Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایہء شفقت میں لیتا ہے تو ان کے لئے اپنے بازو پست کردیتا ہے، یعنی تو بھی والدین کے ساتھ اسی طرح اچھا اور پر شفقت معاملہ کرنا اور ان کی اسی طرح کفالت کر جس طرح انہوں نے بچپن میں تیری کی۔ یا یہ معنی ہیں کہ جب پرندہ اڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے بازو پھیلا لیتا ہے اور جب نیچے اترتا ہے تو بازؤں کو پست کرلیتا ہے۔ اس اعتبار سے بازوؤں کے پست کرنے کے معنی، والدین کے سامنے تواضع اور عاجزی کا اظہار کرنے کے ہوں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] والدین سے بہتر سلوک کیسا ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ متصل والدین کا کیوں ذکر فرمایا ؟:۔ یعنی والدین سے تمہارا سلوک ایسا ہونا چاہیے جیسے غلام کا اپنے آقا سے ہوتا ہے۔ ان سے ادب و انکساری سے پیش آؤ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی دعا بھی کرتے رہو۔ کیونکہ وہی تمہاری پرورش و تربیت کا سبب بنے تھے۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلاً والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے۔ جس نے زمین بنائی، ہوا، پانی، سورج، چاند وغیرہ پیدا کئے۔ پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کردیں۔ اس طرح انسان، تمام جانداروں اور باقی سب چیزوں کا پالنے والا اور پرورش و تربیت کرنے والا حقیقتاً اللہ رب العالمین ہی ہوا۔ پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا۔ دوسرے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ پھر ان پر گرمی یا سردی یا بارش کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا انسان کے بچے پر ہوتا ہے دوسرے جانوروں کے بچے اتنے بیمار بھی نہیں ہوتے جتنا انسان کا بچہ فوراً بیمار ہوجاتا ہے۔ پھر ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کرتی ہے۔ باپ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون بھی کرتا ہے۔ تب جاکر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے اتنی بےپناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہوسکتی۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بےیارو و مددگار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بےانصافی اور ظلم اور کیا ہوسکتا ہے ؟ معاشرتی زندگی کا یہ وہ نہایت اہم باب ہے جس کی طرف سے دنیادار انسان ہمیشہ غافل ہی رہے ہیں مگر اسلام نے اس طرف بھرپور توجہ دلائی ہے اور دعا سے مقصود یہ ہے کہ یا اللہ میں تو ان کا حق الخدمت پوری طرح بجا لانے سے قاصر ہوں لہذا تو ہی ان پر بڑھاپے میں اور مرنے کے بعد نظر رحمت فرما۔ اب ہم اس سلسلہ میں چند ارشادات نبوی پیش کرتے ہیں :- والدین سے بہتر سلوک کے متعلق چند احادیث :۔- ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا یارسول اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے ؟ فرمایا : نماز کی بروقت ادائیگی میں نے پوچھا پھر کون سا ؟ فرمایا : ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا میں نے پوچھا پھر کون سا فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا (بخاری۔ کتاب الادب)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ فرمایا : تیری ماں اس نے کہا پھر کون ؟ فرمایا : تیری ماں اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا : تیری ماں اس نے چوتھی بار پوچھا پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : تیرا باپ (بخاری۔ کتاب الادب من احق الناس بحسن الصحبۃ)- ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے لوگوں نے کہا۔ یارسول اللہ بھلا کون ماں باپ کو گالی دیتا ہے ؟ فرمایا، ماں باپ کو گالی دینا یوں ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے (بخاری۔ کتاب الادب باب لایسب الرجل والدیہ)- ٤۔ ایک دفعہ آپ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں سے خبردار نہ کروں ؟ ہم نے کہا، ضرور بتائیے یارسول اللہ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، عقوق والدین جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔ برابر آپ یہی فرماتے رہے۔ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدین)- ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا، میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں آپ نے اس سے پوچھا تمہارے والدین زندہ ہیں کہنے لگا جی ہاں آپ نے فرمایا : انہی کی خدمت کر (یہی تیرا جہاد ہے) (بخاری، کتاب الادب، باب لایجاہد الاباذن الابوین)- ٦۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس مدینہ آئی اور وہ کافرہ تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا یارسول اللہ کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں ؟ آپ نے فرمایا ضرور (بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ : ” جَنَاحَ “ پرندے کے پر کو کہتے ہیں اور بازو کو بھی۔ مطلب یہ کہ جس طرح پرندہ اپنے بچوں کے اوپر اپنے پر جھکا کر انھیں اپنی آغوش میں لے کر ہر سرد و گرم سے محفوظ کرلیتا ہے اس طرح تو بھی رحم کی بنا پر تواضع کے بازو ان پر جھکا دے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حقوق کی والدین کے حقوق کی طرح تاکید نہیں فرمائی، کیونکہ اولاد کے لیے ماں باپ کے دل میں قدرتی طور پر شفقت و محبت موجود ہوتی ہے۔ ہاں جو ظلم وہ اولاد پر کرتے تھے اس سے منع فرمایا۔ اس کا ذکر آگے اسی سورت کی آیت (٣١) میں آ رہا ہے۔ - وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا : معلوم ہوا کہ والدین کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرنا فرض ہے، کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے، اس لیے روزانہ ان کی زندگی میں اور فوت ہونے کے بعد اپنی دعا کے ساتھ ان الفاظ میں یا دوسرے الفاظ میں ان کے لیے دعا ضرور کرنی چاہیے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے : (رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ ) [ إبراہیم : ٤١ ] ” اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہوگا۔ “ الا یہ کہ ان میں سے کسی کی وفات کفر پر ہو تو مرنے کے بعد ان کے لیے استغفار جائز نہیں۔ ” رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا “ دعا میں یہ خوبی ہے کہ اس کے ساتھ دعا کرتے ہوئے والدین کے بچپن میں پرورش کا احساس ان کے لیے زیادہ اخلاص اور کوشش کے ساتھ دعا کا تقاضا کرتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چوتھا حکم (آیت) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ جس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنے آپ کو عاجز و ذلیل آدمی کی صورت میں پیش کرے جیسے غلام آقا کے سامنے جناح کے معنی بازو کے ہیں لفظی معنی یہ ہیں کہ والدین کے لئے اپنے بازو عاجزی اور ذلت کے ساتھ جھکائے آخر میں من الرحمۃ کے لفظ سے ایک تو اس پر متنبہ کیا کہ والدین کے ساتھ یہ معاملہ محض دکھاوے کا نہ ہو بلکہ قلبی رحمت وعزت کی بنیاد پر ہو دوسرے شاید اشارہ اس طرف بھی ہے کہ والدین کے سامنے ذلت کے ساتھ پیش آنا حقیقی عزت کا مقدمہ ہے کیونکہ یہ واقعی ذلت نہیں بلکہ اس کا سبب شفقت و رحمت ہے۔- پانچواں حکم وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ والدین کی پوری راحت رسانی تو انسان کے بس کی بات نہیں اپنی مقدور بھر راحت رسانی کی فکر کے ساتھ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی سب مشکلات کو آسان اور تکلیفوں کو دور فرمائے یہ آخری حکم ایسا وسیع اور عام ہے کہ والدین کی وفات کے بعد بھی جاری ہے جس کے ذریعہ وہ ہمیشہ والدین کی خدمت کرسکتا ہے۔- مسئلہ : والدین اگر مسلمان ہوں تو ان کے لئے رحمت کی دعاء ظاہر ہے لیکن اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو ان کی زندگی میں یہ دعا اس نیت سے جائز ہوگی کہ ان کو دنیوی تکلیف سے نجات ہو اور ایمان کی توفیق ہو مرنے کے بعد ان کے لئے دعاء رحمت جائز نہیں (قرطبی ملخصا)- ایک واقعہ عجیبہ : قرطبی نے اپنی اسناد متصل کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ اسی وقت جبرائیل امین تشریف لائے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ جب اس کا باپ آجائے تو آپ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں خود اس کے کانوں نے بھی اس کو نہیں سنا جب یہ شخص اپنے والد کو لے کر پہنچا تو آپ نے والد سے کہا کہ کیا بات ہے ؟ آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں والد نے عرض کیا کہ آپ اسی سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایہ (جس کا مطلب یہ تھا کہ جب حقیقت معلوم ہوگئی اب اور کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں) اس کے بعد اس کے والد سے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمیں ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھا دیتے ہیں (جو بات کسی نے نہیں سنی اس کی آپ کو اطلاع ہوگئی جو ایک معجزہ ہے) پھر اس نے عرض کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا آپ نے فرمایا کہ وہ ہمیں سناؤ اس وقت اس نے یہ اشعار ذیل سنائے۔- غذوتک مولودا ومنتک یافعا، تعل بما اجنی علیک وتنھل۔- میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ذمہ داری اٹھائی تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا۔- اذا لیلۃ ضافتک بالسقم لم ابت، لسقک الا ساھرا اتململ۔- جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بیقراری میں گذاری۔- کأنی انا المطروق دونک بالذی، طرقت بہ دونی فعینی تھمل۔- گویا کہ تمہاری بیماری مجھے ہی لگی ہے تمہیں نہیں جس کی وجہ سے میں تمام شب روتا رہا۔- تخاف الردی نفسی علیک وانھا، لتعلم ان الموت وقت مؤ جل۔- میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے پہلے پیچھے نہیں ہوسکتی۔- فلما بلغت السن والغایۃ التی، الیہا مدی ماکنت فیک اؤ مل۔- پھر جب تم اس عمر اور اس حد تک پہنچ گئے جس کی میں تمنا کیا کرتا تھا۔- جعلت جزائی غلظۃ و فظاظۃ، کانک انت المنعم المتفضل۔- تو تم نے میرا بدلہ سختی اور سخت کلامی بنادیا گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔- فلیتک اذلم ترع حق ابوتی، فعلت کما الجار المصاقب یفعل۔- کاش اگر تم سے میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایسا ہی کرلیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔- فاولیتنی حق الجرار ولم تکن، علی بمال دون مالک تبخل۔- تو کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اشعار سننے کے بعد بیٹے کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا انت ومالک لابیک یعنی جا تو بھی اور تیرا مال بھی سب باپ کا ہے (تفسیر قرطبی ص ٢٤٦ ج ١) یہ اشعار عربی ادب کی مشہور کتاب حماسہ میں بھی نقل کئے گئے مگر ان کو امیہ بن ابی الصلت شاعر کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے کہا کہ یہ عبدالاعلی کے اشعار ہیں بعض نے ان کی نسبت ابوالعباس اعمی کی طرف کی ہے (حاشیہ قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا 24؀ۭ- خفض - الخَفْض : ضدّ الرّفع، والخَفْض الدّعة والسّير اللّيّن وقوله عزّ وجلّ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ- [ الإسراء 24] ، فهو حثّ علی تليين الجانب والانقیاد، كأنّه ضدّ قوله : أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] ، وفي صفة القیامة : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة 3] ، أي : تضع قوما وترفع آخرین، فخافضة إشارة إلى قوله : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین 5] .- ( خ ف ض )- الخفض ۔ یہ رفع کی ضد ہے اور خفض کے معنی نرم رفتاری اور سکون و راحت بھی آتے ہیں اور آیت کریمہ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء 24] اور عجز ونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو ۔ میں ماں باپ کے ساتھ نرم بر تاؤ اور ان کا مطیع اور فرمانبردار ہوکر رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ گویا یہ ( کہ مجھ سے سر کشی نہ کرنا ) کی ضد ہے اور قیامت کے متعلق فرمایا : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة 3] کسی کو پست کر ہی اور کسی کو بلند ۔ کیونکہ وہ بعض کو پست اور بعض کو بلند کردے گی پس خافضتہ میں آیت کریمہ : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین 5] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ - جنح - الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ- [ طه 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین :- ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ،- ( ج ن ح )- الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔- ذُّلُّ ( محمود)- متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها «1» ، أي : مسالکها وطرقها .- پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] یعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جاری ہیں ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - صغر - الصِّغَرُ والکبر من الأسماء المتضادّة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صَغِيراً في جنب الشیء، وكبيرا في جنب آخر .- وقد تقال تارة باعتبار الزّمان، فيقال : فلان صَغِيرٌ ، وفلان کبير : إذا کان ما له من السّنين أقلّ ممّا للآخر، وتارة تقال باعتبار الجثّة، وتارة باعتبار القدر والمنزلة، وقوله : وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ [ القمر 53] ، - ( ص غ ر ) الصغریہ - الکبر کی ضد ہے جو کہ ایک دوسرے کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں ایک ہی چیز دوسری چیز کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے اور وہی کبھی اور چیز کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے پھر صغیر وکبیر کا اطلاق کبھی تو باعتبار زمانہ کے ہوتا ہے ۔ یعنی ایک شخص دوسرے سے عمر میں چھوٹا ہوتا ہے اور دوسرا بڑا اور کبھی باعتبار جسامت کے اور کبھی بلحاظ قدر ومنزلت کے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ [ القمر 53] یعنی ہر چھوٹا اور بڑا کام لکھ دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (واخضض لھما جناح الذل من الرحمۃ اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے بھک کر رہو) اس کی تفسیر میں ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ جس چیز کے وہ خواہشمند ہوں ان سے وہ چیز نہ روکو۔ “ ہشام نے حسن بصری سے نقل کیا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ والدین کے ساتھ نیکی کا کیا مفہوم ہے۔ حسن نے جواب میں فرمایا۔” جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ان کے لئے خرچ کر ڈالو اور ان کے حکموں کی فرمانبرداری کرو بشرطیکہ کوئی حکم خدا کی نافرمانی کو مستلزم نہ ہو۔ “ عمرو بن عثما ن نے واصل بن سانب سے آیت زیر بحث کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ” اپنا ہاتھ بھی ان کے سامنے نہ جھاڑو۔ “ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ جس شخص نے تیز نظروں سے اپنے والدین کو دیکھا اس نے ان کے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی۔ “ ابوالہیاج سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سعید بن المسیب سے (قولاً کریماً ) کا مفہوم دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا :” ایک عاجز غلام کا طرز تکلم جو وہ اپنے درشت خو اور سخت مزاج آقا کے سامنے اختیار کرے۔ “ عبداللہ الرصافی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے عطاء نے آیت زیر بحث کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا۔” اپنے ماں باپ پر کبھی ہاتھ نہ اٹھائو اور ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے کبھی تیز نظروں سے ان کی طرف نہ گھورو۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ) مجاز پر مبنی ہے اس لئے کہ ذلت یعنی نرمی کے پر نہیں ہوتے اور نہ ہی اسے اس وصف سے متصف کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تذلل یعنی عاجزی اور تواضع میں مبالغہ مراد ہے جسے ایک بیٹے کو والدین کے لئے اختیار کرنا چاہیے ۔ رات کی کیفیت بیان کرتے ہوئے امرئو القیس نے کہا ہے :- فقلت لہ لما تمطی بصلبہ واردف اعجازاً وناء بکلکل - جب رات نے اپنی پشت بچھا دی، اپنی سرینیں پھیلا دیں اور اپنا سینہ دراز کردیا تو میں نے اس سے کہا۔- حالانکہ رات کی نہ پشت ہوتی ہے نہ سرینیں اور نہ ہی سینہ اس لئے یہ انداز بیان مجاز پر مبنی ہے دراصل شاعر یہاں رات کی یکسانیت اور اس کی طوالت بیان کرنا چاہتا ہے۔- والدین کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کرنی چاہیے - قول باری ہے (وقل رب ارحمھما کما ریبا صغیراً اور دعا کیا کرو کہ ” پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے شفقت و رحمت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا “ ) آی ت میں والدین کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا مانگنے کا حکم ہے بشرطیکہ دونوں مسلمان ہوں اس لئے کہ ایک مقام پر قول باری ہے۔ (ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی نبی اور اہل ایمان کے لئے یہ زیبا نہیں کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں) اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ والدین کے لئے دعا کا حکم مومن والدین کے ساتھ مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم کو توحید کے حکم ساتھ مقرون کر کے گویا والدین کے حقوق کو اور مئوکد بنادیا ہے چناچہ ارشاد ہے (وقضی ربک الاتعبدوالا ایاہ و بالوالدین احساناً ) پھر ان کے ساتھ حسن سلوک کی کیفیت بیان فرمائی کہ قول و فعل کے ذریعہ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا جائے اور عاجزی اور تواضع کے ساتھ ان سے گفتگو کی جائے اور ان سے بیزاری اور اکتاہٹ کے اظہار سے منع کیا گیا چناچہ ارشاد ہوا (ولا تقل لھما اف) نیز ان پر سختی کرنے اور انہیں جھڑکنے سے بھی روکا گیا ۔ فرمایا (ولا تنھرھما) بیٹے کو ان کے ساتھ نرم گفتگو کرنے اور ان کے حکموں کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا بشرطیکہ ان کا کوئی حکم خدا کی نافرمانی کو مستلزم نہ ہوتا ہو۔- اس کے بعد پھر یہ حکم دیا گیا کہ ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد ان کے لئے دعا مانگی جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باپ کے حق پر ماں کے حق کو فائق قرار دیا ہے۔ ابوزرعہ بن عمرو بن جویر نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آ کر عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر کون مستحق ہے۔ “ آپ نے فرمایا تمہاری ماں۔ “ اس نے عرض کیا۔” پھر کون “ آپ نے جواب دیا ” تمہاری ماں “ اس نے پھر عرض کیا پھر کون ؟ “ آپ ؐ نے جواب دیا ” تمہاری ماں “ جب اس شخص نے چوتھی مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ” تمہارا باپ۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) اور اللہ کے سامنے اور نرمی سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کے لیے دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ )- جب بھی اپنے والدین کے سامنے آؤ تو تمہاری چال ڈھال اور گفتگو کے انداز سے عاجزی و انکساری اور ادب و احترام کا اظہار ہونا چاہیے۔- (وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا)- اللہ تعالیٰ کے حضور ہر وقت ان کے لیے دعا گو رہنا چاہیے کہ اے اللہ جب میں ضعیف کمزور اور محتاج تھا تو انہوں نے میری غذا میرے آرام اور میری دوسری ضروریات کا انتظام کیا۔ میری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا اور میرے لیے اپنے آرام و آرائش کو قربان کیا۔ اب میں تو ان کے ان احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اس لیے میں تجھی سے درخواست کرتا ہوں کہ تو ان پر رحم فرما اور اپنی خصوصی شفقت اور مہربانی سے ان کی خطاؤں کو معاف فرما دے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani