Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 شَیْئًا، نکرہ ہے تم کچھ نہیں جانتے تھے، نہ نیکی و بدبختی کو، نہ فائدے اور نقصان کو۔ 78۔ 2 تاکہ کانوں کے ذریعے تم آوازیں سنو، آنکھوں کے ذریعے سے چیزوں کو دیکھو اور دل، یعنی عقل (کیونکہ عقل کا مرکز دل ہے) دی، جس سے چیزوں کے درمیان تمیز کرسکو اور نفع نقصان پہچان سکو، جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے، اس کی عقل و حواس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب انسان شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی یہ صلاحیتیں بھی قوی ہوجاتی ہیں، حتیٰ کہ پھر کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ 78۔ 3 یعنی یہ صلاحیتیں اور قوتیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا کی ہیں کہ انسان ان عضا وجوارح کو اس طرح استعمال کرے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ ان سے اللہ کی عبادت و اطاعت کرے۔ یہی اللہ کی ان نعمتوں کا عملی شکر ہے حدیث میں آتا ہے میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں۔ علاوہ ازیں نوافل کے ذریعے سے بھی وہ میرا قرب حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور مجھ سے کسی چیز سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ تنبیہ : اس حدیث کا بعض لوگ غلط مطلب لے کر اولیاء اللہ کو خدائی اختیارات کا حامل باور کراتے ہیں۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اپنی اطاعت و عباد اللہ کے لیے خالص کرلیتا ہے تو اس کا ہر کام صرف اللہ کی رضا کے کے لیے ہوتا ہے، وہ اپنے کانوں سے وہی بات سنتا اور اپنی آنکھوں سے وہی چیز دیکھتا ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے، جس چیز کو ہاتھ سے پکڑتا ہے یا پیروں سے چل کر اس کی طرف جاتا ہے تو وہی چیز ہوتی ہے جس کو شریعت نے روا رکھا ہے وہ ان کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ صرف اطاعت میں استعمال کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٩] اللہ کی نعمتیں اور انسان کی ناشکری :۔ یہاں سے پھر گذشتہ مضمون یعنی دلائل توحید کا تسلسل قائم ہو رہا ہے۔- پیدائش کے وقت انسان کا بچہ جس قدر بیخبر اور کمزور ہوتا ہے اتنا اور کسی جاندار کا بچہ بیخبر اور کمزور نہیں ہوتا۔ دوسرے سب جانداروں کے بچے پیدا ہوتے ہی راہ دیکھنے اور چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آنکھ، کان اور دل سب جانداروں کو عطا کیے ہیں۔ لیکن انسان کو اللہ نے جو کان، آنکھیں اور دل دیئے ہیں وہ اتنی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعہ انسان باقی تمام جانداروں اور دوسری مخلوق کو اپنا تابع بنا رہا ہے اور ان پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اب اس کا حق تو یہی ہے کہ جس ہستی نے اسے ایسے قابل کان، آنکھیں اور دل عطا کیے ہیں اس کا شکر بجا لائے۔ کانوں سے اللہ کا کلام سنے، آنکھوں سے کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں اور قدرتوں کو دیکھے۔ پھر دل سے غور و فکر کرے اور صانع حقیقی کی معرفت اور توحید تک پہنچے مگر افسوس ہے کہ اکثر انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی اور استعداد رکھنے کے باوجود کانوں، آنکھوں اور دلوں سے وہ کام نہیں لیا جس غرض کے لیے اللہ نے یہ نعمتیں انسان کو عطا کی تھیں۔ اپنی دنیوی اغراض کی خاطر ان سے اتنا ہی کام لیا جتنا دوسرے حیوانات لیتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ ۔۔ : اس سورت کی آیت (٦٥) (وَاللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ) سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر اور اس کے اکیلے معبود ہونے کے جو دلائل شروع ہوئے تھے وہی سلسلۂ کلام جاری ہے۔ اس آیت میں پہلا انعام ماؤں کے پیٹوں سے نکالنا ہے۔ اس سے پہلے بہت سے مراحل خود بخود اس میں آجاتے ہیں۔ نو ماہ تک پیٹ میں مکمل بچہ بنانے کے بعد اسے نکلنے کا راستہ مہیا کرنا اور ماں اور بچے دونوں کی خیریت کے ساتھ بچے کو باہر لے آنا کیا معمولی بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے اتنے بڑے احسان کے باوجود انسان کے ناشکری اور شرک اختیار کرنے پر اس کے لیے بہت سخت الفاظ استعمال فرمائے، فرمایا : (ۭقُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ 17؀ۭ مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ 18؀ۭ مِنْ نُّطْفَةٍ ۭ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ 19؀ۙثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ )[ عبس : ١٧ تا ٢٠ ] ” مارا جائے انسان وہ کس قدر ناشکرا ہے، اس نے اسے کس چیز سے پیدا کیا۔ ایک قطرے سے، اس نے اسے پیدا کیا، پس اس کا اندازہ مقرر کیا، پھر اس کے لیے (ماں کے شکم سے نکلنے کا) راستہ آسان کردیا۔ “- لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا : انسان ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو اسے کچھ علم نہیں ہوتا، پھر کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ اسے فطری طور پر سکھا دیتا ہے، مثلاً ماں کا دودھ تلاش کرلینا، اسے چوسنا، جو چیز ملے منہ میں ڈالنا وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ کھانے پینے اور زندگی قائم رکھنے کی دوسری ضروریات کے حصول کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ ہر چیز کی فطرت میں رکھ دیا ہے، ورنہ کوئی چیز زندہ نہ رہتی۔ - وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۔۔ : کان، آنکھیں اور دل اگرچہ ہر جاندار کو عطا ہوئے ہیں، مگر دوسرے تمام جاندار ان سے اتنا ہی فائدہ اٹھاتے ہیں جتنا ان کی فطرت میں ہے۔ بطخ آج سے لاکھوں سال پہلے جس طرح تیرتی تھی اب بھی اس میں کوئی تبدیلی یا ترقی نہیں ہوئی، یہی حال پرندوں کا اور چوپاؤں اور سمندری جانوروں کا ہے، درندے اور کیڑے مکوڑے بھی ایک ہی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں، جب کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیار سے بھی نوازا ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے کسی بھی چیز کو اختیار کرسکتا ہے، پھر اس کو عطا کردہ کان، آنکھیں اور دل پچھلی نسلوں کے تجربے قلم سے محفوظ رکھتے ہیں، انھیں بعد والوں تک پہنچاتے اور نئی سے نئی ایجاد میں لگے رہتے ہیں، حتیٰ کہ انسان ان کی بدولت اتنی دنیاوی ترقی کرچکا ہے کہ رہائش، سفر، کھانے پینے، غرض ہر چیز میں پہلے انسان اور آج کے انسان کی آسائشوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی طرح توانائی کے حصول میں وہ ایٹم تک پہنچ گیا ہے، جس سے وہ بربادی کا بےحساب سامان بھی تیار کرچکا ہے اور انسانی فوائد کا بھی۔ غرض اگر انسان اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں پر غور کرے تو کبھی نہ اس کے وجود کا انکار کرے، نہ اس کا کوئی شریک بنائے، نہ اس کے علاوہ کسی کو حاجت روا، مشکل کشا، داتا یا غریب نواز قرار دے کر پکارے، کیونکہ کسی نعمت میں کسی اور کا کوئی حصہ ہی نہیں اور نہ اس کی بندگی اور فرماں برداری میں کوتاہی کرے، بلکہ ہر دم اپنے دل، زبان اور ہر عضو کے ساتھ قولاً و عملاً اس کا شکر ادا کرے۔- لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ : اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ اس لیے بنایا کہ تم شکر کرو۔ یہاں اگرچہ ذکر نہیں فرمایا کہ انسان نے شکر ادا کیا یا نہیں، مگر دوسرے کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اکثر لوگ شکر نہیں کرتے، جیسے فرمایا : (وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْن) [ المؤمن : ٦١ ] ” اور لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ “ اور فرمایا : (وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْر) [ سبا : ١٣ ] ” اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر کرنے والے ہیں۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی پہچان کے لیے نہ اپنے ان کانوں سے کام لیتے ہیں، نہ آنکھوں سے اور نہ دلوں سے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- قولہ تعالیٰ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا اس میں اشارہ ہے کہ علم انسان کا ذاتی ہنر نہیں پیدائش کے وقت وہ کوئی علم وہنر نہیں رکھتا پھر ضرورت انسانی کے مطابق اس کو کچھ کچھ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاواسطہ سکھایا جاتا ہے جس میں نہ ماں باپ کا دخل ہے نہ کسی معلم کا سب سے پہلے اس کو رونا سکھایا اس کی یہی صفت اس وقت اس کی تمام ضروریات مہیا کرتی ہے بھوک پیاس لگے تو وہ روتا ہے سردی گرمی لگے تو رو دیتا ہے کوئی اور تکلیف پہنچنے تو رو دیتا ہے قدرت نے اس کی ضروریات کے لئے ماں باپ کے دلوں میں خاص الفت ڈال دی کہ جب بچے کی آواز سنیں تو وہ اس کی تکلیف کے پہچاننے اور اس کے دور کرنے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں اگر بچے کو منجانب اللہ یہ رونے کی تعلیم نہ دی جاتی تو اس کو کون یہ کام سکھا سکتا کہ جب کوئی ضرورت پیش آئے تو اس طرح چلایا کرے اس کے ساتھ ہی اس کو اللہ تعالیٰ نے الہامی طور پر یہ بھی سکھا دیا کہ اپنی غذاء کو چھاتی سے حاصل کرنے کے لئے اپنے مسوڑھوں اور ہونٹوں سے کام لے اگر یہ تعلیم فطری اور بلاواسطہ نہ ہوتی تو کس معلم کی مجال تھی جو اس نومولود کو منہ چلانا اور چھاتی کو چوسنا سکھا دیتا اسی طرح جوں جوں اس کی ضروریات بڑھتی گئیں قدرت نے اس کو بلاواسطہ ماں باپ اور دوسرے آس پاس کے آدمیوں کی بات سن کر یا کچھ چیزوں کو دیکھ کر کچھ سیکھنے لگتا ہے اور پھر ان سنی ہوئی آوازوں اور دیکھی ہوئی چیزوں کو سوچنے سمجھنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔- اسی لئے آیت مذکورہ میں لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا کے بعد فرمایا (آیت) وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ یعنی اگرچہ پیدائش میں انسان کو کسی چیز کا علم نہیں تھا مگر قدرت نے اس کے وجود میں علم حاصل کرنے کے عجیب و غریب قسم کے آلات نصب کردیئے کہ انسان کا سب سے پہلا علم اور سب سے زیادہ علم کانوں ہی کے راستہ سے آتا ہے شروع میں آنکھ تو بند ہوتی ہے مگر کان سنتے ہیں اور اس کے بعد بھی اگر غور کیا جائے تو انسان کو اپنی پوری عمر میں جس قدر معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں سب سے زیادہ کانوں سے سنی ہوئی ہوتی ہیں آنکھ سے دیکھی ہوئی معلومات اس کی نسبت سے بہت کم ہوتی ہیں - ان دونوں کے بعد نمبر ان معلومات کا ہے جن کو انسان اپنی سنی اور دیکھی ہوئی چیزوں میں غور و فکر کر کے معلوم کرتا ہے اور یہ کام قرآنی ارشادات کے مطابق انسان کے قلب کا ہے اس لئے تیسرے نمبر میں افئدۃ فرمایا جو فواد کی جمع ہے جس کے معنی قلب کے ہیں فلاسفہ نے عام طور پر سمجھ بوبھ اور ادراک کا مرکز انسان کے دماغ کو قرار دیا ہے مگر ارشاد قرآنی سے معلوم ہوا کہ دماغ کو اگرچہ اس ادراک میں دخل ضرور ہے مگر علم و ادراک کا اصلی مرکز قلب ہے۔- اس موقع پر حق تعالیٰ نے سننے دیکھنے اور سمجھنے کی قوتوں کا ذکر فرمایا ہے گویائی اور زبان کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ نطق اور گویائی کو حصول علم میں داخل نہیں بلکہ وہ اظہار علم کا ذریعہ ہیں اس کے علاوہ امام قرطبی نے فرمایا کہ لفظ سمع کے ساتھ نطق بھی ضمنا آگیا کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ جو شخص سنتا ہے وہ بولتا بھی ہے گونگا جو بولنے پر قادر نہیں وہ کانوں سے بھی بہرا ہوتا ہے اور شاید اس کے نہ بولنے کا سبب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی آواز سنتا نہیں جس کو سن کر بولنا سیکھے واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 78؀- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر :- 58-- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس - «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر :- ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن .- قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» .- وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - فأد - الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ.- ( ف ء د ) الفواد - کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔- إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٨) اور کیا اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماں کے پیٹ سے تمہیں اس حالت میں نہ نکالا کہ تمہیں اشیا میں سے کسی چیز کی بھی خبر نہ تھی اور اس نے تمہیں نیک بات سننے کے لیے کان اور نیک بات دیکھنے کے لیے آنکھیں اور امور خیر کے سمجھنے کے لیے دل عطا کیے تاکہ تم نعمت خداوندی کا شکر کرو اور اس پر ایمان لاؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ (وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا)- نوزائیدہ بچہ عقل و شعور اور سمجھ بوجھ سے بالکل عاری ہوتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کا بچہ تمام حیوانات کے بچوں سے زیادہ کمزور اور زیادہ محتاج ( ) ہوتا ہے۔- (وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ )- وَالْاَفْــِٕدَةَ کا ترجمہ عام طور پر ” دل “ کیا جاتا ہے ‘ مگر میرے نزدیک اس سے مراد عقل اور شعور ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو ان شاء اللہ سورة بنی اسرائیل کی آیت (اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً ) کے ضمن میں ہوگی۔ آیت زیر نظر میں کانوں اور آنکھوں کا ذکر انسانی حواس ( ) کے طور پر ہوا ہے اور ان حواس کا تعلق عقل (وَالْاَفْــِٕدَةَ ) کے ساتھ وہی ہے جو کمپیوٹر کے کا اس کے پراسیسنگ یونٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس طرح کمپیوٹر کا پراسیسنگ یونٹ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات ( ) کو پر اسس کر کے اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے اسی طرح حواس خمسہ سے حاصل ہونے والی معلومات سے انسانی دماغ سوچ بچار کر کے کوئی نتیجہ نکالتا ہے۔ انسان کی اسی صلاحیت کو ہم عقل کہتے ہیں اور میرے نزدیک والْاَفْــِٕدَةَ سے مراد انسان کی یہی عقل ہے۔- (لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ )- یہ تمام صلاحیتیں انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور اللہ نے یہ نعمتیں انسان کو اس لیے عطا کی ہیں کہ وہ ان پر اللہ کا شکر ادا کرے ‘ اور اس سلسلے میں اللہ کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان نعمتوں کا استعمال درست طور پر کرے اور ان سے کوئی ایسا کام نہ لے جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :72 یعنی وہ ذرائع جن سے تمہیں دنیا میں ہر طرح کی واقفیت حاصل ہوئی اور تم اس لائق ہوئے کہ دنیا کے کام چلا سکو ۔ انسان کا بچہ پیدائش کے وقت جتنا بے بس اور بے خبر ہوتا ہے اتنا کسی جانور کا نہیں ہوتا ۔ مگر یہ صرف اللہ کے دیے ہوئے ذرائع علم ( سماعت ، بینائی ، اور تعقل و تفکر ) ہی میں ہیں جن کی بدولت وہ ترقی کر کے تمام موجودات ارضی پر حکمرانی کر نے کے لائق بن جاتا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :73 یعنی اس خدا کے شکر گزار جس نے یہ بے بہا نعمتیں تم کو عطا کیں ۔ ان نعمتوں کی اس سے بڑھ کر ناشکری اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کانوں سے آدمی سب کچھ سنے مگر ایک خدا ہی کی بات نہ سنے ، ان آنکھوں سے سب کچھ دیکھے مگر ایک خدا ہی کی آیات نہ دیکھے اور اس دماغ سے سب کچھ سوچے مگر ایک یہی بات نہ سوچے کہ میرا وہ محسن کون ہے جس نے یہ انعامات مجھے دیےہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani