Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مومن اور کافر میں فرق ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں یہ کافر اور مومن کی مثال ہے ۔ پس ملکیت کے غلام سے مراد کافر اور اچھی روزی والے اور خرچ کرنے والے سے مراد مومن ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں اس مثال سے بت کی اور اللہ تعالیٰ کی جدائی سمجھانا مقصود ہے کہ یہ اور وہ برابر کے نہیں ۔ اس مثال کا فرق اس قدر واضح ہے جس کے بتانے کی ضرورت نہیں ، اسی لئے فرماتا کہ تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے ۔ اکثر مشرک بےعلمی پر تلے ہوئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 بعض کہتے ہیں کہ یہ غلام اور آزاد کی مثال ہے کہ پہلا شخص غلام اور دوسرا آزاد ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے بعض کہتے ہیں کہ یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔ پہلا کافر اور دوسرا مومن ہے۔ یہ برابر نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ اور بت (معبودان باطلہ) کی مثال ہے، پہلے سے مراد بت اور دوسرے سے اللہ ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے مطلب یہی ہے کہ ایک غلام اور آزاد، باوجود اس بات کے کہ دونوں انسان ہیں، دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور بھی بہت سی چیزیں دونوں کے درمیان مشترکہ ہیں، اس کے باوجود رتبہ اور شرف اور فضل و منزلت میں تم دونوں کو برابر نہیں سمجھتے تو اللہ تعالیٰ اور پتھر کی ایک مورتی یہ دونوں کس طرح برابر ہوسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٤] اب مشرکوں کی غلط مثالوں کے بجائے اللہ ایک ٹھیک مثال بیان کرتا ہے جو معمولی عقل والے آدمی کی بھی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اور اس مثال میں شرک کی ایک نئے انداز میں تردید بیان کی گئی ہے۔ مثلاً ایک شخص خود غلام ہے اس کی اپنی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور مالک کی چیز میں وہ تصرف کا اختیار نہیں رکھتا۔ اگر وہ کچھ خرچ کرنا چاہے بھی تو کر نہیں سکتا کیونکہ وہ مجبور محض ہے۔ اب اس کے مقابلے ایک دوسرا شخص ہے جو آزاد ہے۔ خود مختار ہے، لمبے چوڑے مال و دولت اور جائداد کا مالک بھی ہے۔ اسے اس مال و دولت کو خرچ کرنے کا مکمل اختیار بھی ہے اور وہ ہر وقت پوشیدہ طور پر بھی اور علانیہ بھی خرچ کرتا ہی رہتا ہے۔ تو کیا یہ دونوں شخص برابر ہوسکتے ہیں ؟ یعنی ایک طرف معبودان باطل ہیں جو خود مخلوق و مملوک اور غلام ہیں۔ جن کے اپنے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ اور اگر جاندار ہیں جو اپنی ایک ایک ضرورت کے لیے محتاج ہیں۔ دوسری طرف اللہ کی ذات ہے جو مختار کل بھی ہے، زمین و آسمان کے خزانے بھی اس کے پاس ہیں اور وہ انھیں ہر وقت خرچ بھی کرتا رہتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اور مشرکوں کے معبود دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟- [٧٥] شرک کی تردید مملوک سے سوال کرنے کی مثال :۔ مشرکوں سے جو سوال کیا گیا ہے اس کے جواب میں وہ یہ تو کہہ ہی نہیں سکتے کہ ہاں دونوں برابر ہوسکتے ہیں اب اگر وہ کہیں کہ نہیں ہوسکتے تو گویا مجرم نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور اگر خاموش رہیں یا کوئی جواب بن نہ پڑے تو یہ ان کے عجز اور دلیل نہ ہونے کا ثبوت ہے۔ گویا دونوں صورتوں میں ان کے شرک کا ابطال ہوگیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ہر دو صورت میں الحمدللہ کہئے۔ یعنی اللہ کا شکر ہے کہ کچھ تو ان کے بھی پلے پڑا اور اس عام فہم دلیل سے بات تمہاری سمجھ میں آگئی۔- [٧٦] مشرکوں کا اپنا دستور بھی اس کے خلاف ہے :۔ اس سیدھی اور عام فہم بات کو سمجھنے کے باوجود ان کا یہ حال ہے کہ اپنے ہمسایہ سے کوئی چیز مانگنا ہو تو مالک مکان سے مانگتے ہیں اس کے غلام سے نہیں مانگتے کیونکہ بااختیار مالک ہوتا ہے غلام نہیں ہوتا۔ لیکن یہی معاملہ جب خالق و مخلوق کے بارے میں پیش آئے تو باختیار خالق کو چھوڑ کر بےاختیار مخلوق کے سامنے دست سوال دراز کرنے لگتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر جہالت اور بےانصافی کیا ہوسکتی ہے۔ ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا ۔۔ : ” عَبْدًا “ کا معنی ہی غلام ہے، پھر بھی ” مَّمْلُوْكًا “ کی تصریح اس لیے فرمائی کہ ایک لحاظ سے آسمان و زمین کا ہر شخص ہی ” عَبْدًا “ ہے، فرمایا : (اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا) [ مریم : ٩٣ ] ” آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمٰن کے پاس عبد (غلام) بن کر آنے والا ہے۔ “ سو یہاں مراد وہ عبد ہے جو کسی آدمی کی ملکیت میں ہے۔- وَّمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَـنًا ۔۔ : یہاں ” مَّمْلُوْكًا “ کے مقابلے میں ” مَالِکًا “ کہنے کے بجائے ” وَّمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا “ اس لیے فرمایا کہ انسان مالک بھی ہو تو اس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ہمارا عطا کردہ ہے، ساتھ اسے یہ بھی یاد دلا دیا کہ ہمارا عطا کردہ پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے رہو، اپنا سمجھ کر چھپا کر نہ بیٹھ جاؤ۔ - هَلْ يَسْتَوٗنَ : یعنی کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک بنانے میں ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک عاجز مملوک غلام کو، جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر ایک کوڑی خرچ نہیں کرسکتا، ایک آزاد شخص کے برابر کر دے جو اپنے مال کا مالک ہے اور جہاں چاہے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتا رہتا ہے۔ تو کیا یہ بےبس غلام اور وہ آزاد مالک کبھی برابر ہوسکتے ہیں ؟ حالانکہ یہ دونوں انسان ہوتے ہیں، ذہنی اور جسمانی ساخت اور قوتوں میں تقریباً ایک جیسے ہیں، پھر بھی یہ ہرگز برابر نہیں ہوسکتے۔ تو جب یہ برابر نہیں ہوسکتے تو کوئی بھی بت یا بزرگ، نبی یا فرشتہ، زندہ یا مردہ، جو سب اللہ کی مخلوق و مملوک ہیں، وہ ساری کائنات کے خالق اور ہر چیز کے مالک کے برابر ہوسکتے ہیں ؟ (قاسمی) - اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ : اوپر اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کہ ” کیا یہ برابر ہوسکتے ہیں “ ذکر کرنے کے بعد خود کوئی جواب نہیں دیا، کیونکہ اس کا جواب سوال کے اندر ہی موجود ہے اور ہر سننے والا یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ” ہرگز نہیں۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تعریف فرمائی کہ ایسی عمدگی سے تمہیں کوئی نہیں سمجھائے گا۔ - بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : معلوم ہوا کہ اہل کتاب اور مشرکین مکہ میں سے کچھ لوگ توحید کی حقیقت کو پہچانتے تھے، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے تثلیث اور مردہ پرستی پر ڈٹے ہوئے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو کسی موقع پر ایمان لانے کا ارادہ رکھتے تھے، البتہ ان کے اکثر شرک کی قباحت جانتے ہی نہ تھے، بلکہ اپنے آبا و اجداد کی تقلید میں شرک کی راہ پر چلے جاتے تھے، اکثریت کا حال یہی رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخری دو آیتوں میں انسان کی جو دو مثالیں دی گئی ہیں ان میں سے پہلی مثال میں تو آقا اور غلام یعنی مالک اور مملوک کی مثال دے کر بتلایا کہ جب یہ دونوں ایک ہی جنس ایک ہی نوع کے ہوتے ہوئے آپس میں برابر نہیں ہو سکتے تو کسی مخلوق کو خدا تعالیٰ کے ساتھ کیسے برابر ٹھراتے ہو

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَـنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًا ۭ هَلْ يَسْتَوٗنَ ۭ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ 75؀- قدر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا - ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . - ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت)- اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے ۔ - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي :- خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، وقال تعالی: فَإِذا جاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قالُوا : لَنا هذِهِ [ الأعراف 131] ، وقوله تعالی: ما أَصابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ [ النساء 79] ، أي : من ثواب، وَما أَصابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ [ النساء 79] ، أي : من عقاب . والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، كما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إذا شككت في شيء فدع» «1» . وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً [ البقرة 83] ، أي : كلمة حسنة، وقال تعالی: وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ حُسْناً [ العنکبوت 8] ، وقوله عزّ وجل : هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ [ التوبة 52] ، وقوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْماً لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ المائدة 50] ، إن قيل : حكمه حسن لمن يوقن ولمن لا يوقن فلم خصّ ؟ قيل : القصد إلى ظهور حسنه والاطلاع عليه، وذلک يظهر لمن تزكّى واطلع علی حكمة اللہ تعالیٰ دون الجهلة .- والإحسان يقال علی وجهين :- أحدهما : الإنعام علی الغیر،- يقال : أحسن إلى فلان .- والثاني : إحسان في فعله،- وذلک إذا علم علما حسنا، أو عمل عملا حسنا، وعلی هذا قول أمير المؤمنین : ( الناس أبناء ما يحسنون) «2» أي : منسوبون إلى ما يعلمون وما يعملونه من الأفعال الحسنة . قوله تعالی: الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ [ السجدة 7] ، والإحسان أعمّ من الإنعام . قال تعالی: إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ [ الإسراء 7] ، وقوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] ، فالإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:- إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے اور یہی معنی آیت ۔ فَإِذا جاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قالُوا : لَنا هذِهِ [ الأعراف 131] تو جب ان کو آسائش حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم اس کے مستحق ہیں ہیں مراد ہیں اور آیت ۔ ما أَصابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ [ النساء 79]( اے آدم زاد ) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی ( شامت ) اعمال کی ) وجہ سے ہے ۔ میں حسنتہ سے ثواب اور سیئتہ سے عتاب مراد ہے ۔ الحسن والحسنتہ اور الحسنی ( یہ تین لفظ ہیں ۔ - اور ان میں فرق یہ ہے کہ ھسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن ھسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیتکریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ میں اھسن سے وہ بات مراد ہے جو شک وشبہ سے دور ( اور بالا ) ہو جیسا کہ آنحضرت کا فرمان ہے ( 81) اذاشککت فی شیء فدع کہ جس میں تجھے شبہ ہوا سے ترک کردے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً [ البقرة 83] اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا میں حسن سے اچھی بات مراد ہے ۔ اسی طرح فرمایا : وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ حُسْناً [ العنکبوت 8] هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ [ التوبة 52] کہہ د کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظر ہو ۔ اور آیت کریمہ : وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْماً لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ المائدة 50] اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لئے خدا سے اچھا حکم کس کا ہے ؛ میں اگر اعتراض کیا جائے کہ اللہ کا حکم تو بہر حال اچھا ہے ۔ خواہ کو یقن کرے یا نہ کرے تو پھر کی تخصیص کیوں کی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں بلکہ ظہور حسن کا قصد اور اس پر مطمع ہونا مراد ہے ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ حکم الہی کا حسن اس شخص کے سامنے ظاہر ہوگا جو پاکیزہ نفس ہو اور حکمت الہی پر اس کی نظر ہو ۔ ورنہ جہال پر تو یہ راز منکشف نہیں ہوسکتا ۔- الاحسان ( افعال )- دومعنوں میں استعمال ہوتا ہے اول یہ کہ دوسروں پر انعام کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ احسن الی فلان اس نے فلان پر انعام کیا ۔ دوم یہ کہ اپنے فعل میں حسن پیدا کرنا اور یہ چیز حسن علم اور حسن عمل سے پیدا ہوتی ہے اسی معنی میں امیر المومنین نے فرمایا (82) الناس ابناء مابحسنون یعنی لوگ اپنے علم و فضل اور اعمال حسنہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ [ السجدة 7] جس نے ہر چیز کو اچھی طرح بنا دیا ( یعنی اسکو پیدا کیا ۔ احسان انعام سے اعم ہے قرآن میں ہے : إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ [ الإسراء 7] اگر تم نیکو کاری کر وگے تو اپنی جان کے لئے کروگے ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں اشارہ ہے کہ حسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- سرر - الْإِسْرَارُ : خلاف الإعلان، قال تعالی: سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم 31] ، وقال تعالی:- وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن 4] ، وقال تعالی: وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ- [ الملک 13] ، ويستعمل في الأعيان والمعاني، والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] ، وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ- [يونس 54] ، أي : کتموها - ( س ر ر ) الاسرار - کسی بات کو چھپانا یہ اعلان کی ضد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم 31] اور پوشیدہ اور ظاہر اور فرمایا : ۔ وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن 4]( کہ ) جو کچھ - یہ چھپاتے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں خدا کو ( سب ) معلوم ہے ۔ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ [ الملک 13] اور تم ( لوگ ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر ۔ اور اس کا استعمال اعیال ومعانی دونوں میں ہوتا ہے السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ نیز فرمایا۔ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] کہ خدا ان کے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے ۔ سارۃ ( مفاعلہ ) کے معنی ہیں کسی بات کو چھپانے کی وصیت کرنا - جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لا یقدر علی شی۔ اللہ ایک مثال دیتا ہے ایک تو ہے غلام جو دوسرے کا مملوک ہے، اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا) حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ مثال اس کافر کی بیان کی گئی ہے جس کی ذات میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اور اس مومن کی جو بھلائیاں اور نیکیاں کماتا ہے۔ حسن اور مجاہد کے قول کے مطابق یہ مثال مشرکین کی بت پرستی کے سلسلے میں بیان کی گئی ہے۔ مشرکین ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں جو کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور اس ذات کی پرستش سے منہ موڑتے ہیں جو ہر چیز کی مالک ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت کئی طرح سے اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ ایک تو یہ قول باری ہے (عبدا مملوکا) اس میں صفت اور موصوف دونوں نکرہ کی صورت میں ہیں اس لئے یہ غلاموں کی جنس کے لئے عام ہے۔ جس طرح کوئی یہ کہے (لا تکلم عبدا) (کسی غلام سے گفتگو نہ کرو) یا ” اعط ھذا عبدا “ (یہ چیز کسی غلام کو دے دو ) اس صورت میں اس حکم کے اندر ہر وہ شخص آ جائے گا جو غلام کے نام سے موسوم ہوگا۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (بتیما ذا مقربۃ او مسکینا ذا متربۃ کسی یتیم کو جو قرابت دار ہو یا مسکین کو جو خاک نشین ہو) اس میں چونکہ لفظ نکرہ ہے اس لئے آیت کے حکم کے تحت ہر وہ شخص آ جائے گا جو اس لفظ کے دارئے میں آتا ہو۔ اسی طرح قول باری (عبد مملوکا) تمام غلاموں کو اپنے دائرے میں لے لیتا ہے۔ پھر ارشاد ہوا (لا بقدر علی شی) اس میں یا تو نفی قدرت مراد ہے یا نفی ملک یا دونوں کی نفی۔ اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ نفی قدرت مراد نہیں ہے اس لئے کہ غلام اور آزاد جس طرح غلامی اور آزادی میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اس طرح قدرت کے اندر مختلف نہیں ہوتے اس لئے کہ غلام بعض دفعہ آزاد سے بڑھ کر قدرت رکھنے والا ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نفی قدرت مراد نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہاں ملکیت کی نفی مراد ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ ایک اور پہلو سے دیکھئے۔ اللہ تعالیٰ نے بتوں کے لئے بطور مثال یہ بات فرمائی ہے اور اس میں بتوں کو ملکیت کی نفی کے اندر ان غلاموں کے مشابہ قرار دیا ہے جو دوسروں کے مملوک ہوتے ہیں۔ اب یہ بات واضح ہے کہ اصنام کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ جن لوگوں یعنی غلاموں کی صورت میں یہ مثال بیان ہوئی ہے وہ بھی کسی چیز کے مالک نہ قرار دیئے جائیں ورنہ ان کے ذریعے مثال بیان کرنے کا فائدہ ختم ہوجائے گا اور پھر اس صورت میں غلام اور آزاد کے ذریعے اس مثال کو بیان کرنے کا حکم یکساں ہوجائے گا۔ نیز اگر یہاں کا کوئی خاص غلام مراد ہوتا جو کسی چیز کا مالک نہیں اور اس بات کا جواز ہوتا کہ غلاموں میں سے ایسے بھی ہوسکتے ہیں جنہیں ملکیت حاصل ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہوتا ” ضرب اللہ مثلا رجلا لا یقدر علی شی “ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ عبد یعنی غلام کا ذکر فرمایا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ غلام کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے۔- اگر یہ کہا جائے کہ ابراہیم نے عکرمہ سے، انہوں نے یعلیٰ بن منیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آیت کا نزول قریش کے ایک شخص اور اس کے غلام کے بارے میں ہوا تھا پھر یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے پھر دوسری آیت ایسے دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن میں سے ایک گونگا تھا اور اسے کسی چیز پر قدرت نہیں تھی۔ آیت کا اختتام قول باری (صراط مستقیم) پر ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ حضرت عثمان (رض) کا ایک غلام تھا جس کی وہ کفالت کرتے اور اس کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ اس طرح حضرت عثمان (رض) وہ شخص تھے جو آیت میں مذکورہ الفاظ (ومن یامر بالعدل وھو علی صراط مستقیم۔ دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور راہ راست پر قائم ہے) کے مصداق تھے اور دوسرا شخص گونگا تھا۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ آیت کا نزول کسی خاص غلام کے بارے میں تسلیم کیا جائے اور یہ بھی جائز ہے کہ آیت کا نزول ان غلاموں کے بارے میں ہوا ہو جن کی ملکیت میں کوئی چیز نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت ہے اور آیت کا ظاہر لفظ اس روایت کی نفی کرتا ہے اس لئے کہ آیت میں اگر کوئی معین غلام ہوتا تو الف لام حروف تعریف کے ذریعے اسے معرفہ لایا جاتا، نکرہ کی صورت میں اس کا ذکر نہ ہوتا۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ آیت کے خطاب کا تعلق بت پرستوں اور ان کے خلاف استدلال کے ساتھ ہے۔ آپ اس قول باری کی طرف نہیں دیکھتے (ویعبدون من دون اللہ ما لا یملک لھم رزقا من السموت والارض شیئا ولا یستطیعون فلا تضربوا للہ الامثال اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو پوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں رزق دیتا ہے نہ زمین سے اور نہ ہی کام وہ کر ہی سکتے ہیں پس اس کے لئے مثالیں نہ گھڑو) اس کے بعد فرمایا (ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لا یقدر علی شی) اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں ان کی مثال ان غلاموں جیسی ہے جو دوسروں کے مملوک ہوں اور خود کسی چیز کے مالک نہ ہوں نہ ہی کسی چیز کے وہ مالک بن سکتے ہوں۔ اس میں غلام کی ملکیت کی نفی کو اور موکد کردیا گیا ہے۔ اگر آیت میں مذکور غلام سے کوئی معین غلام مراد ہوتا اور وہ ان لوگوں میں سے ہوتا جن کے لئے ملکیت کا جواز ہوتا تو پھر ایسے غلام اور آزاد کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا اور آیت میں خصوصیت کے ساتھ غلام کا ذکر لغو اور بےکار ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں دراصل غلاموں کی سرے سے ملکیت کی نفی مراد ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٥) اس کے بعد اللہ تعالیٰ مومن و کافر بندے کی ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ ایک تو غلام ہے کسی کا مملوک کہ اموال وتصرفات وغیرہ میں اس کو کوئی اختیار نہیں، یہ حالت تو کافر کی ہے کہ کبھی اس سے کسی قسم کی بھلائی اور نیکی کا صدور نہیں ہوسکتا اور دوسرا ایک شخص ہے جس کو ہم نے اپنے پاس سے خوب مال و دولت دے رکھا ہے تو وہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خفیہ اور علانیہ جس طرح چاہتا ہے، خرچ کرتا ہے یہ مومن مخلص کی شان ہے کیا اس قسم کے حضرات ثواب لوٹنے اور اطاعت خداوندی میں برابر ہوسکتے ہیں۔- تمام قسم کی تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے لائق ہیں اور وحدانیت اسی ذات کے لیے ثابت ہے بلکہ ان میں سے اکثر قرآن کی مثالیں جانتے ہی نہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان (رض) اور ایک عرب آدمی ابو العیض بن امیہ کے متعلق نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ (ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ )- اللہ تعالیٰ ان کے شرک کی نفی کے لیے یہ مثال بیان کر رہا ہے کہ ایک بندہ وہ ہے جو کسی کا غلام اور مملوک ہے ‘ اس کا کچھ اختیار نہیں ‘ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔- (وَّمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَـنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًا)- رزق میں مال علم اور صلاحیتیں سب شامل ہیں۔ یعنی وہ شخص مال بھی خرچ کر رہا ہے ‘ لوگوں کو تعلیم بھی دے رہا ہے ‘ اور کئی دوسرے طریقوں سے بھی لوگوں کو مستفید کر رہا ہے۔ - (هَلْ يَسْتَوٗنَ ۭ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ )- ایک طرف اللہ کا وہ بندہ ہے جو اس کے دین کی خدمت میں مصروف ہے ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض سر انجام دے رہا ہے ‘ لوگوں میں دین کی تعلیم کو عام کر رہا ہے ‘ یا اگر صاحب ثروت ہے تو اپنا مال اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے خرچ کر رہا ہے اور محتاجوں کی مدد کر رہا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس کچھ اختیار وقدرت نہیں ہے ‘ وہ اپنی مرضی سے کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ تو یہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :66 یعنی اگر مثالوں ہی سے بات سمجھنی ہے تو اللہ صحیح مثالوں سے تم کو حقیقت سمجھاتا ہے ۔ تم جو مثالیں دے رہے ہو وہ غلط ہیں ، اس لیے تم ان سے غلط نتیجے نکال بیٹھتے ہو ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :67 سوال اور الحمد للہ کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے بھرنے کے لیے خود لفظ الحمد للہ ہی میں بلیغ اشارہ موجود ہے ۔ ظاہر ہے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ سوال سن کر مشرکین کے لیے اس کا یہ جواب دینا تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ دونوں برابر ہیں ۔ لا محالہ اس کے جواب میں کسی نے صاف صاف اقرار کیا ہوگا کہ واقعی دونوں برابر نہیں ہیں ، اور کسی نے اس اندیشے سے خاموشی اختیار کر لی ہوگی کہ اقراری جواب دینے کی صورت میں اس کے منطقی نتیجے کا بھی اقرار کرنا ہو گا اور اس سے خود بخود ان کے شرک کا ابطال ہو جائے گا ۔ لہٰذا نبی نے دونوں کا جواب پا کر فرمایا الحمد للہ ۔ اقرار کرنے والوں کے اقرار پر بھی الحمد للہ ، اور خاموش رہ جانے والوں کی خاموشی پر بھی الحمد للہ ۔ پہلی صورت میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ”خدا کا شکر ہے ، اتنی بات تو تمہاری سمجھ میں آئی“ ۔ دوسری صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ”خاموش ہوگئے؟ الحمد للہ ۔ اپنی ساری ہٹ دھرمیوں کے باوجود دونوں کو برابر کہہ دینے کی ہمت تم بھی نہ کر سکے“ ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :68 یعنی باوجودیکہ انسانوں کے درمیان وہ صریح طور پر با اختیار اور بے اختیار کے فرق کو محسوس کرتے ہیں ، اور اس فرق کو ملحوظ رکھ کر ہی دونوں کے ساتھ الگ الگ طرز عمل اختیار کرتے ہیں ، پھر بھی وہ ایسے جاہل و نادان بنے ہوئے ہیں کہ خالق اور مخلوق کا فرق ان کو سمجھ میں نہیں آتا ۔ خالق کی ذات اور صفات اور حقوق اور اختیارات ، سب میں وہ مخلوق کو اس کا شریک سمجھ رہے ہیں اور مخلوق کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کر رہے ہیں جو صرف خالق کے ساتھ ہی اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ عالم اسباب میں کوئی چیز مانگنی ہو تو گھر کے مالک سے مانگیں گے نہ کہ گھر کے غلام سے ۔ مگر مبدا فیض سے حاجات طلب کرنی ہوں تو کائنات کے مالک کو چھوڑ کر اس کے بندوں کے آگے ہاتھ پھیلا دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani