Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قتل اولاد کی مذمت دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ان کے ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے ۔ ایک طرف ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا مال اپنے بچوں کو بطور ورثے کے دو اور دوسری جانب فرماتا ہے کہ انہیں مار نہ ڈالا کرو ۔ جاہلیت کے لوگ نہ تو لڑکیوں کو ورثہ دیتے تھے نہ ان کا زندہ رکھنا پسند کرتے تھے بلکہ دختر کشی ان کی قوم کا ایک عام رواج تھا ۔ قرآن اس نافرجام رواج کی تردید کرتا ہے کہ یہ خیال کس قدر بودا ہے کہ انہیں کھلائیں گے کہاں سے ؟ کسی کی روزی کسی کے ذمہ نہیں سب کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ سورہ انعام میں فرمایا آیت ( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا 31؀ ) 17- الإسراء:31 ) فقیری اور تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کی جان نہ لیا کرو ۔ تمہیں اور انہیں روزیاں دینے والے ہم ہیں ۔ ان کا قتل جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے ۔ خطا کی دوسری قرأت خطا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھیرائے حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں گے ۔ میں نے کہا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زنا کاری کرے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یہ آیت سورة الا نعام، 151 میں بھی گزر چکی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے کہ ان تقتل ولدک خشیۃ ان یطعم معک۔ (صحیح بخاری) کہ تو اپنی اولاد اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی آجکل قتل اولاد کا گناہ عظیم طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کے حسین عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات بہتر تعلیم و تربیت کے نام پر اور خواتین اپنے حسن کو برقرار رکھنے کے لئے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] مفلسی کے ڈر سے قتل اولاد اور منصوبہ بندی :۔ مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر عدم توکل یا براہ راست حملہ کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ تمہیں بھی تو ہم رزق دے ہی رہے ہیں اور جیسے تمہیں دے رہے ہیں ویسے تمہاری اولاد کو بھی ضرور دیں گے اور اگر تمہیں مفلسی کا اتنا ہی ڈر ہے تو پہلے تمہیں خود مرجانا چاہیے۔ اولاد کو کیوں مارتے ہو ؟ تاکہ تمہاری یہ فکر ہی ختم ہوجائے اور آخر میں یہ فرما دیا کہ تمہارا یہ کام بہت بڑا گناہ کا کام ہے۔- عرب میں تو قتل اولاد کا سلسلہ انفرادی طور پر ہوتا تھا مگر آج کل ایسے ہی کام اجتماعی طور پر اور حکومتوں کی طرف سے ہو رہے ہیں اور حکومت کے ان محکموں کے لیے بڑے اچھے اچھے نام تجویز کیے جاتے ہیں جیسے محکمہ خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی۔ اور اس کام کا جذبہ محرکہ وہی مفلسی کا ڈر ہے۔ نیز اس سلسلہ میں سورة انعام آیت ١٣٧ اور ١٥١ کے حواشی بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۔۔ : اگرچہ اولاد میں لڑکے لڑکیاں دونوں شامل ہیں، مگر عرب کی تاریخ میں اکثر لڑکیوں ہی کو قتل کرنے کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ ) [ التکویر : ٨ ] ” اور جب زندہ دفن کی گئی سے پوچھا جائے گا۔ “ ” الْمَوْءٗدَةُ “ مؤنث لانے سے ظاہر یہی ہے کہ زندہ درگور لڑکی ہی ہوتی تھی، لیکن اگر اسے ” نفس موء ودہ “ کہا جائے تو پھر لڑکا لڑکی دونوں مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ ” نفس “ کا لفظ زبان عرب میں مؤنث ہے، سو معنی ہوگا : ” اور جب زندہ درگور کی ہوئی جان سے سوال کیا جائے گا۔ “ اور اگرچہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کو غیرت کی وجہ سے قتل کرتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں ہوسکتا۔ اس نے مطلق اولاد لڑکے لڑکی دونوں کا ذکر فرمایا ہے اور قتل کا سبب موجودہ فقر یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے، ہاں یہ درست ہے کہ اولاد کو قتل کا باعث فقر کے علاوہ بےجا غیرت بھی تھا۔ ”ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ “ اور ”ۭ نَحْنُ نَرْزُقُکُم وَاِيَّاھُمْ “ میں تقدیم و تاخیر کی حکمت اور دوسرے فوائد کے لیے دیکھیے سورة انعام (١٥١) ” خِطْاً “ اور ” اِثْمٌ“ کا وزن اور معنی ایک ہی ہے، یعنی دانستہ گناہ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشہ سے قتل نہ کرو (کیونکہ سب کے رازق ہم ہیں) ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی (اگر رازق تم ہوتے تو ایسی باتیں سوچتے) بیشک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔- معارف و مسائل :- سابقہ آیات میں انسانی حقوق کے متعلق ہدایات کا ایک سلسلہ ہے یہ چھٹا حکم اہل جاہلیت کی ایک ظالمانہ عادت کی اصلاح کے لئے ہے زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ ابتداء ولادت کے وقت اپنی اولاد خصوصا بیٹیوں کو اس خوف سے قتل کر ڈالتے تھے کہ ان کے مصارف کا بار ہم پر پڑے گا آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے ان کی جہالت کو واضح کیا ہے کہ رزق دینے والے تم کون یہ تو خالص اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے تمہیں بھی تو وہی رزق دیتا ہے جو تمہیں دیتا ہے وہی ان کو بھی دے گا تم کیوں اس فکر میں قتل اولاد کے مجرم بنتے ہو بلکہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے رزق دینے میں اولاد کا ذکر مقدم کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا ہے ہم پہلے ان کو پھر تمہیں دیں گے جس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس بندہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اہل و عیال کا تکفل یا دوسرے غریبوں ضعیفوں کی امداد کرتا ہے تو اس کو اسی حساب سے دیتے ہیں کہ وہ ضروریات بھی پوری کرسکے اور دوسروں کی امداد بھی کرسکے ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے انما تنصرون وترزقون بضعفائکم یعنی تمہارے ضعیف و کمزور طبقہ ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری امداد ہوتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اہل و عیال کے متکفل والدین کو جو کچھ ملتا ہے وہ کمزور عورتوں بچوں کی خاطر ہی ملتا ہے۔- مسئلہ : قرآن کریم کے اس ارشاد سے اس معاملے پر بھی روشنی پڑتی ہے جس میں آج کی دنیا گرفتار ہے کہ کثرت آبادی کے خوف سے ضبط تولید اور منصوبہ بندی کو رواج دے رہی ہے اس کی بنیاد بھی اسی جاہلانہ فلسفہ پر ہے کہ رزق کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھ لیا گیا ہے یہ معاملہ قتل اولاد کی برابر گناہ نہ سہی مگر اس کے مذموم ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا 31؀- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قتل اولاد کی ممانعت - قول باری ہے (ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق۔ اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو) اس کلام میں اس سبب کا بھی ذکر موجود ہے جو اس کے نزول کا پس منظر ہے۔ وہ اس طرح کہ عرب کے اندر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو افلاس کے اندیشے سے اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے تاکہ ان کے اخراجات کا بوجھ ان پر نہ پڑے اور اس طرح بچ رہنے والی رقم ان کی ذات اور اہل و عیال کے کام آ جائے۔ عربوں میں اس کا عام رواج تھا اور اس بری رسم کا دائرہ بڑا وسیع تھا۔ ایسی لڑکیاں موئودۃ کہلاتی تھیں۔ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے (واذا الموودۃ سئلت بای ذنب قتلت اور جب زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم کی بنا پر قتل کردیا گیا تھا) موئودہ اس لڑکی کو کہتے ہیں جسے زندہ دفن کردیا جاتا تھا عرب کے لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ حضرت ابن مسعود نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک مرتبہ دریافت کیا تھا کہ بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں ارشاد فرمایا تھا (ان تجعل للہ ندا وھو خلقک وان تقتل ولدک خشیۃ ان تاکل معک وان تزنی بحلیلۃ جارک یہ کہ تم کسی کو اللہ کا مدمقابل ٹھہرائو۔ حالانکہ اس نے ہی تمہیں پیدا کیا، نیز یہ کہ اس اندیشے کی بنا پر اپنی لڑکی کو قتل کر دو کہ کہیں وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہوجائے اور یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرو)- قول باری ہے (نحن نرزقھم و ایاکم ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تمام مخلوقات کے رزق کی ذمہ داری اللہ پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے اسباب پید اکر دے گا جن کی بنا پر وہ اپنی ذات اور اولاد کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جاندار بھی پیدا کیا ہے اسے اس کی زندگی بھر رزق مہیا کرتا رہے گا۔ اس کے رزق کا سلسلہ صرف اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اس لئے بیان کردیا تاکہ حصول رزق کے سلسلے میں کوئی شخص کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے نہ ہی کسی کال مال ہتھیائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے رزق کے ایسے اسباب پیدا کردیئے ہیں جن کی بنا پر اسے دوسروں کے مال پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣١) یہ آیت قبیلہ خزاعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ وہ اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے، اس کی اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی کہ ناداری اور ذلت کے اندیشہ سے اپنی لڑکیوں کو زندہ مت دفن کیا کرو ہم ان لڑکیوں کو اور تم کو بھی رزق دیتے ہیں کردینا سزا کے اعتبار سے بہت بڑا بھاری گناہ ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ )- قدیم زمانے میں قتل اولاد کا محرک افلاس کا خوف ہوا کرتا تھا۔ آج کل ہمارے ہاں برتھ کنڑول اور آبادی کی منصوبہ بندی کے بارے میں جو اجتماعی سوچ پائی جاتی ہے اور اس سوچ کے مطابق انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کوششیں ہو رہی ہیں ان کی کئی صورتیں بھی اس آیت کے حکم میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں مجموعی طور پر کوئی ایک حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کی تمام صورتیں حرام مطلق نہیں بلکہ بعض صورتیں جائز بھی ہیں جبکہ بعض مکروہ اور بعض حرام۔ مگر ایسی سوچ کو ایک اجتماعی تحریک کی صورت میں منظم کرنا بہر حال ایمان اور توکل علی اللہ کی نفی ہے۔ اس کوشش کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ انسان کو اللہ کے رازق ہونے پر ایمان و یقین نہیں اور وہ خود اپنی جمع تفریق سے حساب پورا کرنے کی کوششیں کرنا چاہتا ہے۔ دراصل انسان اللہ کے خزانوں اور وسائل کی وسعتوں کا کچھ اندازہ نہیں کرسکتا اور اسے اپنی اس کوتاہی اور معذوری کا ادراک ہونا چاہیے۔ مثلاً کچھ عرصہ پہلے تک انسان کو اندازہ نہیں تھا کہ سمندر کے اندر انسانی غذا کے کس قدر وسیع خزانے پوشیدہ ہیں اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سمندری گوشت (لَحْمًا طَرِیًّا) (النحل : ١٤ اور فاطر : ١٢) کی افادیت انسانی صحت کے لیے کے مقابلے میں کس قدر زیادہ ہے۔ - اس ضمن میں ایک اہم بات یہ جاننے کی ہے کہ مختلف مانع حمل طریقوں اور کوششوں پر ” قتل اولاد “ کے حکم کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن باقاعدہ حمل ٹھہر جانے کے بعد اسے ضائع کرنا بہر حال قتل کے زمرے میں ہی آتا ہے۔- (نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ )- تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں جو رزق مل رہا ہے وہ تمہاری اپنی محنت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں تمہارے حقیقی رازق ہم ہیں اور جیسے ہم تمہیں رزق دے رہے ہیں اسی طرح تمہاری اولاد کے رزق کا بندوبست بھی ہمارے ذمہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :31 یہ آیت ان معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبط ولادت کی تحریک اٹھتی رہی ہے ۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتل اطفال اور اسقاط حمل کا محرک ہوا کرتا تھا ، اور آج وہ ایک تیسری تدبیر ، یعنی منع حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے ۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر ان تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانون فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے ۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے ۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے ، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا ۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے ، اتنے ہی ، بلکہ بارہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں ۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: مشرکینِ عرب بعض اوقات تو لڑکیوں کو اس لئے زِندہ دفن کردیتے تھے کہ اپنے گھر میں لڑکی کے وجود ہی کو وہ باعث شرم سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ بعض مرتبہ اولاد کو اس لئے قتل کردیتے تھے کہ اُن کو کھلانے سے مفلس ہوجانے کا احتمال تھا۔