Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عہد و پیمان کی حفاظت اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عہد و پیمان کی حفاظت کریں قسموں کو پورا کریں ۔ توڑیں نہیں ۔ قسموں کو نہ توڑنے کی تاکید کی اور آیت میں فرمایا کہ اپنی قسموں کا نشانہ اللہ کو نہ بناؤ ۔ اس سے بھی قسموں کی حفاظت کرنے کی تاکید مقصود ہے اور آیت میں ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے قسموں کی پوری حفاظت کرو ۔ پس ان آیتوں میں یہ حکم ہے ۔ اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں واللہ میں جس چیز پر قسم کھا لوں اور پھر اس کے خلاف میں بہتری دیکھوں تو انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اس نیک کام کو کروں گا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا ۔ تو مندرجہ بالا آیتوں اور احادیث میں کچھ فرق نہ سمجھا جائے وہ قسمیں اور عہد و پیمان جو آپس کے معاہدے اور وعدے کے طور پر ہوں ان کا پورا کرنا تو بیشک بیحد ضروری ہے اور جو قسمیں رغبت دلانے یا روکنے کے لئے زبان سے نکل جائیں ، وہ بیشک کفارہ دے کر ٹوٹ سکتی ہیں ۔ پس اس آیت میں مراد جاہلیت کے زمانے جیسی قسمیں ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اسلام میں دو جماعتوں کی اپس میں ایک کی قسم کوئی چیز نہیں ہاں جاہلیت میں ایسی امداد و اعانت کی جو قسمیں آ پس میں ہو چکی ہیں اسلام ان کو اور مضبوط کرتا ہے ۔ اس حدیث کے پہلے جملے کے یہ معنی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں کہ ایک برادری والے دوسری برادری کر دیتا ہے ۔ مشرق مغرب کے مسلمان ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہیں ۔ بخاری مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں رسول کریم علیہ افضل التسلیم نے انصار و مہاجرین میں باہم قسمیں اٹھوائیں ۔ اس سے یہ ممنوع بھائی بندی مراد نہیں یہ تو بھائی چارہ تھا جس کی بنا پر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ۔ آخر میں یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ورثہ قریبی رشتے داروں سے مخصوص ہو گیا ۔ کہتے ہیں اس فرمان الٰہی سے مطلب ان مسلمانوں کو اسلام پر جمع رہنے کا حکم دینا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمانوں کی جماعت کی کمی اور مشرکوں کی جماعت کی کثرت دیکھ کر تم اسے توڑ دو ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب یزید بن معاویہ کی بیعت لوگ توڑنے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام گھرانے کے لوگوں کو جمع کیا اور اللہ کی تعریف کر کے اما بعد کہہ کر فرمایا ہم نے یزید کی بیعت اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت پر کی ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر غدار کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ یہ غدار ہے فلاں بن فلاں کا ۔ اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے بعد سب سے بڑا اور سب سے برا غدر یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی بیعت کسی کے ہاتھ پر کر کے پھر توڑ دینا یاد رکھو تم میں سے کوئی یہ برا کام نہ کرے اور اس بارے میں حد سے نہ بڑھے ورنہ مجھ میں اور اس میں جدائی ہے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص کسی مسلمان بھائی سے کوئی شرط کرے اور اسے پورا کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ مثل اس شخص کے ہے جو اپنے پڑوسی کو امن دینے کے بعد بےپناہ چھوڑ دے پھر انہیں دھمکاتا ہے جو عہد وپیم ان کی حفاظت نہ کریں کہ ان کے اس فعل سے اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے ۔ مکہ میں ایک عورت تھی جس کی عقل میں فتور تھا سوت کاتنے کے بعد ، ٹھیک ٹھاک اور مضبوط ہو جانے کے بعد بےوجہ توڑ تاڑ کر پھر ٹکڑے کر دیتی ۔ یہ تو اس کی مثال ہے جو عہد کو مضبوط کر کے پھر توڑ دے ۔ یہی بات ٹھیک ہے اب اسے جانے دیجئے کہ واقعہ میں کوئی ایسی عورت تھی بھی یا نہیں جو یہ کرتی ہو نہ کرتی ہو یہاں تو صرف مثال مقصود ہے ۔ انکاثا کے معنی ٹکڑے ٹکڑے ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ نقضت غزلھا کا اسم مصدر ہو ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بدل ہو کان کی کبر کا یعنی انکاث نہ ہو جمع مکث کی ناکث سے ۔ پھر فرماتا ہے کہ قسموں کو مکر و فریب کا ذریعہ نہ بناؤ کہ اپنے سے بڑوں کو اپنی قسموں سے اطمینان دلاؤ اور اپنی ایمانداری اور نیک نیتی کا سکہ بٹھا کر پھر غداری اور بے ایمانی کر جاؤ ان کی کثرت دیکھ کر جھوٹے وعدے کر کے صلح کر لو اور پھر موقع پا کر لڑائی شروع کر دو ایسا نہ کرو ۔ پس جب کہ اس حالت میں بھی عہد شکنی حرام کر دی تو اپنے جمعیت اور کثرت کے وقت تو بطور اولی حرام ہوئی ۔ بحمد اللہ ہم سورہ انفال میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قصہ لکھ آئے ہیں کہ ان میں اور شاہ روم میں ایک مدت تک کے لئے صلح نامہ ہو گیا تھا اس مدت کے خاتمے کے قریب آپ نے مجاہدین کو سرحد روم کی طرف روانہ کیا کہ وہ سرحد پر پڑاؤ ڈالیں اور مدت کے ختم ہوتے ہی دھاوا بول دیں تاکہ رومیوں کو تیاری کا موقعہ نہ ملے ۔ جب حضرت عمرو بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ہوئی تو آپ امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے اللہ اکبر اے معاویہ عہد پورا کر غدر اور بد عہدی سے بچ ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس قوم سے عہد معاہدہ ہو جائے تو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ ہو جائے کوئی گرہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکروں کو واپس بلوا لیا ۔ ازبی سے مراد اکثر ہے ۔ اس جملے کا یہ بھی مطلب ہے کہ دیکھا کہ دشمن قوی اور زیادہ ہے صلح کر لی اور اس صلح کو ذریعہ فریب بنا کر انہیں غافل کر کے چڑھ دوڑے اور یہ بھی مطلب ہے کہ ایک قوم سے معاہدہ کر لیا پھر دیکھا کہ دوسری قوم ان سے زیادہ قوی ہے ، اس سے معاملہ کر لیا اور اگلے معاہدے کو توڑ دیا یہ سب منع ہے ۔ اس کثرت سے اللہ تمہیں آزماتا ہے ۔ یا یہ کہ اپنے حکم سے یعنی پابندی وعدہ کے حکم سے اللہ تمہاری آزمائش کرتا ہے اور تم میں صحیح فیصلے قیامت کے دن وہ خود کر دے گا ۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک ، بدوں کو بد ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 قَسَم ایک تو وہ ہے جو کسی عہد و پیمان کے وقت، اسے مزید پختہ کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو انسان اپنے طور پر کسی وقت کھا لیتا ہے کہ میں فلاں کام کروں گا یا نہیں کروں گا۔ یہاں آیت میں اول الذکر قسم مراد ہے کہ تم نے قسم کھا کر اللہ کو ضامن بنا لیا ہے۔ اب اسے نہیں توڑنا بلکہ عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے جس پر تم نے قسم کھائی ہے۔ کیونکہ ثانی الذکر قسم کی بابت تو حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ کوئی شخص کسی کام کی بابت قسم کھالے، پھر وہ دیکھے کہ زیادہ خیر دوسری چیز میں ہے (یعنی قسم کے خلاف کرنے میں ہے) تو بہتری والے کام کو اختیار کرے اور قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے، نبی کا عمل بھی یہی تھا۔ (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٤] عہد یا معاہدوں کی تین قسمیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین طرح کے عہد بتا کر انھیں پورا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ان میں سے ایک تو عہد الست ہے اور یہ سب سے اہم ہے اور اس کا ذکر پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔ دوسرے وہ عہد جو ایک فرد دوسرے فرد سے اللہ کو گواہ بنا کر پختہ کرتا ہے۔ اسی طرح تیسرے وہ حلفیہ معاہدات ہیں جو ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے اور ایک قوم دوسری قوم سے یا ایک حکومت دوسری حکومت سے کرتی ہے۔ غرض معاہدہ کسی قسم کا ہو اسے بہر صورت نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس سے فرار کی راہیں تلاش نہیں کرنی چاہیں۔ موقع پرستی اور مفاد پرستی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اپنے لیے ساز گار حالات دیکھ کر عہد کو خراب کرنا اور اس کی ناجائز تاویلات کرکے اپنا الو سیدھا کرنا منافقوں کا کام ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ : احکام الٰہی پورے کرنے کا عہد جو ایمان لانے کی صورت میں کیا ہے، یا آپس میں ایک دوسرے سے جائز طور پر کیے گئے عہد و پیمان۔ (شوکانی) ” عٰهَدْتُّمْ “ باب مفاعلہ سے ہے، مراد کسی دوسرے کے ساتھ کیا ہوا عہد ہے۔ - وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا ۔۔ : پکا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جن قسموں کو پکا نہ کیا گیا ہو ان کا توڑنا جائز ہے، کیونکہ ہر وہ عہد جس پر قسم کھائی جائے اس پر اللہ تعالیٰ کو ضامن بنایا جاتا ہے اور وہ پکا ہوجاتا ہے اور اسے بلاعذر توڑنا جائز نہیں، بلکہ عہد توڑنا نفاق کی علامت ہے۔ بعض قسمیں انسان خود اٹھا لیتا ہے کہ میں ایسا کروں گا یا نہیں کروں گا۔ اگر انھیں پورا نہ کرسکے تو اس کا کفارہ سورة مائدہ (٨٩) میں مذکور ہے۔ اسی طرح لغو قسم کا حکم سورة بقرہ (٢٢٥) اور سورة مائدہ (٨٩) میں گزر چکا ہے۔ - 3 جس قسم کے متعلق معلوم ہوجائے کہ اس کا پابند نہ رہنا دینی لحاظ سے بہتر ہے تو وہ قسم توڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہے۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ حَلَفَ عَلٰی یَمِیْنٍ فَرَأَی غَیْرَھَا خَیْرًا مِّنْھَا، فَلْیُکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِہِ وَلْیَفْعَلْ ) [ مسلم، الأیمان والنذور، باب ندب من حلف یمینًا فرأی غیرھا خیرا منہا أن یأتی ۔۔ : ١٢؍١٦٥٠ ] ” جو شخص کسی بات پر قسم کھائے، پھر اس کے علاوہ دوسرے کام کو اس سے زیادہ اچھا سمجھے تو وہ (دوسرا) کام اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔ “ - 3 اگر کسی ناجائز کام کا عہد کرے یا قسم اٹھائے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٢٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- ایفاء عہد کا حکم اور عہد شکنی کی مذمت :- اور تم اللہ کے عہد کو (یعنی جس عہد کے پورا کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو) پورا کرو (اس سے وہ نکل گیا جو خلاف شرع عہد ہو اور باقی سب عہود مشروعہ خواہ متعلق حقوق اللہ کے ہوں یا متعلق حقوق العباد کے ہوں اس میں داخل ہوگئے) جبکہ تم اس کو (تخصیصا یا تعمیما) اپنے ذمہ کرلو (تخصیصا یہ کہ صراحۃ کسی کام کا ذمہ لے لیا اور تعمیما یہ کہ ایمان لائے تو تمام احکام واجبہ کی ذمہ داری اس کے ضمن میں آگئی) اور (بالخصوص جن عہود میں قسم بھی کھائی ہو وہ زیادہ قابل اہتمام ہیں سو ان میں) قسموں کو بعد ان کے مستحکم کرنے کے (یعنی اللہ کا نام لے کر قسم کھانے کے) مت توڑو اور تم (ان قسموں کی وجہ سے ان عہود میں) اللہ تعالیٰ کو گواہ بھی بنا چکے ہو (یہ قیدیں بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا اور قَدْ جَعَلْتُمُ قید واقعی ہیں وفاء عہد پر تنبیہ کے لئے تصریح کی گئی) بیشک اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جو کچھ تم کرتے ہو (خواہ وفاء یا عہد شکنی پس اسی کے موافق تم کو جزاء وسزا دے گا) اور تم (نقض عہد کر کے) اس (مکہ میں رہنے والی پاگل) عورت کے مشابہ مت بنو جس نے اپنا سوت کا تے پیچھے بوٹی بوٹی کرکے نوچ ڈالا کہ (اس کی طرح) تم (بھی) اپنی قسموں کو (بعد درستی کے توڑ کر ان کو) آپس میں فساد ڈالنے کا ذریعہ بنانے لگو (کیونکہ قسم وعہد توڑنے سے موافقین کو بےاعتباری اور مخالفین کو برانگیختگی پیدا ہوتی ہے اور یہ اصل ہے فساد کی اور توڑنا بھی محض اس وجہ سے کہ) ایک گروہ دوسرے گروہ سے (کثرت یا ثروت میں) بڑھ جائے (یعنی مثلا کفار کے دو گروہوں میں باہم مخالفت ہو اور تمہاری ایک سے صلح ہوجائے پھر دوسری طرف پلہ جھکتا ہوا دیکھ کر جس گروہ سے صلح کی تھی اس سے غدر کر کے دوسرے گروہ سے سازش کرلے یا مثلا کوئی مسلمان ہو کر مسلمانوں میں شامل ہو اور پھر کافروں کی طرف زور دیکھا تو عہد اسلام کو توڑ کر مرتد ہوجائے اور یہ جو ایک گروہ دوسرے سے بڑھا ہوا ہوتا ہے یا دوسری کسی جماعت کے شامل ہوجانے سے بڑھ جاتا ہے تو) بس اس (زائد ہونے) سے اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش کرتا ہے (کہ دیکھیں وفاء عہد کرتے ہو یا جھکتا پلہ دیکھ کر ادھر ڈھل جاتے ہو) اور جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے رہے (اور مختلف راہیں چلتے رہے) قیامت کے دن ان سب (کی حقیقت) کو تمہارے سامنے (عملا) ظاہر کر دے گا (کہ حق والوں جزاء اور باطل والوں کو سزا ہوجائے گی آگے اس اختلاف کی حکمت بطور جملہ معترضہ کے اجمالا بیان فرماتے ہیں) اور (ہرچند کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بھی قدرت تھی کہ اختلاف نہ ہونے دیتے چنانچہ) اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو تم سب کو ایک ہی طریقہ کا بنا دیتا لیکن) بمتقضائے حکمت جس کی تفصیل و تعیین یہاں ضروری نہیں) جس کو چاہتے ہیں بےراہ کردیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں راہ پر ڈال دیتے ہیں (چنانچہ منجملہ ہدایت کے وفائے عہد اور منجملہ ضلالت کے نقض عہد بھی ہے) اور یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ جیسے دنیا میں گمراہوں کو پوری سزا نہیں ہوتی ایسے ہی آخرت میں مطلق العنان رہیں گے ہرگز نہیں بلکہ قیامت میں) تم سے تمہارے سب اعمال کی ضرور باز پرس ہوگی اور (جیسا نقض عہد و قسم سے محسوس ضرر ہوتا ہے جس کا اوپر بیان تھا اسی طرح اس سے معنوی ضرر بھی ہوتا ہے آگے اسی کا ذکر ہے یعنی) تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد ڈالنے کا ذریعہ مت بناؤ (یعنی قسموں اور عہدوں کو مت توڑو کبھی اس کو دیکھ کر کسی اور کا قدم جمنے کے بعد نہ پھسل جائے یعنی دوسرے بھی تمہاری تقلید کریں اور عہد شکنی کرنے لگیں) پھر تم کو اس سبب سے کہ تم (دوسروں کے لئے) راہ خدا سے مانع ہوئے تکلیف بھگتنا پڑے (کیونکہ وفاء عہد راہ خدا ہے تم اس کے توڑنے کے سبب بن گئے اور یہی ہے وہ معنوی ضرر کہ دوسروں کو بھی عہد شکن بنایا اور تکلیف یہ ہوگی کہ اس حالت میں) تم کو بڑا عذاب ہوگا اور (جس طرح گروہ غالب میں شامل ہو کر جاہ حاصل کرنے غرض سے نقضح عہد ممنوع ہے جس کا اوپر ذکر ہوا اسی طرح تحصیل مال کی غرض سے جو عہد توڑا ہو اس کی ممانعت فرماتے ہیں کہ) اور تم لوگ عہد خداوندی کے عوض میں (دنیا کا) تھوڑا سا فائدہ مت حاصل کرو (عہد خداوندی کے معنی تو شروع آیت میں معلوم ہوئے اور ثمن قلیل سے مراد دنیا ہے کہ باوجود کثیر ہونے کے بھی قلیل ہی ہے اس کی حقیقت اس طرح بیان فرمائی کہ) پس اللہ کے پاس جو چیز ہے (یعنی ذخیرہ آخرت) وہ تمہارے لئے (متاع دنیوی سے) بدرجہا بہتر ہے اگر تم سمجھنا چاہو (پس متاع آخرت کثیر ہوئی اور متاع دنیوی خواہ کتنی بھی قلیل ہوئی) اور (علاوہ تفاوت قلیل و کثیر کے دوسرا تفاوت یہ بھی ہے کہ) جو کچھ تمہارے پاس (دنیا میں) ہے وہ (ایک روز) ختم ہوجائے گا خواہ زوال سے یا موت سے) اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ دائم رہے گا اور جو لوگ (وفائے عہد وغیرہ احکام دین پر) ثابت قدم ہیں ہم ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ان کا اجر (یعنی نعمت باقیہ مذکورہ) ان کو ضرور دیں گے (پس وفائے عہد کر کے دولت کثیرہ غیر فانیہ کو حاصل کرو اور قلیل فانی کے لئے نقض عہد مت کرو)- معارف و مسائل :- عہد شکنی حرام ہے :- لفظ عہد ان تمام معاملات ومعاہدات کو شامل ہے جن کا زبان سے التزام کیا جائے یعنی اس کی ذمہ داری لی جائے خواہ اس پر قسم کھائے یا نہ کھائے خواہ وہ کسی کام کے کرنے سے متعلق ہو یا نہ کرنے سے۔- اور یہ آیات درحقیقت آیت سابقہ کی تشریح و تکمیل ہیں آیت سابقہ میں عدل و احسان کا حکم تھا لفظ عدل کے مفہوم میں ایفاء عہد بھی داخل ہے (قرطبی)- کسی سے عہد معاہدہ کرنے کے بعد عہد شکنی کرنا بڑا گناہ ہے مگر اس کے توڑنے پر کوئی کفارہ مقرر نہیں بلکہ آخرت کا عذاب ہے حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ قیامت کے روز عہد شکنی کرنے والے کی پشت پر ایک جھنڈا نصب کردیا جائے گا جو میدان حشر میں اس کی رسوائی کا سبب بنے گا،- اسی طرح جس کام کی قسم کھائی اس کے خلاف کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے آخرت میں وبال عظیم ہے اور دنیا میں بھی اس کی خاص صورتوں میں کفارہ لازم ہوتا ہے (قرطبی )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ 91؀- وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- نقض - النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] ، - ( ن ق ض ) النقض - یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل 91]- كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

عہد کو پورا کرنے کا بیان - قول باری ہے (واوفوا بعھم اللہ اذا عاھد تم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدھا ) اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عہد کے کئی معانی ہیں۔ عہد کبھی امر کے معنوں میں آتا ہے ۔ چناچہ قول باری ہے (ولد عدنا الی ادم من قبل اور ہم نے اس سے پہلے آدم کو امر کیا تھا) نیز ارشاد ہے (الم اعھد الیکم یا بنی ادم اے اولاد آدم کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا) مراد یہ ہے کہ ” میں نے امر کیا تھا۔ “ کبھی یمین اور قسم کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ آیت زیر بحث واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اس مقام پر عہد سے یمین مراد ہے۔ اس لئے کہ ارشاد باری ہے صولا تنقضوا الایمان بعد توکیدھا) اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ” علی عھد اللہ ان فعلت کذا) وہ گویا قسم کھا لیتا ہے۔- حضرت حذیفہ کی روایت میں ذکر ہے کہ جب مشرکین نے انہیں اور ان کے والد کو گرفتار کرلیا اور پھر ان دونوں سے اللہ کے نام پر یہ عہد لے لیا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر مشرکین کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ پھر ان دونوں نے مدینہ منورہ پہنچ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ” تم مشرکین کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کرو گے اور ان کے خلاف اللہ سے استعانت کے طلبگار نہیں بنو گے۔ “ عطاء بن ابی رباح حسن بصری، ابن یسرین، عامر، ابراہیم نخعی اور مجاہد سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے ” علی عہد اللہ ان فعلت کذا تو یہ قسم ہوگی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩١) اور تم اللہ تعالیٰ کے وعدے کو پورا کرو، جب کہ تم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس کے پورا کرنے کو اپنے ذمہ لے لو، یہ آیت مبارکہ مراد اور کندہ کے بارے میں نازل ہوئی اور اپنے درمیان ان وعدوں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو اور تم اللہ تعالیٰ کو گواہ بھی بنا چکے ہو، مطلب یہ کہ یہ کہا کرو کہ ہماری دونوں جماعتوں میں جو عہد و پیمان ہوا ہے اس پر اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور خواہ وفا عہد ہو یا نقص عہد، اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ وافوا بعہد اللہ (الخ)- ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بریدہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بیعت فرمائی ہے اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ )- یہاں بنی اسرائیل کا وہ وعدہ مراد ہے جس کی تفصیل بعد میں مدنی سورتوں میں آئی۔ مدنی سورتوں میں ان کے اس عہد کا بار بار ذکر کیا گیا ہے : (وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ ) (البقرۃ : ٦٣) ۔ یہاں پر اس عہد کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اس کا تذکرہ کردیا گیا کہ ” عاقلاں را اشارہ کافی است “۔ مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل کے صاحبان علم و بصیرت بات کو سمجھنا چاہیں تو سمجھ لیں۔- (اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ )- یعنی یہ عہد تم نے اللہ کو گواہ بنا کر اور اللہ کی قسمیں کھا کر باندھا ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani