Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ماں باپ سے حسن سلوک کی تاکید ماں باپ سے پھر جو زیادہ قریب ہو اور جو زیادہ قریب ہو ، اور حدیث میں ہے جو اپنے رزق کی اور اپنی عمر کی ترقی چاہتا ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔ بزاز میں ہے اس آیت کے اترتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو بلا کر فدک عطا فرمایا ۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ اور واقعہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ یہ آیت مکیہ ہے اور اس وقت تک باغ فدک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں نہ تھا ۔ ٧ ھ میں خیبر فتح ہوا تب باغ آپ کے قبضے میں آیا پس یہ قصہ اس پر پورا نہیں اترتا ۔ مساکین اور مسافرین کی پوری تفسیر سورہ برات میں گزر چکی ہے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ خرچ کا حکم کر کے پھر اسراف سے منع فرماتا ہے ۔ نہ تو انسان کو بخیل ہونا چأہیے نہ مسرف بلکہ درمیانہ درجہ رکھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا 67؀ ) 25- الفرقان:67 ) یعنی ایماندار اپنے خرچ میں نہ تو حد سے گزرتے ہیں نہ بالکل ہاتھ روک لیتے ہیں ۔ پھر اسراف کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ایسے لوگ شیطان جیسے ہیں ۔ تبذیر کہتے ہیں غیر حق میں خرچ کرنے کو ۔ اپنا کل مال بھی اگر راہ للہ دے دے تو یہ تبدیر و اسراف نہیں اور غیر حق میں تھوڑا سا بھی دے تو مبذر ہے بنو تمیم کے ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار آدمی ہوں اور اہل و عیال کنبے قبیلے والا ہوں تو مجھے بتائیے کہ میں کیا روش اختیار کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ الگ کر ، اس سے تو پاک صاف ہو جائے گا ۔ اپنے رشتے داروں سے سلوک کر سائل کا حق پہنچاتا رہ اور پڑوسی اور مسکین کا بھی ۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تھوڑے الفاظ میں پوری بات سمجھا دیجئے ۔ آپ نے فرمایا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کر اور بےجا خرچ نہ کر ۔ اس نے کہا حسبی اللہ اچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کے قاصد کو زکوٰۃ ادا کر دوں تو اللہ و رسول کے نزدیک میں بری ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب تو نے میرے قاصد کو دے دیا تو تو بری ہو گیا اور تیرے لئے جو اجر ثابت ہو گیا ۔ اب جو اسے بدل ڈالے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے ۔ یہاں فرمان ہے کہ اسراف اور بیوقوفی اور اللہ کی اطاعت کے ترک اور نافرمانی کے ارتکاب کی وجہ سے مسرف لوگ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں ۔ شیطان میں یہی بد خصلت ہے کہ وہ رب کی نعمتوں کا شکر اس کی اطاعت کا تارک اسی کی نافرمانی اور مخالفت کا عامل ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان قرابت داروں ، مسکینوں ، مسافروں میں سے کوئی کبھی تجھ سے کچھ سوال کر بیٹھے اور اس وقت تیرے ہاتھ تلے کچھ نہ ہو اور اس وجہ سے تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے تو بھی جواب نرم دے کہ بھائی جب اللہ ہمیں دے گا انشاء اللہ ہم آپ کا حق نہ بھولیں گے وغیرہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 قرآن کریم کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ غریب رشتہ داروں، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کر کے، ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے کیونکہ یہ ان پر احسان نہیں ہے، بلکہ مال کا وہ حق ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا رکھا ہے، اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے گا تو عند اللہ مجرم ہوگا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے، نہ کہ کسی پر احسان علاوہ ازیں رشتے داروں کے پہلے ذکر سے ان کی اولیت اور اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو، صلہ رحمی کہا جاتا ہے، جس کی اسلام میں بڑی تاکید ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩] رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل کے لیے سورة نساء کی پہلی آیت کا حاشیہ نمبر ٣ ملاحظہ فرمائیے۔- [٣٠] فقراء اور مساکین کا ہر صاحب مال کے مال میں حق ہوتا ہے اور اس کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے آٹھ مدات بیان فرمائیں تو دوسرے نمبر پر فقراء و مساکین کا ذکر فرمایا۔ ہر صاحب مال پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کے فقراء و مساکین پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی خرچ کرے۔- [٣١] مسافروں کے حقوق کے لیے دیکھئے سورة نساء کی آیت نمبر ٣٦ (حاشیہ نمبر ٦٧)- [٣٢] اسراف اور تبذیر میں فرق :۔ اسراف اور تبذیر میں فرق یہ ہے کہ اسراف ضرورت کے کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں مثلاً اپنے کھانے پینے یا لباس وغیرہ میں زیادہ خرچ کرنا اور تبذیر ایسے کاموں میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں جن کا ضرورت زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو جیسے فخر، ریا نمود و نمائش اور فسق و فجور کے کاموں میں خرچ کرنا، یہ اسراف سے زیادہ برا کام ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا گیا۔ شیطان نے بھی اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تھی۔ ایسے شخص نے بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت مال کو غلط راستوں میں خرچ کرکے اللہ کی ناشکری کی۔- ایک دفعہ ایک ہال میں کچھ علماء بیٹھے محو گفتگو تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے میر مجلس سے سوال کیا کہ اسراف اور تبذیر میں کیا فرق ہے ؟ میر مجلس نے اس سوال کو عام فہم اور حسب حال یوں جواب دیا کہ اس وقت ہم جس ہال میں بیٹھے ہیں اس میں چھ پنکھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ہم صرف دو پنکھوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ اسراف ہے اور اگر ہم یہ سارے پنکھے چلتے چھوڑ کر باہر نکل جائیں تو یہ تبذیر ہے میر مجلس کی اس سادہ اور عام فہم مثال سے اسراف اور تبذیر کا فرق پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ ۔۔ : قرابت والے سے مراد قریبی رشتے دار ہیں، ماں کی طرف سے ہوں یا باپ کی طرف سے، محرم ہوں یا غیر محرم۔ ان کو پہلے اس لیے رکھا کہ ان کو دینے میں دو اجر ہیں، ایک صلہ رحمی کا اور دوسرا صدقے کا۔ ان کا حق یہ ہے کہ ہر صورت ان سے میل جول اور تعلق قائم رکھا جائے، انھیں دین کی دعوت جاری رکھی جائے، ان کی خوشی اور غم میں شرکت کی جائے۔ جب بھی انھیں مدد کی ضرورت ہو مال و جان سے ان کی مدد کی جائے۔ مسکین اور ابن السبیل (مسافر) کی تفسیر سورة توبہ (٦٠) میں دیکھیں۔ - وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا : ” تَبْذِيْرًا “ ” بَذْرٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی بیج ہے، یعنی بیج کی طرح بکھیرنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت دار، مسکین اور ابن السبیل کو اس کا حق دینے کے ساتھ ہی بےجا خرچ کرنے سے منع فرمایا۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جائز خرچ کرنے میں بھی میانہ روی کی تاکید فرمائی، خواہ گھر میں خرچ کرے یا صدقہ وغیرہ میں دے۔ آگے آیت (٢٩) میں اس کی تفصیل آرہی ہے۔ بےجا خرچ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں خرچ کیا جائے (چاہے ایک پیسہ ہی ہو) ، یا جائز کاموں میں بغیر سوچے سمجھے اتنا خرچ کیا جائے جو حق داروں کے حقوق ضائع کرنے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- (ان دونوں آیتوں میں حقوق العباد کے متعلق دو مزید حکم مذکور ہیں اول والدین کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں اور عام مسلمانوں کے حقوق دوسرے خرچ کرنے میں فضول خرچی کی ممانعت مختصر تفسیر یہ ہے) اور قرابت دار کو اس کا حق (مالی و غیر مالی) دیتے رہنا اور محتاج و مسافر کو بھی (ان کے حقوق) دیتے رہنا اور (مال کو) بےموقع مت اڑانا بیشک بےموقع مال اڑانے والے شیطان کے بھائی بند ہیں (یعنی اس کے مشابہ ہوتے ہیں) اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے (کہ حق تعالیٰ نے اس کو دولت عقل کی دی اس نے اس دولت عقل کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کیا اس طرح فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دولت مال کی دی مگر وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کرتے ہیں)- معارف و مسائل :- عام رشتے داروں کے حقوق کا اہتمام :- پچھلی آیتوں میں والدین اور ان کے اداب و احترام کی تعلیم تھی اس آیت میں عام رشتہ داروں کے حقوق کا بیان ہے کہ ہر رشتے کا حق ادا کیا جائے جو کم سے کم ان کے ساتھ حسن معاشرت اور عمدہ سلوک ہے اور وہ اگر حاجت مند ہوں تو ان کی مالی امداد بھی اپنی وسعت کے مطابق اس میں داخل ہے اس آیت سے اتنی بات تو ثابت ہوگئی کہ ہر شخص پر اس کے عام رشتے دار عزیزوں کا بھی حق ہے وہ کیا اور کتنا ہے اس کی تفصیل مذکور نہیں مگر عام صلہ رحمی اور حسن معاشرت کا اس میں داخل ہونا واضح ہے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اسی فرمان کے تحت جو رشتہ دار ذی رحم محرم ہو اگر وہ عورت یا بچہ ہے جن کے پاس اپنے گذارہ کا سامان نہیں اور کمانے پر بھی قدرت نہیں اسی طرح جو رشتہ دار ذی رحم محرم اپاہج یا اندھا ہو اور اس کی ملک میں اتنا مال نہیں جس سے اس کا گذارہ ہو سکے تو ان کے جن رشتہ داروں میں اتنی وسعت ہے کہ وہ ان کی مدد کرسکتے ہیں ان پر ان سب کا نفقہ فرض ہے اگر ایک ہی درجہ کے کئی رشتہ دار صاحب وسعت ہوں تو ان سب پر تقسیم کر کے ان کا گذارہ نفقہ دیا جائے گا سورة بقرہ کی آیت وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ سے بھی یہ حکم ثابت ہے (تفسیر مظہری)- اس آیت میں اہل قرابت اور مسکین و مسافر کو مالی مدد دینے اور صلہ رحمی کرنے کو ان کو حق فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ دینے والے کو ان پر احسان جتانے کا کوئی موقع نہیں کیونکہ ان کا حق اس کے ذمہ فرض ہے دینے والا اپنا فرض ادا کر رہا ہے کسی پر احسان نہیں کر رہا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 26؀- قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ- [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ثابت ہو کر رہا ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- بذر - التبذیر : التفریق، وأصله إلقاء البذر وطرحه، فاستعیر لكلّ مضيّع لماله، فتبذیر البذر : تضييع في الظاهر لمن لم يعرف مآل ما يلقيه . قال اللہ تعالی: إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطِينِ- [ الإسراء 27] ، وقال تعالی: وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيراً [ الإسراء 26] .- ( ب ذ ر) التبذیر - ( تفعیل ) کے معنی پر گندہ کرنے اور بکھیر دینے کے ہیں اصل میں ، ، تبذیر کے معنی زمین میں بیج ڈالنے کے ہیں اور چونکہ زمین میں بیج ڈالنا نا عاقبت اندیش لوگوں کی نظر میں بظاہر ضائع کرنا ہوتا ہے اس لئے تبذیر کا لفظ بطور استعارہ مال ضائع کردینے کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :- إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطِينِ [ الإسراء 27] فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں ۔ وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيراً [ الإسراء 26] . اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

رشتہ داروں کے حق کو ادا کیا جائے - قول باری ہے (وات ذالقربی حقہ اور رشتہ دار کو اس کا حق دو ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں جس حق کا ذکر ہے وہ مجمل ہے اور اسے بیان و تفصیل کی ضرور ت ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (وفی امرالھم حق للسائل والحزوم ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہوتا ہے) اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوالا الہ الا اللہ فاذا قالوھا عصموا منی دماء ھم دامرالھم الابحقھا مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک لوگ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں اس وقت تک میں ا ن کے خلاف برسر پیکار ہوں لیکن جب وہ اس کلمہ کا اقرار کرلیں گے تو وہ میرے ہاتھوں سے اپنی جان و مال کو محفوظ کرلیں گے الایہ کہ کسی حق کی بنا پر ان کی جان یا مال پر ہاتھ ڈالا جائے ) آیت میں مذکور حق کے معنی واضح نہیں ہیں بلکہ اس کے معنی شریعت کی طرف سے آمدہ بیان اور وضاحت پر موقوف ہیں۔ اگر قرابت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار مراد ہوں تو ہوسکتا ہے کہ حق سے مراد ان کا وہ حق ہے جو انہیں مال غنیمت کے خمس میں سے ملتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حق سے صلہ رحمی کا حق مراد ہو۔ آیت زیر بحث میں مذکور رشتہ داروں کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس اور حسن بصری کا قول ہے کہ اس سے ہر انسا ن کے رشتہ دار مراد ہیں۔ علی بن الحسین سے مروی ہے کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار مراد ہیں۔ ایک قول کے مطابق پہلی تفسیر ہی درست ہے اس لئے کہ والدین کے ذکر کے ساتھ قربات داروں کا ذکر متصلاً ہوا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تمام لوگوں کے لئے عام ہے اسی طرح اس پر عطف ہونے والا حکم یعنی رشتہ داروں کو ان کا حق دینا بھی تمام لوگوں کے لئے عام ہوگا۔- مسکین اور مسافر کا حق - قول باری ہے (والمسکین وابن السبیل اور مسکین کو اور مسافر کو) ہوسکتا ہے کہ اس سے صدقات واجبہ مراد ہوں جن کا ذکر اس قول باری میں آیا ہے (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) تا آخر آیت اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس سے مراد وہ حق ہے جس کی بوقت ضرورت ادائیگی لازمی ہوتی ہے۔ ابن حمزہ نے شعبی سے اور انہوں نے فاطمہ بنت قیس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (فی المال حق سوی الزکوۃ مال میں زکوۃ نے علاوہ بھی حق ہوتا ہے) اس موقعہ پر آپ نے یہ آیت بھی تلاوت فرمائی (لیس البر ان تولوادجو ھکم) تا آخر آیت، سفیان نے ابو الزہیم سے انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔” ان میں بھی ایک حق ہے۔ “ صحابہ نے اس کی وضاحت چاہی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اطراق مخلھا و اعادۃ دلوھا دمنیحۃ سمیعنھا سانڈ کے ساتھ جفتی کی اجازت دینا۔ پانی لانے کے لئے اونٹ مع ڈول عاریت کے طور پر دینا اور پلا ہوا اونٹ سواری کے لئے عطا کرنا۔- فضول خرچی پر پابندی - قول باری ہے (ولا تبذر تبذیراً اور فضول خرچی نہ کرو) حضرت عبداللہ مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس نیز قتادہ سے مروی ہے کہ بےجا مال خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اگر بلاوجہ ایک مد (ایک پیمانے کا نام جس کی مقدار دو یا اڑھائی رطل ہوتی ہے) بھی صرف کیا جائے تو وہ تبذیر کہلائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جو لوگ تبذیر کرنے والے پر پابندی لگانے کے قائل ہیں وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ آیت میں تبذیر کی ممانعت ہے اس لئے امام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تبذیر کرنے والے پر پابندی لگا کر اس کے مال کو ضائع ہونے سے بچا لے اور صرف اسے اتنا ہی دے جس سے اس کا خرچ پورا ہوجائے۔ امام ابوحنیفہ پابندی کے قائل نہیں ہیں اگرچہ متعلقہ شخص تبذیر کرنے والا کیوں نہ ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایسا شخص مکلف ہوتا ہے اور اسے اپنی ذات کے بارے میں تصرف کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اس لئے اس کا اقرار اور لین دین سب درست قرار دیئے جائیں گے جس طرح حد اور قصاص کے سلسلے میں اس کے اقرار کو درست قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حد اور قصاص شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتے ہیں جبکہ اقرار اور عقود، شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے اس لئے ان کا جواز بطریق اولیٰ ہوگا۔ ہم نے قول باری (فان کان الذی علیہ الحق سفیھا اوضیعفاً ) کی تفسیر کے ذیل میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦) یہ آیت مبارکہ حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم فرمایا ہے اور اسی طرح محتاج کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے رہنا اور نیز مسافر کا بھی احترام کرتے رہنا اور مسافر کا حق تین دن تک ہے اور اپنے مال کو حقوق اللہ کے علاوہ اور دوسری جگہ پر مت خرچ کرنا اگرچہ ایک کوڑی ہی کیوں نہ ہو یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں قطعا مت خرچ کرنا۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ وات ذا القربی “۔ (الخ)- طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کو بلا کر ان کو (باغ) فدک دے دیا ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث مشکل ہے (ظاہر کے خلاف ہے) کیوں کہ حدیث سے یہ پتاچلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ یہ آیت مکی ہے اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا)- تبذیر کے معنی بلاضرورت مال اڑانے کے ہیں اور یہ اسراف سے بڑا جرم ہے۔ اسراف تو یہ ہے کہ کسی ضرورت میں ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے۔ مثلاً کھانا کھانا ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دو روٹیوں اور تھوڑے سے سالن سے بخوبی پوری ہوجاتی ہے مگر اسی ضرورت کے لیے اگر کئی کئی کھانوں پر مشتمل دستر خوان سجا دیے جائیں تو یہ اسراف ہے۔ اسی طرح کپڑا انسان کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک دو جوڑے کافی ہیں۔ اب اگر الماریوں کی الماریاں طرح طرح کے جوڑوں سوٹوں اور پوشاکوں سے بھری پڑی رہیں تو یہ اسراف کے زمرے میں آئے گا۔ اسراف کے مقابلے میں تبذیر سے مراد ایسے بےتحاشا اخراجات ہیں جن کی سرے سے ضرورت ہی نہ ہو مثلاً شادی بیاہ کی رسموں پر بےحساب خرچ کرنا اور نام و نمود کے لیے طرح طرح کے مواقع پیدا کر کے ان پر مال و دولت کو ضائع کرنا تبذیر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: قرآن کریم نے یہاں ’’ تبذیر‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عام طور سے تبذیر اور اسراف دونوں کا ترجمہ فضول خرچی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر جائز کام میں خرچ کیا جائے۔ لیکن ضرورت یا اعتدال سے زیادہ خرچ کیا جائے تو وہ اسراف ہے اور اگر مال کو ناجائز اور گناہ کے کام میں خرچ کیا جائے تو وہ تبذیر ہے اسی لیے یہاں ترجمہ ’’ بیہودہ کاموں میں مال اڑانے‘‘ سے کیا گیا ہے۔