Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

توحید کی تاکید نعمتیں دینے والا ، پیدا کرنے والا ، روزی پہنچانے والا ، صرف اللہ تعالیٰ اکیلا وحدہ لا شریک لہ ہے ۔ اور یہ مشرکین اس کے ساتھ اوروں کو پوجتے ہیں جو نہ آسمان سے بارش برسا سکیں ، نہ زمین سے کھیت اور درخت اگا سکیں ۔ وہ اگر سب مل کر بھی چاہیں تو بھی نہ ایک بوند بارش برسانے پر قادر ، نہ ایک پتے کے پیدا کرنے ان میں سکت پس تم اللہ کے لئے مثالیں نہ بیان کرو ۔ اس کے شریک و سہیم اور اس جیسا دوسروں کو نہ سمجھو ۔ اللہ عالم ہے اور وہ اپنے علم کی بنا پر اپنی توحید پر گواہی دیتا ہے ۔ تم جاہل ہو ، اپنی جہالت سے دوسروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 یعنی اللہ کو چھوڑ کر عبادت بھی ایسے لوگوں کی کرتے ہیں جن کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٢] ان کے معبود نہ تو بارش برسانے پر قادر ہیں نہ زمین سے غلے اور پھلدار درخت پیدا کرنے پر، نہ ہی وہ یہ بتاسکتے ہیں کہ زمین میں کون کون سے خزانے موجود ہیں اور وہ کون کون سے مقامات پر موجود ہیں، نہ وہ ان باتوں پر آج قدرت رکھتے ہیں اور نہ آئندہ کبھی قادر ہوسکیں گے یعنی تمہاری زندگی اور تمہاری نوع کی بقا کے اسباب تو صرف اللہ مہیا کرے اور اس کی بندگی میں تم اوروں کو بھی شریک بنا لو۔ یہ کس قدر ناانصافی کی بات ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ میں ہر بت، تھان، آستانہ، زندہ و مردہ بزرگ، غرض ہر چیز آگئی جسے وہ پوجتے اور پکارتے ہیں اور ان سب کے لیے ” مَا “ کا لفظ استعمال فرمایا جو عام طور پر ان چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں عقل نہیں۔ ” رِزْقًا “ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے کہ جو کسی معمولی سے معمولی رزق کے مالک بھی نہیں۔ اسی طرح ” شَـيْـــًٔـا “ نکرہ ہے کہ کسی بھی رزق کی ملکیت میں ان کا کچھ بھی حصہ نہیں، یعنی ان مشرکوں کی جہالت دیکھو کہ ان معبودوں کو پوجتے اور پکارتے ہیں جو نہ تو آسمان و زمین میں سے کسی بھی طرح کے رزق کی کچھ بھی ملکیت رکھتے ہیں، نہ آسمان سے بارش برسانے کے مالک، نہ زمین سے کچھ اگانے کے قابل، نہ کوئی چیز پیدا کرنے کے قابل، نہ جو چیز اگے اسے باقی رکھنے کے قابل، پھر وہ معبود کیسے بن گئے ؟- وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : یہ اس غلط گمان کی تردید ہے کہ مالک تو واقعی اللہ تعالیٰ ہے، مگر ہمارے یہ دستگیر اس سے دلوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ سے جو چاہیں منوا سکتے ہیں، جیسا کہ ایک صاحب نے کہا ؂ - اولیاء راہست قدرت از الہ - تیر جستہ باز آرندش زراہ - ” اولیاء کو اللہ کی طرف سے یہ طاقت ملی ہوئی ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو راستے سے واپس لے آتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے پاس کسی طرح بھی کوئی طاقت نہیں، نہ خود کچھ دینے کی، نہ اللہ تعالیٰ کو اپنی محبت یا طاقت اور دھونس کے ساتھ مجبور کرکے دلوانے کی، بلکہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ کوئی ہمیں پکار بھی رہا ہے۔ (دیکھیے احقاف : ٥، ٦) ان کے اس عقیدے کی تردید سورة یونس (١٨) اور سورة زمر (٣) میں بھی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔ ” وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ “ میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ ایسا اختیار حاصل کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مجبور محض ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ 73؀ۚ- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٣) یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان بتوں کی عبادت کرتے رہیں گے کہ جو نہ آسمان سے پانی برسانے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں سے کسی پیداوار پر قادر ہیں اور نہ اختیار حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ )- مشرکین عرب ایام جاہلیت میں جو تلبیہ پڑھتے تھے اس میں توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ شرک کا اثبات بھی موجود تھا۔ ان کا تلبیہ یہ تھا : لبّیک اللّٰھُم لبّیک ‘ لبّیک لَا شَرِیْکَ لَک لبّیک ‘ اِلَّا شَرِیْکًا تَملِکُہُ وَمَا مَلَک - یعنی میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے ‘ میں حاضر ہوں۔ سوائے اس شریک کے کہ اس کا اور جو کچھ اس کا اختیار ہے سب کا مالک تو ہی ہے۔ یعنی بالآخر اختیار تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک تجھ سے آزاد ہو کر خود مختار ( ) نہیں ہے۔ چناچہ جس طرح عیسائیوں نے توحید کو تثلیث میں بدلا اور پھر تثلیث کو توحید میں لے آئے ( ) اسی طرح مشرکین عرب بھی توحید میں شرک پیدا کرتے اور پھر شرک کو توحید میں لوٹا دیتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani