اٹل فیصلے محکم حکم یہاں قضی معنی میں حکم فرمانے کے ہے تاکیدی حکم الہٰی جو کبھی ٹلنے والا نہیں یہی ہے کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں سرمو فرق نہ آئے ۔ ابی ابن کعب ، ابن مسعود اور ضحاک بن مزاحم کی قرأت میں قضی کے بدلے وصی ہے ۔ یہ دونوں حکم ایک ساتھ جیسے یہاں ہیں ایسے ہی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14 ) 31- لقمان:14 ) میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مند رہ ۔ خصوصا ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا ، کوئی بری بات زبان سے نہ نکلنا یہاں تک کے ان کے سامنے ہوں بھی نہ کرنا ، نہ کوئی ایسا کام کرنا جو انہیں برا معلوم ہو ، اپنا ہاتھ ان کی طرف بے ادبی سے نہ بڑھانا ، بلکہ ادب عزت اور احترام کے ساتھ ان سے بات چیت کرنا ، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا ، ان کی رضا مندی کے کام کرنا ، دکھ نہ دینا ، ستانا نہیں ، ان کے سامنے تواضع ، عاجزی ، فروتنی اور خاکساری سے رہنا ان کے لئے ان کے بڑھاپے میں ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا ۔ خصوصا دعا کہ اے اللہ ان پر رحم کر جیسے رحم سے انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی ۔ ہاں ایمانداروں کو کافروں کے لئے دعا کرنا منع ہو گئی ہے گو وہ باپ ہی کیوں نہ ہوں ؟ ماں باپ سے سلوک و احسان کے احکام کی حدیثیں بہت سی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے منبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہی ، جب آپ سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا اے نبی اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ، جس کے پاس تیرا ذرک ہو اور اس نے تجھ پر درود بھی نہ پڑھا ہو ۔ کہئے آمین چنانچہ میں نے کہا آمین کہی ۔ پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالیٰ خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور چلا بھی گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی ۔ آمین کہئے چنانچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی ۔ پھر فرمایا اللہ اسے بھی برباد کرے ۔ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پا لیا اور پھر بھی ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا کہئے آمین میں نے کہا آمین ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے کسی مسلمان ماں باپ کے یتیم بچہ کو پالا اور کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ بےنیاز ہو گیا اس کے لئے یقینا جنت واجب ہے اور جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا اللہ اسے جہنم سے آزاد کرے گا اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم سے آزاد ہو گا ۔ اس حدیث کی ایک سند میں ہے جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیا پھر بھی دوزخ میں گیا اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے ۔ مسند احمد کی ایک روایت میں یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں یعنی گردن آزاد کرنا خدمت والدین اور پرورش یتیم ۔ ایک روایت میں ماں باپ کی نسبت یہ بھی ہے کہ اللہ اسے دور کرے اور اسے برباد کرے الخ ۔ ایک روایت میں تین مرتبہ اس کے لئے یہ بدعا ہے ۔ ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر درود نہ پڑھنے والے اور ماہ رمضان میں بخشش الہٰی سے محروم رہ جانے والے اور ماں باپ کی خدمت اور رضا مندی سے جنت میں نہ پہنچنے والے کے لئے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بدعا کرنا منقول ہے ۔ ایک انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کر سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں چار سلوک ( ١ ) ان کے جنازے کی نماز ( ٢ ) ان کے لئے دعا و استغفار ( ٣ ) ان کے وعدوں کو پورا کرنا ( ٤ ) ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہو ۔ یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان کے ساتھ کر سکتا ہے ( ابوداؤد ابن ماجہ ) ایک شخص نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے ارادے سے آپ کی خدمت میں خوشخبری لے کر آیا ہوں ۔ آپ نے فرمایا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا جا اسی کی خدمت میں لگا رہ ۔ جنت اسی کے پیروں کے پاس ہے ۔ دوبارہ سہ بارہ اس نے مختلف مواقع پر اپنی یہی بات دہرائی اور یہی جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دہرایا ( نسائی ابن ماجہ وغیرہ ) فرماتے ہیں اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی نسبت وصیت فرماتا ہے اللہ تمہیں تماری ماؤں کی نسبت وصیت فرماتا ہے ۔ پچھلے جملے کو تین بار بیان فرمایا اللہ تمہیں تمہارے قرابت داروں کی بابت وصیت کرتا ہے ، سب سے زیادہ نزدیک والا پھر اس کے پاس والا ( ابن ماجہ مسند احمد ) فرماتے ہیں دینے والے کا ہاتھ اونچا ہے اپنے ماں سے سلوک کر اور اور اپنے باپ سے اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر جو اس کے بعد ہو اسی طرح درجہ بدرجہ ( مسند احمد ) بزار کی مسند میں ضعیف سند سے مروی ہے کہ ایک اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے طواف کرا رہے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے لگے کہ اب تو میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک شمہ بھی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
23۔ 1 اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ گویا ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کردیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ہوں تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بےبس اور لا چار ہوتے ہیں، جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے دیوانے جذبات اور بڑھاپے کے سرد و گرم تجربات میں تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے ہاں سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا۔
[٢٣] اسلامی معاشرہ کے لئے چودہ بنیادی احکام تورات کی تعلیم کا خلاصہ :۔ اس آیت سے لے کر آگے پندرہ سولہ آیات میں ایسے بنیادی اصول و احکام بیان کیے جارہے ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لیے بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ اور جن پر مستقبل قریب میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جانے والی تھی۔ گویا یہ اسلامی ریاست کا دستور اساسی تھا جس کا مکہ کی آخری زندگی میں ہی اعلان کردیا گیا تھا کہ اس نئی ریاست کی بنیاد کن کن نظری، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی اور سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ تورات کی ساری تعلیم کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرما دیا ہے۔- [٢٤] توحید کا فیصلہ اللہ نے کب کیا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کب کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اس وقت ہی کردیا تھا جب سیدنا آدم کو پیدا کرکے اس کی پشت سے پیدا ہونے والی تمام روحوں کو نکال کر اپنے سامنے حاضر کیا اور پوچھا تھا کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ؟ تو سب نے جواب دیا تھا کیوں نہیں۔ ہم اس کا اقرار کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں یہ اقرار تم سے اس لیے لے رہا ہوں مبادا تم قیامت کو یوں کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے اور ہم تو اس سے بیخبر تھے (٧: ١٧٢، ١٧٣) اسی عہد کا خلاصہ اس جملہ میں آگیا ہے یعنی اقرار ایک تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے موجود ہونے پر تھا اور دوسرے اس بات پر کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنایا جائے گا۔- دنیا کے مذاہب توحید پرست ہمیشہ موجود رہے ہیں اگرچہ کم کیوں نہ ہوں :۔ اعتقادی لحاظ سے انسان دو قسموں میں بٹا ہوا ہے ایک وہ فریق ہے جو سرے سے ہی اللہ کے وجود کا قائل نہیں جیسے دہرئیے اور نیچری وغیرہ۔ دوسرے وہ جو کسی نہ کسی مذہب کے پیروکار اور اللہ کی ہستی کے قائل ہیں۔ اس لحاظ سے پہلی قسم کے لوگ تھوڑے ہیں اور اکثریت ایسی ہی رہی ہے جو اللہ کے وجود کی قائل رہی ہے۔ پھر یہ دوسرا گروہ یعنی اللہ کی ہستی کے قائل لوگ دو قسموں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جو اللہ کو مانتے بھی ہیں مگر ساتھ ساتھ اس کے شریک بھی بنائے جاتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو توحید پر قائم رہے۔ ان میں اکثریت پہلی قسم کے لوگوں کی ہے اور توحید پرست کم ہی رہے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ انسان اس کی ہستی کا قائل بھی ہو اور اس کے ساتھ شرک بھی نہ کرے۔ اب جن لوگوں نے اللہ کی ہستی کا انکار کیا انہوں نے بھی اللہ سے کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی اور جنہوں نے شرک کیا انہوں نے بھی خلاف ورزی کی۔ باقی تھوڑے ہی لوگ بچتے ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا۔ اور اللہ کے فیصلے کے مطابق زندگی بسر کی اور وہ صرف توحید پرستوں کا قلیل سا طبقہ دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور تاقیامت موجود رہے گا تاکہ لوگوں پر ہر وقت اتمام حجت ہوسکے۔ چناچہ سورة یوسف کی اس آیت ( وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦۔ ) 12 ۔ یوسف :106) میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔- [٢٥] والدین سے بہتر سلوک اور ادائیگی حقوق :۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ متصل والدین کا ذکر فرمایا۔ پھر یہ نہیں فرمایا کہ والدین کے حقوق ادا کرو بلکہ یوں فرمایا ان سے بہتر سلوک کرو اور یہ تو واضح ہے کہ بہتر سلوک میں حقوق کی ادائیگی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ آجاتا ہے۔ اسی طرح احادیث صحیحہ میں شرک کے بعد دوسرے نمبر پر عقوق والدین کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے اور عقوق کے معنی عموماً نافرمانی کرلیا جاتا ہے حالانکہ عقوق کا معنی ہر وہ فعل ہے جس سے والدین کو ذہنی اور روحانی اذیت پہنچے۔ مثلاً والدین کی طرف بےتوجہی بالخصوص اس وقت جبکہ وہ بوڑھے اور توجہ کے محتاج ہوں۔ یہ بات نافرمانی کے ضمن میں نہیں آتی مگر عقوق کے معنی میں ضرور آجاتی ہے اسی لیے قرآن نے ہر مقام پر والدین سے احسان یا بہتر سلوک کا ذکر فرمایا۔- [٢٦] والدین سے حسن سلوک کی وجوہ :۔ جب والدین بوڑھے ہوں اور کما بھی نہ سکتے ہوں اور ان کی اولاد جوان اور برسر روزگار ہو۔ تو والدین کئی لحاظ سے اولاد سے بہتر سلوک کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اولاد ان سے مالی تعاون کرے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرے۔ دوسرے یہ کہ والدین کی محبت تو اپنی اولاد سے بدستور قائم رہتی ہے مگر اولاد کی محبت آگے اپنی اولاد کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اس لیے اولاد اپنی اولاد کی طرف متوجہ رہتی ہے اور والدین کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس عمر میں والدین کو اولاد سے زیادہ خاصی توجہ، محبت اور الفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرے یہ کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے طبعی طور پر چڑچڑا سا ہوجاتا ہے اور اولاد چونکہ اب ان کی طرف سے بےنیاز ہوچکی ہوتی ہے۔ لہذا وہ والدین کی باتیں برداشت کرنے کے بجائے انھیں الٹی سیدھی باتیں سنانے لگتی ہے انھیں وجوہ کی بنا پر اولاد کو یہ تاکید کی گئی کہ ان سے بات کرو تو ادب کے ساتھ اور محبت و الفت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بات کرو۔ جس سے انھیں کسی قسم کی ذہنی یا روحانی اذیت نہ پہنچے۔
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ : پچھلی آیت میں شرک سے منع فرمانے کے بعد صرف اپنی عبادت کی تاکید کے لیے لفظ ” قَضٰى“ استعمال فرمایا، جس میں انتہائی تاکید پائی جاتی ہے، کیونکہ فیصلہ قطعی ہوتا ہے اور وہ بدلا نہیں جاتا، چناچہ فرمایا ” قَضٰى“ یعنی قطعی حکم اور فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سو اکسی کی عبادت نہ کرو، یعنی صرف اس کے بندے بن کر رہو، غیبی قوتوں کا مالک صرف اس کو سمجھ کر اس سے مانگو۔ انتہائی درجے کی محبت اور خوف کے ساتھ انتہائی عاجزی صرف اس کے لیے اختیار کرو۔ تمہارے دل، زبان اور جسم کے ہر حصے کا اس طرح کا ہر فعل مثلاً قیام، سجدہ، رکوع اور قربانی بلکہ پوری زندگی ایسی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ - وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا : ” اِحْسَانًا “ امر ” أَحْسِنُوْا “ کا مصدر ہے، جو تاکید کے لیے ہے اور امر کی جگہ آتا ہے۔ اس کے ساتھ امر کا لفظ ذکر نہیں ہوتا مگر مراد امر تاکیدی ہوتا ہے، یعنی والدین کے ساتھ بہت نیکی کرو۔ ” اِمَّا “ اصل میں ” إِنْ مَا “ ہے، ” مَا “ شرط کی تاکید کے لیے ہے، یعنی ” اگر کبھی۔ “ ان آیات کے نزول کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد اور والدہ دونوں فوت ہوچکے تھے، ان دونوں یا ایک کا بڑھاپے میں پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ بظاہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دینے کے باوجود اصل حکم ہر شخص کو ہے۔ ماں باپ خواہ بوڑھے ہوں یا جوان، ہر حال میں ان کا ادب کرنا اور ان سے نرمی سے بات کرنا فرض اور انھیں جھڑکنا گناہ ہے، مگر چونکہ بڑھاپے میں خدمت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتا ہے، بلکہ بسا اوقات زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے، اس لیے خاص طور پر بڑھاپے کا ذکر فرمایا۔ - 3 اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر صرف اپنی عبادت کی تاکید کے ساتھ والدین سے احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة نساء (٣٦) اور سورة بقرہ (٨٣) دوسرے مقامات پر واضح فرمایا کہ ان سے حسن سلوک لازم ہے، خواہ وہ کافر و مشرک ہوں، بلکہ اگرچہ شرک و کفر کی دعوت بھی دیتے ہوں۔ دیکھیے سورة لقمان (١٥) اور سورة عنکبوت (٨) احادیث میں بھی والدین سے حسن سلوک کی بہت تاکید آئی ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَغِمَ أَنْفُ ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ، قِیْلَ مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَہ الْکِبَرِ ، أَحَدَھُمَا أَوْ کِلَیْھِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب رغم من أدرک أبویہ۔۔ : ١٠؍٢٥٥١ ] ” اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو۔ “ پوچھا گیا : ” یا رسول اللہ کس کی ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، ان میں سے ایک کو یا دونوں کو، پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔ “- ” عِنْدَک “ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تم والدین کے پاس تھے اور ان کے محتاج تھے، اب وہ بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے تمہارے پاس اور تمہارے محتاج ہیں۔ چناچہ انھیں ” اف “ بھی نہ کہو، جو اکتاہٹ اور بےادبی کا ہلکے سے ہلکا لفظ ہے، پھر اس سے زیادہ کوئی سخت لفظ بولنا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟ - قَوْلًا كَرِيْمًا : بعض اہل علم نے اس کی تفسیر میں قول کریم کی نقشہ کشی یوں فرمائی کہ ان سے ایسے بات کر جیسے ایک خطا کار غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے اور بعض نے فرمایا کہ بچپن میں جس طرح تمہارے پیشاب پاخانہ کو صاف کرتے وقت وہ کوئی کراہت محسوس نہ کرتے تھے، بلکہ محبت ہی سے پیش آتے تھے، اب تم بھی ان سے وہی سلوک کرو۔ (بغوی)
معارف و مسائل :- والدین کے ادب و احترام اور اطاعت کی بڑی اہمیت :- امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے جیسا کہ سورة لقمان میں اپنے لشکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ (یعنی میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہے صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے جس میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ نماز اپنے وقت (مستحب) میں اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک (قرطبی)- والدین کی اطاعت و خدمت کے فضائل روایات حدیث میں :- (١) مسند احمد ترمذی ابن ماجہ مستدرک حاکم میں بسند صحیح حضرت ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے اب تمہیں اختیار ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا ضائع کردو (مظہری)- (٢) اور جامع ترمذی ومستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی روایت ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی رضاء باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں۔- (٣) ابن ماجہ نے بروایت حضرت ابو امامہ (رض) نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں ہی تیری جنت یا دوزخ ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لی جاتی ہے اور ان کی بےادبی اور ناراضی دوزخ میں۔- (٤) بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے لئے اپنے ماں باپ کا فرمانبردار رہا اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گے اور جو ان کا نافرمان ہو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گے اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہی تھا تو ایک دروازہ (جنت یا دوزخ کا کھلا رہے گا) اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ (یہ جہنم کی وعید) کیا اس صورت میں بھی ہے کہ ماں باپ نے اس شخص پر ظلم کیا ہو تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا وان ظلما وان ظلما وان ظلما (یعنی ماں باپ کی نافرمانی اور ان کو ایذا رسانی پر جہنم کی وعید ہے خواہ ماں باپ نے ہی لڑکے پر ظلم کیا ہو جس کا حاصل یہ ہے کہ اولاد کو ماں باپ سے انتقام لینے کا حق نہیں کہ انہوں نے ظلم کیا تو یہ بھی ان کی خدمت و اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیں)- (٥) بیقہی نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو خدمت گذار بیٹا اپنے والدین پر رحمت و شفقت سے نظر ڈالتا ہے تو ہر نظر کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب پاتا ہے لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ دن میں سو مرتبہ اس طرح نظر کرلے آپ نے فرمایا کہ ہاں سو مرتبہ بھی (ہر نظر پر یہی ثواب ملتا رہے گا) اللہ تعالیٰ بڑا ہے (اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی ) ۔- والدین کی حق تلفی کی سزاء آخرت سے پہلے دنیا میں بھی ملتی ہے :- (٦) بہیقی نے شعب الایمان میں بروایت ابی بکرہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ سب گناہوں کی سزاء تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں قیامت تک مؤ خر کردیتے ہیں بجز والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کے کہ اس کی سزاء آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے (یہ سب روایات تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں)- والدین کی اطاعت کن چیزوں میں واجب ہے اور کہاں مخالفت کی گنجائش ہے :- اس پر علماء وفقہاء کا اتفاق ہے کہ والدین کی اطاعت صرف جائز کاموں میں واجب ہے ناجائز یا گناہ کے کام میں اطاعت واجب تو کیا جائز بھی نہیں حدیث میں ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق (یعنی خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں) - والدین کی خدمت اور اچھے سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا ضروری نہیں :- امام قرطبی نے اس مسئلہ کی شہادت میں حضرت اسماء (رض) کا یہ واقعہ صحیح بخاری سے نقل کیا ہے کہ حضرت اسماء (رض) نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفتار کیا کہ میری والدہ جو مشرک ہے مجھ سے ملنے کے لئے آتی ہے کیا میرے لئے جائز ہے کہ میں اس کی خاطر مدارت کروں آپ نے فرمایا صلی امک (یعنی اپنی ماں کی صلہ رحمی اور خاطر مدارات کرو) اور کافر ماں باپ کے بارے میں خود قرآن کریم کا یہ ارشاد موجود ہے۔ (آیت) وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا یعنی ماں باپ کافر ہوں اور اس کو بھی کافر ہونے کا حکم دیں تو ان کا اس معاملے میں حکم ماننا تو جائز نہیں مگر دنیا میں ان کے ساتھ معروف طریقہ کا برتاؤ کیا جائے ظاہر ہے کہ معروف طریقہ سے یہی مراد ہے کہ ان کے ساتھ مدارات کا معاملہ کریں۔- مسئلہ : جب تک جہاد فرض عین نہ ہوجائے فرض کفایہ کے درجے میں رہے اس وقت تک کسی لڑکے کے لئے بغیر ان کی اجازت کے جہاد میں شریک ہوجانا جائز نہیں صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شریک جہاد ہونے اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا ففیھما فجاہد یعنی بس تو اب ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو مطلب یہ ہے کہ ان کی خدمت ہی میں تمہیں جہاد کا ثواب مل جائے گا دوسری روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ اس شخص نے یہ بیان کیا کہ میں اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں اس پر آپ نے فرمایا کہ جاؤ ان کو ہنساؤ جیسا کہ ان کو رلایا ہے یعنی ان سے جا کر کہہ دو کہ میں آپ کی مرضی کے خلاف جہاد میں نہیں جاؤں گا (قرطبی)- مسئلہ : اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب کوئی چیز فرض عین یا واجب علی العین نہ ہو کفایہ کے درجہ میں ہو تو اولاد کے لئے وہ کام بغیر ماں باپ کی اجازت کے جائز نہیں اس میں مکمل علم دین حاصل کرنا اور تبلیغ دین کے لئے سفر کرنے کا حکم بھی شامل ہے کہ بقدر فرض علم دین جس کو حاصل ہو وہ عالم بننے کے لئے سفر کرے یا لوگوں کو تبلیغ و دعوت کے لئے سفر کرے تو بغیر اجازت والدین کے جائز نہیں۔- مسئلہ : والدین کے ساتھ جو حسن سلوک کا حکم قرآن و حدیث میں آیا ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں سے والدین کی قرابت یا دوستی تھی ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کرے خصوصا ان کی وفات کے بعد صحیح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باپ کے ساتھ بڑا سلوک یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور حضرت ابو اسید بدری (رض) نے نقل کیا ہے کہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھا تھا ایک انصاری شخص آیا اور سوال کیا یارسول اللہ ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کا کوئی حق میرے ذمہ باقی ہے آپ نے فرمایا ہاں ان کے لئے دعاء اور استغفار کرنا اور جو عہد انہوں نے کسی سے کیا تھا اس کو پورا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا اور ان کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا برتاؤ کرنا جن کا رشتہ قرابت صرف انھیں کے واسطے سے ہے والدین کے یہ حقوق ہیں جو ان کے بعد بھی تمہارے ذمہ باقی ہیں۔- آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی کہ حضرت خدیجہ ام المؤ منین کی وفات کے بعد ان کی سہیلیوں کے پاس ہدیہ بھیجا کرتے تھے جس سے حضرت خدیجہ کا حق ادا کرنا مقصود تھا۔- والدین کے ادب کی رعایت خصوصا بڑھاپے میں :- والدین کی خدمت و اطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے لیکن واجبات و فرائض کی ادائیگی میں جو حالات عادۃ رکاوٹ بنا کرتے ہیں ان حالات میں قرآن حکیم کا عام اسلوب یہ ہے کہ احکام پر عمل کو آسان کرنے کے لئے مختلف پہلوؤں سے ذہنوں کی تربیت بھی کرتا اور ایسے حالات میں تعمیل احکام کی پابندی کی مزید تاکید بھی۔- والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں ان کی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر رہ جائے اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بےرخی بھی محسوس ہو تو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنا دیتے ہیں تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل وفہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات ومطالبات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوتا ہے قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دل جوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بےعقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ اداء کرو آیت میں (آیت) كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور آیات مذکورہ میں والدین کے بڑھاپے کی حالت کو پہنچنے کے وقت چند تاکیدی احکام دیئے گئے ہیں۔- اول یہ کہ ان کو اف بھی نہ کہے لفظ اف سے مراد ہر ایسا کلمہ ہے جس سے اپنی ناگواری کا اظہار ہو یہاں تک کہ ان کی بات سن اس طرح لمبا سانس لینا جس سے ان پر ناگواری کا اظہار ہو وہ بھی اسی کلمہ اف میں داخل ہے ایک حدیث میں بروایت حضرت علی (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ایذا رسانی میں اف کہنے سے بھی کم کوئی درجہ ہوتا تو یقینا وہ بھی ذکر کیا جاتا (حاصل یہ ہے کہ جس چیز سے ماں باپ کو کم سے کم بھی اذیت پہنچے وہ بھی ممنوع ہے)- دوسراحکم ہے وَلَا تَنْهَرْهُمَا لفظ لفظ لہم کے معنی جھڑکنے ڈانٹنے کے ہیں اس کا سبب ایذاء ہونا ظاہر ہے تیسرا حکم (آیت) وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ہے پہلے دو حکم منفی پہلو سے متعلق تھے جن میں والدین کی ادنی سے ادنی بار خاطر کو روکا گیا ہے اس تیسرے حکم میں مثبت انداز سے والدین کے ساتھ گفتگو کا ادب سکھلایا گیا ہے کہ ان سے محبت و شفقت کے نرم لہجہ میں بات کی جائے حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا جس طرح کوئی غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا 23- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] - ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ - بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - كبر ( بوڑها)- فلان كَبِيرٌ ، أي : مسنّ. نحو قوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء 23] ، وقال : وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة 266] ، وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران 40] - ( ک ب ر ) کبیر - اور قرآن میں ہے : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک تمہارے سامنے پڑھاپے کو پہنچ جائیں ۔ وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة 266] اور اسے بڑھا آپکڑے ۔ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران 40] کہ میں تو بڈھا ہوگیا ہوں ۔ اور - أفّ- أصل الأُفِّ : كل مستقذر من وسخ وقلامة ظفر وما يجري مجراها، ويقال ذلک لکل مستخف به استقذارا له، نحو : أُفٍّ لَكُمْ وَلِما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ الأنبیاء 67] ، وقد أَفَّفْت لکذا : إذا قلت ذلک استقذارا له، ومنه قيل للضجر من استقذار شيء : أفّف فلان - ( ا ف ف ) الاف - ۔ اصل میں ہر گندی اور قابل نفرت چیز کو کہتے ہیں میل کچیل اور ناخن کا تراشہ وغیرہ اور محاورہ میں کسی بری چیز سے اظہار نفرت کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ؛ أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ الأنبیاء : 67] تف ہے تم پر اور جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو ان پر بھی ۔ کسی چیز سے کراہت ظاہر کرنا اف کہنا ۔ اسی سے افف فلان کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی کسی مکروہ چیز سے دل برداشتگی کا اظہار کرنے کے ہیں ۔- نَّهْرُ ) جھڑکنا)- والانتهارُ : الزّجر بمغالظة، يقال : نَهَرَهُ وانتهره، قال : فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما - [ الإسراء 23] ، وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ [ الضحی 10] .- النھروالانتھار ۔ سختی سے جھڑکنا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما[ الإسراء 23] تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا ۔ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ [ الضحی 10] اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا ۔- كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معیم یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے
والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا بیان - قول باری ہے (وقصی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احساناً تمہارے رب نے فیصلہ دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو۔ مگر صرف اس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو) قول باری (اقضی ربک) کے معنی ہیں ” امر ربک تمہارے رب نے حکم دیا ہے ) اسی طرح تمہارے رب نے والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم دیا ہے۔ “ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں۔ ” و اوصی بالوالدین احساناً (اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دونوں ہم معنی ہیں اس لئے کہ وصیت کے معنی بھی امر اور حکم کے ہیں۔ اللہ نے اپنی کتاب میں والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کی متعدد مقامات پر وصیت فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ احساناً اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے) نیز فرمایا : (ان اشکرلی ولوالذیک الی المصیر، وان جاھدک علی ان تشرک بی ما لیس بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفاً کہ تم میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کرو میری ہی طرف واپسی ہے اور اگر یہ دونوں تم پر دبائو ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائو جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں تو تم ان کا کہا نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے گزارہ کرو) اللہ تعالیٰ مشرک والدین کے ساتھ خوبی سے گزارہ کرنے کا حکم اور ساتھ ہی ساتھ شرک کے معاملہ میں ان کی فرمانبرداری سے منع بھی فرما دیا اس لئے کہ کسی مخلوق کی ایسی طاعت ممنوع ہے جس سے خالق کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ (ان من الکبائر عقوق الوالدین والدین کی نافرمانی کبائر یعنی بڑے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ )- والدین کو اف تک نہ کہو - قول باری ہے (اما یبلغن عندک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لھما اف ۔ ) اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ ” اگر تم بڑے ہو جائو یعنی بالغ ہو کر احکام الٰہی کے مکلف بن جائو اور اس وقت تمہارے والدین میں سے دونوں یا ایک زندہ ہوں اور تمہارے پاس رہتے ہوں تو انہیں اف تک نہ کہو “ لیث بن سعد نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ جب والدین بڑھاپے کی اس لاچاری کی حالت کو پہنچ جائیں جو حالت کم سنی میں تم کو لاحق تھی اور وہ تمہاری دیکھ بھال کرتے تھے تو انہیں اف تک نہ کہو۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کا لفظ دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہے اس لئے اسے ان دونوں معنوں پر محمو لکیا جائے گا ۔ اس لئے کہ بیٹے کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دینے کی شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو کیونکہ نابالغ کو مکلف بنانا اور اسے کسی حکم کا پابند کرنا سرے سے درست ہی نہیں ہے۔ جب لڑکا بلوغت کی حد میں داخل ہوجائے اور دوسری طرف اس کے والدین بڑھاپے اور ضعف کی سرحد پار کر جائیں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں ان کے ساتھ حسن سلوک اس پر واجب ہے۔ اسے اف کا کلمہ کہنے سے روکا گیا ہے اس لئے کہ یہ کلمہ بیزاری اور اکتاہٹ کی حالت پر دلالت کرتا جو آیت میں مخاطب شخص یعنی بیٹے کے دل میں اپنے والدین کے سلسلے میں پیدا ہوجاتی ہے۔- والدین سے توہین آمیز رویہ منع ہے ۔- قول باری ہے (ولا تتھوھما نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ) اس کے معنی ہیں۔” ان پر سختی کرتے ہوئے نیز ا ن کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کر کے انہیں ڈانٹ نہ پلائو۔ “- والدین سے احترام کے ساتھ بات کرو - قول باری ہے (وقل لھما قولاً کریماً بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو) قتادہ کا قول ہے کہ ” ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو۔ “
(٢٣) تیرے معبود برحق نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ اسی معبود برحق کی توحید کے قائل ہوجاؤ اور تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو اگر وہ تیرے پاس ہوں اور ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو اس وقت بھی ان کے ساتھ قطعا کوئی نازیبا اور ادب کے خلاف گفتگو مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے ادب کے خلاف گفتگو مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوب نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا۔
آیت ٢٣ (وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا)- اللہ کے حقوق کے فوراً بعد والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید اس سے پہلے ہم سورة البقرۃ کی آیت ٨٣ اور سورة النساء کی آیت ٣٦ میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ اس کے بعد سورة لقمان کی آیت ١٤ میں یہی حکم چوتھی مرتبہ آئے گا۔- (فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا)- اگر کبھی والدین کی بات کو ٹالنا بھی پڑجائے تو حکمت اور نرمی کے ساتھ ایسا کیا جائے۔ عقل اور منطق کے بل پر سینہ تان کر یوں جواب نہ دیا جائے کہ ان کا دل دکھے۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :25 یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے ۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے مدنی دور کے نقطہ آغاز پر پیش کیا گیا ، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری ، اخلاقی ، تمدنی ، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی ۔ اس موقع پر سورہ انعام کے رکوع ١۹ اور اس کے حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہوگا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :26 اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو ، بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو ، اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلی تسلیم نہ کرو ۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ ، اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اس پورے نظام اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملا قائم کیا ۔ اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے ، اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے ۔