میانہ روی کی تعلیم حکم ہو رہا ہے کہ اپنی زندگی میں میانہ روش رکھو نہ بخیل بنو نہ مسرف ۔ ہاتھ گردن سے نہ باندھ لو یعنی بخیل نہ بنو کہ کسی کو نہ دو ۔ یہودیوں نے بھی اسی محاورے کو استعمال کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ ان پر اللہ کی لعنتیں نازل ہوں کہ یہ اللہ کو بخیلی کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ جس سے اللہ تعالیٰ کریم و وھاب پاک اور بہت دور ہے ۔ پس بخل سے منع کر کے پھر اسراف سے روکتا ہے کہ اتنا کھل نہ کھیلو کہ اپنی طاقت سے زیادہ دے ڈالو ۔ پھر ان دونوں حکموں کا سبب بیان فرماتا ہے کہ بخیلی سے تو ملامتی بن جاؤ گے ہر ایک کی انگلی اٹھے گی کہ یہ بڑا بخیل ہے ہر ایک دور ہو جائے گا کہ یہ محض بےفیض آدمی ہے ۔ جیسے زہیر نے اپنے معلقہ میں کہا ہے ومن کان ذا مال ویبخل بمالہ ، علی قومہ یستغن عنہ و یذمم یعنی جو مالدار ہو کر بخیلی کرے لوگ اس سے بےنیاز ہو کر اس کی برائی کرتے ہیں ۔ پس بخیلی کی وجہ سے انسان برا بن جاتا ہے اور لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے ہر ایک اسے ملامت کرنے لگتا ہے اور جو حد سے زیادہ خرچ کر گزرتا ہے وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا ۔ ضعیف اور عاجز ہو جاتا ہے جیسے کوئی جانور جو چلتے چلتے تھک جائے اور راستے میں اڑ جائے ۔ لفظ حسیر سورہ تبارک میں بھی آیا ہے ۔ پس یہ بطور لف و نشر کے ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے بخیل اور سخی کی مثال ان دو شخصوں جیسی ہے جن پر دو لوہے کے جبے ہوں ، سینے سے گلے تک ، سخی تو جوں جوں خرچ کرتا ہے اس کی کڑیاں ڈھیلی ہوتی جاتی ہیں اور اس کے ہاتھ کھلتے جاتے ہیں اور وہ جبہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی پوریوں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے اثر کو مٹاتا ہے اور بخیل جب کبھی خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے جبے کی کڑیاں اور سمٹ جاتی ہیں وہ ہر چند اسے وسیع کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں گنجائش نہیں نکلتی ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ نے حضرت اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اللہ کی راہ میں خرچ کرتی رہ جمع نہ رکھا کر ، ورنہ اللہ بھی روک لے گا بند بھی روک لے گا بند باندھ کر روک نہ لیا کر ورنہ پھر اللہ بھی رزق کا منہ بند کر لے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے شمار کر ورنہ اللہ بھی روک لے گا بند باندھ کر روک نہ لیا کر ورنہ پھر اللہ بھی رزق کا منہ بند کر لے گا ایک اور روایت میں ہے شمار کر کے نہ رکھا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گنتی نہ کر کے لے گا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تو اللہ کی راہ میں خرچ کیا کر ، اللہ تعالیٰ تجھے دیتا رہے گا ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں ہر صبح دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ سخی کو بدلہ دے اور دوسرا دعا کرتا ہے کہ بخیل کا مال تلف کر ۔ مسلم شریف میں ہے صدقے خیرات سے کسی کا مال نہیں گھٹتا اور ہر سخاوت کرنے والے کو اللہ ذی عزت کر دیتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم کی وجہ سے دوسروں سے عاجزانہ برتاؤ کرے اللہ اسے بلند درجے کا کر دیتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے طمع سے بچو اسی نے تم سے اگلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے ۔ طمع کا پہلا حکم یہ ہوتا ہے کہ بخیلی کرو انہوں نے بخیلی کی پھر اس نے انہیں صلہ رحمی توڑنے کو کہا انہوں نے یہ بھی کیا پھر فسق و فجور کا حکم دیا یہ اس پر بھی کار بند ہوئے ۔ بیہقی میں ہے جب انسان خیرات کرتا ہے ستر شیطانوں کے جبڑے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ مسند کی حدیث میں ہے درمیانہ خرچ رکھنے والا کبھی فقیر نہیں ہوتا ۔ پھر فرماتا ہے کہ رزق دینے والا ، کشادگی کرنے والا ، تنگی میں ڈالنے والا ، اپنی مخلوق میں اپنی حسب منشا ہیر پھیر کرنے والا ، جسے چاہے غنی اور جسے چاہے فقیر کرنے والا اللہ ہی ہے ۔ ہر بات میں اس کی حکمت ہے ، وہی اپنی حکمتوں کا علیم ہے ، وہ خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ مستحق امارت کون ہے اور مستحق فقیری کون ہے ؟ حدیث قدسی میں ہے میرے بعض بندے وہ ہیں کہ فقیری ہی کے قابل ہیں اگر میں انہیں امیر بنا دوں تو ان کا دین تباہ ہو جائے اور میرے بعض بندے ایسے بھی ہیں جو امیری کے لائق ہیں اگر میں انہیں فقیر بنا دوں تو ان کا دین بگڑ جائے ۔ ہاں یہ یاد رہے کہ بعض لوگوں کے حق میں امیری اللہ کی طرف سے ڈھیل کے طور پر ہوتی ہے اور بعض کے لئے فقیری بطور عذاب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں سے بچائے ۔
29۔ 1 گزشتہ آیت میں انکار کرنے کا ادب بیان فرمایا اب انفاق کا ادب بیان کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان بخل کرے کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش دیکھے بغیر ہی بےدریغ خرچ کرتا رہے۔ بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان، قابل ملامت و ندمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور (تھکا ہارا اور پچھتانے والا) محسور اس جانور کو کہتے ہیں جو چل چل کر تھک چکا اور چلنے سے عاجز ہوچکا ہو۔ فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخر خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ، یہ کنایہ ہے بخل سے اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے یہ کنایہ ہے فضول خرچی سے۔ ملوما محسورا لف نشر مرتب ہے، یعنی ملوم بخل کا اور محسور فضول خرچی کا نتیجہ ہے۔
[٣٤] خرچ کرنے میں اعتدال :۔ اپنا ہاتھ گردن سے باندھنا محاورہ ہے جس کا معنی ہے بخل کرنا۔ یعنی خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لینا چاہیے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کردینا چاہیے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے اور خود انسان تکلیف میں پڑجائے۔ خواہ یہ خرچ اپنی ضرورت کے سلسلہ میں ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کی صورت ہو۔ انفاق فی سبیل اللہ کی سب سے اونچی حد یہ ہے کہ وہ سب کچھ خرچ کردیا جائے جو ضرورت سے زائد ہو (٢: ٢١٩) یعنی اس فرمان الٰہی میں بھی ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنے کے لیے کہا گیا ہے سارا نہیں۔ اور رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے تو آپ نے فرمایا : الصدقۃ عن ظھر غنی یعنی وہ صدقہ جس کے بعد آدمی خود محتاج یا صدقہ لینے کے قابل نہ ہوجائے۔ (بخاری) نیز حدیث میں ہے کہ جو میانہ روی اختیار کرے وہ محتاج نہیں ہوتا۔
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً ۔۔ : ” مَغْلُوْلَةً “ ” غُلٌّ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی گردن کا طوق ہے، جس کے ساتھ ہاتھ بھی باندھ دیے جائیں، جیسا کہ مجرموں اور قیدیوں سے کیا جاتا ہے، مراد بخل اور کنجوسی ہے اور ” الْبَسْطِ “ (کھولنا) سے مراد سخاوت ہے۔ ” مَّحْسُوْرًا “ جو تھک ہار کر چلنے سے رہ جائے۔ یعنی بالکل بخیلی کرو گے تو خالق و مخلوق دونوں کے ہاں ملامت کیے ہوئے بن جاؤ گے اور پورا ہاتھ کھول دو گے اور سب کچھ دے کر خالی ہاتھ ہوجاؤ گے تو اہل و عیال کی ملامت کے ساتھ ساتھ زندگی کی دوڑ میں تھک ہار کر بیٹھ رہو گے، پھر ممکن ہے کہ بھیک مانگنے تک کی نوبت آجائے۔ سب سے بہتر میانہ روی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ) [ الفرقان : ٦٧ ] ” اور وہ لوگ (عباد الرحمان ہیں) کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خَیْرُ الصَّدَقَۃِ مَا کَانَ عَنْ ظَہْرِ غِنًی، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ ) [ بخاری، الزکوٰۃ، باب لا صدقۃ إلا عن ظہر غنی : ١٤٢٦ ]” بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد غنا موجود رہے (انسان فقیر نہ ہوجائے) اور ابتدا ان سے کرو جن کی تم پرورش کر رہے ہو۔ “
خلاصہ تفسیر :- اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن ہی سے باندھ لو (کہ انتہائی بخل سے بالکل ہاتھ خرچ کرنے سے روک لو) اور نہ بالکل ہی کھول دینا چاہئے (کہ ضرورت سے زیادہ خرچ کر کے اسراف کیا جائے) ورنہ الزام خوردہ (اور) تہیدست ہو کر بیٹھ رہو گے (اور کسی کے فقر و احتیاج پر اتنا اثر لینا کہ اپنے کو پریشانی میں ڈال لو کوئی معقول بات نہیں کیونکہ) بلاشبہ تیرا رب جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور وہی (جس پر چاہئے) تنگی کردیتا ہے بیشک وہ اپنے بندوں (کی حالت اور ان کی مصلحت) کو خوب جانتا ہے دیکھتا ہے (سارے عالم کی حاجات پورا کرنا تو رب العالمین ہی کا کام ہے تم اس فکر میں کیوں پڑے کہ اپنے سے ہو سکے یا نہ ہو سکے اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال کر سب کی حاجتیں پوری ہی کرو یہ صورت اس لئے بیکار ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی سب کی حاجتیں پوری کردینا تمہارے بس کی بات نہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی کسی کا غم نہ کرے اس کے لئے تدبیر نہ کرے بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب کی حاجتیں پوری کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں خواہ وہ اپنے اوپر کتنی ہی مصیبت برداشت کرنے کے لئے تیار بھی ہو کہ یہ کام تو صرف مالک کائنات ہی کا ہے کہ سب کی حاجتوں کو جانتا بھی ہے اور سب کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے کہ کس وقت کس شخص کی کس حاجت کو کس مقدار میں پورا کرنا چاہئے اس لئے انسان کا کام تو صرف اتنا ہی ہے کہ میانہ روی سے کام لے نہ خرچ کرنے کے موقع میں بخل کرے اور نہ اتنا خرچ کرے کہ کل کو خود ہی فقیر ہوجائے اور اہل و عیال جن کے حقوق اس کے ذمہ ہیں ان کے حقوق ادا نہ ہو سکیں اور بعد میں پچھتانا پڑے)- معارف و مسائل :- خرچ کرنے میں اعتدال کی ہدایت :- اس آیت میں بلاواسطہ مخاطب خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور آپ کے واسطے سے پوری امت مخاطب ہے اور مقصود اقتصاد کی ایسی تعلیم ہے جو دوسروں کی امداد میں حائل بھی نہ ہو اور خود اپنے لئے بھی مصیبت نہ بنے اس آیت کے شان نزول میں ابن مردویہ نے بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود اور بغوی نے بروایت حضرت جابر (رض) ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک لڑکا حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ آپ سے ایک کرتے کا سوال کرتی ہیں اس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی کرتا اس کے سوا نہیں تھا جو آپ کے بدن مبارک پر تھا آپ نے لڑکے کو کہا کہ پھر کسی وقت آؤ جبکہ ہمارے پاس اتنی وسعت ہو کہ تمہاری والدہ کا سوال پورا کرسکیں لڑکا گھر گیا اور واپس آیا اور کہا کہ میری والدہ کہتی ہیں کہ آپ کے بدن مبارک پر جو کرتا ہے وہی عنایت فرما دیں یہ سن کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بدن مبارک سے کرتہ اتار کر اس کے حوالے کردیا آپ ننگے بدن رہ گئے نماز کا وقت آیا حضرت بلال (رض) نے اذان دی مگر آپ حسب عادت باہر تشریف نہ لائے تو لوگوں کو فکر ہوئی بعض لوگ اندر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ کرتے کے بغیر ننگے بدن بیٹھے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا 29- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - غل - الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له :- الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] - ( غ ل ل ) الغلل - کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔- عنق - العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ- ( ع ن ق ) العنق - ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ - بسط - بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، - ( ب س ط )- بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔- قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیہ کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- لوم - اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32]- ( ل و م ) لمتہ - ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں - حسر - الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال :- حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) .- ( ح س ر ) الحسر - ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔
اخراجات میں میانہ روی ہونی چاہیے - قول باری ہے (ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتفعد ملوما محسوراً اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو) یعنی …… واللہ اعلم …… ان حقوق کی ادائیگی میں بخل سے کام نہ نوجوان کے لئے واجب ہیں۔ یہ بطور مجاز بیان ہوا ہے اور اس سے مراد تر ک انفاق ہے۔ جائز خرچ سے ایک شخص ہاتھ روک کر گویا اسے اپنی گردن سے باندھ لیتا ہے اور اس طرح اپنے مال میں سے کسی کو کچھ دے نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ نجیل انسان کو ہاتھ کی تنگی کے وصف سے موصوف کرتے تھے اور کہتے فلان جعد الکفین “ (فلاں شخص کے بازو بہت چھوٹے ہیں) اس کے بالمقابل سخی اور فیاض شخص کے لئے یہ فقرے کہے جاتے ” فلان رحب الذراع “ (فلاں شخص کے بازو بڑے کشادہ ہیں)” فلان طویل الیدین (فلاں شخص کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا (اسرعکن بی لحاقاً اطوالکن یداً تم میں سب سے پہلے میرے پاس پہنچنے والی وہ ہے جس کے بازو سب سے زیادہ دراز ہیں) اس سے آپ نے صدقہ و خیرات کی کثرت مراد لی تھی۔ وہ ام المومنین حضرت زینب بنت حجش (رض) نکلیں، وہی سب سے بڑھ کر صدقہ و خیرات کرنے والی تھیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امہات المومنین میں سب سے پہلے ان کی وفات ہوئی تھی۔ شاعر کا قول ہے۔- وما ان کان اکثر ھم سواما ولکن کان ارحیھم ذراعاً- میرا ممدوح اگرچہ ہونے والے مویشیوں کا سب سے بڑھ کر مالک نہیں تھا لیکن اس کے بازو سب سے زیادہ کشادہ تھے۔ یعنی وہ سب سے بڑھ کر سخی اور فیاض تھا۔- قول باری ہے (ولا تیسطھا کل البسط اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو ) یعنی تمہارے ہاتھ میں جتنا مال ہے وہ سارے کا سارا خرچ نہ کر ڈالو کیونکہ تمہیں اور تمہارے اہل و عیال کو اس کی ضرورت رہے گی اگر ایسا کرو گے تو ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو گے یعنی جو مال تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا اس کی تمہیں حسرت رہے گی۔ یہ خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا باقی ماندہ تمام لوگوں کو ہے۔ آپ آئندہ کے لئے کسی چیز کا ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔ آپ فاقہ کرتے یہاں تک کہ بھوک کی شدت کو کم کرنے کے لئے پیٹ سے پتھر باندھ لیتے۔ اسی طرح بعض جلیل القدر صحابہ کرام بھی اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں کچھ نہ کہتے اس کی وجہ تھی کہ اللہ کی ذات پر انہیں پورا یقین ہوتا اور وہ بڑے روشن ضمیر ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے انفاق میں افراط سے کام لینے اور سارا مال دے دینے سے صرف ان لوگوں کو روکا ہے جن کے بارے میں یہ خطرہ ہو کہ مال خرچ کرلینے کے بعد انہیں ہمیشہ اس کا افسوس اور مال کی حسرت لاحق ہوجائے گی لیکن جو لوگ اللہ کے وعدے پر یقین رکھتے ہوں اور ثواب عظیم کے امیدوار ہوں وہ اس آیت میں مراد نہیں ہیں۔- روایت ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا۔ اس کے پاس انڈے کے برابر سونے کا ٹکڑا تھا۔ کہنے لگا :” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے یہ ٹکڑا ایک کان سے دستیاب ہوا ہے، بخدا میرے پاس اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے یہ لے لیجیے۔” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی یہ بات سن کر اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا۔ اس شخص نے دوسری مرتبہ یہی بات عرض کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر اپنا رخ بدل لیا۔ جب اس نے تیسری مرتبہ یہ کہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ہاتھ سے سونے کا وہ ٹکڑا لے کر اتنے زور سے پھینکا کہ اگر اس شخص کو لگ جاتا تو وہ زخمی ہوجاتا، پھر فرمایا : تم میں سے ایک شخص اپنا سارا مال میرے حوالے کرنے کے لئے لے آتا ہے اور پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا رہتا ہے۔ “ ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اس کے جسم پر پھٹے پرانے کپڑے تھے۔ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرما تھے۔ آپ نے اس شخص کو کھڑے ہوجانے کا حکم دیا۔ وہ کھڑا ہوگیا۔ لوگوں نے صدقہ کے طور پر اس کے لئے کپڑوں کے جوڑے جمع کردیئے، آپ نے ان میں سے دو کپڑے لے کر اسے دے دیئے، اس کے بعد خطبہ دیتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی جسے سن کر اس شخص نے اپنا ایک کپڑا صدقہ میں دے دیا یہ دیکھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگو اس شخص کو دیکھو، میں نے اسے کھڑا ہونے کے لئے کہا تھا تاکہ لوگوں کو اس کی بدحالی کا احساس ہوجائے اور اس طرح اس کی کچھ امداد ہوجائے۔ میں نے اسے دو کپڑے دیے تھے اور اب دیکھو اس نے ایک کپڑا صدقہ کے طور پر جمع کرا دیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے اس شخص کو حکم دیا گیا کہ کپڑا واپس لے لو۔ آیت میں دراصل ایسے ہی لوگوں کو اپنا سب کچھ دے دینے سے روکا گیا ہے۔- لیکن جو حضرات صاحب بصیرت اور روشن ضمیر تھے۔ انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نہیں روکتے تھے۔ حضرت ابوبکر کے پاس کافی مال تھا آپ نے سارا مال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کردیا حتی کہ جسم پر صرف ایک چادر رہ گئی تھی جس میں آپ گزارہ کرتے تھے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسئلے میں آپ کے ساتھ نہ کوئی سختی کی اور نہ ہی اس پر آپ کو ٹوکا۔ آیت میں خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں ہے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا باقی ماندہ لوگ مخاطب ہیں اس کی دلیل یہ قول باری ہے (فتقعد ملوماً محسوراً ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ایسی نہیں تھی کہ اللہ کی راہ میں سب کچھ خرچ کردینے کے بعد آپ کو افسوس ہوتا یا دل میں مال کی حسرت پیدا ہوجاتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دوسرے تمام لوگ مراد ہیں۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (لئن اشرکت لیحبطن عملک اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے سال اعمال حبط ہوجائیں گے) آیت میں اگرچہ خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دوسرے تمام لوگ ہیں اسی طرح قول باری (فان کنت فی شک مما انزلنا الیک۔ اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے تم پر اتاری ہے) میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد نہیں ہیں اس لئے کہ آپ کو اللہ کی نازل کردہ کتاب کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔ قول باری (وقضی ربک) سے لے کر آیت زیر بحث تک جتنی آیات درج ہیں وہ مندرجہ ذیل امور کی مقتضی ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے، والدین کے ساتھ حسن سلوک ، ا ن کے سامنے نیاز مندی کے اظہار اور ان کی فرمانبرداری نیز رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کے حقوق ادا کرنے کا امر فرمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بےجا طور پر مال خرچ کرنے اور اللہ کی نافرمانی میں مال لگانے سے روکا گیا ہے۔ یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ اخراجات میں میانہ روی اختیار کی جائے، فضول خرچی سے پرہیز کی جائے اور حقوق کی ادائیگی میں کتواہی نہ کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ ہاتھ خالی ہونے کی صورت میں مسکین اور سائل کو کس طریقے سے ٹالا جائے۔
(٢٩) اور نہ تو خرچ اور عطیہ سے اس طرح جیسا کہ ہاتھ گردن میں باندھ لیا جائے ہاتھ روک لیا جائے اور نہ بالکل ہی خرچ اور عطیہ میں اسراف کرنا چاہیے یعنی کہ اپنا تمام مال ایک محتاج اور صرف ایک قرابت دار کو نہ دینا چاہیے کہ دوسروں کا بالکل ہی نظر انداز کردیا جائے ورنہ الزام خوردہ خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ رہو گے کہ دوسروے فقراء اور قرابت دار الزام دیں گے اور تم سے علیحدہ ہوجائیں گے اور جو تمہارے پاس مال ہوگا وہ سب دوسرے تم سے لے جائیں گے۔- کہا گیا ہے کہ یہ آیت ایک عورت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جس نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتہ مانگا تھا تو آپ نے کرتہ اتار کر اس کو دے دیا اور خود برہنہ ہو کر بیٹھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس چیز سے منع فرمایا کہ اپنا ہاتھ بالکل ہی نہیں کھول دینا چاہیے کہ اپنے بدن کا کرتہ تک اتار کر آپ دے دیں اور پھر آپ کرتہ بدن پر نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے سامنے باہر بھی نکل نہ سکیں۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ ولا تجعل یدک مغلولۃ “۔ (الخ)- سعید بن منصور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سیارابی الحکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کپڑے وغیرہ مال آیا اور آپ بہت ہی بخشش کرنے والے تھے چناچہ آپ نے اس کو لوگوں میں تقسیم کردیا پھر دوسری قوم آپ کے پاس لینے کی امید سے آئی تو آپ کو دیکھا کہ آپ تقسیم کرچکے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نہ اپنا ہاتھ گردن ہی سے باندھ لینا چاہیے اور نہ بالکل ہی کھول دینا چاہیے ورنہ الزام خوردہ اور خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ رہو گے۔- اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے ابن مسعود رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ایک لڑکا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ آپ سے یہ مانگ رہی ہے، آپ نے فرمایا آج کے دن تو ہمارے پاس کچھ نہیں، وہ لڑکا کہنے لگا تو میری ماں کہتی ہے کہ پھر آپ اپنا کرتہ مبارک ہی مجھے دے دیں، چناچہ آپ نے فورا اپنا کرتہ اتار کر اس کو دیا دے اور گھر میں بغیر کرتہ کے بیٹھ گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، نیز ابوامامہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو کچھ میرے پاس مال ہے سب راہ اللہ میں خرچ کر دو ، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اب کچھ باقی نہیں رہا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیا نازل فرمائی، اس حدیث کا ظاہر بتلا رہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔
آیت ٢٩ (وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ )- یہ استعارہ ہے بخل اور کنجوسی کا۔ یعنی آپ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ باندھ کر کسی کو کچھ دینے سے خود کو معذور نہ کرلیں۔- (وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ )- بعض اوقات انسان کے اندر نیکی کا جذبہ اس قدر جوش کھاتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دینا چاہتا ہے۔- (فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا)- ایسا نہ ہو کہ ایک وقت میں تو جذبات میں آکر انسان سارا مال قربان کر دے مگر بعد میں پچھتائے کہ یہ میں نے کیا کردیا ؟ اب کیا ہوگا ؟ اب میری اپنی ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی ؟ چناچہ انسان کو ہر حال میں اعتدال کی روش اختیار کرنی چاہیے۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :29 ہاتھ باندھنا ہی استعارہ ہے بخل کے لیے ، اور اسے کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہے فضول خرچی ۔ دفعہ ٤ کے ساتھ دفعہ٦ کے اس فقرے کو ملا کر پڑھنے سے منشاء صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں ۔ اس کے برعکس ان کے اندر توازن کی ایسی صحیح حس موجود ہونی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اور بیجا خرچ کی خرابیوں میں مبتلا بھی نہ ہو ۔ فخر اور ریاء اور نمائش کے خرچ ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ ، اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہا دیں ، دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں ۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں ۔ یہ دفعات بھی محض اخلاقی تعلیم اور انفرادی ہدایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صاف اشارہ اس بات کی طرف کر رہی ہیں ۔ کہ ایک صالح معاشرے کو اخلاقی تربیت ، اجتماعی دباؤ اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ سے بے جا صرف مال کی روک تھام کرنی چاہیے ۔ چنانچہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کی ریاست میں ان دونوں دفعات کے منشاء کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی ۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کیا گیا ۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بے جا سرف مال کی روک تھام کی گئی ۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعہ سے ان بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں ۔ پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے ذریعہ سے روک دے ۔ اسی طرح زکوة و صدقات کے احکام سے بخل کا زور بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیےگئے کہ لوگ زراندوزی کر کے دولت کی گردش کو روک دیں ۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام نے بخیلوں کو ذلیل کیا ۔ اعتدال پسندوں کو معزز بنایا ۔ فضول خرچوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گِل سرِ سَبَد قرار دیا ۔ اس وقت کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا یہ اثر آج تک مسلم معاشرے میں موجود ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں کنجوسوں اور زر اندوزوں کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں ، اور سخی انسان آج بھی ان کی نگاہ میں معزز و محترم ہے ۔