28۔ 1 یعنی مالی استطاعت کے فقدان کی وجہ سے، جس کے دور ہونے کی اور کشائش رزق کی تو اپنے رب سے امید رکھتا ہے۔ اگر تجھے غریب رشتے داروں، مسکینوں اور ضرورت مندوں سے اعراض کرنا یعنی اظہار معذرت کرنا پڑے تو نرمی اور عمدگی کے ساتھ معذرت کر، یعنی جواب بھی دیا جائے تو نرمی اور پیار و محبت کے لہجے میں نہ کہ ترشی اور بد اخلاقی کے ساتھ، جیسا کہ عام طور پر لوگ ضرورت مندوں اور غریبوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
[٣٣] یعنی اگر تمہارا کوئی رشتہ دار اور کوئی غریب و مسکین تمہارے پاس قرض حسنہ یا امداد کے لیے آتا ہے اور تمہارے پاس دینے کو کچھ بھی موجود نہ ہو۔ البتہ یہ توقع ہو کہ اتنے دنوں تک فلاں رقم ملنے والی ہے اور اس وقت میں اسے قرض دینے یا مدد کرنے کے قابل ہوسکوں گا تو اسے نرم زبان سے بات سمجھا دو ۔ سختی اور بد اخلاقی سے جواب دینے میں یہ اندیشہ ہے کہ تم سے یہ نعمت کہیں چھن ہی نہ جائے۔
وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ ۔۔ :” اِمَّا “ ” إِنْ “ اور ” مَا “ سے مرکب ہے، جس میں ” مَا “ ”إِنْ “ کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” اگر کبھی “ کیا گیا ہے، یعنی ذی القربیٰ ، مسکین اور ابن السبیل سے اعراض (بےرخی) بخل کرتے ہوئے ہرگز جائز نہیں، صرف ایک صورت میں جائز ہے کہ تمہارے پاس دینے کے لیے اس وقت کچھ نہ ہو، ہاں تمہیں اللہ کی رحمت (حلال اور وافر رزق) کے حصول کی امید ہو (جس سے ناامید ہونا کبھی جائز نہیں) تو ان سے ایسے الفاظ میں معذرت کرلو جن میں نرمی اور آسانی ہو۔ ” مَیْسُوْراً “ لفظ عموماً مجہول ہی آتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے : ” یُسِرَ فُلاَنٌ فَھُوَ مَیْسُوْرٌ، عُسِرَ فُلَانٌ فَھُوَ مَعْسُوْرٌ، نُحِسَ فُلَانٌ فَھُوَ مَنْحُوْسٌ، سُعِدَ فُلاَنٌ فَھُوَ مَسْعُوْدٌ“ اس آیت کی مزید وضاحت سورة بقرہ (٢٦١) میں دیکھیں اور ایسے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا فرماتے تھے، اس کے لیے دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٩٢) ۔- مہائمی (رض) نے اس کا ایک اور مفہوم بیان کیا ہے کہ اگر تم مذکورہ لوگوں سے اعراض اس وجہ سے کرو کہ ان سے اعراض کرنے میں تمہیں رب تعالیٰ کی رحمت کے حصول کی امید ہو، مثلاً تمہیں معلوم ہو کہ اگر اسے مال دیا تو یہ اسے نشے پر، زنا پر یا کسی گناہ پر صرف کرے گا تو تب بھی نرمی اور خوش اسلوبی سے اس سے معذرت کرو۔ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کی بھی گنجائش ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اس آیت میں حقوق العباد سے متعلق پانچواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ اگر کسی وقت حاجت مندوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دینے کا انتظام نہ ہو سکے تو اس وقت بھی ان کو روکھا جواب نہ دیا جائے بلکہ ہمدردی کے ساتھ آئندہ سہولت کی امید دلائی جائے آیت کی تفسیر یہ ہے۔- اور اگر (کسی وقت تمہارے پاس ان لوگوں کو دینے کے لئے مال نہ ہو اور اس لئے) تم کو اس رزق کے انتظار میں جس کی اپنے پروردگار سے توقع ہو (اس کے نہ آنے تک) ان سے پہلوتہی کرنا پڑے تو (اتنا خیال رکھنا ان سے نرمی کی بات کہہ دینا (یعنی دل جوئی کے ساتھ ان سے وعدہ کرلینا کہ انشاء اللہ کہیں سے آئے گا تو دیں گے دل آزار جواب مت دینا)- معارف و مسائل :- اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے واسطے سے پوری امت کی عجیب اخلاقی تربیت ہے کہ اگر کسی وقت ضرورت مند لوگ سوال کریں اور آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو اس لئے ان لوگوں سے اعراض کرنے پر مجبور ہو تو بھی آپ کا یہ اعراض مستغنیانہ یا مخاطب کے لئے توہین آمیز نہ ہونا چاہئے بلکہ یہ پہلوتہی کرنا اپنے عجز و مجبوری کے اظہار کے ساتھ ہونا چاہئے - اس آیت کے شان نزول میں ابن زید کی روایت یہ ہے کہ کچھ لوگ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال کا سوال کیا کرتے تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ ان کو دیا جائے گا تو یہ فساد میں خرچ کریں گے اس لئے آپ ان کو دینے سے انکار کردیتے تھے کہ یہ انکار ان کو فساد سے روکنے کا ذریعہ ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی)- مسند سعید بن منصور میں بروایت سباء بن حکم مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ کپڑا آیا تھا آپ نے اس کو مستحقین میں تقسیم فرما دیا اس کے بعد کچھ اور لوگ آئے جبکہ آپ فارغ ہوچکے تھے اور کپڑا ختم ہوچکا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا 28- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - ابتغاء - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے - پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً- [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- يسير - واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14]- الیسیر - والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ - يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں
سائل کو نرمی سے جواب دیا جائے - قول باری ہے (واما تعرضن عنھم ابتغآء رحمۃ من ربک ترجوھا فقل لھوق لا میسوراً اور اگر ان سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو ) اس آیت کی تفسیر میں بھی دو قول ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھایا کہ اگر ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہو اور ہم خالی ہاتھ ہوں تو ایسی حالت میں ہمیں ایک مسلمان سائل یا رشتہ دار یا مسافر کو جواب دینے کا کونسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ تمہارے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہو اور تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے رزق کے منتظر ہو اور اس کی رحمت کے امیدوار ہو کہ اگر وہ مل جائے تو تم انہیں ضرور کچھ دو ، ایسی صورت میں تم انہیں بڑی نرمی سے جواب دے دو اور یہ کہو کہ ” اللہ رزق دے گا “ یہ تفسیر حسن بصری، مجاہد اور ابراہیم نخعی وغیرہم سے منقول ہے۔
(٢٨) اور اپنے رب کی طرح طرف سے جس رزق کے آنے کی تجھے امید ہو اور اس پوشیدہ مال کے انتظار میں تجھے ان قرابت داروں اور محتاجوں سے بطور شفقت اور حیا کے پہلو تہی کرنا پڑے تو پھر ایسی صورت میں دلجوئی کے ساتھ ان سے وعدہ کرلینا کہ انشاء اللہ کہیں سے آئے گا تو دے دیا جائے گا۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ واما تعرضن عنہم “۔ (الخ)- سعید بن منصور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عطا خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ مزنیہ کے کچھ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سواری حاصل کرنے کے لیے آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے پاس تو کوئی چیز نہیں جس پر میں تمہیں سوار کر دوں تو وہ روتے ہوئے غم و افسوس کے ساتھ واپس ہوئے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انکار سے یہ سمجھے کہ آپ ان سے ناراض ہوگئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اور اگر اپنے رب کی طرف جس رزق کے آنے کی امید ہے آپ کو اس کے انتظار میں ان سے پہلو تہی کرنا پڑے تو ان سے نرمی کی بات کہہ دینا، اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ضحاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ان مساکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مانگا کرتے تھے۔
آیت ٢٨ (وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا)- کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی محتاج اپنی کسی حاجت برآری کے لیے ایسے موقع پر آپ کے پاس آتا ہے جب آپ کے پاس بھی اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ سے اچھے دنوں اور فراخ دستی کی امید تو ہے مگر وقتی طور پر آپ سائل کی حاجت سے اعراض کرنے پر مجبور ہیں اور چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد نہیں کرسکتے۔ اگر تمہیں کسی وقت ایسی صورت حال کا سامان ہو :- (فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا)- ایسے موقع پر سائل کو جھڑکو نہیں بلکہ متانت اور شرافت سے مناسب الفاظ میں اس سے معذرت کرلو۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :28 ان تین دفعات کا منشاء یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے ، بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں ، اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجتمند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے ۔ اجتماعی زندگی میں تعاون ، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو ۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون ، اور ہر مستطیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو ۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے ، اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے ۔ معاشرہ میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو ۔ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کر رہا ہے ، نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے ۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تا کہ وہ بندگان خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو ۔ منشور اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں ، بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہی کی بنیاد پر صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیے گئے ، وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے ، یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ، ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے ، اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملا ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی ، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری و ساری ہوگئی ، حتی کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ما سوا ان اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنہیں نہ قانون کے زور سے مانگا جا سکتا ہے نہ دلوایا جا سکتا ہے ۔
15: یعنی کسی ضرورت مند کو کچھ دینے سے اس لے انکار کرنے کی نوبت آجائے کہ اس وقت تمہارے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو، لیکن تمہیں یہ توقع ہو کہ آئندہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وسعت عطا فرما دیں گے تو ایسے میں اس ضرورت مند سے نرم الفاظ میں معذرت کرسکتے ہو۔