Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایک مذہب و مسلک اگر اللہ چاہتا تو دنیا بھر کا ایک ہی مذہب و مسلک ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ( ترجمہ ) یعنی اللہ کی چاہت ہوتی تو اے لوگو تم سب کو وہ ایک ہی گروہ کر دیتا ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین کے سب لوگ با ایمان ہی ہوتے ۔ یعنی ان میں موافقت یگانگت ہوتی ۔ اختلاف و بغض بالکل نہ ہوتا ۔ تیرا رب قادر ہے اگر چاہے تو سب لوگوں کو ایک ہی امت کر دے لیکن یہ تو متفرق ہی رہیں گے مگر جن پر تیرے رب کا رحم ہو ، اسی لئے انہیں پیدا کیا ہے ۔ ہدایت و ضلالت اسی کے ہاتھ ہے ۔ قیامت کے دن وہ حساب لے گا ، پوچھ گچھ کرے گا اور چھوٹے بڑے ، نیک بد ، کل اعمال کا بدلہ دے گا ۔ پھر مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ قسموں کو ، عہد و پیمان کو ، مکاری کا ذریعہ نہ بناؤ ورنہ ثابت قدمی کے بعد پھسل جاؤ گے ۔ جیسے کوئی سیدھی راہ سے بھٹک جائے اور تمہارا یہ کام اوروں کے بھی راہ حق سے ہٹ جانے کا سبب بن جائے گا جس کا بدترین و بال تم پر پڑے گا ۔ کیونکہ کفار جب دیکھیں گے کہ مسلمانوں نے عہد کر کے توڑ دیا ، وعدے کا خلاف کیا تو انہیں دین پر وثوق و اعتماد نہ رہے گا پس وہ اسلام کو قبول کرنے سے رک جائیں گے اور چونکہ ان کے اس رکنے کا باعث چونکہ تم بنو گے اس لئے تمہیں بڑا عذاب ہو گا اور سخت سزا دی جائے گی ۔ اللہ کو بیچ میں رکھ کر جو وعدے کرو اس کی قسمیں کھا کر جو عہد و پیمان ہوں انہیں دنیوی لالچ سے توڑ دینا یا بدل دینا تم پر حرام ہے گو ساری دنیا اصل ہو جائے تاہم اس حرمت کے مرتکب نہ بنو ۔ کیونکہ دنیا ہیچ ہے ، اللہ کے پاس جو ہے ، وہی بہتر ہے اس جزا اور اس ثواب کی امید رکھو جو اللہ کی اس بات پر یقین رکھے ، اسی کا طالب رہے اور حکم الٰہی کی پابندی کے ماتحت اپنے وعدوں کی نگہبانی کرے ، اس کے لئے جو اجر و ثواب اللہ کے پاس ہے وہ ساری دنیا سے بہت زیاد اور بہتر ہے ۔ اسے اچھی طرح جان لو ، نادانی سے ایسا نہ کرو کہ ثواب آخرت ضائع ہو جائے بلکہ لینے کے دینے پڑ جائیں ۔ سنو دنیا کی نعمتیں زائل ہونے والی ہیں اور آخرت کی نعمتیں لا زوال اور ابدی ہیں ۔ مجھے قسم ہے جن لوگوں نے دنیا میں صبر کیا ، میں انہیں قیامت کے دن ان کے بہترین اعمال کا نہایت اعلیٰ صلہ عطا فرماؤں گا اور انہیں بخش دوں گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧] دین کی حمایت کے لئے غلط ذرائع استعمال کرنے کے نقصانات اور ان کی ممانعت :۔ یہ کوئی پسندیدہ بات نہیں کہ تم اپنے دینی مفاد کے لیے عہد شکنی یا دوسرے ناجائز ذرائع استعمال کرنے لگو۔ ایک پاکیزہ اور صاف ستھرے دین میں لوگوں کو لانے اور دعوت دینے کے طریق بھی پاکیزہ ہونے چاہئیں۔ اور اگر محض لوگوں کو ہدایت دینا ہی مقصود ہوتا تو اللہ یہ کام خود بھی کرسکتا تھا۔ مگر اس نے لوگوں کو قوت ارادہ و اختیار دے رکھا ہے تاکہ اس کا آزادانہ استعمال کریں۔ پھر جو شخص اپنے ارادہ سے غلط راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے اسباب بھی ویسے ہی بنا دیتا ہے اور سیدھی راہ پر چلنا چاہے تو اسے ویسی ہی توفیق عطا فرماتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کو قدرت حاصل تھی کہ تمہارے درمیان اختلافات نہ رہنے دیتا۔ (دیکھیے یونس : ٩٩۔ ہود : ١١٨، ١١٩) مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ تمہیں اپنا اختیار استعمال کرنے کا پورا موقع دے، پھر جو گمراہی پر اصرار کرے اس کی رسی گمراہی کی طرف دراز کر دے اور جو حق کی جستجو کرے اسے ہدایت سے سرفراز کر دے۔ دیکھیے سورة لیل (٥ تا ١٠) ۔- وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ کافر کو بدعہدی کر کے نہ ماریے، ایسی باتوں سے کفر تو مٹتا نہیں الٹا وبال آتا ہے۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 93؀- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال - کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٣) اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو تم سب کو ایک ہی ملت اسلامی کا پیروکار بنادیتے لیکن جو دین الہی کا اہل نہیں ہوتا۔ اس کو اس سے گمراہ کرتے ہیں اور جس میں دین خداوندی کی صلاحیت ہوتی ہے، اسے راہ پر چلاتے ہیں اور تم حالت کفر میں کیا برائیاں کر رے ہو اور حالت ایمان میں کیا کیا نیکیاں کرتے ہو یا یہ کہ وفائے عہد اور نقص عہد سب اعمال کی قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٣ (وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً )- اللہ تعالیٰ یہ بھی کرسکتا تھا کہ پوری انسانیت کو ایک ہی امت بنا دیتا تاکہ نسلوں اور قوموں کی یہ تفریق ہی نہ ہوتی اور نہ ہی ایک امت کو معزول کر کے دوسری امت کو نوازنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر جس اللہ نے بخت نصر کے ہاتھوں تمہاری بربادی کے بعد حضرت عزیر کی دعوت توبہ کے ذریعے تمہاری نشأۃ ثانیہ کی تھی وہ یہ بھی کرسکتا تھا کہ ایک دفعہ پھر کسی اصلاحی تحریک کے ذریعے تمہیں اپنی ہدایت اور رحمت سے نواز دیتا۔ اس طرح آخری نبی بھی تم ہی میں آتے اور یہ قرآن بھی تم ہی کو ملتا۔ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا۔- (وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ )- آیت کے اس حصے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ ” وہ گمراہ کرتا ہے اسے جو (گمراہی) چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اسے جو (ہدایت) چاہتا ہے۔ “ - (وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ )- یعنی اس وقت تم لوگ ایک بہت بڑے امتحان سے دو چار ہو۔ تمہارے پاس نبی آخر الزماں کے بارے میں واضح نشانیوں کے ساتھ علم آچکا ہے اور تم اللہ کی کتاب کے وارث بھی ہو۔ اس کے باوجود اگر تم نے ہمارے نبی کی تصدیق نہ کی اور آپ کو جھٹلانے پر تلے رہے تو اس بارے میں تم سے ضرور جواب طلبی ہوگی۔- اب ذرا سورة البقرہ کی ان آیات کو ذہن میں تازہ کیجئے :- (يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ ۔ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ ۠ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ ۔ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )- ” اے بنی اسرائیل یاد کرو تم میری وہ نعمت جو میں نے تم پر انعام کی ‘ اور پورا کرو میرا عہد ‘ میں پورا کروں گا تمہارے (ساتھ کیے گئے) عہد کو اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے ‘ جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے ‘ اور مت ہوجاؤ تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے ‘ اور مت بیچو میری آیات کو تھوڑی سی قیمت کے عوض اور میرا ہی تقویٰ اختیار کرو۔ اور نہ ملاؤ حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ حق کو جانتے بوجھتے۔ “ - ان آیات کو پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سورة النحل میں جو بات اَوْفُوْا بِعَہْدِ اللّٰہِ سے شروع ہوئی ہے یہ گویا تمہید ہے اس مضمون کی جو سورة البقرۃ کی مندرجہ بالا آیات کی شکل میں مدینہ جا کر نازل ہونے والا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :93 یہ پچھلے مضمون کی مزید توضیح ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرفدار سمجھ کر بھلے اور برے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو ( جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے ) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے ، تو اس کی یہ حرکت سراسر اللہ تعالی کے منشاء کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اگر اللہ کا منشاء واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور چاروناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اللہ تعالی کو اپنے نام نہاد طرف داروں کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔ یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا ۔ وہ سب کو مومن و فرماں بردار پیدا کر دیتا اور کفر و معصیت کی طاقت چھین لیتا ۔ پھر کسی کی مجال تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کرسکتا ؟ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :94 یعنی انسان کو اختیار و انتخاب کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے ، اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں ۔ کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے اور اللہ اس کے لیے گمراہی کے اسباب ہموار کر دیتا ہے ، اور کوئی راہ راست کا طالب ہوتا ہے اور اللہ اس کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani