92۔ 1 یعنی مؤکد بہ حلف عہد کو توڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عورت سوت کاتنے کے بعد اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ یہ تمثیل ہے۔ 92۔ 2 یعنی دھوکہ اور فریب دینے کا ذریعہ بناؤ۔ 92۔ 3 جب تم دیکھو کہ اب تم زیادہ ہوگئے ہو تو اپنے گمان سے حلف توڑ دو ، جب کہ قسم اور معاہدے کے وقت وہ گروہ کمزور تھا، لیکن کمزوری کے باوجود وہ مطمئن تھا کہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن تم عذر اور نقص عہد کر کے نقصان پہنچاؤ۔ زمانہء جایلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہد شکنی عام تھی، مسلمانوں کو اس اخلاقی پستی سے روکا گیا ہے۔
[٩٥] معاہدوں کو توڑنے کی ممانعت :۔ مکہ میں ایک دیوانی عورت رہتی تھی جس کا نام خرقاء (توڑ پھوڑ دینے والی) پڑگیا تھا۔ دن بھر سوت کا تتی رہتی پھر اسے توڑ پھوڑ کر پھینک دیتی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة نحل) اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے باہمی معاہدات کو کچے دھاگے کی طرح نہ سمجھو کہ جب چاہا اپنا معاہدہ توڑ دیا اور اس عورت کی طرح دیوانے نہ بنو۔ عرب کے کافر قبیلوں کا یہ حال تھا کہ ایک قبیلے سے دوستی کا عہد کرتے اور قسمیں کھاتے۔ پھر دوسرے قبیلے کو اس سے زبردست پا کر پہلا عہد توڑ ڈالتے اور اس قبیلے سے عہد کرلیتے اور بعض قبیلوں نے مسلمانوں سے بھی ایسا ہی معاملہ کیا۔ پہلے ان سے دوستی کا عہد باندھا پھر کسی وقت قریش مکہ کا پلہ بھاری دیکھا تو مسلمانوں سے عہد شکنی کرکے ان سے دوستی کرلی۔ مسلمانوں کو اس قسم کی مفاد پرستیوں سے سختی سے روک دیا گیا۔ اور آج کل صورت حال یہ ہے کہ موجودہ سیاست کا دارومدار ہی مفاد پرستی پر ہے جو کام اس دور کے کافر قبیلے کرتے تھے وہی کام آج کل کی مہذب حکومتیں کر رہی ہیں اور اس لحاظ سے ان کافر قبیلوں سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں کہ ان کے علانیہ معاہدے تو اور قسم کے ہوتے ہیں اور خفیہ معاہدے بالکل جداگانہ اور علانیہ معاہدوں کے متضاد ہوتے ہیں۔ گویا موجودہ دور کی کامیاب سیاست میں عہد شکنی کے علاوہ منافقت کا عنصر بھی شامل ہے اور ایسی چالبازیوں کو آج کی زبان میں ڈپلومیسی کہا جاتا ہے اور ان کی ایسی عہد شکنی اور منافقت کو معیوب سمجھنے کے بجائے کامیاب سیاست سمجھا جاتا ہے اور قومیں اپنے ایسے بددیانت لیڈروں کی حوصلہ افزائی کرتی اور انھیں کامیاب لیڈرسمجھتی ہیں اور مسلمان ممالک سے تو بالخصوص آجکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ظاہراً ان سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں جبکہ اندرون خانہ ان کے استیصال میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا۔ اور مسلمان ممالک اللہ پر عدم توکل اور اپنی نااہلی کی وجہ سے ان مہذب قوموں سے مدتوں سے دھوکے پر دھوکہ کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ مگر انھیں یہ توفیق نصیب نہیں ہوتی کہ اپنے اختلاف چھوڑ کر اور متحد ہو کر ان کافر حکومتوں کے سامنے ڈٹ جائیں۔- جمہوریت اور لوٹا ازم :۔ یہ تو موجودہ حکومتوں کا حال ہے۔ افراد کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ آج کل جمہوریت اور اسمبلیوں کا دور دورہ ہے۔ اسمبلیوں کے منتخب شدہ ممبر اپنے مفادات کی خاطر فوراً سابقہ سیاسی جماعت سے اپنی وفاداریاں توڑ کر حزب اقتدار میں چلے جاتے ہیں۔ آج کی سیاسی اصطلاح میں انھیں لوٹے کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے بےاصول لوگ اور بےدین لوگ بےپیندے لوٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ جدھر اپنا مفاد دیکھا یا کچھ نقد رقم وصول کی فوراً ادھر لڑھک گئے۔ اپنے معاہدے کا انھیں کچھ پاس نہیں ہوتا۔- [٩٦] دنیوی اور دینی مفادات سے بےنیاز ہو کر عہد کو نبھانا چاہئے :۔ یہ آزمائش اس بات میں ہے کہ آیا تم اپنے مفادات سے بےنیاز ہو کر اپنے معاہدہ کے پابند رہتے ہو یا نہیں۔ یہ مفادات خواہ دنیوی ہوں یا دینی۔ کسی صورت میں بھی ایک مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عہد شکنی کرے۔ اسلام اور مسلمانوں کے مفادات عہد کی پاسداری میں آڑے نہیں آسکتے۔ عہد کی پاسداری کی بہترین مثال وہ واقعہ ہے جو غزوہ بدر کے میدان میں پیش آیا۔ دو مسلمان حذیفہ بن یمان اور ابو حسیل آپ کے پاس جنگ میں شمولیت کے لیے آئے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ہم کافروں کے ہتھے چڑھ گئے اور ہمیں ان سے رہائی اس شرط پر ملی تھی کہ ہم جنگ میں حصہ نہ لیں۔ چناچہ آپ نے ان دونوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ جب تم ان سے عہد کرچکے ہو تو اپنا عہد پورا کرو۔ (مسلم۔ کتاب الجہادو السیر۔ باب الوفا بالعہد) حالانکہ اس وقت آپ کو افرادی قوت کی شدید ضرورت بھی تھی۔ اور مذہبی مفادات کے نام پر عہد شکنی کرنے اور دوسرے کا ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال ہضم کرنے والے یہود تھے جنہوں نے اپنا اصول ہی یہ بنا لیا کہ (لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ 75) 3 ۔ آل عمران :75) (یعنی غیر یہودی سے ہم جو کچھ بھی کرلیں ہمیں اس پر کچھ مؤاخذہ نہ ہوگا۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ۔۔ : ” غَزْلٌ“ مصدر بمعنی مفعول ہے، فعل ” غَزَلَ یَغْزِلُ “ (ض) آتا ہے، روئی یا اون کا سوت (دھاگا) بنانا۔ ” اَنْكَاثًا “ ” نِکْثٌ“ (نون کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے، ٹکڑے۔ - 3 یہ ایک تشبیہ ہے جو قسموں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑنے والوں کے لیے بیان کی گئی ہے، ضروری نہیں کہ ایسی عورت کہیں پائی بھی گئی ہو، جو عورت بھی ایسا کرے گی اسے یہی کہا جائے گا کہ یہ کتنی احمق ہے۔ اسی طرح قسمیں توڑنے والوں کا حال بھی اس عورت کا سا ہے، اگرچہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم کی بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک پاگل عورت تھی جو سوت کا تتی تھی اور پھر اسے بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی تھی۔ - تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا ۔۔ : ” دَخَلًۢا “ سے مراد دھوکا، فریب اور کھوٹ ہے۔ اصل میں ” دَخَلًۢا “ اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری چیز میں داخل کردی جائے، جب کہ وہ اس میں سے نہ ہو، مثلاً چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے ملا دیے جائیں۔ ” اَرْبٰى“ ” رَبَا یَرْبُوْ “ (ن) سے اسم تفضیل ہے، کسی چیز کا زیادہ ہونا، بڑھنا۔ - 3 یعنی کسی گروہ سے اس لیے بدعہدی نہ کرو کہ جب تم نے عہد باندھا اس وقت تم کمزور تھے اور وہ گروہ طاقتور تھا اور اب تم طاقتور اور وہ کمزور ہوگیا ہے، یا اب تمہیں اس سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا حلیف مل گیا ہے، جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے۔ (شوکانی، قرطبی) اور جیسا کہ اس زمانے میں اہل مغرب بلکہ تمام کفار کا عام دستور ہے۔ - اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ : کہ تم اپنے عہد پر قائم رہتے ہو یا دوسرے گروہ کو طاقتور یا کمزور پاکر اپنے عہد کا خیال چھوڑ دیتے ہو۔ (قرطبی)
(آیت) اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جس جماعت سے تمہارا معاہدہ ہوجائے اس معاہدہ کو دنیوی اغراض و منافع کے لئے نہ توڑو مثلا تمہیں یہ محسوس ہو کہ جس جماعت یا پارٹی سے معاہدہ ہوا ہے یہ کمزور اور تعداد میں قلیل ہے یا مال کے اعتبار سے مفلس ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جماعت کثیر اور قوی ہے یا مال و دولت والی ہے تو صرف اس طمع سے قوی اور مالدار پارٹی میں شامل ہوجانے سے منافع زیادہ ہوں گے پہلی جماعت کا عہد توڑنا جائز نہیں بلکہ اپنے عہد پر قائم رہے اور نفع وضرر کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرے البتہ جس جماعت یا پارٹی سے عہد کیا ہے وہ اگر خلاف شرع امور کا ارتکاب کرے اور کرائے تو اس کا عہد توڑ دینا واجب ہے بشرطیکہ واضح طور پر ان کو جتلا دیا جائے کہ ہم اب اس عہد کے پابند نہیں رہیں گے جیسا کہ آیت فانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ میں مذکور ہے۔- آخر آیت میں مذکورہ صورت حال کو مسلمان کو آزمائش کا ذریعہ بتلایا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اس کا امتحان لیتے ہیں کہ یہ اپنے نفس کی اغراض و خواہشات کا تابع ہو کر عہد کو توڑ ڈالتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں نفسانی جذبات کو قربان کرتا ہے۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ۭ تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ ۭ اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ ۭ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ 92- غزل - قال تعالی: وَلا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها[ النحل 92] ، وقد غَزَلَتْ غَزْلَهَا .- والْغَزَالُ : ولد الظّبية، والْغَزَالَةُ : قرصة الشمس، وكني بالغَزْلِ والْمُغَازَلَةِ عن مشافنة «3» المرأة التي كأنها غَزَالٌ ، وغَزِلَ الکلب غَزَلًا : إذا أدرک الْغَزَالَ فلهي عنه بعد إدراکه .- ( غ زل ) الغزل - ( ض ) کا تے ہوئے سوت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : وَلا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها[ النحل 92] اور عورت کی طرح نہ ہونا جس نے اپنا کا تا ہوا سوت ادھیڑ دیا ۔ غزلت غذلا سوت کاتنا اور ہرنی کے بچہ کو غرال کہاجاتا ہے ۔ الغزالۃ سورج کی ٹکیہ اور کنایہ کے طور پر غزل ( س) اور مغازلۃ کے معنی غزال یعنی ہر نوٹے جیسی خوبصورت عورتوں کے ساتھ عشق و محبت اور دلسبتگی کی باتیں کرنا آتے ہیں ۔ غزل الکلب غزالا کتے کا ہر ن کو پاکر اس کسے پیچھے ہٹ جانا ۔- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - نكث - النَّكْثُ : نَكْثُ الأَكْسِيَةِ والغَزْلِ قَرِيبٌ مِنَ النَّقْضِ ، واستُعِيرَ لِنَقْضِ العَهْدِ قال تعالی:- وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة 12] ، إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف 135] والنِّكْثُ- کالنِّقْضِ والنَّكِيثَةُ کالنَّقِيضَةُ ، وكلُّ خَصْلة يَنْكُثُ فيها القومُ يقال لها : نَكِيثَةٌ. قال الشاعر - مَتَى يَكُ أَمْرٌ لِلنَّكِيثَةِ أَشْهَد - ( ن ک ث ) النکث - کے معنی کمبل یا سوت ادھیڑ نے کے ہیں اور یہ قریب قریب نقض کے ہم معنی ہے اور بطور استعارہ عہد شکنی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة 12] اور اگر اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ۔ إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف 135] تو وہ عہد توڑ ڈالتے ہیں ۔ النکث والنکثۃ ( مثل النقض والتقضۃ اور نکیثۃ ہر اس مشکل معاملہ کو کہتے ہیں جس میں لوگ عہد و پیمان توڑ ڈالیں شاعر نے کہا ( 437 ) متیٰ یک امر للنکیثۃ اشھد جب کوئی معاملہ عہد شکنی کی حد تک پہنچ جائے تو میں حاضر ہوتا ہون ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - رَبَا :- إذا زاد وعلا، قال تعالی: فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] ، أي : زادت زيادة المتربّي، فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] ، فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً- [ الحاقة 10] ، وأربی عليه : أشرف عليه، ورَبَيْتُ الولد فَرَبَا من هذا، وقیل : أصله من المضاعف فقلب تخفیفا، نحو : تظنّيت في تظنّنت .- اور اسی سے ربا ہے جس کے معنی بڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] پھر جب ہم اس پر پانی بر سادیتے ہیں تو وہ لہلانے اور ابھرنے لگتی ہے ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] پھر نالے پر پھولا ہوا اجھاگ آگیا ۔ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة 10] تو خدا نے بھی انہیں بڑا سخت پکڑا ۔ اربی علیہ کسی پر بلند ہونا یا کسی کی نگرانی کرنا ۔ ربیت الوالد فربا میں نے بچے کی تربیت کی چناچہ وہ بڑھ گیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ربیت ہے تخفیف کے لئے ایک باء حزف کردی گئی ہے ۔ جیسا کہ تظنیت کہ اصل میں تظننت ہے تحقیقا ایک نون کو یاء سے تبدیل کردیا ہے ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الواب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔
قول باری ہے (ولا تکونوا کالتی نقضت غزلھا من بعد قو ۃ انکاتاً تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا) آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جو تقرب الٰہی کی نیت سے اپنے اوپر کوئی نیکی اور عبادت لازم کرلے اور پھر اسے فسخ کر کے پورا نہ کرے اس عورت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو اون یا کسی قسم کی کوئی اور شے کات کر دھاگا بنائے اور پھر اسے اچھی طرح کات لینے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کو ڈالے۔ قول باری (من بعد قوۃ) کا یہی مفہوم ہے اس لئے کہ عرب کے لوگ مضبوطی کے ساتھ سوت یا اون کاتنے کا نام دیتے ہیں۔ اس لئے جو شخص اپنے اوپر کوئی چیز لازم کرے یا کوئی عبادت واجب کرلے یا اسے شروع کرلے اور پھر اسے مکمل نہ کرے تو اس کی حالت اس عورت کی طرح ہوجائے گی جو محنت اور مضبوطی سے سوت یا اون کاتنے کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہے۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ جو شخص نفل نماز یا نفلی روزہ یا اسی قسم کی کوئی عبادت شروع کردے تو اسے مکمل کرنے سے پہلے اسے چھوڑ دینا جائز نہیں ہوگا ورنہ اس کی حیثیت اس عورت جیسی ہوجائے گی جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
(٩٢) اور تم عہد شکنی کرکے رائطہ نامی دیوانی عورت کی طرح مت بنو کہ جس نے اپنا سوت کاتنے کے بعد پھر ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا کہ تم بھی اپنے وعدوں کو مکرو فریب اور فساد کا ذریعہ بنانے لگو، محض اس وجہ سے کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے زیادہ ہوجائے پس اس زیادہ ہونے سے یا اس نقص عہد سے اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش کرتا ہے اور دین میں جو کچھ اختلاف کرتے ہو، اس کی حقیقت قیامت کے دن تمہارے اوپر ظاہر کر دے گا۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ ولا تکونوا کالتی نقضت (الخ)- ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوبکر بن ابی حفص سے روایت کیا ہے کہ سعیدیہ اسدیہ دیوانی ایک عورت تھی، جو بالوں کو اور سوت کو جمع کرتی اور کات کر پھر توڑ دیتی تھی، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ تم مکہ کی اس دیوانی عورت کی طرح مت بنو۔
آیت ٩٢ (وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا)- دیکھو تم تو ایک مدت سے نبی آخر الزماں کے منتظر چلے آ رہے تھے اور اہل عرب کو اس حوالے سے دھمکایا بھی کرتے تھے کہ نبی آخر الزمان آنے والے ہیں جب وہ تشریف لے آئے تو ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ اب جب کہ وہ نبی آگئے ہیں تو تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ تم ان کو جھٹلانے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہے ہو تو کیا اب تم لوگ اپنے منصوبوں اور افکار و نظریات کے تانے بانے خود اپنے ہی ہاتھوں تار تار کردینے پر تل گئے ہو ؟ کیا اس دیوانی عورت کی طرح تمہاری بھی مت ماری گئی ہے جو بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ کا تے ہوئے اپنے سوت کی تار تار ادھیڑ کے رکھ دے ؟- (تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ )- یعنی تم نے تو اس معاملے کو گویا دو قوموں کا تنازعہ بنا لیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی بشارت تمہاری کتاب میں موجود ہے تم آپس میں عہد و پیمان کر رہے ہو ‘ قسمیں کھا رہے ہو کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ تمہاری اس ہٹ دھرمی کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ تم قومی عصبیت میں مبتلا ہوچکے ہو۔ چونکہ اس آخری نبی کا تعلق بنی اسماعیل یعنی امیین سے ہے ‘ اس لیے تم لوگ نہیں چاہتے کہ بنی اسماعیل کو اب ویسی ہی فضیلت حاصل ہوجائے جو پچھلے دو ہزار سال سے تم لوگوں کو حاصل تھی۔- (اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ )- اس میں تمہاری آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لوگ حق پرست ہو یا نسل پرست ؟ اگر تم لوگ اس معاملے میں نسل پرستی کا ثبوت دیتے ہو تو جان لو کہ اللہ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں اور اگر حق پرست بننا چاہتے ہو تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ ایک مدت تک اللہ تعالیٰ نے نبوت تمہاری نسل میں رکھی اور اب اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک فرد کو اس کے لیے چن لیا ہے۔ لہٰذا اسے اللہ کا فیصلہ سمجھتے ہوئے تمہیں قبول کرلینا چاہیے۔ تمہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بنی اسماعیل بھی تو آخر تمہاری ہی نسل میں سے ہیں۔ وہ بھی تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم ہی کی اولاد ہیں ‘ مگر تم لوگ ہو کہ تم نے اس معاملے کو باہمی مخاصمت اور ضد (بَغْیًا بَیْنَہُمْ ) کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس طرح تم لوگ اللہ کی اس آزمائش میں ناکام ہو رہے ہو۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :90 یہاں علی الترتیب تین قسم کے معاہدوں کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ بیان کر کے ان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ۔ ایک وہ عہد جو انسان نے خدا کے ساتھ باندھا ہو ، اور یہ اپنی اہمیت میں سب سے بڑھ کر ہے ۔ دوسرا وہ عہد جو ایک انسان یا گروہ نے دوسرے انسان یا گروہ سے باندھا ہو اور اس پر اللہ کی قسم کھائی ہو ، یا کسی نہ کسی طور پر اللہ کا نام لے کر اپنے قول کی پختگی کا یقین دلایا ہو ۔ یہ دوسرے درجے کی اہمیت رکھتا ہے ۔ تیسرا وہ عہد و پیمان جو اللہ کا نام لیے بغیر کیا گیا ہو ۔ اس کی اہمیت اوپر کی دو قسموں کے بعد ہے ۔ لیکن پابندی ان سب کی ضروری ہے اور خلاف ورزی ان میں سے کسی کی بھی روا نہیں ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :91 ” یہاں خصوصیت کے ساتھ عہد شکنی کی اس برترین قسم پر ملامت کی گئی ہے جو دنیا میں سب سے بڑھ کر موجب فساد ہوتی ہے اور جسے بڑے بڑے اونچے درجے کے لوگ بھی کار ثواب سمجھ کر کرتے اور اپنی قوم سے داد پاتے ہیں ۔ قوموں اور گروہوں کی سیاسی ، معاشی اور مذہبی کشمکش میں یہ آئے دن ہوتا رہتا ہے کہ ایک قوم کا لیڈر ایک وقت میں دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتا ہے اور دوسرے وقت میں محض اپنے قومی مفاد کی خاطر یا تو اسے علانیہ توڑ دیتا ہے یا درپردہ اس کی خلاف ورزی کر کے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے ۔ یہ حرکتیں ایسے ایسے لوگ کر گزرتے ہیں جو اپنی ذانی زندگی میں بڑے راستباز ہوتے ہیں ۔ اور ان حرکتوں پر صرف یہی نہیں کہ ان کی پوری قوم میں سے ملامت کی کوئی آواز نہیں اٹھتی ، بلکہ ہر طرف سے ان کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اور اس طرح کی چالبازیوں کو ڈپلومیسی کا کمال سمجھا جاتا ہے ۔ اللہ تعالی اس پر متنبہ فرماتا ہے کہ ہر معاہدہ دراصل معاہدہ کرنے والے شخص اور قوم کے اخلاق و دیانت کی آزمائش ہے اور جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوں گے وہ اللہ کی عدالت میں مؤاخذہ سے نہ بچ سکیں گے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :92 یعنی یہ فیصلہ تو قیامت ہی کے روز ہوگا کہ جن اختلافات کی بنا پر تمہارے درمیان کشمکش برپا ہے ان میں برسر حق کون ہے اور برسر باطل کون ۔ لیکن بہرحال ، خواہ کوئی سراسر حق پر ہی کیوں نہ ہو ، اور اس کا حریف بالکل گمراہ اور باطل پرست ہی کیوں نہ ہو ، اس کے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں عہد شکنی اور کذب و افترا اور مکر و فریب کے ہتھیار استعمال کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو قیامت کے روز اللہ کے امتحان میں ناکام ثابت ہوگا ، کیونکہ حق پرستی صرف نظریے اور مقصد ہی میں صداقت کا مطالبہ نہیں کرتی ، طریق کار اور ذرائع میں بھی صداقت ہی چاہتی ہے ۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ ان مذہبی گروہوں کی تنبیہ کے لیے فرمائی جا رہی ہے جو ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ ہم چونکہ خدا کے طرفدار ہیں اور ہمارا فریق مقابل خدا کا باغی ہے اس لیے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اسے جس طریقہ سے بھی ممکن ہو زک پہنچائیں ۔ ہم پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی صداقت ، امانت اور وفائے عہد کا لحاظ رکھیں ۔ ٹھیک یہی بات تھی جو عرب کے یہودی کہا کرتے تھے کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمّیِّیْنَ سَبِیْلٌ ۔ یعنی مشرکین عرب کے معاملہ میں ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے ، ان سے ہر طرح کی خیانت کی جا سکتی ہے ، جس چال اور تدبیر سے بھی خدا کے پیاروں کا بھلا ہو اور کافروں کو زک پہنچے وہ بالکل روا ہے ، اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا ۔
39: روایات میں ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک دیوانی عورت تھی جسے خرقاء کہتے تھے۔ وہ بڑی محنت سے دن بھر سوت کا تتی تھی، اور شام کو اسے ادھیڑ ڈالتی تھی۔ یہ عورت اس ماعملے میں ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔ جب کوئی شخص اچھا خاصا کام کر کے خود ہی اسے بگاڑ دے تو اسے اس عورت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہاں یہ تشبیہ ان لوگوں کے لیے استعمال کی گئی ہے جو زور و شور سے کسی بات کی قسم کھا کر اسے توڑ ڈالیں 40: جھوٹی قسم کھانے یا قسم کو توڑنے کا مقصد عام طور پر کوئی نہ کوئی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ اس معمولی سے فائدے کی خاطر ایسے گناہ کا ارتکاب نہ کرو۔