Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 یعنی درخت جن سے سایہ حاصل کیا جاتا ہے۔ 81۔ 2 یعنی اون اور روئی کے کرتے جو عام پہننے میں آتے ہیں اور لوہے کی زرہیں اور خود جو جنگوں میں پہنی جاتی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٣] گرمی سردی سے بچاؤ کے لئے کپڑے :۔ انسان کو سردی سے بچنے کے لیے بھی لباس کی ایسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے گرمی سے بچنے کے لیے اور جو لباس گرمی سے بچاتا ہے وہ سردی سے بھی بچاتا ہے اور یہاں جو بالخصوص گرمی سے بچانے کا ذکر فرمایا تو اس لیے اہل عرب سردی کے موسم سے ناآشنا تھے وہاں عموماً موسم گرم ہی رہتا ہے۔ بالخصوص مکہ میں، جہاں یہ سورت نازل ہوئی، ٹھنڈا موسم ہوتا ہی نہیں۔ وہاں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کبھی کم گرمی کا موسم ہوتا ہے اور کبھی شدید گرمی کا۔- [٨٤] ( لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ ) النحل :81) کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے اور دوسرا یہ ہے کہ لباس اس لیے بنائے کہ تم گرمی کی لو سے محفوظ رہو اور جنگی لباس یا زرہ بکتر وغیرہ اس لیے بنائے کہ تم دوران جنگ زخمی ہونے سے محفوظ رہ سکو۔ اور اتمام نعمت سے مراد یہاں انسان کی جملہ ضروریات کی تکمیل ہے۔ جن میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لہذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے منعم حقیقی کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردے اور اس کا فرمانبردار بن کر رہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا ۔۔ : ” ظِلٰلًا “ ” ظِلٌّ“ کی جمع ہے، سائے۔ ” اَكْنَانًا “ اور ” اَکِنَّۃٌ“ دونوں ” کِنٌّ“ کی جمع ہیں، چھپاؤ کی جگہ یا چیز، جیسا کہ فرمایا : (وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ ) [ حٰآ السجدۃ : ٥ ] ” اور انھوں نے کہا ہمارے دل پردے میں ہیں۔ “ ” سَرَابِیْل “ ” سِرْبَالٌ“ کی جمع ہے، قمیص یا جو لباس بھی پہنا جائے۔ ” تَقِيْكُمْ “ ” وَقٰی یَقِيْ “ سے مضارع معلوم واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ فاعل اس کا ضمیر جمع ہے، اس لیے واحد مؤنث ہے۔ چوپاؤں، مکانوں اور خیموں کے بعد گھر سے باہر سردی گرمی اور دشمن سے بچاؤ کرنے والی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے جن کے پاس مکان یا خیمہ نہیں، یا وہ سفر میں ہیں تو گرمی وغیرہ سے بچاؤ کے لیے مختلف سایوں کا ذکر کیا، مثلاً درختوں کا سایہ، مکانوں، دیواروں اور پہاڑوں کا سایہ، آبادیوں کا سایہ، چھتریوں کا سایہ، غرض یہی سائے گرمی سردی اور بارش سے بچانے کے کام آتے ہیں۔ - وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا : اس میں پہاڑوں کی قدرتی غاریں، کھود کر بنائے ہوئے مکان اور پہاڑوں میں کھود کر بنائی ہوئی لمبی سرنگیں، جن میں فوجی سامان، اسلحہ، جہاز اور فوج محفوظ رکھی جاتی ہے، سب شامل ہیں۔ - وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرَّ : وہ لباس جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں، بعض اہل علم نے فرمایا کہ قرآن کے اولین مخاطب عرب تھے، وہاں گرمی زیادہ تھی، اس لیے صرف گرمی سے بچانے والے لباس ذکر فرمائے۔ مگر اکثر مفسرین نے فرمایا کہ گرمی کا ذکر کافی سمجھ کر سردی کا الگ ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ لباس گرمی سے بچاتا ہے تو سردی سے بھی بچاتا ہے۔ رہا عرب میں گرمی کا زیادہ ہونا تو اسی سورت کے شروع میں جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ ) [ النحل : ٥ ]” تمہارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کا سامان ہے۔ “ معلوم ہوا عربوں کو بھی سردی سے بچنے کی ضرورت تھی، اس لیے یہ بات زیادہ قوی ہے کہ قرآن مجید نے صرف گرمی کا ذکر کرکے سردی سے بچانے کی نعمت پر غور کرنا سننے والوں پر چھوڑ دیا، یا سورت کے شروع میں ” وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ “ (تمھارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کا سامان ہے) میں سردی سے بچاؤ کا ذکر پہلے ہو چکنے کی وجہ سے یہاں ذکر نہیں فرمایا۔ ” وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ “ اس میں زرہ، خود، بلٹ پروف (گولی سے محفوظ) جیکٹیں، گاڑیاں اور ٹینک وغیرہ سب شامل ہیں۔- لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ : یعنی تاکہ تم فرماں بردار اور اللہ تعالیٰ کے تابع بن جاؤ، اس لیے کہ جو شخص ان بےپایاں نعمتوں پر غور کرے گا ضروری ہے کہ وہ ایمان لا کر اس کی اطاعت اختیار کرے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرّ ۔ یہاں انسان کو کرتے کی غرض گرمی سے بچانے کو فرمایا ہے حالانکہ کرتہ انسان کو گرمی اور سردی دونوں سے بچاتا ہے اس کا ایک جواب تو امام قرطبی اور دوسرے مفسرین نے یہ دیا ہے کہ قرآن حکیم عربی زبان میں آیا ہے اس کے اولین مخاطب عرب ہیں اس لئے اس میں عرب کی عادات و ضروریات کا لحاظ رکھ کر کلام کیا گیا ہے عرب ایک گرم ملک ہے وہاں برف باری اور سردی کا تصور ہی مشکل ہے اس لئے گرمی سے بچانے کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا حضرت تھانوی نے بیان القرآن میں فرمایا کہ قرآن کریم نے اسی سورة کے شروع میں لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ فرما کر لباس کے ذریعہ سردی سے بچنے اور گرمی حاصل کرنے کا ذکر پہلے کردیا تھا اس لئے یہاں صرف گرمی دفع کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرَّ وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ۭكَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ 81؀- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- كن - الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ- [ الصافات 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] .- وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] . والکِنَانُ :- الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ.- نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ- [ الواقعة 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة .- ( ک ن ن ) الکن - ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ - الکنان ۔- پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔- سربل - السِّرْبَالُ : القمیص من أيّ جنس کان، قال : سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ، سَرابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ [ النحل 81] ، أي : تقي بعضکم من بأس بعض .- ( س ر ب ل ) السربال - ۔ کرتہ ۔ قمیص خواہ کسی چیز سے بنی ہوئی ہو جیسے فرمایا : سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ان کے کرتے گندھک کے ہوں گے ۔ سَرابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ [ النحل 81] اور تمہارے ( آرام کے ) واسطے کرتے بنائے جو تم گرمی سے بچائیں اور کرتے یعنی زر ہیں جو تم کو ( اسلحہ ) جنگ ( کے ضر) سے محفوظ رکھیں ۔ تو باسکم سے مراد یہ ہے کہ تمہیں ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ رکھتے ہیں ۔- حر - الحرارة ضدّ البرودة، وذلک ضربان :- حرارة عارضة في الهواء من الأجسام المحميّة، کحرارة الشمس والنار .- وحرارة عارضة في البدن من الطبیعة، کحرارة المحموم . يقال : حَرَّ يومُنا والریح يَحِرُّ حرّاً وحرارةوحُرَّ يومنا فهو محرور، وکذا :- حرّ الرّجل، قال تعالی: لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ : نارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا[ التوبة 81] ، والحَرور : الریح الحارّة، قال تعالی: وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ [ فاطر 21] ، واستحرّ القیظ : اشتدّ حرّه، والحَرَر : يبس عارض في الکبد من العطش .- ( ح رر ) الحرارۃ - یہ برودۃ کی ضد ہے اور حرارت دوقسم پر ہے ( ا) وہ حرارت جو گرم اجسام سے نکل کر ہوا میں پھیل جاتی ہے جیسے سورج اور آگ کی گرمی (2) وہ حرارت جو عوارض طبیعہ سے بدن میں پیدا ہوجاتی ہے ۔ جیسے محموم ( بخار زدہ ) کے بدن کا گرم ہونا کہا جاتا ہے ۔ حر ( س ) حرارۃ الیوم اوالریح دن یا ہوا گرم ہوگئی ۔ ایسے دن کو محرورُ کہا جاتا ہے اسی طرح حررجل کا محاورہ ہے قرآن میں ہے : لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ : نارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا[ التوبة 81] کہ گرمی میں مت نکلنا ( ان سے ) کہہ دو کہ دوذخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے ۔ الحرور گرم ہوا ۔ لو ۔ ارشاد : وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ [ فاطر 21] اور نہ ایسا یہ اور نہ دھوپ کی تپش ۔ استحر القیظ گرمی سخت ہوگئی ۔ الحررُ یبوست جو شدت پیاس کی وجہ سے جگر میں پیدا ہوجاتی ہے ۔- تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] - ( ت م م )- تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨١) اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے درختوں، پہاڑوں اور دیواروں کے سائے بنائے، جن سے گرمی میں اپنی حفاظت کرتے ہو اور تمہارے لیے پہاڑوں میں پناہ کے مقامات اور غار بنائے اور تمہارے لیے ایسے کرتے بنائے جو گرمی سے گرمی میں اور سردی سے سردی میں تمہارے حفاظت کرتے ہیں۔- اور زرہیں بنائیں جو تمہارے دشمن کے ہتھیار لگنے سے حفاظت کرتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے، اگر تم اس کا اقرار کرکے اس کے فرمانبردار ہوجاؤ یا یہ کہ ان زر ہوں کی وجہ سے زخم لگنے سے محفوظ رہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا)- اللہ نے درختوں اور بہت سی دوسری چیزوں سے سائے کا نظام وضع فرمایا ہے جو انسانی زندگی کے لیے بہت مفید ہے۔- (وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا)- پہاڑوں کے اندر قدرتی غاریں پائی جاتی ہیں جن میں لوگ طوفانی ہواؤں وغیرہ کی شدت سے بچنے کے لیے پناہ لے سکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو اس حوالے سے ان غاروں کی بہت اہمیت تھی۔- (كَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ )- جیسا کہ قبل ازیں بھی اشارہ کیا گیا ہے اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر کی تکرار بہت زیادہ ہے۔ (مزید ملاحظہ ہوں آیات ١٨ ‘ ٣٥ ‘ ٧١ ‘ ٧٢ ‘ ٨٣ اور ١١٤) ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :76 سردی سے بچانے کا ذکر یا تو اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ گرمی میں کپڑوں کا استعمال انسانی تمدن کا تکمیلی درجہ ہے اور درجہ ٔ کمال کا ذکر کر دینے کے بعد ابتدائی درجات کے ذکر کی حاجت نہیں رہتی ، یا پھر اسے خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں نہایت مہلک قسم کی باد سموم چلتی ہے وہاں سردی کے لباس سے بھی بڑھ کر گرمی کا لباس اہمیت رکھتا ہے ۔ ایسے ممالک میں اگر آدمی سر ، گردن ، کان اور سارا جسم اچھی طرح ڈھانک کر نہ نکلے تو گرم ہوا اسے جھُلس کر رکھ دے ، بلکہ بعض اوقات تو آنکھوں کو چھوڑ کر پورا منہ تک لپیٹ لینا پڑتا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :77 یعنی زرہ بکتر ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :78 اتمام حجت یا تکمیل نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی ضروریات کا پوری جز رسی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور پھر ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام فرماتا ہے ۔ مثلا اسی معاملے کو لیجیے کہ خارجی اثرات سے انسان کے جسم کی حفاظت مطلوب تھی ۔ اس کے لیے اللہ نے کس کس پہلو سے کتنا کتنا اور کیسا کچھ سروسامان پیدا کیا ، اس کی تفصیلات اگر کوئی لکھنے بیٹھے تو ایک پوری کتاب تیار ہو جائے ۔ یہ گویا لباس اور مکان کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے ۔ یا مثلا تغذیے کے معاملہ کو لیجیے ۔ اس کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر کیسے کیسے تنّوعات کے ساتھ کیسی کیسی جُزئی ضرورتوں تک کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ نے بے حد و حساب ذرائع فراہم کیے ، ان کا اگر کوئی جائزہ لینے بیٹھے تو شاید محض اقسام غذا اور اشیاء ِ غذا کی فہرست ہی ایک ضخیم مجلد بن جائے ۔ یہ گویا تغذیہ کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے ۔ اِسی طریقہ سے اگر انسانی زندگی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر گوشے میں اللہ نے ہم پر اپنی نعمتوں کا اتمام کر رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: یعنی لوہے کی زرہیں جو جنگ میں تلوار وغیرہ کے وار کو روکنے کے لیے پہنی جاتی تھیں۔