کو سزاوار ہے۔- فوائد :- (١) آیت سے معلوم ہوا کہ عقل و شعور انسانوں کے علاوہ دوسرے جانداروں میں بھی ہے وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ البتہ عقل کے درجات مختلف ہیں انسانوں کی عقل تمام ذی حیات اشیاء کی عقول سے زیادہ کامل ہے اسی وجہ سے وہ احکام شرعیہ کا مکلف ہے یہی وجہ ہے کہ اگر جنون کی وجہ سے انسان کی عقل میں فتور آجائے تو دوسری مخلوقات کی طرح وہ بھی مکلف نہیں رہتا۔- (٢) شہد کی مکھی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی فضیلت میں حدیث وارد ہوئی ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- الذبان کلہا فی النار یجعلہا عذابا لاھل النار الا النحل۔ (نواد الاصول بحوالہ قرطبی) - یعنی دوسری ایذاء رساں جانداروں کی طرح مکھیوں کی بھی تمام قسمیں جہنم میں جائیں گی جو وہاں جہنمیوں پر بطور عذاب مسلط کردی جائیں گی مگر شہد کی مکھی جہنم میں نہیں جائے گی ،- نیز ایک اور حدیث میں آپ نے اس کو مارنے سے منع فرمایا ہے (ابو داؤد)- (٣) اطباء کا اس میں کلام ہے کہ شہد مکھی کا فضلہ ہے یا اس کا لعاب ہے ارسطاطالیس نے شیشے کا ایک نفیس چھتہ بنا کر مکھیوں کو اس میں بند کردیا تھا وہ ان کے نظام کار کو جاننا چاہتا تھا لیکن ان مکھیوں نے سب سے پہلے برتن کے اندرونی حصہ پر موم اور کیچڑ کا پردہ چڑھا دیا اور جب تک پوری طرح پردہ پوش نہیں ہوگئیں اس وقت تک اپنا کام شروع نہیں کیا۔- حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دنیا کی حقارت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا۔- اشرف لباس بنی آدم فیہ لعاب دودۃ و اشرف شرابہ رجیع نحلۃ۔ انسان کا بہترین ریشمی لباس اس کائنات کے ایک چھوٹے سے کیڑے کا لعاب ہے اور اس کا نفیس لذت بخش مشروب مکھی کا فضلہ ہے،- (٤) فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دواء سے مرض کا علاج کرنا جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بطور انعام ذکر کیا ہے۔- دوسری جگہ ارشاد ہے (آیت) وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤ ْمِنِيْنَ ۙ حدیث میں دوا استعمال کرنے اور علاج کرنے کی ترغیب آئی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض حضرات نے سوال کیا کہ کیا ہم دواء استعمال کریں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں علاج کرلیا کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی مرض پیدا کیا ہے اس کے لئے دواء بھی پیدا فرمائی ہے مگر ایک مرض کا علاج نہیں انہوں نے سوال کیا وہ مرض کونسا ہے آپ نے فرمایا بڑھاپا (ابو داؤد والترمذی بحوالہ قرطبی)- حضرت خزیمہ (رض) سے بھی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ یہ جو ہم جھاڑ پھونک کا عمل کرتے ہیں یا دواء سے اپنا علاج کرتے ہیں اسی طرح بچاؤ اور حفاظت کے جو انتظامات کرتے ہیں کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو بدل سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ بھی تو تقدیر الہی ہی کی صورتیں ہیں۔- غرض یہ کہ علاج کرنے اور دواء استعمال کرنے کے جواز پر تمام علماء متفق ہیں اور اس سلسلے میں بیشمار احادیث وآثار وارد ہوئے ہیں حضرت ابن عمر (رض) کی اولاد میں اگر کسی کو بچھو کاٹ لیتا تھا تو اسے تریاق پلاتے تھے اور جھاڑ پھونک سے اس کا علاج فرماتے آپ نے لقوہ کے مریض پر داغ لگا کر اس کا علاج کیا (قرطبی)- بعض صوفیاء کے متعلق منقول ہے کہ وہ علاج کو پسند نہیں کرتے تھے اور حضرات صحابہ میں سے بھی بعض کے عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے مثلا روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) بیمار ہوگئے حضرت عثمان (رض) ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور ان سے پوچھا آپ کو کیا شکایت ہے ؟ انہوں نے جواب دیا مجھے اپنے گناہوں کی فکر ہے حضرت عثمان (رض) نے فرمایا پھر کس چیز کی خواہش ہے ؟ فرمایا میں اپنے رب کی رحمت کا طلب گار ہوں حضرت عثمان (رض) نے فرمایا آپ پسند کریں تو میں طبیب کو بلوا لیتا ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا طبیب ہی نے تو مجھے لٹایا ہے (یہاں مجازی طور پر طبیب سے مراد اللہ تعالیٰ شانہ ہیں)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ كُلِيْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۭ يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ 69؀- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - سلك - السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی:- لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ- [ الحجر 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ.- ( س ل ک ) السلوک - ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ - كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔- ذُّلُّ- متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها «1» ، أي : مسالکها وطرقها .- ذل - پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] یعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جارمی ہیں ۔- بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر :- 58-- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس - «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر :- ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن .- قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» .- وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- لون - اللَّوْنُ معروف، وينطوي علی الأبيض والأسود وما يركّب منهما، ويقال : تَلَوَّنَ : إذا اکتسی لونا غير اللّون الذي کان له . قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها - [ فاطر 27] ، وقوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] فإشارة إلى أنواع الألوان واختلاف الصّور التي يختصّ كلّ واحد بهيئة غير هيئة صاحبه، وسحناء غير سحنائه مع کثرة عددهم، وذلک تنبيه علی سعة قدرته . ويعبّر بِالْأَلْوَانِ عن الأجناس والأنواع . يقال : فلان أتى بالألوان من الأحادیث، وتناول کذا ألوانا من الطّعام .- ( ل و ن ) اللون - ۔ کے معنی رنگ کے ہیں اور یہ سیاہ سفید اور ان دونوں سے مرکب یعنی ہر قسم کے - رنگ پر بولا جاتا ہے ۔ تلون کے معنی رنگ بدلنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها[ فاطر 27] اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کی دھار یاں ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف الوادع و اقسام کے رنگوں اور شکلوں کے مختلف ہونے کی طرف اشارہ ہے اور باوجود اس قدر تعداد کے ہر انسان اپنی ہیئت کذائی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز کذابی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز نظر آتا ہے ۔ اس سے خدا کی وسیع قدرت پر تنبیہ کی گئی ۔ اور کبھی الوان سے کسی چیز کے لوادع و اقسام مراد ہوتے ہیں چناچہ محاورہ ہے اس نے رنگا رنگ کی باتیں کیں اور الوان من الطعام سے مراد ہیں قسم قسم کے کھانے ۔- شفا - والشِّفَاءُ من المرض : موافاة شفا السّلامة، وصار اسما للبرء . قال في صفة العسل : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل 69] ، وقال في صفة القرآن : هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت 44] ، وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس 57] ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة 14] .- ( ش ف و ) شفا - الشفاء ( ض ) من المرض سلامتی سے ہمکنار ہونا یعنی بیماری سے شفا پانا یہ مرض سے صحت یاب ہونے کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں شہد کے متعلق فرمایا : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل 69] اس میں لوگوں کے ( امراض کی ) شفا ہے ۔ هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت 44] وہ ہدایت اور شفا ہے ۔ وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس 57] وہ دلوں کی بیماریوں کی شفا ہے ۔ ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة 14] اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شہد شفا ہے - قول باری ہے (یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ فی شفا للناس۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے) اس میں شہد کی طہارت کا بیان ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ شہد میں مردہ مکھیاں اور ان کے انڈے بچے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کی طہارت کا حکم لگا دیا نیز یہ بتادیا کہ اس میں لوگوں کے لئے شفا کا سامان ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہر ایسا جانور جس کے اندرخون نہ ہو اگر وہ پاک چیز میں مرجائے تو اس سے وہ چیز خراب اور ناپاک نہیں ہوتی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٩) پھر ہر قسم کے مختلف پھلوں سے چوستی پھر اور چوس کر واپس آنے کے لیے اپنے پروردگار کے بتائے ہوئے راستوں پر چل لیے بااعتبار چلنے کے اور یاد رہنے کے آسان ہیں، پھر شہد کی مکھیوں کے پیٹ میں سے سفید، زرد، سرخ، رنگ کا شہد نکلتا ہے، اس میں انسانوں کی بہت سی بیماریوں کے لیے شفا ہے یا یہ کہ قرآن کریم کے لیے بیان شافی ہے، ان مذکورہ چیزوں میں ایسے لوگوں کے لیے جو کہ مخلوقات خداوندی میں غور کرتے ہیں، بڑی دلیل اور عبرت ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ )- شہد کی مکھی جن جن جڑی بوٹیوں اور پودوں کے پھولوں کا رس چوستی ہے ان کے خواص اور ان کی تاثیرات کو گویا وہ کشید کرتی ہے۔ اس طرح شہد میں مختلف ادویات کے اثرات بھی شامل ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس میں بہت سی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :57 رب کی ہموار کی ہوئی راہوں “ کا اشارہ اس پورے نظام اور طریق کار کی طرف ہے جس پر شہد کی مکھیوں کا ایک گروہ کام کرتا ہے ۔ ان کے چھتوں کی ساخت ، ان کے گروہ کی تنظیم ، ان کے مختلف کارکنوں کی تقسیم کار ، ان کی فراہمی غذا کے لیے پیہم آمدورفت ، ان کا باقاعدگی کے ساتھ شہد بنا بنا کر ذخیرہ کرتے جانا ، یہ سب وہ راہیں ہیں جو ان کے عمل کے لیے ان کے رب نے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ انہیں کبھی سوچنے اور غور فکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ بس ایک مقرر نظام ہے جس پر ایک لگے بندھے طریقے پر شکر کے یہ بے شمار چھوٹے چھوٹے کارخانے ہزارہا برس سے کام کیے چلے جا رہے ہیں ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :58 شہد کا ایک مفید اور لذیذ غذا ہونا تو ظاہر ہے ، اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ البتہ اس کے اندر شفا ہونا نسبۃ ایک مخفی بات ہے اس لیے اس پر متنبہ کر دیا گیا ۔ شہد اول تو بعض امراض میں بجائے خود مفید ہے ، کیونکہ اسکے اندر پھولوں اور پھلوں کا رس ، اور ان کا گلوکوز اپنی بہترین شکل میں موجود ہوتا ہے ۔ پھر شہد کا یہ خاصہ کہ وہ خود بھی نہیں سڑتا اور دوسری چیزوں کو بھی اپنے اندر ایک مدت تک محفوظ رکھتا ہے ، اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ دوائیں تیار کرنے میں اس سے مدد لی جائے ۔ چنانچہ الکوہل کے بجائے دنیا کے فن دوا سازی میں وہ صدیوں اسی غرض کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے ۔ مزید براں شہد کی مکھی اگر کسی ایسے علاقے میں کام کرتی ہے جہاں کوئی خاص جڑی بوٹی کثرت سے پائی جاتی ہو تو اس علاقے کا شہد محض شہد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس جڑی بوٹی کا بہترین جوہر بھی ہوتا ہے اور اس مرض کے لیے مفید بھی ہوتا ہے جس کی دوائیں اس جڑی بوٹی میں خدا نے پیدا کی ہے ۔ شہد کی مکھی سے یہ کام اگر باقاعدگی سے لیا جائے ، اور مختلف نباتاتی دواؤں کے جوہر اس سے نکلوا کر ان کے شہد علیحدہ علیحدہ محفوظ کیے جائیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ شہد لیبارٹریوں میں نکالے ہوئے جوہروں سے زیادہ مفید ثابت ہوں گے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :59 اس پورے بیان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت کے دوسرے جز کی صداقت ثابت کرتا ہے ۔ کفار و مشرکین دو ہی باتوں کی وجہ سے آپ کی مخالفت کر رہے تھے ۔ ایک یہ کہ آپ آخرت کی زندگی کا تصور پیش کرتے ہیں ، جو اخلاق کے پورے نظام کا نقشہ بدل ڈالتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ آپ صرف ایک اللہ کو معبود اور مطاع اور مشکل کشا فریاد رس قرار دیتے ہیں جس سے وہ پورا نظام زندگی غلط قرار پاتا ہے جو شرک یا دہریت کی بنیاد پر تعمیر ہوا ہو ۔ دعوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی دونوں اجزاء کو برحق ثابت کرنے کے لیے یہاں آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ بیان کا مدعا یہ ہے کہ اپنے گردوپیش کی دنیا پر نگاہ ڈال کر دیکھ لو ، یہ آثار جو ہر طرف پائے جاتے ہیں نبی کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں یا تمہارے اوہام و تخیلات کی؟ نبی کہتا ہے کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ۔ تم اسے ایک ان ہونی بات قرار دیتےہو ۔ مگر زمین ہر بارش کے موسم میں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اعادہ خلق نہ صرف ممکن ہے بلکہ روز تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے ۔ نبی کہتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے ۔ تمہارے دہریے اس بات کو ایک بے ثبوت دعوی قرار دیتے ہیں ۔ مگر مویشیوں کی ساخت ، کھجوروں اور انگوروں کی بناوٹ اور شہد کی مکھیوں کی خلقت گواہی دے رہی ہے کہ ایک حکیم اور رب رحیم نے ان چیزوں کو ڈیزائن کیا ہے ، ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ اتنے جانور اور اتنے درخت اور اتنی مکھیاں مل جل کر انسان کے لیے ایسی ایسی نفیس اور لذیذ اور مفید چیزیں اس باقاعدگی کے ساتھ پیدا کرتی رہتیں ۔ نبی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری پرستش اور حمد و ثنا اور شکر و وفا کا مستحق نہیں ہے ۔ تمہارے مشرکین اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنے بہت سے معبودوں کی نذر و نیاز بجا لانے پر اصرار کرتے ہیں ۔ مگر تم خود ہی بتاؤ کہ یہ دودھ اور یہ کھجوریں اور یہ انگور اور یہ شہد ، جو تمہاری بہترین غذائیں ہیں ، خدا کے سوا اور کسی کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں؟ کس دیوی یا دیوتا یا ولی نے تمہاری رزق رسانی کے لیے یہ انتظامات کیے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani