Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 اس میں اہل ایمان کے لئے تسلی ہے کہ ان کے پاس وسائل رزق کی فروانی نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے اللہ کے ہاں ان کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ رزق کی وسعت یا کمی، اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مصلحت سے ہے جسے صرف وہی جانتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو قارون بنا دے اور اپنوں کو اتنا ہی دے کہ جس سے یہ مشکل وہ اپنا گذارہ کرسکیں۔ یہ اس کی مشیت ہے۔ جس کو وہ زیادہ دے، وہ اس کا محبوب نہیں، اور وہ قوت لا یموت کا مالک اس کا مبغوض نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٥] دولتمندوں کے مال میں دوسروں کا حصہ :۔ تمہارے ہاتھ روکنے سے نہ تو تم غنی رہ سکتے ہو اور نہ ہی دینے سے فقیر ہوجاؤ گے اسی طرح جس سائل کو تم نے جواب دیا ہے اللہ اس کی ضرورت کسی اور جگہ سے پوری کرسکتا ہے اور اسے غنی بھی بنا سکتا ہے۔ رزق کی کمی بیشی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے خرچ کرنے میں تنگدل نہ ہونا چاہیے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رزق کس محتاج کی دعاؤں سے تمہیں مل رہا ہے یا کس کس کا رزق تمہاری طرف منتقل ہو رہا ہے۔ لہذا تمہیں چاہیے کہ اپنے مال و دولت میں سے ضرورت مندوں پر خرچ کرتے اور ان کا حصہ انھیں ادا کرتے رہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ : یعنی اگر حد سے زیادہ خرچ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی کا فقر دور کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے اختیار میں نہیں، آپ جتنا بھی دے لیں اگر رب تعالیٰ اس کے رزق کا دروازہ کشادہ نہ کرے تو کوئی اسے نہیں کھول سکتا، آپ اللہ کے حکم کے مطابق اعتدال سے خرچ کریں، اس کے فقر و غنا کی فکر آپ کا کام نہیں اور نہ یہ آپ کے بس کی بات ہے۔ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا : یعنی وہ خوب جانتا ہے کہ کسے کتنا رزق دینا ہے۔ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم رزق دینا اس کی حکمت ہے۔ (دیکھیے شوریٰ : ٢٧) اگر سب لوگ برابر ہوتے تو دنیا کے کام چل ہی نہ سکتے۔ (دیکھیے زخرف : ٢٢) دولت مند ہونا یا فقیر ہونا نیکی یا بدی پر منحصر نہیں، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے۔ (دیکھیے زخرف : ٣٣ تا ٣٥) زبردستی اس فرق کو مٹایا نہیں جاسکتا، جیسا کہ کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کی خواہش اور کوشش تھی، جس کے لیے انھوں نے لاکھوں لوگ تہ تیغ کیے مگر منہ کی کھائی۔ کیونکہ یہ فطرت سے جنگ ہے جو کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ رہی سرمایہ داری کہ سود اور دوسرے ناجائز طریقوں سے تمام اموال کے مالک صرف چند لوگ بن بیٹھیں اور باقی سب ان کے محتاج ہوں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں اور جہاں یہ نظام ہوگا وہ معاشرہ بھی لامحدود ظلم و ستم اور حرص و ہوس کا شکار ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر و فقیر کے اس فرق کو ختم کرنا نہیں بلکہ اعتدال پر رکھنا ضروری ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنے کو حرام قرار دیا، چوری ڈاکے، غصب، دھوکے اور سود کی تمام صورتیں حرام قرار دیں، تو دوسری طرف جائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کو زکوٰۃ، صدقات، میراث اور دوسرے احکام کے ذریعے سے معاشرے میں پھیلا دینے کا حکم دیا۔ ان احکام پر عمل کرنے کی صورت میں معاشرے میں امیری و غریبی میں اعتدال قائم رہے گا، پھر نہ سرمایہ دارانہ طریقے کی وجہ سے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرح دولت چند آدمیوں کی مٹھی میں جمع ہونے سے پیدا ہونے والے مظالم ہوں گے اور نہ اس فطری فرق کو زبردستی اور مصنوعی طریقوں سے ختم کرنے کی کوشش سے وہ خرابیاں پیدا ہوں گی جو روس، چین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک میں پیدا ہوئیں کہ انسان انسانیت کے مرتبے سے گر کر محض ایک حیوان بن گیا، لوگوں کو ان کی فطری آزادی - سے محروم کردیا گیا، حتیٰ کہ اس نظام پر مبنی تمام ممالک آخر کار ناکام ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور وہاں کے رہنے والے مظلوم مسلم اور غیر مسلم سب لوگوں کو مسلمانوں کے جہاد کی برکت سے اس نظام سے نجات اور آزادی کی زندگی نصیب ہوئی۔ (فالحمد للہ) اب بھی اگرچہ وہاں اس کی باقیات موجود ہیں، جن کی وجہ سے ظلم و ستم کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا، اس لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ تمام دنیا کو سرمایہ داری، کمیونزم اور دوسرے تمام ظالمانہ نظاموں سے نجات دلا کر اسلام کا نظام عدل نافذ کریں۔ یہ کام اللہ کے فضل سے شروع ہوچکا ہے اور جہاد اسلامی کی برکت سے تمام دنیا پر اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ (ان شاء اللہ) جیسا کہ فرمایا : (هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ) [ التوبۃ : ٣٣ ] ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے، خواہ مشرک لوگ برا جانیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرنا کہ خود پریشانی میں پڑجائے اس کا درجہ :- اس آیت سے بظاہر اس طرح خرچ کرنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے جس کے بعد خود فقیر و محتاج ہوجائے اور پریشانی میں پڑجائے امام تفسیر قرطبی نے فرمایا کہ یہ حکم مسلمانوں کے عام حالات کے لئے ہے جو خرچ کرنے کے بعد تکلیفوں سے پریشان ہو کر پچھلے خرچ کئے ہوئے پر پچھتائیں اور افسوس کریں قرآن کریم کے لفظ مَّحْسُوْرًا میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے (کما قال المظہری) اور جو لوگ اتنے بلند حوصلہ ہوں کہ بعد کی پریشانی سے نہ گھبرائیں اور اہل حقوق کے حقوق بھی ادا کرسکیں ان کے لئے یہ پابندی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت یہ تھی کہ کل کے لئے کچھ ذخیرہ نہ کرتے تھے جو کچھ آیا آج ہی خرچ فرما دیتے تھے اور بسا اوقات بھوک اور فاقہ کی تکلیف بھی پیش آتی پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت بھی آجاتی تھی اور صحابہ کرام (رض) اجمعین میں بھی بہت سے ایسے حضرات ہیں جنہوں نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ اس کو منع فرمایا نہ ان کو ملامت کی اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کی ممانعت ان لوگوں کے لئے ہے جو فقر و فاقہ کی تکلیف برداشت نہ کرسکیں اور خرچ کرنے بعد ان کو حسرت ہو کہ کاش ہم خرچ نہ کرتے یہ صورت ان کے پچھلے عمل کو فاسد کر دے گی اس لئے اس سے منع فرمایا گیا۔- خرچ میں بدنظمی ممنوع ہے :- اور اصل بات یہ ہے کہ اس آیت نے بدنظمی کے ساتھ خرچ کرنے کو منع کیا ہے کہ آگے آنے والے حالات سے قطع نظر کر کے جو کچھ پاس ہے اسے اسی وقت خرچ کر ڈالے کل کو دوسرے صاحب حاجت لوگ آئیں اور کوئی دینی ضرورت اہم پیش آجائے تو اب اس کے لئے قدرت نہ رہے (قرطبی) یا اہل و عیال جن کے حقوق اس کے ذمہ واجب ہیں ان کے حق ادا کرنے سے عاجز ہوجائے (مظہری) مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا کے الفاظ کے متعلق تفسیر مظہری میں ہے کہ مَلُوْم کا تعلق پہلی حالت یعنی بخل سے ہے کہ اگر ہاتھ کو بخل سے بالکل روک لے گا تو لوگ ملامت کریں گے اور محسورا کا تعلق کسی دوسری حالت سے ہے کہ خرچ کرنے میں اتنی زیادتی کرے کہ خود فقیر ہوجائے تو یہ محسورا یعنی تھکا ماندہ عاجز یا حسرت زدہ ہوجائے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا 30؀ۧ- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔- بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠) بیشک آپ کا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے مال کی فراخی عطا فرماتا اور اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے اور اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے مال کی فراخی عطا فرماتا ہے اور اس میں بھی اس کی مصلحت ہوتی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اور تنگی اور فراخی کو خوب دیکھتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ )- بعض اوقات اللہ کا کوئی بندہ چاہتا ہے کہ میں کوشش کر کے اپنے فلاں نادار رشتہ دار کے حالات بہتر کردوں مگر اس کی پوری کوشش کے باوجود اس کے حالات نہیں سدھرتے۔ ایسی کیفیت کے بارے میں فرمایا گیا کہ کسی کے رزق کی تنگی اور فراخی کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس میں تم لوگوں کو کچھ اختیار نہیں۔ لہٰذا تم لوگ اپنی سی کوشش کرتے رہو اور نتائج اللہ پر چھوڑ دو ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :30 یعنی اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کم و بیش کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا ، لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل انداز نہ ہونا چاہیے ۔ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا ، یا اس نا مساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا ، دونوں ہی یکساں غلط ہیں ۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے طریق تقسیم رزق سے قریب تر ہو ۔ اس فقرے میں قانون فطرت کے جس قاعدے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ نہ پا سکا کہ رزق اور وسائل رزق میں تفاوت اور تفاضل بجائے خود کوئی برائی ہے جسے مٹانا اور ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجے میں بھی مطلوب ہو ۔ اس کے برعکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر برقرار رکھا جائے اور اوپر کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین عمل کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بے شمار اخلاقی ، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالق کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani