Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو کوئی براہ راست بادشاہ سے نہیں مل سکتا ہے۔ پہلے اسے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلی اور اونچی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم اللہ کو اپنے پر قیاس مت کرو نہ اس قسم کی مثالیں دو ۔ اس لیے کہ وہ تو واحد ہے، اس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نہ تو عالم الغیب ہے، نہ حاضر و ناظر نہ سمیع وبصیر۔ کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے رعایا کے حالات و ضروریات سے آگاہ ہوجائے جب کہ اللہ تعالیٰ تو ظاہر وباطن اور حاضر غائب ہر چیز کا علم رکھتا ہے، رات کی تاریکیوں میں ہونے والے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور ہر ایک کی فریاد سننے پر بھی قادر ہے۔ بھلا ایک انسانی بادشاہ اور حاکم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا مقابلہ اور موازنہ ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٣] زیادہ خداؤں کی ضرورت کا نظریہ :۔ چونکہ مشرکوں کا اللہ کی ذات کے متعلق تصور ہی غلط ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق جو مثال بھی چسپاں کرتے ہیں حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ اللہ کو بھی دنیا کے بادشاہوں یا راجوں، مہاراجوں کی طرح سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ مخلوقات کی مشابہت سے پاک ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق ٹھیک مثال بیان کر ہی نہیں سکتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کو اپنے وزیروں اور امیروں کی بات سننا پڑتی ہے۔ کیونکہ انھیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں میرے خلاف نہ ہوجائیں اور بغاوت یا کوئی دوسرا فتنہ نہ کھڑا کردیں۔ اسی طرح انبیائ، اولیائ، بزرگ، اوتار اور ٹھاکر اور ہمارے یہ معبود اللہ کی درگاہ میں ایسے دخیل ہیں کہ اللہ میاں کو ان کی سفارش ضرور سننا پڑتی ہے اور اگر قیامت ہوئی بھی تو یہ ہمیں اللہ سے بچا لیں گے۔ انکا دوسرا تصور یا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بادشاہ اپنے سارے کام خود نہیں کرسکتے اور نہ سب لوگوں کی فریادیں سن سکتے ہیں۔ لہذا انھیں امیروں، وزیروں اور دوسرے بیشمار کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ میاں کو اپنے مقربین کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کی فریادیں اس کے حضور پہنچا دیں اور پھر انہی کی وساطت سے فریادی کو کوئی جواب ملے۔ اسی طرح اگر اللہ سے مال و دولت یا اولاد یا کوئی دوسری بھلائی مانگنا ہو تو ان مقربین کا واسطہ ضروری ہے۔ یہی وہ گمراہ کن عقائد ہیں جو مشرکوں نے اپنی دنیوی اغراض کی بنا پر گھڑ رکھے ہیں۔ یہی عقائد شرک کی اکثر اقسام کی بنیاد ہیں۔ اور قرآن میں جابجا ان کی تردید مذکور ہے۔ اور انتباہ یہ کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کی حقیقت کو جان ہی نہیں سکتے تو اس کے متعلق غلط تصورات مت قائم کیا کرو اور نہ ہی اس کی مثالیں دیاکرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ : مشرک کہتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کے وزیر اور درباری اس کی سلطنت میں دخیل ہوتے ہیں اور بادشاہ کو ان کی سننا پڑتی ہے، اسی طرح ہمارے یہ معبود، اوتار اور ٹھاکر بھی اللہ کی سرکار میں صاحب اختیار ہیں، اس واسطے ہم ان کو پوجتے ہیں، سو یہ مثال غلط ہے۔ بادشاہ تو سب کام خود نہیں کرسکتے مگر اللہ ہر چیز آپ کرتا ہے اور اس پر کسی کا رتی برابر بھی دباؤ نہیں ہے۔ - وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ : یعنی یہ تمہاری بےعلمی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اللہ ان کی سفارش رد نہیں کرسکتا، کبھی چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت کی طرح اپنے داتاؤں کو سیڑھی قرار دیتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہی نہیں، وہ بالکل قریب ہے اور کسی کا محتاج نہیں کہ اس کی سفارش رد نہ کرسکتا ہو۔ یہ سب تمہاری بےعقلی اور بےسمجھی ہے، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کے لیے اس قسم کی مثالیں بیان نہ کرو۔ اب آگے دو مثالیں بیان کی جاتی ہیں، ان پر غور کرو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَال میں ایک اہم حقیقت کو واضح فرمایا ہے جس سے غفلت برتنا ہی تمام کافرانہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ حق تعالیٰ کو اپنے بنی نوع انسان پر قیاس کر کے ان میں سے اعلیٰ ترین انسان مثلا بادشاہ وفرمانروا کو اللہ تعالیٰ کی مثال قرار دیتے ہیں اور پھر اس غلط بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے نظام قدرت کو بھی انسانی بادشاہوں کے نظام پر قیاس کر کے یہ کہنے لگتے ہیں کہ جس طرح کسی سلطنت و حکومت میں اکیلا بادشاہ سارے ملک کا انتظام نہیں کرسکتا بلکہ اپنے ما تحت وزراء اور دوسرے افسروں کو اختیارات سپرد کر کے ان کے ذریعہ نظم مملکت چلایا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ماتحت کچھ اور معبود بھی ہوں جو اللہ کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائیں یہی تمام بت پرست اور مشرکین کا عام نظریہ ہے اس جملے نے ان کے شبہات کی جڑ قطع کردی کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق کی مثالیں پیش کرنا خود بےعقلی ہے وہ مثال و تمثیل اور ہمارے وہم و گمان سے بالاتر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 74؀- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٤) تو اب تم اس بطلان کے بعد اللہ تعالیٰ کے لیے لڑکا شریک اور نائب مت ٹھہراؤ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ ان کے نہ کوئی لڑکا ہے اور نہ شریک اور اے گروہ کفار تم نہیں جانتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ )- قبل ازیں اسی سورت (آیت ٦٠) میں ہم پڑھ چکے ہیں : (وَلِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی) ” اور اللہ کی مثال سب سے بلند ہے “ لیکن اس کا ترجمہ بالعموم یوں کیا جاتا ہے : ” اللہ کی صفت بہت بلند ہے “۔ یا ” اللہ کی شان بہت بلند ہے “۔ اس لیے کہ اللہ کے لیے کوئی مثال بیان نہیں کی جاسکتی۔ انسانی سطح پر بات سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ تمثیلی الفاظ تو استعمال کرنے پڑتے ہیں ‘ مثلاً اللہ کا چہرہ اللہ کا ہاتھ اللہ کا تخت اللہ کی کرسی اللہ کا عرش وغیرہ ‘ لیکن ایسے الفاظ سے ہم نہ تو حقیقت کا اظہار کرسکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی صفات اور اس کے افعال کی حقیقت کو جان سکتے ہیں۔ اسی لیے منع کردیا گیا ہے کہ اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کیا کرو۔ اس کی منطقی وجہ یہ ہے کہ ہم اگر اس ہستی کے لیے کوئی مثال لائیں گے تو عالم خلق سے لائیں گے جس کی ہرچیز محدود ہے۔ یا پھر ایسی کوئی مثال ہم اپنے ذہن سے لائیں گے ‘ جبکہ انسانی سوچ ‘ قوت متخیلہ اور تصورات بھی سب محدود ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ذات مطلق ( ) ہے اور اس کی صفات بھی مطلق ہیں۔ چناچہ انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی مطلق ہستی کے لیے کوئی مثال بیان کرسکے۔ اسی لیے سورة الشوریٰ کی آیت ١١ میں دو ٹوک انداز میں فرما دیا گیا : (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ) کہ اس کی مثال کی سی بھی کوئی شے موجود نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :65 ”اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو“ ، یعنی اللہ کو دنیوی بادشاہوں اور راجوں اور مہاراجوں پر قیاس نہ کرو کہ جس طرح کوئی ان کے مصاحبوں اور مقرب بارگاہ ملازموں کے توسط کے بغیر ان تک اپنی عرض معروض نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اللہ کے متعلق بھی تم یہ گمان کرنے لگو کہ وہ اپنے قصر شاہی میں ملائکہ اور اولیاء اور دوسرے مقربین کے درمیان گھِرا بیٹھا ہے اور کسی کا کوئی کام ان واسطوں کے بغیر اس کے ہاں سے نہیں بن سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

32: مشرکین عرب بعض اوقات اپنے شرک کی تائید میں یہ مثال دیتے تھے کہ جس طرح دنیا کا بادشاہ تنہا اپنی حکومت نہیں چلاتا، بلکہ اسے حکومت کے بہت سے کام اپنے مددگاروں کو سونپنے پڑتے ہیں، اسی طرح (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی خدائی کے بہت سے کام ان دیوتاؤں کو سونپ رکھے ہیں۔ اور ان معاملات میں وہ خود مختار ہوگئے ہیں۔ اس آیت میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے دنیا کے بادشاہوں کی، بلکہ کسی بھی مخلوق کی مثال دینا انتہائی جہالت کی بات ہے۔ اس کے بعد آیت نمبر 75، 76 میں اللہ تعالیٰ نے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ اگر مخلوقات ہی کی مثال لینی ہے تو ان دو مثالوں سے ظاہر ہے کہ مخلوق مخلوق میں بھی فرق ہوتا ہے، کوئی مخلوق اعلی درجے کی ہے، کوئی ادنیٰ درجے کی، جب مخلوق مخلوق میں اتنا فرق ہے تو خالق اور مخلوق میں کتنا فرق ہوگا؟ پھر کسی مخلوق کو خالق کے ساتھ عبادت میں کیسے شریک کیا جا سکتا ہے؟