Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

احسانات الٰہی کی ایک جھلک قدیم اور بہت بڑے ان گنت احسانات وانعامات والا اللہ اپنی اور نعمتیں ظاہر فرما رہا ہے ۔ اسی نے بنی آدم کے رہنے سہنے آرام اور راحت حاصل کرنے کے لئے انہیں مکانات دے رکھے ہیں ۔ اسی طرح چوپائے ، جانوروں کی کھالوں کے خیمے ، ڈیرے ، تمبواس نے عطا فرما رکھے ہیں کہ سفر میں کام آئیں ، نہ لے جانا دو بھر نہ لگانا مشکل ، نہ اکھیڑنے میں کوئی تکلیف ۔ پھر بکریوں کے بال ، اونٹوں کے بال ، بھیڑوں اور دنبوں کی اون ، تجارت کے لئے مال کے طور پر اسے تمہارے لیے بنایا ہے ۔ وہ گھر کے برتنے کی چیز بھی ہے اس سے کپڑے بھی بنتے ہیں ، فرش بھی تیار ہوتے ہیں ، تجارت کے طور پر مال تجارت ہے ۔ فائدے کی چیز ہے جس سے لوگ مقررہ وقت تک سود مند ہوتے ہیں ۔ درختوں کے سائے اس نے تمہارے فائدے اور راحت کے لئے بنائے ہیں ۔ پہاڑوں پر غار قلعے وغیرہ اس نے تمہیں دے رکھے ہیں کہ ان میں پناہ حاصل کرو ۔ چھپنے اور رہنے سہنے کی جگہ بنا لو ۔ سوتی ، اونی اور بالوں کے کپڑے اس نے تمہیں دے رکھے ہیں کہ پہن کر سردی گرمی کے بچاؤ کے ساتھ ہی اپنا ستر چھپاؤ اور زیب و زینت حاصل کرو اور اس نے تمہیں زرہیں ، خود بکتر عطا فرمائے ہیں جو دشمنوں کے حملے اور لڑائی کے وقت تمہیں کام دیں ۔ اسی طرح وہ تمہیں تمہاری ضرورت کی پوری پوری نعمتیں دئیے جاتا ہے کہ تم راحت وآ رام پاؤ اور اطمینان سے اپنے منعم حقیقی کی عبادت میں لگے رہو ۔ تسلمون کی دوسری قرأت تسلمون بھی ہے ۔ یعنی تم سلامت رہو ۔ اور پہلی قرأت کے معنی تاکہ تم فرما نبردار بن جاؤ ۔ اس سورہ کا نام سورۃ النعم بھی ہے ۔ لام کے زبر والی قرأت سے یہ بھی مراد ہے کہ تم کو اس نے لڑائی میں کام آنے والی چیزیں دیں کہ تم سلامت رہو ، دشمن کے وار سے بچو ۔ بیشک جنگل اور بیابان بھی اللہ کی بڑی نعمت ہیں لیکن یہاں پہاڑوں کی نعمت اس لئے بیان کی کہ جب سے کلام ہے وہ پہاڑوں کے رہنے والے تھے تو ان کی معلومات کے مطابق ان سے کلام ہو رہا ہے اسی طرح چونکہ وہ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں والے تھے انہیں یہی نعمتیں یاد دلائیں حالانکہ ان سے بڑھ کر اللہ کی نعمتیں مخلوق کے ہاتھوں میں اور بھی بیشمار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سردی کے اتارنے کا احسان بیان فرمایا حلانکہ اس سے اور بڑے احسانات موجود ہیں ۔ لیکن یہ ان کے سامنے اور ان کی جانی پہچانی چیز تھی ۔ اسی طرح چونکہ یہ لڑنے بھڑنے والے جنگجو لوگ تھے ، لڑائی کے بچاؤ کی چیز بطور نعمت ان کے سامنے رکھی حالانکہ اس سے صدہا درجے بڑی اور نعمتیں بھی مخلوق کے ہاتھ میں موجود ہیں ۔ اسی طرح چونکہ ان کا ملک گرم تھا فرمایا کہ لباس سے تم گرمی کی تکلیف زائل کرتے ہو ورنہ کیا اس سے بہتر اس منعم حقیقی کی اور نعمتیں بندوں کے پاس نہیں ؟ اسی لئے ان نعمتوں اور رحمتوں کے اظہار کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اگر اب بھی یہ لوگ میری عبادت اور توحید کے اور میرے بےپایاں احسانوں کے قائل نہ ہوں تو تجھے ان کی ایسی پڑی ہے ؟ چھوڑ دے اپنے کام میں لگ جا تجھ پر تو صرف تبلیغ ہی ہے وہ کئے جا ۔ یہ خود جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نعمتوں کا دینے والا ہے اور اس کی بیشمار نعمتیں ان کے ہاتھوں میں ہیں لیکن باوجود علم کے منکر ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کر تے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ مددگار فلاں ہے رزق دینے والا فلاں ہے ، یہ اکثر لوگ کافر ہیں ، اللہ کے ناشکرے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، آپ نے اس آیت کی تلاوت اس نے تمہیں چوپایوں کی کھالوں کے خیمے دئیے اس نے کہا یہ بھی سچ ہے ، اسی طرح آپ ان آیتوں کو پڑھتے گئے اور وہ ہر ایک نعمت کا اقرار کرتا رہا آخر میں آپ نے پڑھا اس لئے کہ تم مسلمان اور مطیع ہو جاؤ اس وقت وہ پیٹھ پھیر کر چل دیا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آخری آیت اتاری کہ اقرار کے بعد انکار کر کے کافر ہو جاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 یعنی چمڑے کے خیمے، جنہیں تم سفر میں آسانی کے ساتھ اٹھائے پھرتے ہو، اور جہاں ضرورت پڑتی ہے اسے تان کر موسم کی شدتوں سے اپنے کو محفوط کرلیتے ہو۔ 80۔ 2 اَ صْوَاف، صُوْف، کی جمع۔ بھیڑ کی اون اَوْبَار، وَبَر، کی جمع، اونٹ کے بال، اَشْعَار، شَعَر، کی جمع، دنبے اور بکری کے بال۔ ان سے کئی قسم کی چیزیں تیار ہوتی ہیں، جن سے انسان کو مال بھی حاصل ہوتا ہے اور ان سے ایک وقت تک فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٢] خارجی اثرات سے انسان کو بچانے والی اشیاء :۔ ان آیات میں اللہ کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جو انسان کو خارجی اثرات مثلاً دھوپ، گرمی، سردی، بارش وغیرہ سے محفوظ رکھتی ہیں۔ ان نعمتوں میں سب سے پہلے ان گھروں کا ذکر جنہیں لوگ آبادیوں میں اپنی رہائش کے لیے بناتے ہیں۔ جو مٹی، اینٹ، پتھر، گارا اور لکڑی وغیرہ سے تیار ہوتے ہیں اور یہ سب چیزیں زمین سے حاصل ہوتی ہیں جسے اللہ نے انسان کی پیدائش سے مدتوں پہلے پیدا کردیا تھا۔ پھر ان خانہ بدوشوں کے گھروں کا ذکر فرمایا جو پہلی قسم کے گھروں کی نسبت بہت ہلکے پھلکے اور قابل انتقال ہوتے تھے اور یہ وہ خیمے ہیں جو مویشیوں کے چمڑوں یا موٹے ریشوں سے بنتے ہیں اور یہ مویشی اور ہر قسم کے نباتاتی ریشے، جانوروں کے بال اور اون سب کچھ اللہ کی پیدا کردہ چیزیں ہیں۔ پھر چند قدرتی چیزوں مثلاً سایوں کا ذکر فرمایا جہاں انسان دھوپ سے پناہ لے سکتا ہے، پھر پہاڑوں کی کمین گاہوں کا، جو انسان کو ایک قدرتی گھر کا کام دیتی ہیں۔ ان کا مزید فائدہ یہ بھی ہے کہ ان میں انسان اپنے دشمنوں سے بھی پناہ لے سکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا : ” بُیُوْتٌ“ ” بَیْتٌ“ کی جمع ہے۔ قرطبی (رض) نے فرمایا، جو تمہارے اوپر ہو، سایہ کر رہی ہو اسے سقف، چھت اور سماء کہتے ہیں، جو نیچے ہو اسے ارض کہتے ہیں اور جو چاروں طرف سے تمہارے لیے پردہ کر رہی ہو اسے جدار (دیوار) کہتے ہیں اور جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ترتیب کے ساتھ منظم ہوجائیں تو وہ بیت (گھر) ہے۔ ” سَكَنًا “ مصدر ہے، اس کا معنی کسی جگہ میں رہنا بھی ہے، جیسے فرمایا : (اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ) [ الطلاق : ٦ ] ” انھیں (یعنی مطلقہ بیویوں کو) وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق۔ “ اس کا معنی سکون اور راحت بھی ہے، جیسے فرمایا : ( وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ) [ الأعراف : ١٨٩ ] ” اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جا کر) سکون حاصل کرے۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رہائش کے متعلق اپنی کئی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گھر میں رہنے کی قدر اور اس میں آ کر ملنے والی راحت، عافیت اور سکون کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کے پاس گھر نہ ہو۔ اس آیت سے مکان کی قدر و قیمت اور اس نعمت کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ گھر جسمانی اور نفسیاتی سکون کی جگہ ہے۔ اسلام گھر کو سکون کی جگہ دیکھنا چاہتا ہے نہ کہ باہمی جھگڑے اور اختلاف کی، کیونکہ یہ ” گھر “ کی حکمت اور مقصد کے خلاف ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے گھر کی حرمت رکھی۔ فرمایا کہ بلا اجازت کوئی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہو، حتیٰ کہ جھانکنے سے بھی منع فرمایا اور تجسس سے بھی۔ گھر کی حرمت سورة نور (٢٧ تا ٢٩ اور ٥٨، ٥٩) میں دیکھیں۔ علاوہ ازیں سورة احزاب کی آیت (٥٣) بھی ملاحظہ فرما لیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلسَّفَرُ قِطْعَۃٌ مِّنَ الْعَذَابِ ، یَمْنَعُ أَحَدَکُْمْ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ وَنَوْمَہٗ ، فَإِذَا قَضَی نَھْمَتَہُ فَلْیُعَجِّلْْ إِلٰی أَہْلِہِ ) [ بخاری، العمرۃ، باب السفر قطعۃ من العذاب : ١٨٠٤، عن أبي ہریرہ (رض) ]” سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے جو تمہارے ایک کو اس کے کھانے اور پینے اور اس کی نیند سے روک لیتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی شخص اپنی حاجت پوری کرلے تو جلدی اپنے گھر آجائے۔ “ - وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُيُوْتًا : اگرچہ گھر کوئی بھی ہو بڑی نعمت ہے، مگر اینٹوں، پتھروں کا گھر بنانے میں نعمت ہونے کے باوجود مشقت، بوجھ اور خرچ زیادہ ہے، سب سے پہلے زمین حاصل کرنا، اینٹیں، پتھر، مصالحہ، مٹی، لکڑی، لوہا، غرض سب کچھ مہیا کرنا، پھر مستریوں کے ناز اٹھانا، سارے مراحل مشکل ہیں، پھر وہ مکان کہیں منتقل نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا انعام دیکھیے کہ اس نے ہماری آسانی کے لیے جانوروں کے چمڑوں سے خیمے بنا دیے، چند لکڑیاں اور رسیاں اور بنا بنایا مکمل گھر، جہاں چاہا میخیں ٹھونک کر رسیاں باندھ کر خیمہ بنا لیا، اسی چمڑے کی قناتیں کھڑی کرکے چار دیواری بنا لی۔ پھر جب چاہا اکھاڑ کر تہ کرکے ساتھ رکھ لیا اور اگلی منزل پر روانہ ہوگئے۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان سے بھی ہلکے پلاسٹک اور المونیم کے خیمے عطا فرما دیے۔- تَسْتَخِفُّوْنَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ اِقَامَتِكُمْ ۔۔ : ” تَسْتَخِفُّوْنَهَا “ ” خَفَّ یَخِفُّ “ سے باب استفعال جمع مذکر حاضر ہے۔ ” يَوْمَ ظَعْنِكُمْ “ یہاں ” يَوْمَ “ سے مراد وقت ہے۔ ” أَصْوَافٌ“ ” صُوْفٌ“ کی جمع ہے، بھیڑ کی اون۔ ” أَوْبَارٌ“ ” وَبَرٌ“ کی جمع، اونٹ کی پشم۔ ” أَشْعَارٌ“ ” شَعْرٌ“ کی جمع ہے، بکریوں کے بال۔ ” اَثَاثًا “ گھر کا سازو سامان جو بہت ہو۔ ” أَثَّ یَؤُثُّ “ (ن) جب کوئی چیز بہت اور گھنی ہو۔ امرء القیس نے بالوں کی چوٹی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے ؂- وَ فَرْعٍ یَزِیْنُ الْمَتْنَ أَسْوَدَ فَاحِمٍ- أَثِیْثٍ کَقِنْوِ النَّخْلَۃِ الْمُتَعَثْکِلِ- ” أَثِیْثٍ “ یعنی گھنے، ” مَتَاعًا “ گھر کی ضرورت کی خاص چیزیں جن سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ” اَثَاثًا “ میں ” مَتَاعًا “ بھی داخل ہے، مگر اس کی اہمیت کی بنا پر الگ بھی ذکر فرمایا۔ ” اِلٰى حِيْنٍ “ ایک وقت تک، یعنی جو اللہ تعالیٰ نے طے کر رکھا ہے، مثلاً نیا سامان آنے تک، یا اس کے پرانا ہونے تک، یا دنیا سے رخصت ہونے تک۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا بیوت بیت کی جمع ہے جس مکان میں رات گذاری جاسکے اس کو بیت کہتے ہیں امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا۔- کل ماعلاک فاظلک فہو سقف وسمآء وکل ماقللک فہو ارض وکل ما سترک من جھاتک الاربع فھوجدار فاذا انتظمت واتصلت فہو بیت جو چیز تمہارے سر سے بلند ہو اور تم پر سایہ کرے وہ چھت یا سما کہلاتی ہے اور جو چیز تمہارے وجود کو اپنے اوپر اٹھائے وہ زمین ہے اور جو چیز چاروں طرف سے تمہارا پردہ کر دے وہ دیواریں ہیں اور جب یہ سب چیزیں جمع ہوجائیں تو وہ بیت ہے۔- گھر بنانے کا اصل مقصد قلب وجسم کا سکون ہے :- اس میں حق تعالیٰ نے انسان کے بیت یعنی گھر کو سکن فرما کر گھر بنانے کا فلسفہ اور حکمت واضح فرما دی کہ اس کا اصل مقصد جسم اور قلب کا سکون ہے عادۃ انسان کا کسب وعمل گھر سے باہر ہوتا ہے جو اس کی حرکت سے وجود میں آتا ہے اس کے گھر کا اصلی منشاء یہ ہے کہ جب حرکت و عمل سے تھک جائے تو اس میں جا کر آرام کرے اور سکون حاصل کرے اگرچہ بعض اوقات انسان اپنے گھر میں بھی حرکت وعمل میں مشغول رہتا ہے مگر یہ عادۃ کم ہے۔- اس کے علاوہ سکون اصل میں قلب و دماغ کا سکون ہے وہ انسان کو اپنے گھر میں ہی حاصل ہوتا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ انسان کے مکان کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ اس میں سکون ملے آج کی دنیا میں تعمیرات کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے اور ان میں ظاہری ٹیپ ٹاپ پر بےحد خرچ بھی کیا جاتا ہے لیکن ان میں ایسے مکانات بہت کم ہیں جن میں قلب اور جسم کا سکون حاصل ہو بعض اوقات تو مصنوعی تکلفات خود ہی آرام و سکون کو برباد کردیتے ہیں اور وہ بھی نہ ہو تو گھر میں جن لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے وہ اس سکون کو ختم کردیتے ہیں ایسے عالی شان مکانات سے وہ جگہ اور جھونپڑی اچھی ہے جس کے رہنے والے کے قلب وجسم کو سکون حاصل رہا ہو۔ - قرآن کریم ہر چیز کی روح اور اصل کو بیان کرتا ہے انسان کے گھر کا اصل مقصد اور سب سے بڑی غرض وغایت سکون کو قرار دیا اسی طرح ازدواجی زندگی کا اصل مقصد بھی سکون قرار دیا ہے لِتَسْكُنُوْا اِلَیھَا جس ازدواجی زندگی سے یہ مقصد حاصل نہ ہو وہ اس کے اصل فائدے سے محروم ہے آج کی دنیا میں ان چیزوں میں رسمی اور غیر رسمی تکلفات اور ظاہری ٹیپ ٹاپ کی حد نہیں رہی اور مغربی تمدن و معاشرت نے ان چیزوں میں ظاہری زیب وزینت کے سارے سامان جمع کردیئے مگر سکون قلب وجسم سے قطعا محروم کر ڈالا۔- قولہ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَام وقولہ مِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا سے ثابت ہوا کہ جانوروں کی کھال اور بال اور اون سب کا استعمال انسان کے لئے حلال ہے اس میں یہ بھی قید نہیں کہ جانور مذبوح ہو یا مردار اور نہ یہ قید ہے کہ اس کا گوشت حلال ہے یا حرام ان سب قسم کے جانوروں کی کھال دباغت دے کر استعمال کرنا حلال ہے اور بال اور اون پر تو جانور کی موت کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا وہ بغیر کسی خاص صنعت کے حلال اور جائز ہے امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے البتہ خنزیر کی کھال اور اس کے تمام اجزاء ہر حال میں نجس اور ناقابل انتفاع ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُيُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ اِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ 80؀- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- جلد - الجِلْد : قشر البدن، وجمعه جُلُود . قال اللہ تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء 56] ، وقوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] .- والجُلُود عبارة عن الأبدان، والقلوب عن النفوس . وقوله عزّ وجل : حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت 20] ، وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، فقد قيل : الجلود هاهنا کناية عن الفروج «2» ، وجلَدَهُ : ضرب جلده، نحو : بطنه وظهره، أو ضربه بالجلد، نحو : عصاه إذا ضربه بالعصا، وقال تعالی: فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور 4] .- والجَلَد :- الجلد المنزوع عن الحوار، وقد جَلُدَ جَلَداً فهو جَلْدٌ وجَلِيد، أي : قويّ ، وأصله لاکتساب الجلد قوّة، ويقال : ما له معقول ولا مَجْلُود أي : عقل وجَلَد .- وأرض جَلْدَة تشبيها بذلک، وکذا ناقة جلدة، وجَلَّدْتُ كذا، أي : جعلت له جلدا . وفرس مُجَلَّد : لا يفزع من الضرب، وإنما هو تشبيه بالمجلّد الذي لا يلحقه من الضرب ألم، والجَلِيد : الصقیع، تشبيها بالجلد في الصلابة .- ( ج ل د ) الجلد - کے معنی بدن کی کھال کے ہیں اس کی جمع جلود آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء 56] جب ان کی کھالیں گل ( اور جل ) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] اور خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب ) جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دہرائی جاتی رہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے اس سے رونکتے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) کی یاد کی طرف ( متوجہ ) ہوجاتے ہیں ۔ میں جلود سے مراد ابدان اور قلوب سے مراد نفوس ہیں اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت 20] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کان اور آنکھیں اور چمڑے ( یعنی دوسرے اعضا ) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے چمڑوں ( یعنی اعظا ) سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں کیوں شہادت دی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جلود سے فروج یعنی شرمگاہ ہیں مراد ہیں ۔ - جلدۃ ( ض ) کیس کے چمڑے پر مارنا ۔ جیسے اور اس کے دوسرے معنی درے لگانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے عصاہ ( یعنی لاٹھی کے ساتھ مارنا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور 4] تو ان کے اسی اور سے مارو ۔ الجلد والجلد اونٹنی کے بچہ کی بھس بھری ہوئی کھال ۔ جلد ( ک ) جلدا کے معنی قوی ہونے کے ہیں صیغہ صفت جلدۃ وجلدۃ ہے اور اس کے اصل معنی اکتساب الجلدۃ قوۃ یعنی بدن میں قوت حاصل کرنے گے ہیں ۔ محاورہ ہے ؟ ۔ مالہ معقول ولا مجلود اس میں نہ عقل ہے نہ قوت ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت کو اوض جلدۃ کہا جاتا ہے اس طرح قوی اونٹنی کو ناقۃ جلدۃ کہتے ہیں ۔ جلذت کذا میں نے اس کی جلد باندھی ۔ فرس مجلہ مار سے نہ ڈرونے والا گھوڑا یہ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ مجلد اس شخص کو کہتے ہیں جسے مارنے سے دور نہ ہو الجلید پالا یخ گویا صلابت میں چمڑے کے متشابہ ۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- خفیف - الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل .- والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان،- نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد .- الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس،- و ثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی:- الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86]- ( خ ف ف ) الخفیف - ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں - ظعن - يقال : ظَعَنَ يَظْعَنُ ظَعْناً : إذا شخص . قال تعالی: يَوْمَ ظَعْنِكُمْ [ النحل 80] ، والظَّعِينَةُ : الهودج إذا کان فيه المرأة، وقد يكنّى به عن المرأة وإن لم تکن في الهودج .- ( ظ ع ن ) ظعن - ( ف ) یظعن ظعنا کے معنی کوچ کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ ظَعْنِكُمْ [ النحل 80] سفر کے دن ۔ اور ظعینۃ اس ہودج کو کہتے ہیں جس میں عورت سوار ہو اور کبھی یہ لفط کنایہ عورت کے لئے بولا جاتا ہے خواہ وہ ہو وج میں نہ ہو ۔ صوف - قال تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها أَثاثاً وَمَتاعاً إِلى حِينٍ [ النحل 80] ، وأخذ بِصُوفَةِ قفاه، أي : بشعره النابت، وکبش صَافٍ ، وأَصْوَفُ ، وصَائِفٌ: كثيرُ الصُّوفِ.- والصُّوفَةُ «5» : قومٌ کانوا يخدمون الکعبة، فقیل : سمّوا بذلک لأنّهم تشبّكوا بها کتشبّك الصُّوفِ بما نبت عليه، والصُّوفَانُ : نبت أزغب . والصُّوفِيُّ قيل : منسوب إلى لبسه الصُّوفَ ، وقیل : منسوب إلى الصُّوفَةِ الذین کانوا يخدمون الکعبة لاشتغالهم بالعبادة، وقیل : منسوب إلى الصُّوفَانِ الذي هو نبت، لاقتصادهم واقتصارهم في الطّعم علی ما يجري مجری الصُّوفَانِ في قلّة الغناء في الغذاء .- ( ص و ف ) الصواف - ( اون ) کی جمع اصواف آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها أَثاثاً وَمَتاعاً إِلى حِينٍ [ النحل 80] اور ان کی اون اور یہ پشم اور بالوں سے تم سامان اور دیگر مفید چیزیں ( بناتے ہو جو ) مدت تک کام دیتی ہیں ۔ اخذ بصوفۃ قفاۃ اسے گدی کے بالوں سے پکڑ لیا ۔ کبش صاف واصوف وصائف بہت اون والا مینڈ ھا اور خانہ کعبہ کے خدام کو بھی صوفۃ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ کعبہ کے ساتھ اس طرح چمٹے رہتے تھے جیسے بھیڑ پروان جمی رہتی ہے ۔ الصوفان ایک قسم کی گھاس جو چھوٹی سی ہوتی ہے بعض نے کہا ہے کہ لفظ صوفی بھی صوف کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ لوگ اون کا لباس پہنا کرتے تھے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صوفۃ کیطرف منسوب ہے جس کے معنی خدام کعبہ کے ہیں صوفی لوگ بھی چونکہ ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے تھے اس لئے انہیں صوفی کہدیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کہ صوفی صؤفان کی طرف منسوب ہے جس کے معنے نو زائید ہ گھاس کے ہیں اور صوفی لوگ بھی چونکہ زبد سے کام لیتے ۔ اور معمولی سی غذا کھاتے تھے جو عدم کفایت میں صوفان گھاس کی مثل ہوتی تھی ۔- وبر - الوَبَرُ معروف، وجمعه : أَوْبَارٌ. قال تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها - [ النحل 80] وقیل : سكّان الوبر لمن بيوتهم من الوبر، وبنات أَوْبَرَ للکمء الصّغار التي عليها مثل الوبر، ووَبَّرَتِ الأرنبُ : غطّت بالوبر الذي علی زمعاتها «1» أثرها، ووَبَّرَ الرّجل في منزله : أقام فيه تشبيها بالوبر الملقی، نحو : تلبّد بمکان کذا : ثبت فيه ثبوت اللّبد، ووبارِ قيل : أرض کانت لعاد .- ( و ب ر ) الوبر - کے معنی اون کے ہیں اس کی جمع اوبار ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها[ النحل 80] اور ان کے اون اور یشم ہے ۔ اور جو لوگ پشم کے خیموں میں زندگی بسر کرتے ہیں انہیں سکان الوبر ربا د یہ نشین کہا جاتا ہے ۔ بنات اوبر ۔ روی قسم کے لگر متے جن پر بیری کی طرح کا مادہ ہوتا ہے ۔ چھوٹی اور ردی قسم کی سانپ کی چھتری ۔ وبرت الا رنب خرگوش کا اپنے پاء ں کے پچھلے حصہ کے لٹکے ہوئے بالوں سے اپنے قدموں کے نشانات کو مٹانا ۔ وبرجل فی منزلہ اپنے مکان سے باہر نہ نکلنا ۔ یہ دبر یعنی پشم کے ساتھ تشبیہ دے کر کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے گھر کے اندر پشم کی طرح پڑا ہوا ہے جیسا کہ تلبید بمکان کذا کا محاورہ ہے یعنی وہ اپنے مکان کا لببدہ بنا ہوا ہے ۔ لابار ۔ بعض نے کہا ہے کہ قوم عاد کے ایک علاقہ کا نام ہے ۔- شعر ( بال)- الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] - ( ش ع ر )- الشعرا بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] اون اور یشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔- أث - الأثاث : متاع البیت الکثير، وأصله من : أثّ أي : كثر وتکاثف . وقیل للمال کلّه إذا کثر : أثاث، ولا واحد له، کالمتاع، وجمعه أثاث ونساء أثایث : كثيرات للحمل، كأنّ عليهن أثاثاً ، وتأثّث فلان : أصاب أثاثاً.- ( ا ث ث ) الاثاث ۔- و افررخت خانہ اصل میں یہ اث ( ن ) سے مشتق ہے کس کے معنی زیادہ اور گنجان ہونا کے ہیں ۔ پھر یہ لفظ ( اثاث ) ہر قسم کے فراواں مال پر بولاجانے لگا ہے اور متاع کی طرح اس کا بھی واحد نہیں آتا اس کی جمع اثاث ( بکسرالمزہ ) ہے ۔ نساء اثائث ۔ پر گوشت عورتیں گویا گوشت ان پر و افر سامان کی طرح چڑھا ہوا ہے تاثت فلان ۔ فلاں بہت زیادہ مالدار ہوگیا قرآن میں ہے :۔ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِئْيًا [ مریم : 74] و سازو سامان میں زیادہ تھے اور خوش منظر بھی أَثَاثًا وَمَتَاعًا [ النحل : 80] یعنی سازو سامان ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جانوروں کی اون اور بال حلال ہیں - قول باری ہے (ومن اصوافھا واوبارھا و اشعارھا اثا شاومت عا الی حین۔ اس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لئے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کردیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں) جانور کی موت کے بعد اس کے جسم سے حاصل کردہ مذکورہ چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے جواز پر آیت میں دلالت موجود ہے اس لئے کہ جانور کی موت سے پہلے اور موت کے بعد اس سے ان چیزوں کو حاصل کرنے کے مابین کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٠) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حالت حضر میں تمہارے گھروں میں رہنے کی جگہ بنائی اور حالت سفر میں جانوروں کی کھالوں اور ان کی اون اور بالوں کے تمہارے لیے خیمے اور شامیانے بنائے جن کے بوجھ کو تم اپنے سفر کے دن اور اپنے ٹھہرنے کے دن ہلکا پھلکا پاتے ہو (اور مثلا) بکریوں کی اون اونٹوں کے روؤں اور دنبوں کے بالوں سے تمہارے گھر کے سامان نفع کی چیزیں ایک مدت یعنی ختم ہونے اور پرانے ہونے تک کے لیے بنائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُيُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ اِقَامَتِكُمْ )- جانوروں کی کھالوں سے بنائے گئے خیمے بہت ہلکے پھلکے ہوتے ہیں۔ چناچہ دوران سفر بھی انہیں اٹھانا آسان ہوتا ہے اور اسی طرح جب اور جہاں چاہیں انہیں آسانی سے گاڑ کر آرام دہ قیام گاہ بنائی جاسکتی ہے۔- (وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ )- قبل ازیں آیت 5 میں جانوروں کے بالوں کی افادیت کے حوالے سے ” دِفْ ءٌ“ کا لفظ استعمال ہوا تھا ‘ جس میں سردی کی شدت سے بچنے کے لیے کپڑا تیار کرنے کی طرف اشارہ تھا۔ یہاں اس سلسلے میں وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ مختلف جانوروں کی اون اور ان کے بالوں کی صورت میں اللہ نے تمہارے لیے قدرتی ریشہ ( ) پیدا کردیا ہے جس سے تم لوگ کپڑے بنتے ہو اور دوسری بہت سی مفید اشیاء بناتے ہو۔ ایک مدت تک انسان کے پاس کپڑا بنانے کے لیے جانوروں سے حاصل ہونے والے اس ریشے کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ کپاس کی دریافت بہت بعد میں ہوئی۔ موجودہ زمانے میں اس مقصد کے لیے اگرچہ مصنوعی ریشے کی رنگا رنگ اقسام موجود ہیں مگر اس قدرتی ریشے کی اہمیت و افادیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :74 یعنی چمڑے کے خیمے جن کا رواج عرب میں بہت ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :75 یعنی آپ کوچ کرنا چاہتے ہو تو انہیں آسانی سے تہ کر کے اٹھا لےجاتے ہو اور جب قیام کرنا چاہتے ہو تو آسانی سے ان کو کھول کر ڈیرا جما لیتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: ان گھروں سے مراد وہ خیمے ہیں جو چمڑے سے بنائے جاتے ہیں، اور عرب کے لوگ انہیں سفر میں ساتھ لے جاتے تھے تاکہ جہاں چاہیں، انہیں نصب کر کے پڑاؤ ڈال لیں۔