کبیرہ گناہوں سے ممانعت زنا کاری اور اس کے اردگرد کی تمام سیاہ کاریوں سے قرآن روک رہا ہے زنا کو شریعت نے کبیرہ اور بہت سخت گناہ بتایا ہے وہ بدترین طریقہ اور نہایت بری راہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک نوجوان نے زنا کاری کی اجازت آپ سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے ، کیا کہہ رہا ہے ۔ آپ نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا بیٹھ جا جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے ہرگز نہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی اور کیسے پسند کرے گا ؟ آپ نے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا ۔ آپ نے فرمایا ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں کرتا اچھا اپنی بہن کے لئے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح سے انکار کیا آپنے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لئے اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔ بتا کیا تو چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے اسی سختی سے انکار کیا ۔ آپ نے فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی ۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الہٰی اس کے گناہ بخش ، اس کے دل کو پاک کر ، اسے عصمت والا بنا ۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے شرک کے بعد کوئی گناہ زنا کاری سے بڑھ کر نہیں کہ آدمی اپنا نطفہ کسی ایسے رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں ۔
32۔ 1 اسلام میں زنا چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اتنا بڑا کہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کا ارتکاب کرلے تو اسے اسلامی معاشرے میں زندہ رہنے کا ہی حق نہیں ہے۔ پھر اسے تلوار کے ایک وار سے مار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پتھر مار مار کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں نشان عبرت بن جائے۔ اس لئے یہاں فرمایا کہ زنا کے قریب مت جاؤ، یعنی اس کے دواعی و اسباب سے بھی بچ کر رہو، مثلًا غیر محرم عورت کو دیکھنا، ان سے اختلاط، کلام کی راہیں پیدا کرنا، اسی طرح عورتوں کا بےپردہ اور بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا، وغیرہ ان تمام امور سے پرہیز ضروری ہے تاکہ اس بےحیائی سے بچا جاسکے۔
[٣٧] زنا کے راستے اور ان کے قریب جانے سے ممانعت :۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ زنا نہ کرو بلکہ یوں فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یعنی وہ تمام راستے اور طور طریقے جو زنا کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان سب سے اجتناب کرو۔ ایسے راستوں کا مفصل بیان تو سورة نور اور سورة احزاب میں آئے گا۔ مختصراً یہ کہ ہر وہ چیز جو انسان کی شہوت کی انگیخت کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ زنا کا راستہ ہے مثلاً عورتوں سے آزادانہ اختلاط، عورتوں کا بےپردہ ہو کر بازاروں میں نکلنا، اجنبی مرد و عورت کی گفتگو بالخصوص اس صورت میں کہ وہ اکیلے ہوں۔ نظر بازی، عریاں تصویر، فلمیں، فحش لٹریچر، گندی گالیاں، ٹیوی اور ریڈیو پر فحش افسانے اور ڈرامے اور مردوں اور عورتوں کی بےحجابانہ گفتگو وغیرہ سب شہوت کو ابھارنے والی باتیں ہیں اور یہی زنا کے راستے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے زنا کو جو برا راستہ فرمایا تو اس کی قباحتیں درج ذیل ہیں :- ١۔ زنا کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب مشکوک رہتا ہے۔- ٢۔ ایسے ولدالزنا بچے کے لیے میراث کے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔- ٣۔ زانیہ عورت اگر منکوحہ ہے تو بچے کے اخراجات بلاوجہ اس کے خاوند کے ذمہ پڑجاتے ہیں اسی طرح وہ میراث میں بھی بلاوجہ حصہ دار قرار پاتا ہے۔- ٤۔ غیر منکوحہ عورت جس کے پاس کئی مرد آتے ہوں ان مردوں میں باہمی رقابت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔- ٥۔ نکاح کی صورت میں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد اور غمگسار ہوتے ہیں۔ پھر ان کی یہی باہمی محبت بچوں کی تربیت میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے جس سے خاندانی نظام تشکیل پاتا ہے اور یہی نظام کسی معاشرہ کی سب سے ابتدائی اور اہم اکائی ہے۔ زنا کی صورت میں یہ نظام برقرار رہنا تو درکنار اس کے انجر پنجر ہل جاتے ہیں جیسا کہ آج کل یورپین ممالک میں صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ انھیں چند در چند خرابیوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ اور زنا کی طرف لے جانے والے تمام راستوں پر پابندیاں لگا دیں۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى ۔۔ :” فَاحِشَةً “ ایسا قول و فعل جو نہایت قبیح ہو۔ پچھلی آیت میں قتل اولاد سے منع فرمایا، جو نسل انسانی فنا کرنے کا باعث ہے اور اس آیت میں زنا کے قریب جانے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ حد سے بڑھی ہوئی برائی کے ساتھ نسب کا نظام خراب کرنے کا باعث ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاوند کو نہ بیوی پر اعتماد رہے گا اور نہ اسے اولاد کے اپنا ہونے کا یقین ہوگا، وہ غیرت کی وجہ سے بیوی بچوں کو قتل بھی کرسکتا ہے، جیسا کہ اکثر خبریں آتی رہتی ہیں۔ اگر یہ رسم بد عام ہوجائے تو رشتہ داری کا سارا نظام، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، ختم ہوجائے گا، نہ باپ کا پتا، نہ کوئی چچا نہ دادا، نہ ان کی اولاد کا علم، نہ ان سے کوئی تعلق نہ رشتہ داری، بلکہ انسان اور حیوان کا فرق ہی ختم ہوجائے گا۔ اس خبیث فعل کی سزا اس وقت مغربی اقوام بھگت رہی ہیں اور انھیں مسلمانوں کے نظام نسب پر شدید حسد ہے، جس کی وجہ سے وہ ان میں بھی بےحیائی اور زنا پھیلانے کا ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ - اللہ تعالیٰ نے زنا اور بعض دوسرے کاموں کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے اور بعض کاموں کا ارتکاب کرنے سے منع کیا ہے۔ آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کام کی رغبت طبعی طور پر آدمی کے دل میں ہو اس کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا، جیسے زنا کہ جنسی جذبہ آدمی کا سب سے غالب جذبہ ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى ) [ بنی إسرائیل : ٣٢ ] اور فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَـطْهُرْنَ ) [ البقرۃ : ٢٢٢ ] ” اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ “ اسی طرح یتیم کے مال کے قریب احسن طریقے سے جانے کے سوا منع فرما دیا، کیونکہ مال کی حرص طبعی جذبہ ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ) [ بنی إسرائیل : ٣٤ ] البتہ قتل کے ارتکاب سے منع کیا، فرمایا : (وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ) [ بنی إسرائیل : ٣١ ] اور فرمایا : (وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ ) [ بنی إسرائیل : ٣٣ ] کیونکہ کسی کو قتل کرنا انسان کا طبعی تقاضا نہیں ہے۔ - 3 اللہ تعالیٰ نے زنا کے تمام راستے بھی بند فرما دیے جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے : 1 اجنبی عورت کے ساتھ خلوت حرام فرما دی، اسی طرح مردوں کو عورتوں سے عام میل جول سے بھی منع فرما دیا۔ چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلاَّ مَعَ ذِيْ مَحْرَمٍ وَلاَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا رَجُلٌ إِلاَّ وَ مَعَہَا مَحْرَمٌ ) [ بخاری، جزاء الصید، باب حج النساء : ١٨٦٢ ] ” کوئی عورت سفر نہ کرے مگر کسی محرم کے ساتھ اور اس کے پاس کوئی مرد نہ جائے مگر اس صورت میں کہ اس عورت کے پاس کوئی محرم موجود ہو۔ “ مسلم کی اسی روایت میں ہے : ( لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِاِمْرَأَۃٍ ) [ مسلم، الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ : ١٣٤١ ]” کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اکیلا نہ ہو۔ “ اسی طرح عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِیَّاکُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَاءِ ، فقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ ؟ قَالَ اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ ) [ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل بامرأۃ۔۔ : ٥٢٣٢۔ مسلم : ٢١٧٢ ] ” عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ “ ایک انصاری آدمی نے پوچھا : ” آپ ” حَمْوٌ“ (خاوند کے قریبی مثلاً اس کے بھائی یا چچا زاد یعنی کزن وغیرہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ “ فرمایا : ” حمو “ تو موت ہے (مطلب یہ کہ اس کا زنا تو بعض اوقات موت تک پہنچا دیتا ہے) ۔ “ 2 مردوں اور عورتوں دونوں کو نگاہ نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نور (٣٠، ٣١) کیونکہ آنکھیں اور کان دل کا دروازہ ہیں۔ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَکَ ذٰلِکَ لاَ مَحَالَۃَ ، فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ ، وَ زِنَا اللِّسَان المَنْطِقُ ، وَالنَّفْسُ تَتَمَنَّی وَتَشْتَھِيْ ، وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذِٰلکَ کُلَّہُ وَ یُکَذِّبُہُ ) [ بخاری، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ٦٢٤٣۔ مسلم : ٢٦٥٧ ] ” اللہ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ پانے والا ہے، پس آنکھوں کا زنا ان کا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا ان کا سننا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ “ 3 عورتوں کو پردے کا حکم دیا اور زینت کے اظہار سے سخت منع فرمایا۔ دیکھیے سورة نور (٣١) اور سورة احزاب (٣٣) اس کے ساتھ ہی مردوں اور عورتوں کے نکاح کی تاکید فرمائی اور نکاح کو نہایت آسان بنادیا، اگر وسائل مہیا نہ ہوں تو پاک دامن رہنے کی انتہائی کوشش کا حکم دیا۔ دیکھیے سورة نور (٣٢، ٣٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَ أَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بالصَّوْمِ ، فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاءٌ ) [ بخاری، الصوم، باب الصوم لمن خاف علی نفسہ العزبۃ : ١٩٠٥۔ مسلم : ١٤٠٠ ] ” تم میں سے جو شخص ضروریات نکاح رکھتا ہو وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نظر کو نیچا رکھنے اور شرم گاہ کو (زنا سے) محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے اور جو طاقت نہ رکھے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت کو) کچلنے کا باعث ہے۔ “ 4 زنا کرنے والوں پر، مرد ہوں یا عورت، انتہائی احتیاط کے ساتھ ثبوت قائم کرنے اور پوری شدت کے ساتھ حد نافذ کرنے کا حکم دیا۔ کنواری اور کنوارے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی حد مقرر فرمائی، جو رجم سے بہت کم ہے اور غیر کنوارے مرد اور عورت کے لیے سو کوڑے اور رجم کی سزا مقرر فرمائی جو انتہائی سخت سزا ہے۔ اس کی واضح احادیث صحیحین وغیرہ میں معروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی حد نافذ ہو تو معاشرہ اس گندگی سے بالکل پاک ہوجائے۔ - اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً :” كَانَ “ دوام کے معنی کے لیے ہے۔ طنطاوی (رض) نے اس جگہ ” كَانَ “ کو ” مَا زَالَ “ (ہمیشہ سے) کے معنی میں لیا ہے اور ” فَاحِشَةً “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” بیشک وہ ہمیشہ سے بڑی بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ “ ظاہر ہے کہ زنا بےحیائی میں حد سے بڑھا ہوا کام ہے جو خاندانوں، نسلوں اور معاشروں کو برباد کردیتا ہے اور خوف ناک جسمانی اور روحانی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔- وَسَاۗءَ سَبِيْلًا : برا راستہ اس لیے ہے کہ اگر یہ کھل جائے تو اس پر چل کر لوگ آپ کے گھر بھی آپہنچیں گے، پھر کسی کی ماں، بیٹی، بیوی یا بہن کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔ یہی بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نوجوان کو سمجھائی تھی جس نے آپ سے زنا کی اجازت مانگی تھی۔ سیدنا ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں : ” ایک نوجوان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے زنا کی اجازت چاہی۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اسے ڈانٹا اور کہا کہ خاموش ہوجا، تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اُدْنُہْ ) (میرے) قریب آ۔ “ وہ قریب آیا اور جب بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا : ( أَتُحِبُّہُ لِأُمِّکَ ؟ ) ” کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا :” نہیں، اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (ہر گز نہیں) ۔ “ آپ نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِأُمَّھَاتِھِمْ ) ” تو لوگ بھی اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ نے فرمایا : ( أَفَنُحِبُّہُ لابْنَتِکَ ؟ ) ” اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں، اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول اللہ مجھے آپ پر فدا کرے ( ہرگز نہیں) ۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِبَنَاتِھِمْ ) ” لوگ بھی اس کام کو اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَ فَتُحِبُّہُ لِأُخْتِکَ ؟ ) ” کیا تو اس کام کو اپنی بہن کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں، اللہ کی قسم اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِأَخَوَاتِھِمْ ) ” لوگ بھی اس کام کو اپنی بہنوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ( أَ فَتُحِبُّہُ لِعَمَّتِکَ ) ” کیا تو اس کام کو اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں، اللہ کی قسم اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِعَمَّاتِھِمْ ) ” لوگ بھی اس کام کو اپنی پھوپھیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ( أَ فَتُحِبُّہُ لِخَالَتِکَ ؟ ) ” کیا تو اس کام کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرتا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں، اللہ کی قسم اللہ مجھے آپ پر فدا کرے ( ہرگز نہیں) ۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِخَالَاتِھِمْ ) ” لوگ بھی اس کام کو اپنی خالاؤں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور یہ دعا کی : ( اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہُ ، وَ طَھِّرْ قَلْبَہُ وَ حَصِّنْ فَرْجَہُ ) ” الٰہی اس کے گناہ بخش، اس کے دل کو پاک کر اور اسے عصمت والا بنا۔ “ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان ایسے کسی کام کی طرف نہیں جھانکتا تھا۔ “ [ مسند أحمد : ٥؍٢٥٦، ٢٥٧، ح : ٢٢٢٧٤ ]
خلاصہ تفسیر :- اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو (یعنی اس کے مبادی اور مقدمات سے بھی بچو) بلاشبہ وہ (خود بھی) بڑی بےحیائی کی بات ہے اور (دوسرے مفاسد کے اعتبار سے بھی) بری راہ ہے (کیونکہ اس پر عداوتیں اور فتنے اور تضبیع نسب مرتب ہوتے ہیں)- معارف و مسائل :- یہ ساتواں حکم زنا کی حرمت کے متعلق ہے جس کے حرام ہونے کی دو وجہ بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ وہ بےحیائی ہے اور انسان میں حیا نہ رہی تو وہ انسانیت ہی سے محروم ہوجاتا ہے پھر اس کے لئے کسی بھلے برے کام کا امتیاز نہیں رہتا اسی معنی کے لئے حدیث میں ارشاد ہے اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت۔ یعنی جب تیری حیا ہی جاتی رہی تو کسی برائی سے رکاوٹ کا کوئی پردہ نہ رہا تو جو چاہو گے کرو گے اور اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیاء کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے والحیاء شعبۃ من الایمان (بخاری) دوسری وجہ معاشرتی فساد ہے جو زنا کی وجہ سے اتنا پھیلتا ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں رہتی اور اس کے نتائج بد بعض اوقات پورے قبیلوں اور قوموں کو برباد کردیتے ہیں فتنے چوری ڈاکہ قتل کی جتنی کثرت آج دنیا میں بڑھ گئی ہے اس کے حالات کی تحقیق کی جائے تو آدھے سے زیادہ واقعات کا سبب کوئی عورت و مرد نکلتے ہیں جو اس جرم کے مرتکب ہوئے اس جرم کا تعلق اگرچہ بلاواسطہ حقوق العباد سے نہیں مگر اس جگہ حقوق العباد سے متعلقہ احکام کے ضمن میں اس کا ذکر کرنا شاید اسی بناء پر ہو کہ یہ جرم بہت سے ایسے جرائم ساتھ لاتا ہے جس سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں اور قتل و غارت گری کے ہنگامے برپا ہوتے ہیں اسی لئے اسلام نے اس جرم کو تمام جرائم سے اشد قرار دیا ہے اس کی سزاء بھی سارے جرائم کی سزاؤں سے زیادہ سخت رکھی ہے کیونکہ یہ ایک جرم دوسرے سینکڑوں جرائم کو اپنے میں سموئے ہوئے ہے۔- حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرمگاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی کہ اہل جہنم بھی اس سے پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں بھی ہوتی رہے گی (رواہ البزار عن بریدہ مظہری) ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مومن نہیں ہوتا چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مومن نہیں ہوتا یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے اس کی شرح ابوداؤد کی روایت میں یہ ہے کہ ان جرائم کے کرنے والے جس وقت مبتلائے جرم ہوتے ہیں تو ایمان ان کے قلب سے نکل کر باہر آجاتا ہے اور پھر جب اس سے لوٹ جاتے ہیں تو ایمان واپس آجاتا ہے (مظہری)
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا 32- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے - زنا - الزِّنَاءُ : وطء المرأة من غير عقد شرعيّ ، وقد يقصر، وإذا مدّ يصحّ أن يكون مصدر المفاعلة، والنّسبة إليه زَنَوِيٌّ ، وفلان لِزِنْيَةٍ وزَنْيَةٍ قال اللہ تعالی: الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور 3] ، الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور 2] ، وزنأ في الجبل بالهمز زنأ وزنوءا، والزّناء : الحاقن بوله، و «نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» «3» .- ( ز ن ی ) الزنا - عقد شرعی کے بغیر کسی عورت سے ہم بستری کرنے کا نام زنا ہے یہ اسم مقصود ہے اگر اسے ممدور پڑھا جائے تو باب مفاعلہ کا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور اس کی طرف نسبت کے وقت زنوی کہا جائے گا اور فلاں لزنیۃ ( بکسرہ زاو فتح آں ) کے معنی ہیں فلاں حرام زادہ ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور 3] زافی مرد سوائے زانیہ یا مشر کہ عورت کے کسی سے نکاح نہیں کرتا اور فاجرہ عورت سوائے فاجرہ کے کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرتی ۔ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور 2] زانیہ عورت اور زانی مرد ۔ اور اگر مہموز اللام سے ہو جیسے زنا فی الجبل زناء وزنوء ۔ تو اس کے معنی پہاڑ پر چڑھنے کے ہوتے ہیں ۔ الزناء ۔ حاقن یعنی پیشاب روکنے والے کو کہتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ«نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» آدمی کو چاہیئے کہ حاقن ہونے کی صورت میں نماز نہ پڑھے ۔- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے
زنا کے قریب نہ پھٹکو - قول باری ہے (ولا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ وساء سجیلاً ۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہ براہ راستہ) اس میں زنا کی تحریم کی خبر دی گئی ہے نیز یہ کہ یہ بہت قبیح فعل ہے۔ اس لئے کہ فاحشہ اس فعل کو کہتے ہیں جس کی قباحت بڑی زبردست اور بڑی واضح ہو۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ سمعی حجت کے ورود سے پہلے ہی زنا عقل انسانی کے نزدیک ایک قبیح فعل تھا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو فاحشہ کا نام دیا، سمعی حجت کے ورود سے قبل یا اس کے بعد کی حالت کے ساتھ اس کی تخصیص نہیں کی۔ عقلی طور پر زنا ایک قبیح فعل ہے اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ زانی عورت پیدا ہونے والے بچے کا نسب اس بچے کے باپ کی نسبت سے بیان نہیں کرسکتی اس لئے کہ اس کے ساتھ منہ کالا کرنے والے مرد ایک دوسرے سے بڑھ کر اس بچے کے نسب کے حق دار نہیں ہوتے۔ اس طرح زنا کے فعل قبیح کی وجہ سے نسب کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور مواریث، مناکحات صلہ رحمی کے سلسلے میں نسب سے متعلقہ حرمتوں کی مخالفت ہوجاتی ہے۔ ولد پر والد کا حق باطل ہوجاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے حقوق بھی اس فعل قبیح کی بنا پر پامال ہوجاتے۔- عقل انسانی کے نزدیک یہ ایک گھنائونا فعل ہے اور عادۃ لوگ اسے قبیح سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (الولد للفراش وللعاھرا لحجر بچے کے نسب کا تعلق بچھونے کے ساتھ ہے اور منہ کالا کرنے والے کے لئے پتھر ہے ) اس لئے کہ اگر نسب کو بچھونے کے اندر محدود نہ کردیا جاتا یعنی نسب کے اجرا کو صرف نکاح اور نکاح جیسی صورت مثلاً ملک یمین کے اندر محدود نہ کردیا جاتا تو پھر صاحب فرا ش یعنی شوہر، زانی سے بڑھ کر بچے کے نسب کا حق دار قرار نہ پاتا جس کے نتیجے میں اکتساب کا ابطال لازم آتا اور انساب سے تعلق رکھنے والے تمام حقوق و مراعات ساقط ہوجاتے ہیں۔
(٣٢) اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ خفیہ طریقہ پر اور نہ علانیہ طور پر وہ بڑی معصیت اور گناہ کی بات ہے اور برا راستہ ہے۔
آیت ٣٢ (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى)- یہاں ” زنا مت کرو “ کے بجائے وہ حکم دیا جا رہا ہے جس میں انتہائی احتیاط کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ زنا کے قریب بھی مت پھٹکو۔ یعنی ہر اس معاملے سے خود کو محفوظ فاصلے پر رکھو جو تمہیں زنا تک لے جانے یا پہنچانے کا سبب بن سکتا ہو۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :32 ” زنا کے قریب نہ بھٹکو“ ، اس کے حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں ، اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی ۔ افراد کے لے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے ان ابتدائی محرکات سے بھی دور ہیں جو اس راستے کی طرف لےجاتے ہیں ۔ رہا معاشرہ ، تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا ، اور محرکات زنا ، اور اسباب زنا کا سدباب کرے ، اور اس غرض کےلیے قانون سے ، تعلیم و تربیت سے ، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے ، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے ، اور دوسری تمام مؤثر تدابیر سے کام لے ۔ یہ دفعہ آخرکار اسلامی نظام زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی ۔ اس کے منشاء کے مطابق زنا اور تہمت زنا کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ، پردے کے احکام جاری کیے گئے ، فواحش کی اشاعت کو سختی کے ساتھ روک دیا گیا ، شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر ( جو زنا کے قریب ترین رشتہ دار ہیں ) بندشیں لگائی گئیں ، اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح آسان ہو گیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کی جڑ کٹ گئی ۔