گونگے بت مشرکین کے معبود ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی اس فرق کے دکھانے کی ہو جو اللہ تعالیٰ میں اور مشرکین کے بتوں میں ہے ۔ یہ بت گونگے ہیں نہ کلام کر سکیں نہ کوئی بھلی بات کہہ سکیں ، نہ کسی چیز پر قدرت رکھیں ۔ قول و فعل دونوں سے خالی ۔ پھر محض بوجھ ، اپنے مالک پر بار ، کہیں بھی جائے کوئی بھلائی نہ لائے ۔ پس ایک برابر ہو جائیں گے ؟ ایک قول ہے کہ ایک گونگا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام تھا ۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی کافر و مومن کی ہو جیسے اس سے پہلے کی آیت میں تھی ۔ کہتے ہیں کہ قریش کے ایک شخص کے غلام کا ذکر پہلے ہے اور دوسرے شخص سے مراد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور غلام گونگے سے مراد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ غلام ہے جس پر آپ خرچ کرتے تھے جو آپ کو تکلیف پہنچاتا رہتا تھا اور آپ نے اسے کام کاج سے آزاد کر رکھا تھا لیکن پھر بھی یہ اسلام سے چڑتا تھا ، منکر تھا اور آپ کو صدقہ کرنے اور نیکیاں کرنے سے روکتا تھا ، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔
76۔ 1 یہ ایک اور مثال ہے جو پہلے سے زیادہ واضح ہے۔ 76۔ 2 اور ہر کام کرنے پر قادر ہے کیونکہ ہر بات بولتا اور سمجھتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ یعنی دین اور سیرت صالحہ پر۔ یعنی کمی بیشی سے پاک۔ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ اور وہ چیزیں، جن کو لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، برابر نہیں ہوسکتے۔
[٧٧] مشرکوں کی دوسری مثال :۔ پہلی مثال میں اختیار ہونے یا نہ ہونے کا تقابل تھا۔ اس مثال میں صفات کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ ایک طرف ایسا آدمی یا کوئی چیز ہے جو گونگا بہرا بھی ہے اور اپاہج بھی جو نہ چل پھر سکے نہ کوئی کام کرسکے۔ اگر اس کا مالک اسے کوئی کام کرنے کو کہے بھی تو وہ کبھی صحیح کام نہ کرسکے بلکہ الٹا اسے بگاڑ کے رکھ دے اور جہاں کہیں جائے مالک کو اس کے متعلق شکایات ہی سننا پڑیں اور وہ ہر لحاظ سے اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہو۔ دوسری طرف ایسا تندرست اور صحیح الدماغ انسان ہے جو خود بھی راہ راست پر ہے اور دوسروں کو بھی اس عدل و اعتدال کی راہ پر چلنے کا حکم دیتا ہے تو کیا ان کی حالت یکساں ہوسکتی ہے ؟ بعض علماء نے اس مثال کا اطلاق بتوں اور ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ پر کیا ہے۔ اور بعض نے اس کا اطلاق مشرکوں اور ان کے مقابلہ میں مومنوں یا خود رسول اللہ پر کیا ہے۔
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ ۔۔ : ” اَبْكَمُ “ گونگا، اس کے ساتھ اس کا بہرا ہونا بھی لازم ہوتا ہے، کیونکہ آدمی سن کر ہی بولنا سیکھتا ہے۔ یہ مثال پہلی مثال سے بھی واضح ہے۔ دو آدمی ہیں، ایک میں چار خامیاں ہیں : 1 وہ ” اَبْكَمُ “ ہے کہ نہ سنتا ہے نہ بولتا ہے۔ 2 ” لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ “ یعنی وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا، چلو بول نہیں سکتا تو کسی ہنر ہی کا مالک ہو، ہاتھ پاؤں ہلا کر یا سر پر بوجھ اٹھا کر ہی کچھ کما سکے، نہیں، کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ 3 وہ آزاد نہیں بلکہ غلام ہے اور غلام بھی ایسا بےکار کہ مالک ہی کو اس کا سارا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ 4 مالک اسے جہاں بھی بھیجے اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ وہ بےچارہ راستہ ہی معلوم نہیں کرسکتا، نہ پوچھ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے شخص میں چار خامیوں کے بجائے دو خوبیاں ہیں : 1 وہ لوگوں کو عدل کا حکم دیتا ہے۔ معلوم ہوا وہ سنتا، بولتا اور سمجھتا ہے، وہ نہ ” اَبْکَمُ “ ہے اور نہ ” لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ “ ہے۔ 2 ” هُوَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ “ یعنی وہ صحیح ترین راستے پر قائم ہے، جو سب سے مختصر اور منزل پر پہنچا دینے والا ہے، یعنی وہ نہ کسی پر بوجھ ہے، نہ راستے سے سراسر ناواقف۔ تو کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں اسی طرح بندوں کے خود ساختہ معبود بت ہوں یا قبریں یا کچھ اور، وہ نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں، نہ کچھ کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے ہیں۔ اپنے مالک پر بوجھ ہیں، یعنی بجائے اس کے کہ یہ اپنے پجاریوں کے کسی کام آئیں خود ان کے پجاری مصیبت اٹھا کر پتھر، اینٹیں، سیمنٹ اور مستری لا کر انھیں بنواتے ہیں۔ پھر ان کی حفاظت اور مرمت کرتے، پہرا دیتے اور صفائی کرتے ہیں۔ یہ دونوں کیسے برابر ہوگئے ؟ جب وہ دونوں آدمی برابر نہیں، حالانکہ مخلوق ہونے میں اور آدمی ہونے میں دونوں برابر ہیں، تو مشرکین کے بنائے ہوئے بت اور آستانے جو بےجان ہیں اور ان کے محتاج ہیں، اللہ تعالیٰ کے برابر کیسے ہوگئے اور اس کے شریک کس طرح بن گئے ؟- 3 بعض اہل علم نے دونوں آیتوں میں مذکور دو ، دو آدمیوں کو مومن و کافر کی مثال قرار دیا ہے۔ بری صفات والے غلام سے مراد کافر اور اچھی صفات والے سے مراد آزاد مومن ہے، مگر اوپر بیان کردہ تفسیر زیادہ صحیح ہے۔
اور دوسری مثال میں ایک طرف ایک انسان ہے جو لوگوں کو عدل و انصاف اور اچھی باتیں سکھاتا ہے جو اس کی قوت علمیہ کا کمال ہے اور خود بھی معتدل اور سیدھے راستے پر چلتا ہے جو اس کی قوت عملیہ کا کمال اس علمی اور عملی قوت میں مکمل انسان کے بالمقابل وہ انسان ہے جو نہ خود اپنا کام کرسکتا ہے نہ کسی دوسرے کا کوئی کام درست کرسکتا ہے یہ دونوں قسم کے انسان ایک ہی جنس ایک ہی نوع ایک ہی برادری کے ہونے کے باوجود آپس میں برابر نہیں ہو سکتے تو خالق ومالک کائنات جو حکیم مطلق اور قادر مطلق اور علیم وخبیر ہے اس کے ساتھ کوئی مخلوق کیسے برابر ہو سکتی ہے۔
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰي مَوْلٰىهُ ۙ اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ ۭهَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ ۙ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ 76ۧ- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - بكم - قال عزّ وجلّ : صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة 18] ، جمع أَبْكَم، وهو الذي يولد أخرس، فكلّ أبكم أخرس، ولیس کل أخرس أبكم، قال تعالی: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 76] ، ويقال : بَكِمَ عنالکلام : إذا ضعف عنه لضعف عقله، فصار کالأبكم .- ( ب ک م ) الابکم - ۔ پیدائشی گونگا اور اخرس عام گونگے کو کہے ہیں لہذا ابکم عام اور اخرس خاص ہے قرآن میں ہے ۔- وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 76] اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں گونگا اور دوسرے کی ملک ( ہے دبے اختیار وناتوان ) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اور ابکم کی جمع بکم آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة 18] یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اور جو شخص ضعف عقلی کے سبب گفتگو نہ کرسکے اور گونگے کی طرح چپ رہے تو اس کے متعلق بکم عن الکلام کہا جاتا ہے یعنی وہ کلام سے عاجز ہوگیا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔
گونگے غلام کا حکم - اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے (وضرب اللہ مثلا رجلین احمدھما بکم لا یقدر علی شی وھو کل علی مولاہ۔ اللہ ایک اور مثال دیتا ہے۔ دو آدمی ہیں ایک گونگا بہرا ہے کوئی کام نہیں کرسکتا اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے) لیکن آیت کی اس امر پر دلالت نہیں ہو رہی ہے کہ گونگا کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا آیت میں گونگے سے گونگا غلام مراد ہے آپ اس قول باری کو دیکھئے (وھو کل علی مولاہ اینما یوجھہ لا یات بخیر۔ اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اس سے نہ بن آئے) آقا کا ذکر نیز آقا کی طرف سے اسے بھیجنے کا بیان اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد غلام ہے گویا اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں ملکیت کی نفی کے لئے بت کے مقابلہ میں ایک ایسے غلام کی مثال بیان کی جو گونگا نہیں تھا پھر دوسری آیت میں اس کمی میں اور اضافہ کرتے ہوئے فرمایا (ابکم لا یقدر علی شی وھو کل علی مولاہ اینما یوجھہ لایات بخیر) یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بتوں کا نقص اور ان میں خیر کی کمی کو مبالغہ کے طور پر بیان کرنے کے لئے آیت میں گونگا غلام مراد لیا ہے۔ نیز یہ کہ وہ غلام کسی اور کا مملوک ہے جو اس میں تصرف کرنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (وھو کل علی مولاہ) میں چچا زاد بھائی مراد ہے اس لئے کہ چچا زاد بھائی کو بھی مولیٰ کہا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ ایک شخص پر اس کے چچا زاد بھائی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ نہ ہی وہ اس پر بوجھ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ شخص اسے اپنے کاموں کی خاطر ادھر ادھر بھیج سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت میں ابکم یعنی گونگے کے سلسلے میں دو باتوں کا ذکر کیا تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس سے کوئی آزاد شخص مراد نہیں ہے جس کا کوئی چچا زاد بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک گونگا غلام مراد لیا ہے جو کسی کا مملوک ہو علاوہ ازیں یہاں چچا زاد کے ذکر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ چچا زاد بھائی کی بہ نسبت باپ بھائی اور چچا ایک شخص کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور اس کے لئے ان رشتہ داروں کی حیثیت اولیٰ ہوتی ہے اس بنا پر آیت میں وارد لفظ مولیٰ کو چچا زاد بھائی پر محمول کرنے سے اس کا فائدہ زائل ہوجائے گا۔ نیز جب علی الاطلاق مولیٰ کا ذکر کیا جائے تو اس سے مراد یا تو مولائے رق (غلام) ہوتا ہے یا مولائے نعمت (آقا) ہوتا ہے اور چچا زاد پر اسے کسی دلالت کی بنا پر محمول کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اصنام مراد لینا درست نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (عبدا مملوکا) ایسی بات اصنام کے متعلق نہیں کہی جاسکتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی نظروں سے دلالت کا مقام پوشیدہ رہ گیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے صرف ایسے غلام کا ذکر کیا ہے جو ہمارا مملوک ہو اور پھر اسے ان بتوں کے لئے مثال کے طور پر بیان کیا جنہیں لوگ پوجتے تھے اور یہ بتادیا کہ ان بتوں کی حیثیت ان غلاموں جیسی ہے جو کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے اور جس طرح ایک بت کسی حال میں بھی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اسی طرح ایک غلام بھی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے بتوں کو عباد (بندے) کہا ہے چناچہ ارشاد ہے (ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکم۔ تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن کی پوجا کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح بندے ہیں)- غلام کی ملکیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ غلام نہ تو کسی چیز کا مالک ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہمبستری کی خاطر کوئی لونڈی خرید سکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ غلام مالک بھی ہوسکتا ہے اور ہمبستری کی خاطر لونڈی بھی خرید سکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے روایت بیان کی ہے، انہیں اسماعیل بن امیہ المکی نے سعید بن ابی سعید المقبری سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ انہوں نے فرمایا ” کسی مملوک یعنی لونڈی کا فرج صرف اس شخص کے لئے حلال ہے جو اگر اسے فروخت کرے یا ہبہ کر دے یا صدقہ کر دے یا آزاد کر دے تو اس کا یہ عمل جائز قرار دیا جائے “ اس سے حضرت ابن عمر (رض) نے مملوک یعنی غلام مراد لیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک غلام ہمبستری کے لئے کوئی لونڈی حاصل نہیں کرسکتا۔ اسی طرح یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے۔ ابراہیم نخعی، ابن سیرین اور الحکم سے مروی ہے کہ غلام ہمبستری نہیں کرسکتا۔ یعنی ہمبستری کے لئے کوئی لونڈی نہیں خرید سکتا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ غلام تسری کرسکتا ہے کہ یعمر نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے بعض غلاموں کو تسری کرتے ہوئے دیکھتے لیکن انہیں اس سے نہیں روکتے تھے۔ حسن اور شعبی کا قول ہے کہ غلام اپنے آقا کی اجازت سے تسری کرسکتا ہے۔ امام ایو یوسف نے العلاء بن کثیر سے، انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (العبد لا یتسری۔ غلام تسری نہیں کرے گا) یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا، اگر وہ کسی چیز کا مالک ہوتا تو اس کے لئے جماع کی خاطر لونڈی خریدنا بھی اس قول باری کی بنا پر جائز ہوجاتا (والذین ھم لفروجھ حافظون الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم۔ اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی نگہداشت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا ان سے جن کی ملکیت انہیں حاصل ہوتی ہے) اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (من باع عبدا ولہ ما لہ فما لہ للبائع الا ان یشترطہ المبتاع۔ جس شخص نے کوئی غلام فروخت کیا تو اس کا مال فروخت کنندہ کے لئے ہوگا الایہ کہ خریدار نے اس کی شرط لگا دی ہو)- اس ارشاد کی دلالت اس بنا پر ہو رہی ہے کہ جب آپ نے غلام کے مال کو فروخت کنندہ یا خریدار میں سے کسی ایک کے لئے قرار دیا تو آپ نے غلام کو اس مال سے خالی ہاتھ خارج کردیا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ آقا کو ہر اس چیز کو اپنے قبضے میں لینے کا حق ہوتا ہے جو غلام کے قبضے میں ہوتی ہے۔ بلکہ آقا اس چیز کا زیادہ حقدار ہوتا ہے اس لئے کہ غلام کی گردن کا وہ مالک ہوتا ہے۔ اگر غلام کے اندر مالک بننے کی اہلیت ہوتی تو آقا کے لئے اس کے قبضے کی چیز کو اپنے قبضے میں کرلینا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ جن باتوں میں غلام اپنے آقا سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔ ان باتوں میں آقا کو دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ غلام کے مال پر آقا کے قبضے کا جواز اس پر دلالت نہیں کرتا کہ غلام اس مال کا مالک نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ قرض خواہ کو اپنے قرض کے بدلے مقروض کی ہر چیز اپنے قبضے میں کرلینے کا اختیار ہوتا ہے لیکن یہ امر اس پر دلالت نہیں کرتا کہ مقروض ان چیزوں کا مالک نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں صورتوں میں فرق ہے وہ اس طرح کہ قرض خواہ مقروض کے مال پر اس لئے قبضہ نہیں کرتا کہ مقروض کا وہ مالک ہے بلکہ وہ اپنے قرض کے بدلے اس کے مال پر قبضہ کرتا ہے جبکہ آقا اپنے غلام کے مال کا اس لئے حقدار ہوتا ہے کہ وہ اس کی گردن کا مالک ہوتا ہے۔ اگر غلام مالک ہوتا تو آقا اس بنا پر اس کے مال کا مستحق قرار نہ پاتا کہ وہ اس کی گردن کا مالک ہے جس طرح غلام کی گردن کا مالک ہونے کے باوجود وہ اس کی بیوی کو طلاق دینے کا مالک نہیں ہوتا۔ اس امر میں یہ دلیل موجود ہے کہ غلام مالک نہیں ہوتا۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مال کے بدلے مکاتب بنا لیا اور اس نے اس مال کی ادائیگی کردی تو اس غلام کو آزادی مل جائے گی اور اس کی ولاء آزاد کرنے والے آقا کے لئے ثابت رہے گی۔ اس غلام کو اس کے آقا کی ملکیت سے آزاد ہونے والا سمجھا جائے گا۔ اگر یہ آزاد ہونے والا غلام ان لوگوں میں سے ہوتا جو مالک بننے کے اہل ہوتے ہیں تو یہ غلام بھی کتابت کا مال ادا کر کے اپنی گردن کا مالک ہوجاتا اور یہ ملک اس کے آقا کی طرف منتقل نہ ہوتی جس طرح اس صورت میں غیر آقا کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ اگر یہ آقا اس غیر کو یہ حکم دیتا کہ وہ اس غلام کو مال کے بدلے اس کی طرف سے آزاد کر دے۔ اگر وہ اپنی ذات پر خود آزاد ہوجانے کی بنا پر اپنی گردن کا مالک ہوجاتا تو اس صورت میں ولاء اس کے آقا کے لئے نہ ہوتی بلکہ اس کی ولاء خود اس کی اپنی ذات کے لئے ہوتی۔ جب غلام کی گردن کی ملکیت مال ادا کرنے کی وجہ سے خود اس کی ذات کی طرف منتقل نہیں ہوتی بلکہ اسے آقا کی ملکیت سے آزادی ملتی ہے۔ تو یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لئے کہ اگر وہ ان لوگوں میں سے ہوتا جو مالک ہونے کے اہل ہوتے ہیں تو پھر اس کا اپنی گردن کا مالک ہونا اولیٰ ہوتا اس لئے کہ اس کی گردن ایسی چیز ہے جس میں تملیک کا جواز ہوتا ہے۔- مال غلام کا مالک، آقا ہے یا غلام - اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من باع عبدا ولہ مال فمالہ للمائع۔ جو شخص کوئی غلام فروخت کرے اور اس غلام کے پاس کوئی مال ہو تو یہ مال فروخت کنندہ کا ہوگا) آپ کا یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ غلام میں مالک بننے کی اہلیت ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال کی اصافت غلام کی طرف کی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع کی حالت میں مال پر فروخت کنندہ کی ملکیت ثابت کردی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ ایک مال بیک وقت آقا اور غلام دونوں کی ملکیت میں نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس مال کا غلام کی ملکیت میں ہونا محال ہے ورنہ آقا اور غلام دونوں میں سے ہر ایک کو پورا مال مل جاتا۔ اس طرح خود اس روایت میں جس مال کی اضافت غلام کی طرف کی گئی ہے اس پر فروخت کنندہ کی ملکیت کا اثبات موجود ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حدیث میں غلام کی طرف مال کی اضافت صرف اس بنا پر ہے کہ وہ مال اس کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔ ” یثہ فلاں کا گھر ہے “ جبکہ وہ گھر اس کی ملکیت میں نہ ہو وہ صرف اس میں رہتا ہو۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (انت و مالک لا بیک۔ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے) اس ارشاد میں آپ نے بیٹے کے مال پر باپ کی ملکیت کے اثبات کا ارادہ نہیں کیا۔- اگر یہ کہا جائے کہ عبید اللہ بن ابی جعفر نے بکیر بن عبد اللہ بن الاشجع سے، انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (من اعتق عبداً فمالہ لہ الا ان یشترط السید مالہ فیکون لہ۔ جس شخص نے کوئی غلام آزاد کیا تو اس غلام کا مال اس غلام کو ہی مل جائے گا الایہ کہ آقا نے اس مال کی شرط لگا دی ہو اس صورت میں یہ مال آقا کو مل جائے گا) یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلام میں مالک بننے کی اہلیت ہوتی ہے اس لئے کہ اگر وہ آزادی سے پہلے اس مال پر ملکیت رکھنے کا اہل نہ ہوتا تو آزادی کے بعد بھی اس پر اس کی ملکیت نہ ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت میں غلام کے مالک ہونے پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ لوگوں کی عادت اور عرف کے طور پر ایسا ہوتا ہو کہ غلام کے جسم پر جو کپڑے وغیرہ ہوں وہ اسے آزاد کرتے وقت اتار لئے نہ جاتے ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے اس عرف اور عادت کو منطوق حکم کا درجہ دے دیا اور آپ نے عادۃً آقا کی طرف سے غلام کی ان چیزوں کو اس کی ملکیت میں رہنے دینے کے معاملہ کو اس بات کی علامت قرار دے دیا کہ گویا آقا، آزادی دینے کے بعد ان چیزوں کو غلام کی ملکیت میں دے دینے پر رضامند ہوگیا ہے۔ نیز اہل نقل یعنی محدثین کے ایک گروہ نے اس روایت کی تصنیف کی ہے۔- ایک قول کے مطابق عبید اللہ بن جعفر سے حدیث کو مرفوع روایت کرنے میں غلطی ہوگئی ہے نیز اس روایت کے متن میں بھی اس نے غلطی کی ہے۔ اصل روایت وہ ہے جو ایوب نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کی ہے کہ جب حضرت ابن عمر (رض) اپنا کوئی غلام آزاد کرتے تو اس کے مال سے کوئی تعرض نہ کرتے۔ اصل روایت یہ ہے عبید اللہ بن جعفر سے اسے مرفوعاً روایت کرنے نیز اس کے الفاظ کے بیان میں غلطی ہوئی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف روایت منقول ہے۔ ابو مسلم الکتجی نے روایت بیان کی ہے انہیں محمد بن عبد اللہ انصاری نے، انہیں عبد الاعلیٰ بن ابی المسادر نے عمران بن عمیر سے، انہوں نے اپنے والد سے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کے مملوک تھے، ان سے حضرت عبد (رض) اللہ نے فرمایا : عمیر، اپنا سارا مال مجھے بتادو ، میں تمہیں آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (من اعتق عبذا فمالہ للذی اعتق جو شخص کوئی غلام آزاد کرے تو اس غلام کا مال اس شخص کو مل جائے گا جس نے اسے آزاد کیا ہے) “ اس حدیث کو یونس بن اسحاق نے عمران بن عمیر اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ المسعودی نے اس حدیث کو حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ ہمارے نزدیک مرقوفاً روایت کی بنا پر حدیث میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔- غلام کو نکاح سے کونسی استغنا حاصل ہوگی ؟- اگر کوئی استدلال کرنے والا اس قول باری (وانکحوا الایا مفی منکم والصالحین من عبادکم و امالکم وان یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ۔ اور تم اپنے بےنکاحوں کا نکاح کرو اور تمہارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو اس کے لائق ہوں ان کا بھی۔ اگر یہ لوگ مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا) سے استدلال کرے تو یہ بات ان تمام کی طرف لوٹتی ہے جن کا آیت میں ذکر ہوا ہے یعنی بےنکاحے غلام اور لونڈیاں۔ اس چیز نے غلام کے لئے دولت مندی اور فقر دونوں کا اثبات کردیا جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ غلام میں مالک بننے کی اہلیت ہوتی ہے اس لئے کہ اگر اس میں یہ اہلیت نہ ہوتی تو وہ ہمیشہ فقیر ہی رہتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری (ان یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ) سے مراد یا تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو نکاح کی بنا پر حلال طریقے سے جنسی ملاپ کی وجہ سے حرام طریقے سے جنسی ملاپ سے استغناء ہوجائے گا یا مراد یہ ہے کہ انہیں مال کی وجہ سے دولت مندی حاصل ہوجائے گی۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نکاح کرنے والے بہت سے جوڑے مال کے ذریعے دولت مند نہیں بن جاتے اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس امر کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دے دے وہ وقوع پذیر ہو کر رہتا ہے تو ان دونوں باتوں سے ہمارے لئے یہ واضح ہوگیا کہ آیت میں مال کے ذریعے غنیٰ مراد نہیں ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ حلال وطی کے ذریعے حرام وطی سے استغناء ہوجاتا ہے۔ نیز اگر آیت میں غنیٰ بالمال مراد بھی ہو تو اس کا دائرہ صرف بےنکاحوں اور آزادوں تک محدود رہے گا جن کا آیت میں ذکر ہے۔ اس دائرے میں غلام داخل نہیں ہوں گے جو ہمارے بیان کردہ دلائل کی روشنی میں مالک بننے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ نیز ہمارے مخالف کے نزدیک مال کی بنا پر غلام دولت مند نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کا آقا اس کے تمام مال کا اس سے بڑھ کر مستحق ہوتا ہے۔ اس لئے غلام کو آخر سک مال کی بنا پر دولتمندی حاصل ہوسکتی ہے جبکہ اس کا غیر یعنی آقا اس کے مال کا اس سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں صرف آقا کو دولت مندی حاصل ہوسکتی ہے غلام کو حاصل نہیں ہوسکتی، غلام، مال کی بنا پر دولت مند نہیں بنتا اس کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (امرت ان اخذ الصدقۃ من اغنیاء کم واردھا فی فقراء کم۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مال داروں سے صدقات وصول کر کے تمہارے فقراء کو واپس کردوں) ہمارے مخالف کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ غلام کے مال میں سے کچھ نہیں لیا جائے گا۔ اگر غلام مالدار ہوتا تو اس کے مال میں زکوٰۃ واجب ہوجاتی کیونکہ وہ مسلمان اور مال دار ہوتا ہے نیز مکلفین میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ غلام جب اپنی بیوی کو طلاق دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ آزاد انسان کی طرح وہ مال کی ملکیت کا بھی اہل شمار کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا غلام اس لئے طلاق دینے کا مالک قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے آقا کو اس کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اگر غلام مال کا مالک ہوتا تو اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ آقا کو اس کے مال کا مالک قرار نہ دیا جائے۔ نیز آقا کے لئے اس کا مال اپنے قبضے میں کرلینا بھی جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ ہر وہ چیز جس کی ملکیت آقا کو اس کے غلام کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ غلام کو آقا کی طرف سے اس کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی، آپ نہیں دیکھتے کہ جس غلام کی تصرفات پر پابندی لگی ہو اگر وہ اپنے ذمہ کسی قرض کا اقرار کرلے تو غلامی کے زمانے میں یہ قرض اس کے ذمہ عائد نہیں ہوگا لیکن اگر اس کا آقا اس پر اس قرض کا اقرار کرلے گا تو یہ قرض اس پر عائد ہوجائے گا۔ اسی طرح آقا کو اختیار ہے کہ وہ اپنے غلام کا کہیں نکاح کرا دے لیکن غلام کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنا نکاح خود کہیں کرلے۔ اس لئے کہ یہ ایسی بات ہے جس کا آقا اپنے غلام کی طرف سے مالک ہوتا ہے۔ اگر آقا اپنے غلام پر کسی قصاص یا حد کا اقرار کرے گا تو یہ حد یا قصاص اس پر لازم نہیں ہوگا، اس لئے کہ غلام اپنی ذات کے دائرے میں اس چیز کا خود مالک ہوتا ہے۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ غلام کے اندر مالک بننے کی اہلیت نہیں ہوتی ہے اس لئے کہ اگر غلام، مال کا مالک ہوتا تو آقا کے لئے اس کے مال میں تصرف کرنا جائز نہ ہوتا جس طرح طلاق کے معاملہ میں، آقا کا تصرف جائز نہیں ہے اس لئے کہ غلام خود اس کا مالک ہوتا ہے۔
(٧٦) اللہ تعالیٰ اس کی مزید صراحت کے لیے بتوں کی ایک اور مثال بیان کرتے ہیں کہ دو شخص ہیں، ایک تو ان میں سے گونگا پتھر ہے، بات نہیں کرسکتا ہے جو ان کا بت ہے وہ اپنے مالک اور رشتہ دار پر ایک وبال جان ہے اور اس کو مشرق ومغرب کے جس کونے میں سے بھی پکارا جائے، کسی پکارنے والے کا جواب نہیں دے سکتا، یہ ان کے بتوں کی مثال ہے، کیا یہ بت اور ایسی ذات یعنی اللہ تعالیٰ جو توحید کی تعلیم کرتا ہو اور صراط مستقیم کی طرف لوگوں کو بلاتا ہو نفع پہنچانے اور تکالیف کے دور کرنے میں دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) وضرب اللہ مثلا الرجلین “۔ (الخ)- اس آیت مبارکہ کے بارے میں ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ایک قریشی اور اس کے غلام کے متعلق نازل ہوئی ہے، اور اگلی آیت ”۔ رجلین احدھما “۔ (الخ) یہ حضرت عثمان (رض) اور ان کے غلام ان دونوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی دو شخص ہیں ایک تو ان میں سے گونگا ہے۔ الخ۔
(اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ )- ایک شخص کے دو غلام ہیں۔ ایک غلام گونگا ہے کسی کام کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا الٹا اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ کام وغیرہ کچھ نہیں کرتا ‘ صرف روٹیاں توڑتا ہے۔ اگر اس کا آقا اسے کسی کام سے بھیج دے تو وہ کام خراب کر کے ہی آتا ہے۔ - (هَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ ۙ وَمَنْ يَّاْمُرُ بالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ )- اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک شخص کے دو غلاموں کے حوالے سے دو طرح کے انسانوں کی مثال بیان فرمائی ہے کہ سب انسان میرے غلام ہیں۔ لیکن میرے ان غلاموں کی ایک قسم وہ ہے جو میری نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر میرا کوئی کام نہیں کرتے میرے دین کی کچھ خدمت نہیں کرتے میری مخلوق کے کسی کام نہیں آتے۔ یہ لوگ اس غلام کی مانند ہیں جو اپنے آقا پر بوجھ ہیں۔ دوسری طرف میرے وہ بندے اور غلام ہیں جو دن رات میری رضا جوئی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں نیکی کا حکم دے رہے ہیں اور برائی سے روک رہے ہیں میرے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں وہ اپنے تن من اور دھن کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ تو کیا یہ دونوں طرح کے انسان برابر ہوسکتے ہیں ؟
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :69 پہلی مثال میں اللہ اور بناوٹی معبودوں کے فرق کو صرف اختیار اور بے اختیاری کے اعتبار سے نمایاں کیا گیا تھا ۔ اب اس دوسری مثال میں وہی فرق اور زیادہ کھول کر صفات کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور ان بناوٹی معبودوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ایک با اختیار مالک ہے اور دوسرا بے اختیار غلام ۔ بلکہ مزید برآں یہ فرق بھی ہے کہ یہ غلام نہ تمہاری پکار سنتا ہے ، نہ اس کا جواب دے سکتا ہے ، نہ کوئی کام با ختیار خود کر سکتا ہے ۔ اس کی اپنی زندگی کا سارا انحصار اس کے آقا کی ذات پر ہے ۔ اور آقا اگر کوئی کام اس پر چھوڑ دے تو وہ کچھ بھی نہیں بنا سکتا ۔ بخلاف اس کے آقا کا حال یہ ہے کہ صرف ناطق ہی نہیں ناطق حکیم ہے ، دنیا کو عدل کا حکم دیتا ہے ۔ اور صرف فاعل مختار ہی نہیں ، فاعل برحق ہے ، جو کچھ کرتا ہے راستی اور صحت کے ساتھ کرتا ہے ۔ بتاؤ یہ کونسی دانائی ہے کہ تم ایسے آقا اور ایسے غلام کو یکساں سمجھ رہے ہو؟