27۔ 1 تبذیر کی اصل بذر (بیج) ہے، جس طرح زمین میں بیج ڈالتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ صحیح جگہ پر پڑ رہا ہے یا اس سے ادھر ادھر، بلکہ کسان بیج ڈالے چلا جاتا ہے (فضول خرچی) بھی یہی ہے کہ انسان اپنا مال بیج کی طرح اڑاتا پھرے اور خرچ کرنے میں حد شرع سے تجاوز کرے اور بعض کہتے ہیں کہ تبذیر کے معنی ناجائز امور میں خرچ کرنا ہیں چاہے تھوڑا ہی ہو۔ ہمارے خیال میں دونوں ہی صورتیں تبذیر میں آجاتی ہیں۔ اور یہ اتنا برا عمل ہے کی اس کے مرتکب کو شیطان سے مشابہت ہے اور شیطان کی مماثلت سے بچنا چاہیے وہ کسی ایک ہی خصلت میں ہو، انسان کے لئے واجب ہے، پھر شیطان کو کَفُوْر (بہت ناشکرا) کہہ کر مذید بچنے کی تاکید کردی ہے اگر شیطان کی مشابہت اختیار کرو گے تو تم بھی اس کی طرح کَفُوْر قرار دئیے جاؤ گے۔ (فتح القدیر)
اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَان الشَّيٰطِيْنِ ۔۔ : بےجا خرچ کرنے والوں کو ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی، یعنی شیطانوں کے ساتھی اور ان جیسے قرار دیا اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ شیطان ہمیشہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور صلاحیتوں کی ناشکری کرتے ہوئے انھیں غلط جگہ میں خرچ کرتا ہے، اسی طرح جو شخص مالک کے دیے ہوئے مال کو مالک کی نافرمانی میں خرچ کرتا ہے اس کا بھی یہی حال ہے۔ ترجمے میں ” ہمیشہ “ کا مفہوم ” کَانُوا “ اور ” کَانَ “ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ مفسر طنطاوی لکھتے ہیں : ” وَکَان الشَّیْطَانُ فِيْ کُلِّ وَقْتٍ وَفِيْ کُلِّ حَالٍ جَحُوْدًا لِنِعَمِ رَبِّہٖ لَا یَشْکُرُہُ عَلَیْھَا “
تبذیر یعنی فضول خرچی کی ممانعت :- فضول خرچی کے معنی کو قرآن حکیم نے دو لفظوں سے تعبیر فرمایا ہے ایک تبذیز اور دوسرے اسراف تبذیر کی ممانعت تو اسی آیت مذکورہ میں واضح ہے اسراف کی ممانعت آیت وَلَا تُسْرِفُوْا سے ثابت ہے بعض حضرات نے فرمایا کہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں کسی معصیت میں یا بےموقع بےمحل خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں اور جہاں خرچ کرنے کا جائز موقع تو ہو مگر ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے اس کو اسراف کہتے ہیں اس لئے تبذیر بہ نسبت اسراف کے اشد ہے مبذرین کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔- امام تفسیر حضرت مجاہد نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنا سارا مال حق کے لئے خرچ کردے تو وہ تبذیر نہیں اور اور اگر باطل کے لئے ایک مد (آدھ سیر) بھی خرچ کرے تو وہ تبذیر ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ غیر حق میں بےموقع خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے (مظہری) امام مالک نے فرمایا کہ تبذیر یہ ہے کہ انسان مال کو حاصل تو حق کے مطابق کرے مگر خلاف حق خرچ کر ڈالے اور اس کا نام اسراف بھی ہے اور یہ حرام ہے (قرطبی)- امام قرطبی نے فرمایا کہ حرام و ناجائز کام میں تو ایک درہم خرچ کرنا بھی تبذیر ہے اور جائز و مباح خواہشات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا جس سے آئندہ محتاج فقیر ہوجانے کا خطرہ ہوجائے یہ بھی تبذیر میں داخل ہے ہاں اگر کوئی شخص اصل راس المال کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے منافع کو اپنی جائز خواہشات میں وسعت کے ساتھ خرچ کرتا ہے تو وہ تبذیر میں داخل نہیں (قرطبی ج ١٠ ص ٢٤٨)
اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا 27- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ می 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔
قول باری ہے (ان المبذرینکانوا اخوان الشیاطین، فضول خرچ لوگ شیاھین نے بھائی ہیں) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں اول یہ کہ انہیں شیاطین کے بھائی بند اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ ایسے لوگ ان کے نقش قدم پر چلتے اور ان کے طریقوں کو اپناتے ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ جہنم کے اندر ایسے لوگوں کو شیاطین سے قریب رکھا جائے گا۔
(٢٧) ایسے لوگ جو اپنے اموال کو اگرچہ ایک کوڑی ہو، حقوق اللہ کے علاوہ اور دوسرے مقام پر خرچ کرتے ہیں یہ شیطانوں کے مددگار ہوتے ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا شکرا ہے۔
آیت ٢٧ (اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَان الشَّيٰطِيْنِ )- یہاں پر مبذرین کو جو شیاطین کے بھائی قرار دیا گیا ہے اس کی منطق اور بنیاد کیا ہے ؟ یہ بات جب میری سمجھ میں آئی تو مجھ پر قرآن کے اعجاز کا ایک نیا پہلو منکشف ہوا۔ سورة المائدۃ کی آیت ٩١ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ) ” شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرے شراب اور جوئے کے ذریعے سے “ اس آیت کے مضمون پر غور کرنے سے یہ حقیقت سمجھ میں آتی ہے کہ شراب اور جوا شیطان کے وہ خطرناک ہتھیار ہیں جن کی مدد سے وہ انسانوں کے درمیان بغض و عداوت کی آگ کو بھڑکا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے۔ چناچہ اگر شیطان کا ہدف انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض اور عداوت کے جذبات پیدا کرنا ہے تو اس کا یہ ہدف تبذیر کے عمل سے بھی بخوبی پورا ہوجاتا ہے اور یوں ” مبذرین “ اس مکروہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے شیطان کے کندھے سے کندھا اور اس کے قدم سے قدم ملائے سر گرم عمل نظر آتے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کو ایک مثال سے سمجھیں۔ ذرا تصور کریں کہ ایک سیٹھ صاحب کی بیٹی کی شادی کے موقع پر اس کی کو ٹھی بقعۂ نور بنی ہوئی ہے ‘ خوب دھوم دھڑکا ہے اور محض نمود و نمائش کے لیے مال و دولت کو بےدریغ لٹایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اسی سیٹھ صاحب کا ایک ملازم ہے جو صرف اپنی غربت کے سبب اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے نہیں کر پارہا اور سیٹھ صاحب کے یہ تمام تبذیری چلن اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے لازمی طور پر اس غریب کے دل میں نفرت بغض اور دشمنی کا لاوا جوش مارے گا۔ اب اگر اسے موقع ملے تو یہ آتش فشاں پوری شدت سے پھٹے گا اور وہ غریب ملازم اپنے مالک کا پیٹ پھاڑ کر اس کی دولت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسی طرح فضول لٹائی جانے والی دولت کی نمائش سے امراء کے خلاف معاشرے کے محروم لوگوں کے دلوں میں بغض و عداوت اور نفرت کی آگ بھڑکتی ہے اور یوں شیطان کے ایجنڈے کی تکمیل ہوتی ہے۔ اسی شیطانی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے معاونین کا کردار ادا کرنے کے باعث مبذرین کو یہاں ” اِخوان الشّیاطین “ قرار دیا گیا ہے۔