Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بندوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان اپنے بندوں پر اپنا ایک اور احسان جتاتا ہے کہ انہی کی جنس سے انہی کی ہم شکل ، ہم وضع عورتیں ہم نے ان کے لئے پیدا کیں ۔ اگر جنس اور ہوتی تو دلی میل جول ، محبت و موعدت قائم نہ رہتی لیکن اپنی رحمت سے اس نے مرد عورت ہم جنس بنائے ۔ پھر اس جوڑے سے نسل بڑھائی ، اولاد پھیلائی ، لڑکے ہوئے ، لڑکوں کے لڑکے ہوئے ، حفدہ کے ایک معنی تو یہی پوتوں کے ہیں ، دوسرے معنی خادم اور مددگار کے ہیں پس لڑکے اور پوتے بھی ایک طرح خدمت گزار ہوتے ہیں اور عرب میں یہی دستور بھی تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں انسان کی بیوی کی سابقہ گھر کی اولاد اس کی نہیں ہوتی ۔ حفدہ اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی کے سامنے اس کے لئے کام کاج کرے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ اس سے مراد دامادی رشتہ ہے اس کے معنی کے تحت میں یہ سب داخل ہیں ، چنانچہ قنوت میں جملہ آتا ہے والیک نسعی ونحفد ہماری سعی کوشش اور خدمت تیرے لئے ہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اولاد سے ، غلام سے ، سسرال والوں سے ، خدمت حاصل ہوتی ہے ان سب کے پاس سے نعمت الہی ہمیں ملتی ہے ۔ ہاں جن کے نزدیک وحفدۃ کا تعلق ازواجا سے ہے ان کے نزدیک تو مراد اولاد اور اولاد کی اولاد اور داماد اور بیوی کی اولاد ہیں ۔ پس یہ سب بسا اوقات اسی شخص کی حفاظت میں ، اس کی گود میں اور اس کی خدمت میں ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ یہی مطلب سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ اولاد تیری غلام ہے ۔ جیسے کہ ابو داؤد میں ہے اور جنہوں نے حفدہ سے مراد خادم لیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ معطوف ہے اللہ کے فرمان آیت ( وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ 72؀ۙ ) 16- النحل:72 ) پر یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں اور اولاد کو خادم بنا دیا ہے اور تمہیں کھانے پینے کی بہترین ذائقے دار چیزیں عنایت فرمائی ہیں پس باطل پر یقین رکھ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہ کرنی چاہئے ۔ رب کی نعمتوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کی دوسروں کی طرف نسبت کر دی ۔ صحیح حدیث میں ہے کے قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے احسان جتاتے ہوئے فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی ؟ میں نے تجھے ذی عزت نہیں بنایا تھا ؟ میں نے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے تابع نہیں کیا تھا اور میں نے تجھے سرداری میں اور آرام میں نہیں چھوڑا تھا ؟

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یعنی اللہ تعالیٰ اپنے انعامات کا تذکرہ کر کے جو آیت میں مذکور ہیں، سوال کر رہا ہے کہ سب کچھ دینے والا تو اللہ ہے، لیکن یہ اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں اور دوسروں کا ہی کہنا مانتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧١] انسان اور اس کی نوع کی بقا کے اسباب :۔ تمہارے بقائے نوع کے اسباب بھی اللہ نے مہیا کیے اور تمہاری اپنی زندگی کی بقا کے اسباب بھی اسی نے پیدا کیے۔ پھر بھی مشرک اپنے معبودان باطل کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں کی کرم نوازی سے بیٹا پیدا ہوا اور فلاں آستانے پر جانے سے شفا نصیب ہوئی وغیر ذلک من الخرافات

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۔۔ :” وَحَفَدَةً “ ” حَفَدَ یَحْفِدُ “ (ض) سے ” حَافِدٌ“ کی جمع ہے، خدمت اور اطاعت میں جلدی کرنے والا، جیسا کہ قنوت کی ایک دعا میں ہے : ( وَإِلَیْکَ نَسْعٰی وَ نَحْفِدُ ) [ ابن خزیمۃ : ٢؍١٥٥، ح : ١١٠٠ ] ” حَفِیْدٌ“ کی جمع ” حُفَدَاءُ “ آتی ہے۔ ” حَافِدٌ“ اور ” حَفِیْدٌ“ بیٹوں کو اور اولاد کی اولاد کو کہتے ہیں، خادم کو بھی کہہ لیتے ہیں۔ (قاموس) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی احسان ذکر فرمائے ہیں، ایک تو تنہائی اور وحشت دور کرنے کے لیے ساتھی دیا، مرد کے لیے عورت، عورت کے لیے مرد۔ دوسرا یہ کہ وہ ساتھی اس کی جنس انسان سے دیا، کیونکہ دوسری جنس سے نہ انس حاصل ہوسکتا تھا، نہ سکون اور نہ موافقت۔ (دیکھیے روم : ٢١) ہمارے والد ماجد آدم (علیہ السلام) کو جنت میں رہنے کے باوجود سکون تبھی حاصل ہوا جب انھیں اپنی جنس سے بیوی ملی۔ (دیکھیے نساء : ١) اس سے اہل علم نے یہ بات بھی اخذ کی ہے کہ جن و انس کے درمیان نکاح کی اور ان سے اولاد ہونے کی تمام باتیں محض افسانہ ہیں۔ تیسرا یہ کہ میاں بیوی سے اولاد اور اولاد کی اولاد (بیٹے اور پوتے و نواسے) عطا فرمائے، جو بڑھاپے میں خوشی کا باعث اور سہارا بنتے ہیں اور خوش دلی سے بابا کی خدمت کرتے اور اس کے نام اور نسل کی بقا کا ذریعہ بنتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ پھر ان سب کی زندگی کی ہر ضرورت کے لیے پاکیزہ رزق عطا فرمایا۔ - اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ : یعنی کیا اپنے بنائے ہوئے خداؤں، حاجت رواؤں، مشکل کشاؤں اور داتاؤں کا احسان مانتے ہیں کہ انھوں نے ہی بیماری سے شفا دی، بیٹا دیا، یا روزی بخشی، حالانکہ وہ سب باطل ہیں اور وہم و خیال کے سوا ان کی کچھ حقیقت ہی نہیں۔ دیکھیے سورة یونس (٦٦) ۔- وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ هُمْ يَكْفُرُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ جو سچا معبود ہے اور تمام احسانات اسی کے ہیں، اس کی نعمتوں کی ناشکری اور انکار کرتے ہیں، اس کے بجائے بتوں اور بزرگوں کے احسان مانتے ہیں کہ تندرستی، بیٹے اور روزی یہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب باطل (جھوٹ) ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کے مشرک شکر گزار نہیں ہوتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (منجملہ دلائل قدرت و وجوہ نعمت کے ایک بڑی نعمت اور دلیل قدرت اللہ تعالیٰ کی خود تمہارا وجود وبقاء شخصی ونوعی ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے (یعنی تمہاری جنس اور نوع سے) تمہارے لئے بیبیاں بنائیں اور (پھر) ان بیبیوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے (کہ یہ بقاء نوعی ہے) اور تم کو اچھی اچھی چیزیں کھانے (پینے) کو دیں (کہ یہ بقاء شخصی ہے اور چونکہ بقاء موقوف ہے وجود پر اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوگیا) کیا (یہ سب دلائل ونعم سنکر) پھر بھی بےبنیاد چیز پر (یعنی بتوں وغیرہ پر جن کے معبود ہونے کی کوئی دلیل نہیں بلکہ خلاف دلیل ہے) ایمان رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری (بےقدری) کرتے رہیں گے اور (مطلب اس ناشکری کا یہ ہے کہ) اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہیں گے جو ان کو نہ آسمان میں سے رزق پہنچانے کا اختیار رکھتی ہیں اور نہ زمین میں سے (یعنی نہ بارش برسانے کا ان کو اختیار ہے نہ زمین سے کچھ پیدا کرنے کا) اور نہ (اختیار حاصل کرنے کی) قدرت رکھتے ہیں (اس کی نفی سے زیادہ مبالغہ ہوگیا کیونکہ بعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص بالفعل تو بااختیار نہیں ہے لیکن جدوجہد سے اختیارات حاصل کرلیتا ہے اس لئے اس کی بھی نفی فرما دی) سو (جب شرک کا بطلان ثابت ہوگیا تو) تم اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت گھڑو (کہ اللہ تعالیٰ کی مثال بادشاہان دنیا کی سی ہے کہ ہر شخص ان سے عرض حاجت نہیں کرسکتا اس لئے اس کے نائب ہوتے ہیں کہ عوام ان سے عرض حاجت کرتے ہیں پھر وہ سلاطین سے عرض کرتے ہیں کذا فی الکبیر ویؤ خد من قولہ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ هٰٓؤ ُ لَاۗءِ شُفَعَاۗؤ ُ نَا عِنْدَاللّٰهِ ) اللہ تعالیٰ (خوب) جانتے ہیں (کہ ایسی مثالیں محض مہمل ہیں) اور تم (بوجہ عدم تدبر کے) نہیں جانتے (اس لئے جو چاہتے ہو بک ڈالتے ہو اور) اللہ تعالیٰ (شرک کے بطلان ظاہر کرنے کے لئے) ایک مثال بیان فرماتے ہیں کہ (فرض کرو) ایک (تو) غلام ہے (کسی کا) مملوک کہ (اموال وتصرفات میں سے) کسی چیز کا (بلا اجازت آقا) اختیار نہیں رکھتا اور (دوسرا) ایک شخص ہے جس کو ہم نے اپنے پاس سے خوب روزی دے رکھی تو اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ (جس طرح چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے) خرچ کرتا ہے (اس کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں) کیا اس قسم کے شخص آپس میں برابر ہو سکتے ہیں (بس جب مالک مجازی ومملوک مجازی برابر نہیں ہو سکتے تو مالک حقیقی ومملوک حقیقی تو کب برابر ہو سکتے ہیں اور استحقاق عبادت موقوف ہے مساوات پر اور وہ ہے نہیں) ساری تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں (کیونکہ کامل الذات والصفات وہی ہیں پس معبود بھی وہی ہوسکتا ہے مگر پھر بھی مشرکین غیر اللہ کی عبادت نہیں چھوڑتے) بلکہ ان میں اکثر تو (بوجہ عدم تدبر کے) جانتے ہی نہیں (اور چونکہ عدم علم کا سبب خود ان کا عدم تدبر ہے اس لئے معذور نہ ہوں گے) اور اللہ تعالیٰ (اس کی توضیح کے لئے) ایک مثال بیان فرماتے ہیں کہ (فرض کرو) دو شخص ہیں جن میں ایک تو (علاوہ غلام ہونے کے) گونگا (بہرا بھی) ہے (اور بوجہ بہرے اندھے بےعقل ہونیکے) کوئی کام نہیں کرسکتا اور (اس وجہ سے) وہ اپنے مالک پر وبال جان ہے (کہ وہ مالک ہی اس کے سارے کام کرتا ہے اور) وہ (مالک) اس کو جہاں بھیجتا ہے کوئی کام درست نہیں ہوتا سو) کیا یہ شخص اور ایسا شخص باہم برابر ہو سکتے ہیں جو اچھی باتوں کی تعلیم کرتا ہو (جس سے اس کا ناطق عاقل صاحب قوت علمیہ ہونا معلوم ہوتا ہے) اور خود بھی (ہر امر میں) معتدل طریقہ پر (چلتا) ہو (جس سے قوت عملیہ منتظمہ معلوم ہوتی ہے جب مخلوق مخلوق میں اشتراک ماہیت و اشتراک اوصاف کے یہ تفاوت ہے جو کجا مخلوق و خالق اور لایقدر کے ترجمہ میں بلا اجازت آقا کی قید سے جو سابقہ آیات میں ہے فقہی شبہات مندفع ہوگئے اور کوئی وسوسہ میں نہ پڑے کہ شاید معبود غیر اللہ کو بھی اذن ہوگیا ہو جواب یہ ہے کی ربوبیت کے لئے کسی کو اذن نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے)- معارف و مسائل :- (آیت) جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا اس آیت میں ایک اہم نعمت کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری جنس اور قوم میں سے تمہاری بیبیاں بنائیں تاکہ باہمی موانست بھی پوری ہو اور نسل انسانی کی شرافت و بزرگی بھی قائم رہے - دوسرا اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری بیبیاں تمہاری ہی جنس کی ہیں انکی ضروریات اور جذبات بھی تمہارے ہی جیسے ہیں ان کی رعایت تم پر لازم ہے،- (آیت) وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً یعنی تمہاری بیبیوں سے ہم نے تمہارے بیٹے پوتے پیدا کئے - یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ اولاد تو ماں باپ دونوں ہی سے مل کر پیدا ہوتی ہے اس آیت میں اس کو صرف ماؤں سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ہے اس میں اشارہ ہے کہ بچہ کی تولید و تخلیق میں بہ نسبت باپ کے ماں کا دخل زیادہ ہے باپ سے تو صرف ایک قطرہ بےجان نکلتا ہے اس قطرہ پر مختلف قسم کے دور گذرتے ہوئے انسانی شکل میں تبدیل ہونا اور اس میں جان پڑنا قدرت کے ان سارے تخلیقی کارناموں کا محل تو ماں کا پیٹ ہی ہے اسی لئے حدیث میں ماں کے حق کو باپ کے حق پر مقدم رکھا گیا ہے۔- اس جملے میں بیٹوں کے ساتھ پوتوں کا ذکر فرمانے میں اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس جوڑے بنانے کا اصل مقصد نسل انسانی کی بقا ہے کہ اولاد پھر اولاد کی اولاد ہوتی رہی تو یہ انسان کی بقاء نوعی کا سامان ہوا۔- پھر وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ میں اس کی بقاء شخصی کے سامان کا ذکر فرما دیا کہ انسان پیدا ہوجائے تو پھر اس کی بقاء شخصی کے لئے غذا کی ضرورت ہے وہ بھی حق تعالیٰ نے مہیا فرما دی آیت میں لفظ حفدۃ کے اصلی معنی مددگار کے ہیں اولاد کے لئے یہ لفظ استعمال کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اولاد کو اپنے ماں باپ کا خادم ہونا چاہئے (قرطبی )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حفدۃ کی تشریح - قول باری ہے (وجعل لکم من ازواجکم نبی ن وحفدۃ۔ اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کئے) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حفدہ نوکروں اور مددگاروں کو کہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے۔ ” من اعانک فقد حفدک “ (جس شخص نے تمہاری اعانت کی وہ تمہارا حفید یعنی مددگار بن گیا) مجاہد، قتادہ اور طائوس کا قول ہے کہ حفدہ نوکروں اور خدمت گاروں کو کہتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) ، ابو الضحی، ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ دو بہنوں کو حفدہ کہتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق حفد کے اصل معنی اسراع فی العمل (کام میں تیزی دکھانے) کے ہیں، اسی سے دعائے قنوت میں یہ فقرہ ہے۔ والیک نسعی و تحفد، یعنی ہم تیری طرف دوڑے آتے اور اس میں تیزی دکھاتے ہیں۔ ’ عفدۃ حافد ‘ کی جمع ہے جس طرح کملۃ کامل کی جمع ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب سلف نے حفدہ کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک نوکر چاکر اور مددگار اور دوسرے دو بہنیں۔ تو اب ضروری ہے کہ اس لفظ کو انہیں دو معنوں پر محمول کیا جائے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ باپ اپنے بیٹے سے خدمت اور مدد لینے کا حق رکھتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (وجعل لکم من ازواجکم بنین وحفدۃ) اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ باپ اگر بیٹے کو اپنی خدمت کے لئے اجرت پر رکھ لے تو بیٹا خدمت کی صورت میں اجرت کا مستحق نہیں ہوگا اس لئے کہ باپ کو اجارے کے بغیر بھی بیٹے سے یہ خدمت لینے کا حق حاصل ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٢) اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہی جنس میں سے تمہارے لیے بیویاں بنائیں اور پھر تمہاری عورتوں میں سے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور غلام، باندی اور داماد وغیرہ بھی پیدا کیے اور تمہیں جانوروں سے بہتریں چیزیں کھانے کو دیں کیا پھر بھی تم شیطان اور بتوں پر ایمان رکھو گے اور ان کی تصدیق کرو گے اور وحدانیت کا انکار کرتے رہو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا)- عربی میں ” زوج “ شریک حیات ( ) کو کہتے ہیں اور یہ لفظ بیوی اور خاوند دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عورت کے لیے مرد زوج ہے اور مرد کے لیے عورت۔- (اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ هُمْ يَكْفُرُوْنَ )- یعنی کفران نعمت کرتے ہیں۔ یہاں یہ اہم بات لائق توجہ ہے کہ اس سورة میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :63 ”باطل کو مانتے ہیں“ ، یعنی یہ بے بنیاد اور بے حقیقت عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا ، ان کی مرادیں بر لانا اور دعائیں سننا ، انہیں اولاد دینا ، ان کو روزگار دلوانا ، ان کے مقدمے جتوانا ، اور انہیں بیماریوں سے بچانا کچھ دیویوں اور دیوتاؤں اور جنوں اور اگلے پچھلے بزرگوں کے اختیار میں ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :64 اگرچہ مشرکین مکہ اس بات سے انکار نہیں کرتےتھے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں ، اور ان نعمتوں پر اللہ کا احسان ماننے سے بھی انہیں انکار نہ تھا ، لیکن جو غلطی وہ کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان بہت سی ہستیوں کا شکریہ بھی زبان اور عمل سے ادا کرتے تھے جن کو انہوں نے بلا کسی ثبوت اور بلا کسی سند کے اس نعمت بخشی میں دخیل اور حصہ دار ٹھیرا رکھا تھا ۔ اسی چیز کو قرآن” اللہ کے احسان کا انکار ” قرار دیتا ہے ۔ قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدہ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسان کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا دراصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے ۔ اسی طرح قرآن یہ بات بھی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے کہ محسن کے متعلق بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ گمان کر لینا کہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے یہ احسان نہیں کیا ہے بلکہ فلاں شخص کے طفیل ، یا فلاں کی رعایت سے ، یا فلاں کی سفارش سے ، یا فلاں کی مداخلت سے کیا ہے ، یہ بھی دراصل اس کے احسان کا انکار ہی ہے ۔ یہ دونوں اصولی باتیں سراسر انصاف اور عقل عام کے مطابق ہیں ۔ ہر شخص خود بادنی تأمل ان کی معقولیت سمجھ سکتا ہے ۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک حاجت مند آدمی پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہیں ، اور وہ اسی وقت اٹھ کر آپ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کا شکریہ ادا کر دیتا ہے جس کا اس امداد میں کوئی دخل نہ تھا ۔ آپ چاہے اپنی فراخ دلی کی بنا پر اس کی اس بیہودگی کو نظر انداز کر دیں اور آئندہ بھی اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں ، مگر اپنے دل میں یہ ضرور سمجھیں گے کہ یہ ایک نہایت بدتمیز اور احسان فراموش آدمی ہے ۔ پھر اگر دریافت کر نے پر آپ کو معلوم ہو کہ اس شخص نے یہ حرکت اس خیال کی بنا پر کی تھی کہ آپ نے اس کی جو کچھ بھی مدد کی ہے وہ اپنی نیک دلی اور فیاضی کی وجہ سے نہیں کی بلکہ اس دوسرے شخص کی خاطر کی ہے ، درانحالیکہ یہ واقعہ نہ تھا ، تو آپ لا محالہ اسے اپنی توہین سمجھیں گے ۔ اس کی اس بیہودہ تاویل کا صریح مطلب آپ کے نزدیک یہ ہوگا کہ وہ آپ سے سخت بدگمان ہے اور آپ کے متعلق یہ رائے رکھتا ہے کہ آپ کوئی رحیم اور شفیق انسان نہیں ہیں ، بلکہ محض ایک دوست نواز اور یارباش آدمی ہیں ، چند لگے بندھے دوستوں کے توسُّل سے کوئی آئے تو آپ اس کی مدد ان دوستوں کی خاطر کر دیتے ہیں ، ورنہ آپ کے ہاتھ سے کسی کو کچھ فیض حاصل نہیں ہو سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani