فاقہ اور انسان یہ خطاب ہر ایک مکلف سے ہے ۔ آپ کی تمام امت کو حق تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو ۔ اگر ایسا کرو گے تو ذلیل ہو جاؤ گے اللہ کی مدد ہٹ جائے گی ۔ جس کی عبادت کرو گے اسی کے سپرد کر دئے جاؤ گے اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان کا مالک نہیں وہ واحد لا شریک ہے ۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے فاقہ پہنچے اور وہ لوگوں سے اسے بند کروانا چاہے اس کا فاقہ بند نہ ہو گا اور جو اللہ سے اس کی بابت دعا کرے اللہ اس کے پاس تونگری بھیج دے گا یا تو جلدی یا دیر سے ۔ یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی میں ہے ۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں ۔
[٢٢] شرک کی مذمت اور مشرکوں کی حسرت :۔ اس آیت میں شرک، مشرکوں اور ان کے معبودوں کی ایک نئے انداز میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ جو یہ ہے کہ دنیا میں جتنے معبودوں سے حاجت روائی یا مشکل کشائی کی دعا یا آرزو کی جاتی ہے وہ یا تو بےجان ہیں یا جاندار۔ بےجان تو بالکل بےدست و پا اور انسان کے خود تراشیدہ ہیں۔ وہ تو خود انسانوں کے محتاج ہیں وہ ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں اور جو جاندار ہیں وہ اللہ کے مطیع فرمان اور اس کے آگے مجبور محض ہیں۔ لہذا تمہاری مدد کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ اب جو شخص ان سے توقعات تو بڑی بڑی وابستہ کیے بیٹھا ہو۔ لیکن مصیبت کے وقت ان کے معبود ان کی کچھ بھی مدد نہ کرسکیں تو اس کی یاس و حسرت کا جو حال ہوگا وہ سب جانتے ہیں۔
فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا ۔۔ : ” مَّخْذُوْلًا “ وہ ہے جس کی مدد وہ چھوڑ دے جس سے اسے مدد کی امید ہو۔ اس آیت میں تمام اعمال کی بنیاد شرک سے پاک ہونا بیان فرمائی گئی ہے۔ بظاہر مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، مگر درحقیقت ہر انسان اس کا مخاطب ہے، کیونکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرک کا صدور کیسے ہوسکتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ بالفرض اگر اللہ کے ساتھ شریک بنانے کا فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی سرزد ہوجائے تو پھر آپ کی بھی کوئی تعریف کرنے والا ہوگا نہ کوئی مدد کرنے والا، بلکہ ہر ایک مذمت ہی کرے گا۔ دیکھیے سورة زمر (٦٤ تا ٦٧) ، حج (٣١) ، مائدہ (٧٢) اور نساء (١١٦) ۔
ربط آیات :- سابقہ آیات میں قبول اعمال کے لئے چند شرائط کا بیان آیا ہے جن میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ عمل مقبول وہی ہوسکتا ہے جو ایمان کے ساتھ ہو اور شریعت وسنت کے مطابق ہو ان آیات میں ایسے ہی خاص خاص اعمال کی ہدایت کی گئی ہے جو شریعت کے بتلائے ہوئے احکام ہیں ان کے تعمیل آخرت کی فلاح اور ان کی خلاف ورزی آخرت کی ہلاکت کا سبب ہے اور چونکہ شرائط مذکورہ میں سب سے اہم شرط ایمان کی ہے اس لئے سب سے پہلا حکم بھی توحید کا بیان فرمایا اس کے بعد حقوق العباد سے متعلقہ احکام ہیں۔- خلاصہ تفسیر :- حکم اول توحید لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ (اے مخاطب) اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود مت تجویز کر ( یعنی شرک نہ کر) ورنہ تو بد حال بےیارومددگار ہو کر بیٹھ رہے گا (آگے پھر اس کی تاکید ہے) تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس (معبود برحق) کے کسی کی عبادت مت کر (یہ سعی آخرت کے طریقہ کی تفصیل ہے)- حکم دوم : اداء حقوق والدین وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو اگر (وہ) تیرے پاس (ہوں اور) ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے (کی عمر) کو پہنچ جائیں (جس کی وجہ سے محتاج خدمت ہوجائیں اور جبکہ طبعا ان کی خدمت کرنا بھاری معلوم ہو) سو (اس وقت بھی اتنا ادب کرو کہ) ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور (ان کے لئے حق تعالیٰ سے) یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن (کی عمر) میں پالا پرورش کیا ہے (اور صرف اس ظاہری توقیر و تعظیم پر اکتفاء مت کرنا دل میں بھی ان ادب اور قصد اطاعت رکھنا کیونکہ) تمہارا رب تمہارے دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے (اور اسی وجہ سے تمہارے لئے اس کی تعمیل آسمان کرنے کے واسطے ایک تخفیف کا حکم بھی سناتے ہیں کہ) اگر تم (حقیقت میں دل ہی سے) سعادت مند ہو (اور غلطی یا تنک مزاجی یا دل تنگی سے کوئی ظاہری کوتاہی ہوجائے اور پھر نادم ہو کر معذرت کرلو) تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا ہے۔
لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا 22ۧ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیز کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- ذم - يقال : ذَمَمْتُهُ أَذُمُّهُ ذَمّاً ، فهو مَذْمُومٌ وذَمِيمٌ ، قال تعالی: مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 18] ، وقیل : ذَمَّتُّهُ أَذُمُّهُ علی قلب إحدی المیمین تاء .- والذِّمَام : ما يذّمّ الرّجل علی إضاعته من عهد، وکذلک المَذَمَّةُ والمَذِمَّة . وقیل : لي مَذَمَّة فلا تهتكها، وأذهب مَذَمَّتَهُمْ بشیء، أي : أعطهم شيئا لما لهم من الذّمام . وأَذَمَّ بکذا : أضاع ذمامه، ورجل مُذِمٌّ: لا حراک «2» به، وبئر ذَمَّةٌ:- قلیلة الماء، قال الشاعر :- 170-- وتری الذّميم علی مراسنهم ... يوم الهياج کمازن الجثل - «3» الذَّمِيم : شبه بثور صغار . يقال : أصله الذنة والذنین .- ( ذ م م )- ذمتہ ( ن) ذما کے معنی مذمت کرنے کے ہیں ۔ اس سے صیغہ صفت مفعول مذموم وذمیم آتا ، قرآن میں ہے : مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 18] نفرین سنکر اور ( درگاہ خدا سے ) راندہ ہوکر ۔ اور بعض ذممتہ صیغہ واحد متکلم میں دوسری میم کا ناد ست بدل کر ذمتہ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ الذمام ۔ وہ عہد وغیرہ جس کا ضائع کرنا باعث مذمت ہو یہی معنی ذمتہ ومذمتہ کے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ میرے عہد یا حرمت کا پاس کیجئے توڑیئے نہیں یعنی ان کے حق احترام کا بدلہ اتاریئے ۔ اذم بکذا ۔ اس کی حرمت کو ضائع کردیا ۔ تہاون سے کام لیا ۔ رجل مذم بےحس و حرکت بئر ذمتہ کم پانی والا کنواں چیونٹی کے انڈوں کی طرح سفید سا مادہ جو ناک پر ظاہر ہوجاتا ہے اسے الذمیم کہا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔- خذل - قال تعالی: وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] ، أي : كثير الخذلان، والخِذْلَان : ترک من يظنّ به أن ينصر نصرته، ولذلک قيل : خَذَلَتِ الوحشيّة ولدها، وتَخَاذَلَت رجلا فلان، ومنه قول الأعشی - بين مغلوب تلیل خدّه ... وخَذُول الرّجل من غير كسح - «2» ورجل خُذَلَة : كثيرا ما يخذل .- ( خ ذل )- قرآن میں ہے : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کو عین موقعہ پر دغا دینے والا ہے ۔ الخذول ( صیغہ مبالغہ ) بہت زیادہ خدلان یعنی دغا دینے والا ہے ۔ الخذلان ایسے شخص کا عین موقعہ پر ساتھ چھوڑ کر الگ ہوجانا جسکے متعلق گمان ہو کہ وہ پوری پوری مدد کریگا ۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے : خذلت الوحشیۃ ولدھا وحشی گائے نے اپنے بچہ کو چھوڑ دیا اس کی ٹانگیں کمزور پڑگئیں اسی سے اعشی نے کہا ہے ( الرمل ) (132) بین مغلوب تلیل خدۃ وخذول الرجل من غیر کسح ( بعض مغلوب ہو کر رخسارے کے بل گر پڑے ہیں اور بعض ٹانگیں بدوں بےحسی کے جواب دے چکی ہیں ۔ رجل خذلۃ بےبس آدمی ۔
(٢٢) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود تجویز کر ورنہ صاحب ملامت ہوجائے گا کہ خود ہی اپنے آپ کو ملامت کرے گا اور پروردگار حقیقی تجھ کو ذلیل کر دے گا۔
آیت ٢٢ (لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا)- آئندہ دو رکوع اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں تورات کے احکام عشرہ ( ) کو قرآنی اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے نزدیک ان احکام کے اندر تورات کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ ان احکام کا خلاصہ ہم سورة الانعام کے آخری حصے میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ یہاں پر وہی باتیں ذرا تفصیل سے بیان ہوئی ہیں۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :24 دوسرا ترجمہ اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور خدا نہ گھڑ لے ، یا کسی اور کو خدا نہ قرار دے لے ۔
12: آیت نمبر 19 میں فرمایا گیا تھا کہ آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کے لیے بندے کو ویسی ہی کوشش کرنی ہے جیسی کرنی چاہئے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی طرف اشارہ تھا۔ اب یہاں سے ایسے کچھ احکام کی تفصیل بیان فرمائی جا رہی ہے جس کو سب سے پہلے توحید کے حکم سے شروع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا۔ اس کے بعد کچھ احکام حقوق العباد سے متعلق بیان کیے گئے ہیں۔