مشرکین کی جہالت کا ایک انداز مشرکین کی جہالت اور ان کے کفر کا بیان ہو رہا ہے کہ اپنے معبودوں کو اللہ کے غلام جاننے کے باوجود ان کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ حج کے موقع پر وہ کہا کرتے تھے دعا ( لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک تملکہ وما ملک یعنی اے اللہ میں تیرے پاس حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ جو خود تیرے غلام ہیں ان کا اور ان کی ماتحت چیزوں کا اصلی مالک تو ہی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں الزام دیتا ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کی اپنی برابری اور اپنے مال میں شرکت پسند نہیں کرتے تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک ٹھیرا رہے ہو ؟ یہی مضمون آیت ( ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ 28 ) 30- الروم:28 ) میں بیان ہوا ہے ۔ کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے مال میں اپنی بیویوں میں اپنا شریک بنانے سے نفرت کرتے ہو تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک سمجھ رہے ہو ؟ یہی اللہ کی نعمتوں سے انکار ہے کہ اللہ کے لئے وہ پسند کرنا ، جو اپنے لئے بھی پسند نہ ہو ۔ یہ ہے مثال معبودان باطل کی ۔ جب تم خود اس سے الگ ہو پھر اللہ تو اس سے بہت زیادہ بیزار ہے ۔ رب کی نعمتوں کا کفر اور کیا ہو گا کہ کھیتیاں چوپائے ایک اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور تم انہیں اس کے سوا اوروں کے نام سے منسوب کرو ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ایک رسالہ لکھا کہ اپنی روزی پر قناعت اختیار کرو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ امیر کر رکھا ہے یہ بھی اس کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ وہ دیکھے کہ امیر امراء کس طرح شکر الہی ادا کر تے ہیں اور جو حقوق دوسروں کے ان پر جناب باری نے مقرر کئے ہیں کہاں تک انہیں ادا کرتے ہیں ۔
71۔ 1 یعنی جب تم اپنے غلاموں کو اتنا مال اسباب دنیا نہیں دیتے کہ تمہارے برابر ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کب یہ پسند کرے گا کہ تم کچھ لوگوں کو، جو اللہ ہی کے بندے اور غلام ہیں اللہ کا شریک اور اس کے برابر قرار دے دو ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معاشی لحاظ سے انسانوں میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے فطری نظام کے مطابق ہے۔ جسے جبری قوانین کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا کہ اشتراکی نظام میں ہے یعنی معاشی مساوات کی غیر فطری کوشش کی بجائے ہر کسی کو معاشی میدان میں کسب معاش کے لئے مساوی طور پر دوڑ دھوپ کے مواقع میسر ہونے چاہیں۔ 71۔ 2 کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے غیر اللہ کے لیے نذر نیاز نکالتے ہیں اور یوں کفران نعمت کرتے ہیں۔
[٧٠] شرک اللہ سے بےانصافی اور ناشکری ہے :۔ یہ خطاب مشرکوں سے ہے اور شرک کی تردید میں ایک عام فہم دلیل پیش کی گئی ہے یعنی تم میں سے ایک شخص صاحب مال و جائداد ہے اور اس کے کئی غلام بھی ہیں تو کیا وہ یہ گوارا کرے گا کہ اپنی ساری دولت اور جائداد اپنے غلاموں میں اس طرح تقسیم کردے کہ اس کا اپنا حصہ بھی ہر غلام کے برابر ہوجائے ؟ ظاہر ہے کہ کوئی مالک ایسا کام گوارا نہیں کرسکتا پھر اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ جب تم لوگ اپنے لیے ایسی برابری برداشت کرنے کو تیار نہیں تو کیا اللہ ایسی برابری برداشت کرسکتا ہے ؟ جو ہر چیز کا مالک و مختار ہے اس نے تم کو یہ سب نعمتیں عطا فرمائیں۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ تم اسی کا شکریہ ادا کرتے اور اسی کی بندگی کرتے لیکن اس معاملہ میں تم لوگوں نے جو اللہ کے مملوک اور غلاموں کو اللہ کے ساتھ برابر کا شریک بنادیا ہے تو کیا اس سے بڑھ کر بھی اللہ کے ساتھ بےانصافی، اس کی احسان ناشناسی اور اس کی نعمتوں کا انکار ہوسکتا ہے ؟- مخلوق اور مملوک کبھی شریک نہیں بن سکتے :۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کوئی مالک اپنے غلام کو کسی چیز کا مالک یا اس میں تصرف کا اختیار دے بھی دے۔ تو یہ سب کچھ عارضی طور پر ہوگا۔ حقیقتاً ان چیزوں کا مالک بھی اصل مالک ہی ہوگا۔ اسی لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ حقیقتاً ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ہمارا کسی چیز کا مالک ہونا یا اس میں تصرف کا اختیار ہونا محض چند روزہ یا عارضی ہے اس سے ایک اہم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مملوک ہونا اور شراکت دو چیزیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ یعنی جو غلام ہے وہ شریک نہیں بن سکتا۔ غلام کو مالک بنانے کی صرف یہ صورت ممکن ہے کہ اسے پہلے آزاد کردیا جائے۔ اب وہ مالک تو بن جائے گا لیکن غلام نہ رہا۔ لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ چونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ومملوک ہے لہذا وہ صفات الوہیت میں اس کی شریک نہیں بن سکتی۔- اشتراکیت کا رد :۔ بعض اشتراکیت پسند حضرات نے اس آیت کا غلط مطلب لے کر بڑا اوٹ پٹانگ سانتیجہ اخذ کیا ہے ان حضرات کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ تم میں سے امیر ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنا مال و دولت اپنے غلاموں میں بانٹ کر سب برابر ہوجائیں اور اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پاؤ گے اور اس طرح اشتراکیت یا کمیونزم کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اب ظاہر ہے کہ سیاق وسباق قطع نظر کرتے ہوئے درمیان میں سے ایک آیت لے کر اس سے اپنے نظریہ کے مطابق مطلب کشید کرنا بدترین قسم کی تحریف معنوی ہے۔ اس آیت سے پہلے بھی توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کا بیان چل رہا ہے۔ اس آیت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے اور بعد کی آیات میں بھی یہی مضمون آرہا ہے۔ لہذا درمیان میں اس آیت کو اس کے اصل مفہوم سے جدا کرکے دور حاضر کے ایک باطل فلسفہ معیشت پر چسپاں کرنا انتہائی غیر معقول بات ہے۔ پھر یہ معنی اس لحاظ سے بھی غلط ہیں کہ اس آیت میں غلاموں کا ذکر ہے غریب طبقہ کا ذکر نہیں۔ جسے اشتراکیت پسند اپنی مطلب برآری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۔۔ : یعنی جب تم اپنے غلاموں کو اپنے رزق اور اختیار کا کوئی حصہ دے کر اپنے برابر کرنے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ انسان ہونے میں وہ بالکل تمہاری طرح ہیں، پھر اللہ کے عبید (غلاموں) کو اس کے شریک کیوں بناتے ہو ؟ مکہ کے مشرکوں کی عقل کا ماتم کیجیے جو حج و عمرہ پر لبیک کہتے ہوئے یہ اقرار کرنے کے بعد کہ تیرا کوئی شریک نہیں، پھر کہتے سوائے ایک شریک کے، جس کا مالک بھی تو ہے، وہ مالک نہیں۔ [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ و صفتہا۔۔ : ١١٨٥ ] جب وہ مملوک ہے تو شریک کیسے بن گیا ؟ تم اپنے لیے جو بات پسند نہیں کرتے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کیوں تسلیم کرتے ہو۔ - 3 اس آیت سے کمیونسٹوں (اشتراکیوں) کے قول کی بھی واضح تردید ہوتی ہے کہ تمام لوگوں کے پاس ایک جیسا رزق ہونا چاہیے، جس کے پاس زائد ہو وہ چھین لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ ممکن ہی نہیں، نہ کائنات کا نظام اس سے چل سکتا ہے نہ کبھی ایسا ہوا ہے، حتیٰ کہ کمیونسٹ حکام اور عوام کے معیار زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ مزید کئی آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے، دیکھیے سورة روم (٢٨) اور سورة زخرف (٣٢) ۔
خلاصہ تفسیر :- اور (اثبات توحید کے ساتھ شرک کی قباحت ایک باہمی معاملہ کے ضمن میں سنو کہ) اللہ تعالیٰ نے تم میں بعضوں کو بعضوں پر رزق (کے باب) میں فضیلت دی ہے (مثلا کسی کو غنی اور غلاموں کا مالک بنایا کہ ان کے ہاتھ سے ان غلاموں کو بھی رزق پہنچتا ہے اور کسی کو غلام بنادیا کہ اس کو مالک ہی کے ہاتھ سے رزق پہنچتا ہے اور کسی کو نہ ایسا غنی بنایا کہ دوسرے غلاموں کو دے نہ غلام بنایا کہ اس کو کسی مالک کے ہاتھ سے پہنچے) سو جن لوگوں کو (رزق میں خاص) فضیلت دی گئی ہے (کہ ان کے پاس مال بھی ہے اور غلام بھی ہیں) وہ (لوگ) اپنے حصہ کا مال اپنے غلاموں کو اس طرح کبھی دینے والے نہیں کہ وہ (مالک ومملوک) سب اس میں برابر ہوجائیں (کیونکہ اگر غلام رکھ کردیا تو مال ان کی ملک ہی نہ ہوگا بلکہ بدستور یہی مالک رہیں گے اور اگر آزاد کر کے دیا تو مساوات ممکن ہے مگر وہ غلام نہ رہیں گے پس غلامی اور مساوات ممکن نہیں اسی طرح یہ بت وغیرہ جب باعتراف مشرکین خدا تعالیٰ کے مملوک ہیں تو باوجود مملوک ہونے کے معبودیت میں خدا کے مماثل کیسے ہوجائیں گے اس میں شرک کی انتہائی تقبیح ہے کہ جب تمہارے غلام تمہارے شریک رزق نہیں ہو سکتے تو اللہ تعالیٰ کے غلام اس کے شریک الوہیت کیسے ہو سکتے ہیں) کیا (یہ مضامین سن کر) پھر بھی (خدائے تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں جس سے عقلا یہ لازم آتا ہے کہ) خدا تعالیٰ کی نعمت کا (یعنی اس بات کا کہ خدا نے نعمت دی ہے) انکار کرتے ہیں۔- معارف و مسائل :- اس سے پہلی آیات میں حق تعالیٰ نے اپنے علم وقدرت کے اہم مظاہر اور انسان پر مبذول ہونے والی نعمتوں کا تذکرہ فرما کر اپنی توحید کے فطری دلائل بیان فرمائے ہیں جن کو دیکھ کر ادنی سمجھ بوجھ والا آدمی بھی کسی مخلوق کو حق تعالیٰ کے ساتھ اس کی صفات علم وقدرت وغیرہ میں شریک نہیں مان سکتا اس آیت میں اسی مضمون توحید کو ایک باہمی معاملہ کی مثال سے واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے انسانی مصالح کے پیش نظر رزق میں سب انسانوں کو برابر نہیں کیا بلکہ بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور مختلف درجات قائم فرمائے کسی کو ایسا غنی بنادیا جو ساز و سامان کا مالک ہے جشم وخدم غلام و خدمت گار رکھتا ہے وہ خود بھی اپنی منشاء کے مطابق خرچ کرتا ہے اور غلاموں، خدمت گاروں کو بھی اس کے ہاتھ سے رزق پہنچتا ہے اور کسی کو غلام و خدمت گار بنادیا کہ وہ دوسروں پر تو کیا خرچ کرتے ان کا اپنا خرچ بھی دوسروں کے ذریعہ پہنچتا ہے اور کسی کو متوسط الحال بنایا نہ اتنا غنی کہ دوسروں پر خرچ کرے نہ اتنا فقیر و محتاج کہ اپنی ضروریات میں بھی دوسروں کا دست نگر ہو۔- اس قدرتی تقسیم کا یہ اثر سب کے مشاہدہ میں ہے کہ جس کو رزق میں فضیلت دی گئی اور غنی بنایا گیا وہ کبھی اس کو گوارا نہیں کرتا کہ اپنے مال کو اپنے غلاموں، خدمت گاروں میں اس طرح تقسیم کر دے کہ وہ بھی مال میں اس کے برابر ہوجائیں۔- اس مثال سے سمجھو کہ جب مشرکین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بت اور دوسری مخلوقات جن کی وہ پرستش کرتے ہیں سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ومملوک ہیں تو یہ کیسے تجویز کرتے ہیں کہ یہ مخلوق ومملوک اپنے خالق ومالک کے برابر ہوجائیں کیا یہ لوگ یہ سب نشانیاں دیکھ کر اور یہ مضامین سن کر پھر بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک اور برابر قرار دیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ اقرار ہوتا کہ یہ سب نعمتیں صرف اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں ان میں کسی خود تراشیدہ بت کا یا کسی انسان اور جن کا کوئی دخل نہیں ہے تو پھر ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر کیسے قرار دیتے ؟- یہی مضمون سورة روم کی اس آیت میں بھی ارشاد ہوا ہے :- (آیت) ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۭ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌ ( سورة روم آیت ٢٨) تمہارے لئے تم ہی میں سے ایک مثال دی ہے جو لوگ تمہارے زیر دست ہیں کیا وہ ہمارے دیئے ہوئے رزق میں تمہارے شریک ہیں کہ تم اس میں برابر ہوگئے ہو۔ - اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ تم اپنے مملوک غلاموں اور خدمت گاروں کو اپنے برابر کرنا ناپسند نہیں کرتے تو اللہ کے لئے یہ کیسے پسند کرتے ہو کہ وہ اس کی مخلوق ومملوک چیزیں اس کے برابر ہوجائیں۔- معاش میں درجات کا اختلاف انسانوں کے لئے رحمت ہے :- اس آیت میں واضح طور پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فقر وغنی اور معیشت میں انسانوں کے مختلف درجات ہونا کہ کوئی غریب ہے کوئی امیر کوئی متوسط الحال یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں حق تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہے اور انسانی مصالح کا مقتضی اور انسانوں کے لئے رحمت ہے اگر یہ صورت نہ رہے اور مال و سامان میں سب انسان برابر ہوجائیں تو نظام عالم میں خلل اور فساد پیدا ہوجائے گا اسی لئے جب سے دنیا آباد ہوئی کسی دور اور کسی زمانے میں سب انسان مال و متاع کے اعتبار سے مساوی نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں اور اگر کہیں زبردستی ایسی مساوات پیدا کر بھی دی جائے تو چند ہی روز میں تمام انسانی کاروبار میں خلل اور فساد کا مشاہدہ ہوجائے گا حق تعالیٰ نے جیسے تمام انسانوں کو عقل و دماغ اور قوت و طاقت اور صلاحیت کار میں مختلف مزاجوں پر تقسیم کیا ہے اور ان میں ادنی اعلیٰ متوسط کی اقسام ہیں جس کا کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا اسی طرح یہ بھی ناگزیر ہے کہ مال و متاع میں بھی یہ مختلف درجات قائم ہوں کہ ہر شخص اپنی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اس کا صلہ پائے اور اگر اہل صلاحیت اور نااہل کو برابر کردیا گیا تو اہل صلاحیت کی حوصلہ شکنی ہوگی جب معیشت میں اس کو نااہلوں کے برابر ہی رہنا ہے تو وہ کونسا داعیہ ہے جو اسے جدوجہد اور فکر وعمل پر مجبور کرے اس کا لازمی نتیجہ صلاحیت کار کو برباد کرنا ہوگا۔- ارتکاز دولت کے خلاف قرآنی احکام :- البتہ خالق کائنات نے جہاں عقلی اور جسمانی قوتوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اور اس کے تابع رزق اور مال میں تفاوت قائم فرمایا وہیں معاش کا یہ نظام محکم بھی قائم فرمایا کہ ایسا نہ ہونے پائے کہ دولت کے خزانوں اور کسب معاش کے مرکزوں پر چند افراد یا کوئی خاص جماعت قبضہ کرلے دوسرے اہل صلاحیت کے کام کرنے کا میدان ہی باقی نہ رہے کہ وہ اپنی عقلی اور جسمانی صلاحیتوں سے کام لے کر معاش میں ترقی کرسکیں اس کے لئے قرآن کریم سورة حشر میں ارشاد فرمایا (آیت) كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُم یعنی ہم نے تقسیم دولت کا قانون اس لئے بنایا کہ دولت صرف سرمایہ داروں میں منحصر ہو کر نہ رہ جائے۔- آج کل دنیا کے معاشی نظاموں میں جو افراتفری پھیلی ہوئی ہے وہ اس ربانی قانون حکمت کو نظر انداز کرنے ہی کا نتیجہ ہے ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں دولت کے مرکزوں پر سود وقمار کے راستہ سے چند افراد یا جماعتیں قابض ہو کر باقی ساری مخلوق کو اپنا معاشی غلام بنانے پر مجبور کردیتی ہیں ان کے لئے بجز غلامی اور مزدوری کے کوئی راستہ اپنی ضروریات حاصل کرنے کے لئے نہیں رہ جاتا وہ اپنی اعلی صلاحیتوں کے باوجود صنعت و تجارت کے میدان میں قدم نہیں رکھ سکتے۔- سرمایہ داروں کے اس ظلم وجور کے رد عمل کے طور پر ایک متضاد نظام اشتراکیت کمیونزم یا سوسلزم کے نام سے وجود میں آتا ہے جس کا نعرہ غریب و امیر کے تفاوت کو ختم کرنا اور سب میں مساوات پیدا کرنا ہے ظالمانہ سرمایہ داری کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے عوام اس نعرہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں مگر چند ہی روز میں وہ مشاہدہ کرلیتے ہیں کہ یہ نعرہ محض فریب تھا معاشی مساوات کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا اور غریب اپنی غربت اور فقرو فاقہ کے ساتھ بھی جو ایک انسانی احترام رکھتا تھا اپنی مرضی کا مالک تھا یہ احترام انسانیت بھی ہاتھ سے جاتا رہا نظام اشتراکیت میں انسان کی کوئی قدر قیمت مشین کے ایک پرزے سے زائد نہیں کسی جائداد کی ملکیت کا تو وہاں تصور ہی نہیں ہوسکتا اور جو معاملہ وہاں ایک مزدور کے ساتھ کیا جاتا ہے اس پر غور کریں تو وہ کسی چیز کا مالک نہیں اس کی اولاد اور بیوی بھی اس کی نہیں بلکہ سب ریاست کی مشین کے کل پرزے ہیں جن کو مشین اسٹارٹ ہوتے ہی اپنے کام پر لگ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ریاست کے مفروضہ مقاصد کے سوا نہ اس کا کوئی ضمیر ہے نہ آواز ریاست کے جبر وتشدد اور ناقابل برداشت محنت سے کراہنا ایک بغاوت شمار ہوتا ہے جس کی سزا موت ہے خدا تعالیٰ اور مذہب کی مخالفت اور خالص مادہ پرستی نظام اشتراکیت کا بنیادی اصول ہے۔- یہ وہ حقائق ہیں جن سے کوئی اشتراکی انکار نہیں کرسکتا ان کے پیشواؤں کی کتابیں اور اعمال نامے اس کے شاہد ہیں کہ ان کے حوالوں کو جمع کرنا بھی ایک مستقل کتاب بنانے کے مترادف ہے۔- قرآن حکیم نے ظالمانہ سرمایہ داری اور احمقانہ اشتراکیت کی دونوں انتہاؤں کے درمیان افراط وتفریط سے پاک ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ رزق اور دولت میں فطری تفاوت کے باوجود کوئی فرد یا جماعت عام مخلوق کو اپنا غلام نہ بنا سکے اور مصنوعی گرانی اور قحط میں مبتلا نہ کرسکے سود اور جوے کو حرام قرار دے کر ناجائز سرمایہ داری کی بنیاد مہندم کردی پھر ہر مسلمان کے مال میں غریبوں کا حق متعین کر کے شریک کردیا جو غریبوں پر احسان نہیں بلکہ ادائے فرض ہے ( آیت) فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ اس پر شاہد ہے پھر مرنے کے بعد مرنے والے کی تمام ملکیت کو افراد خاندان میں تقسیم کر کے ارتکاز دولت کا خاتمہ کردیا قدرتی چشموں سمندروں اور پہاڑی جنگلوں کی خودرو پیداوار کو تمام خلق خدا کا مشترک سرمایہ قرار دے دیا جس پر کسی فرد یا جماعت کا قبضہ مالکانہ جائز نہیں جب کہ سرمایہ داری نظام میں یہ سب چیزیں صرف سرمایہ داروں کی ملکیت قرار دے دیگئی ہیں۔- چونکہ علمی عملی صلاحیتوں کا متفاوت اور مختلف ہونا ایک امر فطری ہے اور تحصیل معاش بھی انہی صلاحیتوں کے تابع ہے اس لئے مال و دولت کی ملکیت کا متفاوت ہونا بھی عین تقاضائے حکمت ہے جس کو دنیا کا کچھ بھی عقل و شعور ہے وہ اس کا انکار نہیں کرسکتا اور مساوات کے نعرے لگانے والے بھی چند قدم چلنے کے بعد اس مساوات کے دعوے کو چھوڑنے اور معیشت میں تفاوت وتفاضل پیدا کرنے پر مجبور ہوگئے۔- خرد شیف نے ٥ مئی کو سپریم سویٹ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا :- ہم اجرتوں میں فرق مٹانے کی تحریک کے سختی سے مخالف ہیں ہم اجرتوں میں مساوات قائم کرنے اور ان کے ایک سطح پر لانے کے کھلے بندوں مخالف ہیں یہ لینن کی تعلیم ہے اس کی تعلیم یہ تھی کہ سوشلسٹ سماج میں مادی محرکات کا پورا لحاظ رکھا جائے گا۔- (سویٹ ورلڈ ص ٣٤٦)- معاشی مساوات کے خواب کی یہ تعبیر عدم مساوات تو ابتداء ہی سے سامنے آگئی تھی مگر دیکھتی ہے دیکھتے یہ عدم مساوات اور امیر و غریب کا تفاوت اشتراکی مملکیت روس میں عام سرمایہ دار ملکوں سے بھی آگے بڑھ گیا۔- لیون شیڈو لکھتا ہے :- شاید ہی کوئی ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک ایسا ہو جہاں مزدوروں کی اجرتوں میں اتنا تفاوف ہو جتنا روس میں ہے۔- واقعات کی ان چند مثالوں نے آیت مذکورہ (آیت) وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ کی جبری تصدیق منکرین کی زبانوں سے کرادی (آیت) وَاللّٰهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ یہاں اس آیت کے تحت تو صرف اتنا ہی بیان کرنا تھا کہ رزق ومال میں تفاوت قدرتی اور فطری اور عین مصالح انسان کے مطابق ہے باقی تقسیم دولت کے اسلامی اصول اور سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے اس کا امتیاز تو یہ انشاء اللہ تعالیٰ سورة زخرف پارہ نمبر ٢٥ (آیت) نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ کے تحت میں آئے گا اور اس موضوع پر احقر کا ایک مستقل رسالہ اسلام کا نظام تقسیم دولت کے نام سے شائع ہوچکا ہے اس کا مطالعہ بھی کافی ہے۔
وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَاۗدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰي مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌ ۭ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ 71- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - ر آدی - ۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ بحالت ِ نصب وجر ّ ۔ اصل میں رادین تھا۔ ن اضافت کی وجہ سے ساقط ہوگیا۔ بحالت ِ رفع ر آدون کی جمع۔ رد ( مضاعف) سے اسم فاعل۔ اصل میں رادد تھا ۔ دو حرف ایک جنس کے اکٹھے ہوئے۔ پہلے کو ساکن کر کے دوسرے میں مدغم کیا۔ راد ہوگیا۔ رد یرد ( نصر) کے معنی ہیں۔ پھیرنا۔ واپس کرنا۔ پس اسم فاعل ر آد کے معنی ہوئے پھیرنے والا۔ واپس کرنے والا۔- سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- جحد - الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد .- ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد - وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی مرد اور عورت ۔- حفد - قال اللہ تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، جمع حَافِد، وهو المتحرّك المتبرّع بالخدمة، أقارب کانوا أو أجانب، قال المفسرون : هم الأسباط ونحوهم، وذلک أنّ خدمتهم أصدق، قال الشاعر : 118-- حَفَدَ الولائد بينهنّ وفلان مَحْفُود، أي : مخدوم، وهم الأختان والأصهار، وفي الدعاء : «إليك نسعی ونحفد» وسیف مُحْتَفِد : سریع القطع، قال الأصمعي : أصل الحَفْد : مدارکة الخطو .- ( ح ف د ) الحافد - ۔ ہر اس شخص کی کہتے ہیں جو تبرعا تیزی گے ساتھ خدمت بجالائے خواہ وہ اجنبی ہو یا رشتہ دار ۔ اسی کی جمع حفدۃ آتی ہے قرآن میں ہے :۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے ۔ مفسرین کا قول ہے کہ یہاں حفدۃ سے مراد اسباط پوتے نواسے وغیر ہم ہیں ۔ کیونکہ ان کی خدمت زیادہ سچی ہوتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) (114) حفدالولاثد بینھن فلان محفود فلاں محذوم ہے ۔ الغرض حفدۃ کا اطلاق سسر اور اولاد دونوں طرف کے رشتہ داروں پر ہوتا ہے ۔ اور دعا میں ہے ۔ ہم تیری طرف دوڑتے ہیں ۔ سیف محتفد قاطع تلوار ۔ اصمعی کہتے ہیں کہ اصل میں حفد کے معنی پھرتی اور جلدی کرنا کے ہیں ۔- طيب ( پاكيزه)- يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] - قوله تعالی: مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم 24] ، وقوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وَمَساكِنَ طَيِّبَةً [ التوبة 72] ، أي : طاهرة ذكيّة مستلذّة . - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ - ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں - اسی معنی میں فرمایا ؛ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم 24] پاک عمل کی مثال شجرۃ طیبہ کی ہے ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمے پڑھتے ہیں ۔ - بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ میس کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔
آقا اور اموال غلام کے بارے میں - قول باری ہے (واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق فما الذین فضلوا برادی رزقھم علی ما کانکت ایمانھم۔ اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے۔ پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں) حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے مروی ہے کہ یہ لوگ اپنے غلاموں کو اپنے اموال میں شریک نہیں کرتے تاکہ دونوں ان اموال میں برابر کے حصہ دار بن جائیں، اپنی ذات کے لئے تو وہ لوگ یہ بات پسند نہیں کرتے لیکن وہ لوگ میرے بندوں کو میری حکومت اور میرے ملک میں میرا شریک ٹھہراتے ہیں، ایک قول کے مطابق آقا اور غلام سب کے سب اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ میں نے ان سب کو رزق دیا ہے نیز یہ کہ کسی آقا کے لئے اپنے غلام کو رزق دینا ممکن ہی نہیں ہے مگر صرف اس بنا پر کہ میں نے اسے رزق عطا کیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت آقا اور غلام کے درمیان ملکیت کے لحاظ سے مساوات کے انتفاء پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں دو وجوہ سے یہ دلیل موجود ہے کہ غلام کو کسی چیز کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اول تو یہ کہ اگر غلام کے لئے اس چیز کی ملکیت جائز ہوتی جسے اس کا آقا اس کی ملکیت میں دے دیتا تو اس صورت میں آقا کے لئے اپنا مال اس کی ملکیت میں دے دینا جائز ہوتا اور اس طرح غلام اس مال کا مالک بن کر آقا کے ساتھ برابر کا حصہ دار بن جاتا۔ اس صورت میں غلاموں کی ملکیت آقا کی ملکیت کی طرح ہوجاتی بلکہ یہ بات جائز ہوتی کہ ملکیت کے لحاظ سے غلام اپنے آقا سے افضل ہوتا اور اس کی ملکیت کا دائرہ زیادہ وسیع ہوتا۔ اس بیان میں یہ دلیل موجود ہے کہ غلام کو کسی چیز کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی خواہ آقا کوئی چیز اس کی ملکیت میں کیوں نہ دے۔ اس لئے کہ آیت ان دونوں کے درمیان ملکیت میں مساوات کی نفی کی مقتضیٰ ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے، اللہ تعالیٰ نے آقا اور غلام کی اس صورت حال کو مشرکین کی بت پرستی کے لئے بطور مثال بیان فرمایا اور یہ بات سب کو معلوم تھی کہ بت کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلام بھی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لئے کہ مثال میں غلام اور آزاد کے درمیان شراکت کی نفی کردی گئی ہے جس طرح اللہ اور بتوں کے درمیان اس چیز کی نفی کردی گئی ہے۔
(٧١) اہل نجران اس بات کے قائل تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو بعض لوگوں پر رزق مال و دولت کے باب میں فضیلت دی ہے تو مال و دولت والے اپنے غلاموں کو اس طرح کبھی مال نہیں دیں گے، آقا اور غلام سب اس مال میں برابر ہوجائیں، اس چیز پر یہ لوگ کبھی راضی نہیں ہوسکتے کہ انکی ملکیت میں دوسرا شریک ہوجائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تو کیا میرے لیے اس چیز کو پسند کرتے و، جس کو اپنے لیے گوارا نہیں کرتے اور اتنے انعامات کے بعد بھی وحدانیت خداوندی کا انکار کرتے ہو۔
آیت ٧١ (وَاللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ )- رزق سے مراد صرف مادی اسباب و وسائل ہی نہیں بلکہ اس میں انسان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔ مادی وسائل کی کمی بیشی کے بارے میں تو کوئی سوشلسٹ یا کمیونسٹ اعتراض کرسکتا ہے کہ یہ غلط تقسیم اور غلط نظام کا نتیجہ ہے جس کا ذمہ دار خود انسان ہے مگر یہ امر اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ ہر انسان کی ذہنی استعداد اور جسمانی طاقت ایک سی نہیں ہوتی۔ جینز ( ) کے ذریعے وراثت میں ملنے والی تمام صلاحیتیں بھی سب انسانوں میں برابر نہیں ہوتیں پھر اس میں کسی کے اختیار و انتخاب کو بھی کوئی دخل نہیں ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے مادی اسباب و وسائل کے علاوہ ذاتی صلاحیتوں میں بھی مختلف انسانوں کو مختلف اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔- (فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَاۗدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰي مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَاۗءٌ)- یعنی ایسا تو نہیں ہوتا کہ امراء اپنی دولت اور جائیدادیں اپنے غلاموں میں تقسیم کردیں اور انہیں بھی اپنے ساتھ ان جائیدادوں کا مالک بنا لیں۔ تو اگر تم لوگ اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ اپنی ملکیت میں شریک نہیں کرتے تو کیا اللہ تمہارے جھوٹے معبودوں کو اپنے برابر کرلے گا ؟ اور یہ جو ان لوگوں کا خیال ہے کہ ایک بڑا خدا ہے اور کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ہیں اور یہ چھوٹے خدا بڑے خدا سے ان کی سفارش کریں گے تو کیا اللہ پر ان میں سے کسی کی دھونس چل سکے گی یا اللہ ان میں سے کسی کو یہ اختیار دے گا کہ وہ اس سے اپنی کوئی بات منوالے ؟
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :62 زمانہ حال میں اس آیت سے جو عجیب و غریب معنی نکالے گئے ہیں وہ اس امر کی بدترین مثال ہیں کہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک ایک آیت کے الگ معنی لینے سے کیسی کیسی لا طائل تاویلوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ لوگوں نے اس آیت کو اسلام کے فلسفہ معیشت کی اصل اور قانون معیشت کی ایک اہم دفہ ٹھیرایا ہے ۔ ان کے نزدیک آیت کا منشاء یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہو انہیں اپنا رزق اپنے نوکروں اور غلاموں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہیے ، اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے ۔ حالانکہ اس پورے سلسلہ کلام میں قانون معیشت کے بیان کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے ۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی رہی ہے اور آگے بھی مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے ۔ اس گفتگو کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفہ بیان کر دینے کے بعد آخر کونسا تُک ہے ؟ آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکے بالکل برعکس مضمون بیان ہو رہا ہے ۔ یہاں استدلال یہ کیا گیا ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے غلاموں اور نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ یہ مال خدا کا دیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آخر کس طرح یہ بات تم صحیح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم پر کیے ہیں ان کے شکریے میں اللہ کے ساتھ اس کے بے اختیار غلاموں کو بھی شریک کر لو اور اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی اس کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں؟ ٹھیک یہی استدلال ، اسی مضمون سے سورہ روم ، آیت نمبر ۲۸ میں کیا گیا ہے ۔ وہاں اس کے الفاظ یہ ہیں: ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَ آ ءٌ تَخَا فُوْ نَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ ۔ اللہ تمہارے سامنے ایک مثال خود تمہاری اپنی ذات سے پیش کرتا ہے ۔ کیا تمہارے اس رزق میں جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے تمہارےغلام تمہارے شریک ہیں حتیٰ کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ اس طرح اللہ کھول کھول کر نشانیاں پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں“ ۔ دونوں آیتوں کا تقابل کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی مثال سے استدلال کیا گیا ہے ۔ اور ان میں سے ہر ایک دوسری کی تفسیر کر رہی ہے ۔ شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے ۔ انہوں نے تمثیل کے بعد متصلا یہ فقرہ دیکھ کر خیال کیا کہ ہو نہ ہو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اپنے زیر دستوں کی طرف رزق نہ پھیر دینا ہی اللہ کی نعمت کا انکار ہے حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظر رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ غیر اللہ کو ادا کرنا اس کتاب کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے ۔ یہ مضمون اس کثرت سے قرآن میں دہرایا گیا ہے کہ تلاوت و تدبر کی عادت رکھنے والوں کو تو اس میں اشتباہ پیش نہیں آسکتا ، البتہ انڈکسوں کی مدد سے اپنے مطلب کی آیات نکال کر مضامین تیار کرنے والے حضرات اس سے ناواقف ہو سکتے ہیں ۔ نعمت الہٰی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس فقرے کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ جب یہ لوگ مالک اور مملوک کا فرق خوب جانتے ہیں ، اور خود اپنی زندگی میں ہر وقت اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں ، تو کیا پھر ایک اللہ ہی کے معاملہ میں انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ اس کے بندوں کو اس کا شریک ٹھیرائیں اور جو نعمتیں انہوں نے اس سے پائی ہیں ان کا شکریہ اس کے بندوں کو ادا کریں؟
30: مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کرتا کہ اپنے غلام کو اپنی دولت اس طرح دیدے کہ وہ دولت میں اس کے برابر ہوجائے۔ اب تم خود مانتے ہو کہ جن دیوتاؤں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک یعنی غلام ہیں۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ نے انہیں اپنی خدائی اس طرح دے دی ہو کہ انہیں اللہ کے برابر معبود بننے کا حق حاصل ہوگیا ہو۔ 31: یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر کے یہ دعوی کرتے ہیں کہ فلاں نعمت اللہ نے نہیں، بلکہ ان کے گھڑے ہوئے دیوتاؤں نے دی ہے۔