بہترین دعا تمام بندوں پر قبضہ اللہ تعالیٰ کا ہے ، وہی انہیں عدم وجود میں لایا ہے ، وہی انہیں پھر فوت کرے گا بعض لوگوں کو بہت بڑی عمر تک پہنچاتا ہے کہ وہ پھر سے بچوں جیسے ناتواں بن جاتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پچھتر سال کی عمر میں عموما انسان ایسا ہی ہو جاتا ہے طاقت ختم ہو جاتی ہے حافظہ جاتا رہتا ہے ۔ علم کی کمی ہو جاتی ہے عالم ہونے کے بعد بےعلم ہو جاتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرماتے تھے ( اللھم انی اعوذبک من البخل والکسل والھرم وارذل العمر و عذاب القبر وفتنتہ الدجال وفتنتہ المحیا و الممات ) یعنی اے اللہ میں بخیلی سے ، عاجزی سے ، بڑھاپے سے ، ذلیل عمر سے ، قبر کے عذاب سے ، دجال کے فتنے سے ، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں ۔ زہیر بن ابو سلمہ نے بھی اپنے مشہور قصیدہ معلقہ میں اس عمر کو رنج و غم کا مخزن و منبع بتایا ہے ۔
70۔ 1 جب انسان طبعی عمر سے تجاوز کرجاتا ہے تو پھر اس کا حافظہ بھی کمزور ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ عقل بھی ماؤف، اور وہ نادان بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ یہی طویل عمر ہے جس سے نبی نے بھی پناہ مانگی ہے۔
[٦٩] کوئی مخلوق اپنی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی :۔ ان خارجی مثالوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی اپنی مثال پیش کی۔ کہ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے اپنی تربیت کے لیے خوراک کھاتا ہے جس سے اس کا قد بھی بڑھتا ہے، ہمت بھی بڑھتی ہے، عقل اور علم میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے جو ایک مخصوص حد تک جاکر رک جاتا ہے اس کے بعد انسان وہی غذائیں کھاتا ہے جو پہلے کھاتا تھا مگر اس کے اثرات بالکل برعکس برآمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے جسم میں طاقت کے بجائے کمزوری واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے عقل بہت کم ہونے لگتی ہے۔ یادداشت کمزور ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ پہلے کی سیکھی ہوئی باتیں بھی بھولنے لگتا ہے۔ اعضاء مضمحل ہونے لگتے ہیں اور قد بڑا ہونے کے باوجود بچوں کی سی باتیں، بچوں کی سی ضدیں اور بچوں کی سی حرکات کرنے لگ جاتا ہے حتیٰ کہ اسے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ حالانکہ غذا وہی کھاتا ہے جو بچپن میں کھایا کرتا تھا یا اس سے بھی اچھی غذائیں کھاتا ہے پھر اسے موت کا کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑتا ہے۔- اَرذل العمر سے پناہ :۔ انسان نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ یا اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسی قادر اور حکیم ہستی موجود ہے جو اپنی منشا کے مطابق انسان پر ایسے تغیرات وارد کرتی اور کرسکتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی ایسا الٰہ نہیں جو ان تغیرات کو روک سکتا ہو۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اس ارذل العمر میں بھی انسان کو ایسی ذلت سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ چناچہ رسول اللہ ایسی زندگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور ایسی عمر سے بچاؤ کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسا وقت آنے سے پہلے ہی موت دے دے۔ دوسرے یہ کہ ایسا وقت آنے پر بھی تندرست اور حواس کو برقرار رکھے اور اللہ ان دونوں باتوں پر قادر ہے
وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ۔۔ : بارش اور اس کے اثرات، چوپاؤں اور ان سے حاصل ہونے والے دودھ، کھجور اور انگور اور ان سے حاصل ہونے والی اشیاء اور شہد کی مکھی کی عجیب و غریب کارکردگی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب خود انسان کے اندر پائے جانے والے دلائل میں سے چند کا بیان فرمایا۔ اس آیت میں انسان کی زندگی کے چار پانچ دور مذکور ہیں۔ سب سے پہلے پیدائش، اس کے ساتھ فوت کرنے کا ذکر فرمایا، باقی ادوار کا بعد میں ذکر فرمایا، کیونکہ پیدائش کے بعد ہر شخص پر ان تمام ادوار کا گزرنا ضروری نہیں۔ وفات کبھی پیٹ ہی میں ہوجاتی ہے، کبھی زندگی کے کسی اور مرحلے میں۔ کچھ لوگ سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، جس میں انسان پھر بالکل بچپن والی حالت کی طرح کمزور ہوجاتا ہے۔ اس کی بےبسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس کے ہوش و حواس سلب ہوجاتے ہیں اور جو کچھ سیکھا پڑھا تھا، یا زندگی میں گزرا تھا سب بھول جاتا ہے۔ ہر کام میں دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ بچپن اور ارذل العمر کے درمیان کے مرحلے ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ وہ خود بخود سمجھ میں آ رہے ہیں۔ بچپن، لڑکپن جوانی، کمال قوت کو پہنچنا، ادھیڑ عمر، بڑھاپا اور آخر میں ارذل العمر۔ اگر اللہ چاہے تو ان میں سے کسی مرحلے کو بھی ارذل العمر میں بدل دے۔ اس آیت کی مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورة روم (٥٤) اور سورة یٰس (٦٨) ۔- ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ : یہاں پیدائش کے بعد وفات کو بھی بطور آیت و نعمت ذکر فرمایا۔ آیت (نشانی) تو مومن و کافر ہر ایک کے لیے ہے، البتہ نعمت صرف مومن کے لیے ہے، خواہ وہ زندگی کے کسی مرحلے میں فوت ہو، کیونکہ نکمی عمر سے اس کے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں اور زندگی کے جس دور میں بھی فوت ہو قید خانے سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ ) [ مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن وجنۃ للکافر : ٢٩٥٦، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ “ پھر موت کے نعمت ہونے میں کیا شک ہے۔- 3 سعد بن ابی وقاص (رض) نے فرمایا : ” ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگا کرو جن کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پناہ مانگا کرتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ) [ بخاری، الدعوات، باب الاستعاذۃ من أرذل العمر۔۔ : ٦٣٧٤ ] ” اے اللہ میں بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے ارذل العمر (سب سے نکمّی عمر) کی طرف لوٹایا جائے اور میں دنیا کی آزمائشوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ : زندگی کے یہ تمام ادوار اور موت کمال علم و قدرت کے بغیر کوئی پیدا نہیں کرسکتا اور وہ ہستی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔- 3 بعض اہل علم نے فرمایا کہ باعمل علماء ارذل العمر سے محفوظ رہتے ہیں، اگر ان کی عمر زیادہ ہو تب بھی ان کی عقل اور حافظہ قائم رہتے ہیں۔ اس کا اشارہ اس آیت کی بعض تفسیروں سے نکلتا ہے : (ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ۙاِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) [ التین : ٥، ٦ ] ” پھر ہم نے اسے لوٹا کر نیچوں میں سے سب سے نیچا کردیا، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔ “ شنقیطی (رض) اور بہت سے محدثین کا سو سے زیادہ عمر کے باوجود عقل و حافظہ محفوظ رہا۔
خلاصہ تفسیر :- اور (اپنی حالت بھی سوچنے کے قابل ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تم کو (اول) پیدا کیا پھر (عمر ختم ہونے پر) تمہاری جان قبض کرتا ہے (جن میں بعض تو ہوش و حواس میں چلتے ہاتھ پاؤں اٹھ جاتے ہیں) اور بعض تم میں وہ ہیں جو ناکارہ عمر تک پہنچائے جاتے ہیں (جن میں نہ قوت جسمانیہ رہے نہ قوت عقلیہ رہے) جس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بیخبر ہوجاتا ہے (جیسا کہ اکثر ایسے بوڑھوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ابھی ان کو ایک بات بتلائی اور ابھی بھول گئے اور پھر اس کو پوچھ رہے ہیں) بیشک اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی قدرت والے ہیں (علم سے ہر ایک مصلحت جانتے ہیں اور قدرت سے ویسا ہی کردیتے ہیں اس لئے حیات و وفات کی حالتیں مختلف کردیں پس یہ بھی دلیل ہے توحید کی)- معارف و مسائل :- اس سے قبل اللہ تعالیٰ نے پانی نباتات چوپائے اور شہد کی مکھی کے مختلف احوال بیان فرما کر انسان کو اپنی قدرت کاملہ اور مخلوق کے لئے اپنے انعامات پر متنبہ کیا اب ان آیات سے اس کو اپنے اندرونی حالات پر غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ انسان کچھ نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود کی دولت سے نوازا پھر جب چاہا موت بھیج کر وہ نعمت ختم کردی اور بعضوں کو تو موت سے پہلے ہی پیرانہ سالی کے ایسے درجہ میں پہنچا دیتے ہیں کہ ان کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں رہتے ان کے ہاتھ پاؤں کی طاقت ختم ہوجاتی ہے نہ وہ کوئی بات سمجھ سکتے ہیں اور نہ سمجھی ہوئی یاد رکھ سکتے ہیں یہ آفاقی اور انفسی تغیر وتبدل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ علم وقدرت اسی ذات کے خزانہ میں ہے جو خالق ومالک ہے۔- وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ ، مَّنْ يُّرَدُّ کے لفظ سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ انسان پر پہلے بھی ایک ضعف اور کمزوری کا وقت گزر چکا ہے یہ اس کے بچپن کا ابتدائی دور تھا جس میں یہ کسی سوجھ بوجھ کا مالک نہ تھا اس کے قوی بالکل ضعیف وناتواں تھے یہ اپنی بھوک پیاس کو دور کرنے اور اپنے اٹھنے بیٹھنے میں غیروں کا محتاج تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو جوانی عطا کی یہ اس کی ترقی کا زمانہ ہے پھر رفتہ رفتہ اس کو بڑھاپے کے ایسے درجہ میں پہنچا دیتے ہیں جس میں یہ بالکل اسی طرح کمزوری ضعف اور اضمحلال کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جیسا کہ بچپن میں تھا۔- اَرْذَلِ الْعُمُرِ اس سے مراد پیرانہ سالی کی وہ عمر ہے جس میں انسان کے تمام جسمانی اور دماغی قوی مختل ہوجاتے ہیں نبی کریم اس عمر سے پناہ مانگتے تھے ارشاد ہے اللہم انی اعوذ بک من سوء العمر وفی روایۃ من ان ارد الی ارذل العمر۔ یعنی یا اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں بری عمر سے اور ایک روایت میں ہے کہ پناہ مانگتا ہوں ارذل عمر سے۔- ارذل العمر کی تعریف میں کوئی تعیین نہیں ہے البتہ مذکورہ تعریف راجح معلوم ہوتی ہے جس کی طرف قرآن نے بھی لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا سے اشارہ کیا ہے کہ وہ ایسی عمر ہے جس میں ہوش و حواس باقی نہیں رہتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام معلومات بھول جاتا ہے۔- ارذل العمر کی تعریف میں اور بھی اقوال ہیں بعض نے اسی سال کی عمر کو ارذل العمر قرار دیا ہے اور بعض نے نوے سال کو حضرت علی سے بھی پچھتر سال کا قول منقول ہے (صحیحین بحوالہ مظہری)- لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا پیرانہ سال کے انتہائی درجہ میں پہنچنے کے بعد آدمی میں نہ قوت جسمانیہ رہتی ہے اور نہ ہی عقلیہ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بیخبر ہوجاتا ہے وہ تمام معلومات بھول کر بالکل کل کے بچے کی مانند ہوجاتا ہے جس کو نہ علم و خبر ہے اور نہ ہی فہم و فراست، حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن پڑھنے والے کی یہ حالت نہیں ہوگی۔- اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْر بیشک اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی قدرت والے ہیں (علم سے ہر شخص کی عمر کو جانتے ہیں اور قدرت سے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اگر چاہیں تو طاقت رو نوجوان پر ارذل العمر کے آثار طاری کردیں اور چاہیں تو سو سال کا معمر انسان بھی طاقت ور جوان رہے یہ سب کچھ اسی ذات کے دست قدرت میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ڐوَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ 70ۧ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- وفی - وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] - ( و ف ی) الوافی - اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - رذل - الرَّذْلُ والرُّذَالُ : المرغوب عنه لرداء ته، قال تعالی: وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] ، وقال : إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود 27] ،- ( رذل ) الرذل والرذال - وہ چیز جس سے اس کے روی ہونے کی وجہ سے بےرغبتی کی جائے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] اور تم میں سے ایسے بھی ہیں جو بدترین حالت کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود 27] مگر جو ہم میں رذاے ہیں اور پرو ہو بھی گئے ہیں تو لے سوچے سمجھے ) سر سری نظر سے ۔- عمر ( زندگی)- والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ- [ البقرة 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم،- ( ع م ر ) العمارۃ - اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔
(٧٠) اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلے پیدا کی اور پھر تمہاری عمریں ختم ہونے پر تمہیں موت دیتا ہے اور بعض لوگ تم میں سے وہ ہیں جو ناکارہ عمر تک پہنچائے جاتے ہیں جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بیخبر ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ مخلوق کی حالتوں کی تبدیلی کو جاننے والا ہے اور ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرنے پر قادر ہے۔
آیت ٧٠ (وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ ڐوَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ )- ایسی عمر جس میں آدمی ناکارہ ہو کر دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے۔- (لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَـيْــــًٔـا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ)- بڑھاپے میں اکثر لوگوں کی قوت فکر متاثر ہوجاتی ہے اور زیادہ عمر رسیدہ لوگوں کو تو ہوجاتا ہے جس سے ذہنی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں اور یادداشت جواب دے جاتی ہے۔ اس کیفیت میں بڑے بڑے فلسفی اور دانشور بچوں جیسی باتیں کرنے لگتے ہیں۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :60 یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ تمہاری پرورش اور رزق رسانی کا سارا انتظام اللہ کے ہاتھ میں ہے بلکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ تمہاری زندگی اور موت دونوں اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے کا اختیار رکھتا ہے نہ موت دینے کا ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :61 یعنی یہ علم جس پر تم ناز کرتے ہو اور جس کی بدولت ہی زمین کی دوسری مخلوقات پر تم کو شرف حاصل ہے ، یہ بھی خدا کا بخشا ہوا ہے ۔ تم اپنی آنکھوں سے یہ عبرت ناک منظر دیکھتے رہتے ہو کہ جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ لمبی عمر دے دیتا ہے تو وہی شخص جو کبھی جوانی میں دوسروں کو عقل سکھاتا تھا ، کس طرح گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر رہ جاتا ہے جسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا ۔
29: انتہائی بڑھاپے کی حالت کو ’’ ناکارہ عمر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں انسان کی جسمانی اور ذہنی قوتیں ناکارہ ہوجاتی ہیں۔ اور سب کچھ جاننے کے باوجود کچھ نہ جاننے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بڑھاپے کے اس حصے میں انسان اس علم کا اکثر حصہ بھول جاتا ہے جو اس نے اپنی پچھلی زندگی میں حاصل کیا تھا، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ ابھی اسے ایک بات بتائی گئی، اور تھوڑی سی دیر میں وہ ایسا ہوگیا جیسے اس کو کچھ بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ یہ حقائق بیان فرما کر غافل انسان کو اس طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اسے اپنی کسی طاقت اور صلاحیت پر غرور نہیں کرنا چاہئے۔ جو کوئی طاقت اسے ملی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اور جب وہ چاہے واپس لے لیتا ہے۔ ان تغیرات سے اسے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ یہ سارا کارخانہ ایک بڑے علم والے، بڑی قدرت والے خدا کا بنایا ہوا ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اور بالآخر ہر شخص کو اسی کے پاس واپس جانا ہے۔