Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نیکیوں کی دیوار لوگ اللہ تعالیٰ اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ زمین آسمان کا غیب وہی جانتا ہے ، کوئی نہیں جو غیب دان ہو اللہ جسے چاہے ، جس چیز پر چاہے ، اطلاع دے دے ۔ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے ۔ نہ کوئی اسے روک سکے جس کام کا جب ارادہ کرے ، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے آنکھ بند کر کے کھولنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہو گی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہونے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی ۔ قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آسان ہے ، وہ بھی حکم ہوتے ہی آ جائے گی ۔ ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے ۔ اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا یہ محض نادان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں ، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں ، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں ۔ عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے ۔ عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسان اپنی ان طاقتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے ۔ صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے ۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قربت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا ۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں ، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھامتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے ۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں ، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں ، اگر پناہ چاہے میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو ناپسند کرتا ہے ۔ میں اسے ناراض کرنا نہیں چاہتا اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لئے ، دیکھتا ہے اللہ کے لئے ، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے ، شریعت نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے ، انہی کو دیکھتا ہے ، اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا ، پاؤں چلانا بھی اللہ کی رضامندی کے کاموں کے لئے ہی ہوتا ہے ۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے اسی سے مدد چاہتا ہے ، تمام کام اس کے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ہی ہوتے ہیں ۔ اس لئے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لئے سنتا ہے اور میرے ہی لئے دیکھتا ہے اور میرے لئے پکڑتا ہے اور میرے لئے ہی چلتا پھرتا ہے ۔ آیت میں بیان ہے کہ ماں کے پیٹ سے وہ نکالتا ہے ، کان ، آنکھ ، دل ، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو اور آیت میں فرمان ہے آیت ( قُلْ هُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ 23؀ ) 67- الملك:23 ) یعنی اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو ، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے ۔ پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پرواز کرتے پھرتے ہیں ، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کاملہ سے تھامے ہوئے ہے ۔ یہ قوت پرواز اسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے ۔ سورہ ملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ کیا وہ اپنے سروں پر اڑتے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے ؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھامتا ہے ؟ وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے ، یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ اس میں ایمانداروں کے لئے بہت سے نشان ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 یعنی آسمان اور زمین میں جو چیزیں غائب ہیں اور وہ بیشمار ہیں اور انہی میں قیامت کا علم ہے۔ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لئے عبادت کے لائق بھی صرف ایک اللہ ہے نہ کہ وہ پتھر کے بت جن کو کسی چیز کا علم نہیں نہ وہ کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہیں۔ 77۔ 2 یعنی اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ وسیع و عریض کائنات اس کے حکم سے پلک جھپکنے میں بلکہ اس سے بھی کم لمحے میں تباہ برباد ہوجائے گی۔ یہ بات بطور مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت واقعہ ہے کیونکہ اس کی قدرت غیر متناہی ہے۔ جس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے، اس کے ایک لفظ کُنْ سے سب کچھ ہوجاتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ تو یہ قیامت بھی اس کے کُنْ (ہو جا) کہنے سے برپا ہوجائے گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٨] قیامت کا دفعتاً واقع ہونا :۔ یہاں درمیان میں مشرکوں کے ایک سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ وہ اکثر یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ قیامت کب یعنی کتنے سال بعد اور کس مہینہ کی کون سی تاریخ کو آئے گی ؟ اور اس کا جواب بھی کئی پہلوؤں سے مذکور ہوچکا ہے۔ یہاں جس پہلو کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تمام تر اشیاء اور وہ واقعات اور حوادثات جو ماضی میں واقع ہوچکے ہیں یا اس وقت ہو رہے ہیں یا مستقبل میں پیش آنے والے ہیں۔ وہ غائب تو تمہاری نظروں اور علم سے ہیں۔ اللہ کے لیے یہ سب باتیں ایسے ہی ہیں جیسے وہ اس کے سامنے موجود اور حاضر ہیں۔ اسی طرح قیامت کا بھی اسے پورا علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ اسے کب واقع کرنا ہے۔ تم بس ایک بات سمجھ لو کہ قیامت ایسے نہیں آئے گی کہ تم اسے دور سے آتا دیکھ لو تو سنبھل جاؤ اور تو بہ تائب کرلو۔ بلکہ قیامت جب آئی تو آنکھ جھپکنے جتنی بھی دیر نہ لگے گی کہ وہ واقع ہوجائے گی۔ - چنانچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : دو آدمی کپڑا بچھائے سودا بازی کر رہے ہونگے اور ابھی وہ اس سودابازی اور کپڑا لپیٹنے سے فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آجائے گی اور ایک اونٹنی کا دودھ لے کر جارہا ہوگا اور ابھی یہ اسے پینے نہ پائے گا کہ قیامت آجائے گی اور ایک آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہوگا لیکن ابھی نہ اس میں پانی بھرا جائے گا اور نہ پیا جائے گا کہ قیامت آجائے گی۔ اور ایک آدمی کھانے کا نوالہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور ابھی اس نے وہ منہ میں نہ ڈالا ہوگا کہ قیامت آجائے گی۔ (بخاری، کتاب الرقاق۔ باب بلاعنوان۔ نیز کتاب الفتن۔ باب بلاعنوان)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ : ” غَيْبُ “ جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو سکے، نہ عقل سے، مخلوق سے پوشیدہ ہو۔ ” لِلّٰهِ “ خبر ہے ” غَيْبُ السَّمٰوٰتِ “ کی۔ بعد میں آنے کے بجائے پہلے آنے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، اس لیے ترجمہ ” اللہ ہی کے پاس ہے “ کیا گیا۔ صرف اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کے دلائل میں سے یہ بہت بڑی دلیل ہے۔ ساتھ ہی ایک ایسے غیب کا ذکر فرما دیا جو اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، کیونکہ وہ غیب کا علم کسی کو بتایا ہی نہیں گیا اور وہ قیامت ہے اور اس کا علم ہونا سچا معبود ہونے کی دلیل اور علم نہ ہونا باطل ہونے کی دلیل ہے۔ دیکھیے سورة نحل (٢١) ۔- وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ ۔۔ : ” السَّاعَةِ “ زمانے کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ، مراد قیامت ہے، کیونکہ وہ اچانک اتنے کم وقت میں قائم ہوجائے گی۔ ” اَوْ هُوَ اَقْرَبُ “ میں ” اَوْ “ بمعنی ” بَلْ “ ہے، جیسا کہ یونس (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ ) [ الصافات : ١٤٧ ] ” اور ہم نے اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا، بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔ “ دوسری جگہ اپنے امر (کُنْ ) کے متعلق فرمایا : (وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ ) [ القمر : ٥٠ ] ” اور ہمارا حکم تو صرف ایک بار ہوتا ہے، جیسے آنکھ کی ایک جھپک۔ “ اور یہاں ” اَوْ “ فرمایا، کیونکہ آنکھ جھپکنا بھی کچھ وقت چاہتا ہے، قیامت اس سے بھی کم وقت میں قائم ہوجائے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ - بعض علماء نے اس کا معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ تم قیامت کو بہت دور سمجھ رہے ہو، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آنکھ جھپکنے سے بھی زیادہ قریب ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا ۝ ۙوَّنَرٰىهُ قَرِيْبًا) [ المعارج : ٦، ٧ ] ” بیشک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور آسمانوں اور زمین کی تمام پوشیدہ باتیں (جو کسی کو معلوم نہیں باعتبار علم کے اللہ ہی کے ساتھ خاص ہیں (تو صفت علم میں وہ کامل ہیں) اور (قدرت میں ایسے کامل ہیں کہ ان غیوب میں سے جو ایک امر عظیم ہے یعنی) قیامت (اس) کا معاملہ بس ایسا (جھٹ پٹ) ہوگا جیسے آنکھ جھپکنا بلکہ اس سے بھی جلدی (قیامت کے معاملہ سے مراد ہے مردوں میں جان پڑنا اور اس کا بہ نسبت آنکھ جھپکنے کے جلدی ہونا ظاہر ہے کیونکہ آنکھ جھپکنا حرکت ہے اور حرکت زمانی ہوتی ہے اور جان پڑنا آنی ہے اور آنی ظاہر ہے کہ زمانی سے اسرع ہے اور اس پر تعجب نہ کیا جائے کیونکہ) یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں (اور اثبات قدرت کے لئے تخصیص قیامت کی شاید اس وجہ سے کہ ہو کہ وہ منجملہ غیوب خاصہ کے بھی ہے اس لئے وہ علم اور قدرت دونوں کی دلیل ہے قبل الوقوع تو علم اور بعد الوقوع قدرت کی) اور (منجملہ دلائل قدرت ووجوہ نعمت یہ امر ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے (اس درجہ کا نام فلاسفہ کی اصطلاح میں عقل ہیولانی ہے) اور اس نے تم کو کان دئیے اور آنکھ اور دل تاکہ تم شکر کرو (استدلال علی القدرت کے لئے) کیا لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمان کے (تلے) فضاء میں (قدرت کے) مسخر ہو رہے ہیں (یعنی) ان کو (اس جگہ) کوئی نہیں تھا متابجز اللہ کے (ورنہ ان کے اجسام کا ثقیل ہونا اور مادہ ہوا کا رقیق ولطیف ہونا طبعا مقتضی اس کو ہے کہ نیچے گر پڑیں اس لئے اس امر مذکور میں) ایمان والوں کے لئے (قدرت الہیہ کی) چند دلیلیں (موجود) ہیں (چند نشانیاں اس لئے فرمایا کہ پرندوں کو خاص وضع پر پیدا کرنا جس سے اڑنا ممکن ہو ایک دلیل ہے پھر فضا کو ایسے طرز پر پیدا کرنا جس میں اڑنا ممکن ہو دوسری دلیل ہے پھر بالفعل اس طیران کا وقوع تیسری دلیل ہے اور جن اسباب کو طیران میں دخل ہے وہ سب اللہ ہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں پھر ان اسباب پر مسبب یعنی طیران کا مرتب ہوجانا یہ بھی مشیت الہی ہے ورنہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی چیز کے اسباب موجود ہوتے ہوئے بھی وہ وجود میں نہیں آتی اس لئے مایمسکھن الخ فرمایا گیا اور منجملہ وجوہ نعمت و دلیل قدرت یہ امر ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے واسطے (حالت حضر میں) تمہارے گھروں میں رہنے کی جگہ بنائی (اور حالت سفر میں) تمہارے لئے جانوروں کی کھال کے گھر (یعنی خیمے) بنائے جن کو تم اپنے کوچ کے دن اور مقام (کرنے) کے دن ہلکا (پھلکا) پاتے ہو (اور اس وجہ سے اس کا لادنا اور نصب کرنا سب سہل معلوم ہوتا ہے) اور ان (جانوروں) کے اون انکے روؤں اور ان کے بالوں سے (تمہارے) گھر کا سامان اور فائدے کی چیزیں ایک مدت تک کے لئے بنائیں (مدت تک اس لئے فرمایا کہ عادۃ یہ سامان بہ نسبت روئی کے کپڑوں کے دیرپا ہوتا ہے اور منجملہ دلائل قدرت و وجوہ نعمت کے ایک یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اپنی بعض مخلوقات کے سائے بنائے (جیسے درخت ومکانات وغیرہ) اور تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ کی جگہیں بنائیں (یعنی غار وغیرہ جس میں گرمی سردی بارش موذی دشمن جانور آدمی سے محفوظ رہ سکتے ہو) اور تمہارے لئے ایسے کرتے بنائے جو گرمی سے تمہاری حفاظت کریں اور ایسے کرتے (بھی) بنائے جو تمہاری آپس کی لڑائی (میں زخم لگنے) سے تمہاری حفاظت کریں (مراد اس سے زرہ ہیں) اللہ تعالیٰ تم پر اسی طرح کی اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے کہ تم (ان نعمتوں کے (شکریہ میں) فرمانبردار رہو (اور ہرچند مذکورہ نعمتوں میں بعض مصنوعات عباد بھی ہیں مگر ان کا مادہ اور ان کے بنانے کا سلیقہ تو اللہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے اس لئے منعم حقیقی وہی ہیں پھر ان نعمتوں کے بعد بھی) اگر یہ لوگ ایمان سے اعراض کریں (تو آپ غم نہ کریں آپ کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ) آپ کے ذمہ تو صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے (اور ان کے اعراض کی وجہ سے یہ نہیں کہ وہ ان نعتموں کو پہچانتے نہیں بلکہ وہ لوگ) خدا کی نعمتوں کو تو پہچانتے ہیں مگر پہچان کر پھر (برتاؤ میں) اس کے منکر ہوتے ہیں (کہ جو برتاؤ منعم کے ساتھ چاہئے تھا یعنی عبادت وطاعت وہ دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں) اور زیادہ ان میں ایسے ہی ناشکرے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 77؀- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- لمح - اللَّمْحُ : لمعان البرق، ورأيته لَمْحَةَ البرق . قال تعالی: كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ [ القمر 50] ويقال : لأرينّك لَمْحاً باصرا «1» . أي : أمرا واضحا .- ( ل م ح ) اللمح - کے معنی بجلی کی چمک کے ہیں ۔ محاورہ ہے : رایت لمحۃ البرق میں نے اسے بجلی کی چمک کی طرح ایک جھلک دیکھا ۔ قرآن میں ہے : كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ [ القمر 50] آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ اور محاورہ ہے : لارینک لمحا باصرا ۔ میں تمہیں صاف طور پر دکھلادوں گا۔ تم پر حقیقت کھول دونگا ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٧) تمام پوشیدہ باتیں جو بندوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں، اللہ ہی کے ساتھ خاص ہیں قیامت ہے، اس کا معاملہ ایسا جھٹ پٹ ہوگا جیسا کہ آنکھ جھپکنا بلکہ اس سے بھی زیادہ جلدی اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد کی زندگی وغیرہ ہر چیز پر قادر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :70 بعد کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل جواب ہے کفار مکہ کے اس وال کا جو وہ اکثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی وہ قیامت آنے والی ہے جس کی تم ہمیں خبر دیتے ہو تو آخر وہ کس تاریخ کو آئے گی ۔ یہاں ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :71 یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مدت میں واقع نہ ہوگی ، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دور سے اس کو آتے دیکھو گے کہ سنبھل سکو اور کچھ اس کے لیے تیاری کر سکو ۔ وہ تو کسی روز اچانک چشم زدن میں ، بلکہ اس سے بھی کم مدت میں آجائے گی ۔ لہٰذا جس کو غور کرنا ہو سنجیدگی کے ساتھ غور کرے ، اور اپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہو جلدی کر لے ۔ کسی کو اس بھروسے پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے ، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کرلیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توحید کی تقریر کے درمیان یکایک قیامت کا یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ توحید اور شرک کے درمیان کسی ایک عقیدے کے انتخاب کے سوال کو محض ایک نظری سوال نہ سمجھ بیٹھیں ۔ انہیں یہی احساس رہنا چاہیے کہ ایک فیصلے کی گھڑی کسی نامعلوم وقت پر اچانک آجانے والی ہے اور اس وقت اسی انتخاب کے صحیح یا غلط ہونے پر آدمی کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہو گا ۔ اس تنبیہ کے بعد پھر وہی سلسلہ تقریر شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani