Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نا حق قتل بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے جو مسلمان اللہ کے واحد ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں ۔ یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہو اور پھر زنا کیا ہو یا دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو ۔ سنن میں ہے ساری دنیا کا فنا ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مومن کی قتل سے زیادہ آسان ہے ۔ اگر کوئی شخص نا حق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کر دیا ہے ۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کر دینے میں سے ایک کا اختیار ہے ۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کریمہ کے عموم سے حضرت معاویہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاتلان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے طلب کرتے تھے کہ ان سے قصاص لیں اس لئے کہ یہ بھی اموی تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اموی تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں ذرا ڈھیل کررہے تھے ۔ ادھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کر دیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تا وقتیکہ آپ قاتلان عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا چنانچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انکار کر دیا ۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے حکمران بن گئے ۔ معجم طبرانی میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے ، نہ ایسی علانیہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ، اس وقت میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کرلیں ، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے ۔ ہوں گے تو نکال لئے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی ۔ اب ایک اور سنو اللہ کی قسم معاویہ تم پر بادشاہ ہو جائیں گے ، اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے ، جو مظلوم مار ڈالا جائے ، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں ۔ پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہئے الخ ۔ سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کر دیں گے اور سنو تم پر نصاری اور یہود اور مجوسی کھڑے ہو جائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پا لی اور جس نے چھوڑ دیا اور افسوس کہ تم چھوڑنے والوں میں سے ہی ہو تو مثل ایک زمانے والوں کے ہوؤگے کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہو گئے ۔ اب فرمایا ولی کو قتل کے بدلے میں حد سے نہ گزر جانا چاہئے کہ وہ قتل کے ساتھ مثلہ کرے ۔ کان ، ناک ، کاٹے یا قتل کے سوا اور سے بدلہ لے ۔ ولی مقتول شریعت ، غلبے اور مقدرت کے لحاظ سے ہر طرح مدد کیا گیا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 حق کے ساتھ قتل کرنے کا مطلب قصاص میں قتل کرنا ہے، جس کو انسانی معاشرے کی زندگی اور امن و سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح شادی شدہ زانی اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ 33۔ 2 یعنی مقتول کے وارثوں کو یہ حق یا غلبہ یا طاقت دی گئی ہے کہ وہ قاتل کو حاکم وقت کے شرعی فیصلہ کے بعد قصاص میں قتل کردیں یا اس سے دیت لے لیں یا معاف کردیں اور اگر قصاص ہی لینا ہے تو اس میں زیادتی نہ کریں کہ ایک کے بدلے میں دو یا تین چار کو مار دیں، یا اس کا مثلہ کر کے یا عذاب دے کر ماریں، مقتول کا وارث، مدد دیا گیا ہے، یعنی امرا و احکام کو اس کی مدد کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس لئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ زیادتی کا ارتکاب کر کے اللہ کی ناشکری کرے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨] قتل بالحق اور بغیر الحق کی صورتیں :۔ قتل کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انفرادی طور پر کسی شخص کو کبھی بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اٹھ کر کسی کو قتل کر دے۔ الا یہ کہ کوئی ڈاکو وغیرہ اس پر حملہ آور ہو اور وہ اپنی مدافعت کرے جس میں ڈاکو مارا جائے۔ حتیٰ کہ انسان خود کشی بھی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس کی اپنی جان کا بھی وہ خود مالک نہیں ہے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے بلکہ خود کشی بھی ایسا ہی جرم ہے جیسے کسی دوسرے شخص کو قتل کرنا۔ اسی طرح اپنی اولاد کو قتل کرنا بھی، خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو، جرم عظیم ہے۔ قصاص لینا حکومت کے واسطہ ہی سے ہوتا ہے خواہ یہ قصاص جان کا ہو یا جوارح کا۔ بہر صورت یہ مقدمہ عدالت میں پیش کیا جائے گا اور قتل بالحق ہمیشہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلامی حکومت سے متعلق ہوتا ہے اور اس کی پانچ صورتیں ہیں۔ (١) اسلام کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں سے جہاد کی صورت میں ہوتا ہے، (٢) اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا قتل، (٣) قصاص کی صورت میں، (٤) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کریں تو رجم کی صورت میں ان کو مار دیا جائے گا، (٥) مرتد کا قتل، اور سب قسم کے قتل حکومت سے متعلق ہیں۔ انفرادی طور پر کوئی شخص دوسرے کو قتل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔- [٣٩] مقتول کے ورثاء کے اختیارات :۔ یہ اختیار بھی اسے ذاتی طور پر نہیں بلکہ حکومت کی وساطت سے ہوگا کہ چاہے تو قصاص لے لے، چاہے تو خون بہا قبول کرلے اور چاہے تو بالکل ہی معاف کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدمہ قتل کا اصل مدعی مقتول کا ولی ہوتا ہے نہ کہ خود حکومت یا سرکار۔ ہمارے ہاں مروجہ قانون تعزیرات کے مطابق قتل کا مقدمہ قابل راضی نامہ یا مصالحت نہیں ہے جبکہ اسلامی نقطہ ئنظر سے اصل مدعی مقتول کا ولی ہوتا ہے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی وقت بھی مصالحت یا راضی نامہ کرسکے۔- [٤٠] قصاص میں زیادتی کی صورتیں :۔ زیادتی کی کئی شکلیں ممکن ہیں۔ جیسے اصل قاتل کے بجائے کسی دوسرے کو پھنسا دے یا اصل قاتل مل نہیں رہا تو اس کے کسی رشتہ دار سے قصاص کی کوشش کرے یا دیدہ دانستہ کسی دوسرے کو بھی قتل کا ذمہ دار قرار دے۔ یا اگر حکومت مجرم کو قصاص کے لیے اس کے حوالہ کردے تو قصاص میں بہت زیادہ اذیتیں دے یا اگر غصہ کم نہ ہو تو بعد میں مثلہ وغیرہ کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔- [٤١] یعنی حکومت اور افراد معاشرہ سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مقتول کے ولی کی حمایت کریں۔ نہ یہ کہ الٹا قاتل کی حمایت یا اس کی ہمدردی کرنے لگیں اور اس پر ترس کھانے لگیں اس طرح ظلم کا کبھی خاتمہ نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ ۔۔ : انسانی جان اور عزت کی حفاظت کے لیے قتل اولاد اور زنا کے قریب جانے سے منع کرنے کے بعد اب کسی بھی شخص کو ناحق قتل کرنے سے منع فرمایا۔ قتل مسلم کب ناحق ہے اور کب حق ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیءٍ مُسْلِمٍ یَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلاَّ بِإِحْدٰی ثَلاَثٍ النَّفْسُ بالنَّفْسِ ، وَالثَّیِّبُ الزَّانِيْ ، وَالْمُفَارِقُ لِدِیْنِہِ التَّارِکُ لِلْجَمَاعَۃِ ) [ بخاری، الدیات، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( إن النفس بالنفس۔۔ ) : ٦٨٧٨، عن عبد اللّٰہ بن مسعود (رض) ] ” کسی مسلمان کو، جو کلمہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ پڑھتا ہو، قتل کرنا حلال نہیں، مگر تین چیزوں میں سے کسی ایک کے ساتھ، جان کے بدلے جان، غیر کنوارا زانی اور اپنے دین کو ترک کرنے والا، جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والا۔ “ مگر یہ حصر حقیقی نہیں ہے، کیونکہ بعض دوسرے جرائم میں بھی قتل کا جواز ثابت ہے، مثلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دینا اور محرم کے ساتھ نکاح کرنا وغیرہ۔ ( بخاری : ١٨٤٦۔ ابوداؤد : ٤٤٥٦) اس قتل میں خودکشی بھی داخل ہے، یعنی اپنے آپ کو قتل کرنا بھی جائز نہیں۔ (دیکھیے نساء : ٢٩) قتل عمد کی قباحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورة نساء (٩٣) ۔- وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا : اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو ناحق قتل کردے تو مقتول کے ولی کو اللہ تعالیٰ نے پورا اختیار دیا ہے کہ چاہے تو قصاص لے لے، چاہے دیت لے لے، یا دیت کے بغیر معاف کر دے۔ ” سلطٰنا “ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلم حکمران پر لازم ہے کہ وہ اسے ان تینوں باتوں کا اختیار دے، پھر اگر وہ قصاص لینا چاہے تو اسے قصاص دلوائے، اگر قاتل یا اس کے ساتھی مزاحمت کریں تو شریعت کی بغاوت پر ان سے جنگ کرے۔ یہ قصاص معاشرے میں سے قتل ناحق کو ختم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٧٨، ١٧٩) کفار کے معاشروں میں بدامنی اور بیشمار قتل قصاص نہ ہونے ہی کی وجہ سے ہیں۔ اب مسلم حکمرانوں نے بھی ایک آدھ کے علاوہ قصاص کے حکم اور اس کے شرعی طریقے کو چھوڑ کر کفار کا قانون اپنایا تو اس کے نتیجے میں وہ بھی امن کے بجائے خوف اور بدامنی کا شکار ہوگئے۔ کفار کے ملکوں کی طرح نہ وہاں کسی کی جان محفوظ ہے، نہ مال، نہ عزت وآبرو اور اسے ترقی قرار دیا جا رہا ہے۔ - فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ : قصاص لیتے وقت قتل میں زیادتی یہ ہے کہ قاتل کے بجائے کسی اور کو قتل کر دے، یا قاتل کے ساتھ انھیں بھی قتل کرے جو قتل میں شریک نہیں ہیں، یا قتل سے پہلے مثلہ کرے، یعنی اس کے اعضا کاٹے یا مختلف طریقوں سے تکلیف دے دے کر مار دے۔ اس میں صرف یہ استثنا ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے قتل کیا ہے اس طریقے سے اسے قتل کرسکتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٩٤) ، سورة نحل (١٢٦) اور سورة بقرہ کی آیات قصاص (١٧٨، ١٧٩) ۔- اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا : یعنی مسلم حکومت اور تمام مسلمان اس کی مدد کریں گے، ان سب پر اس کی مدد لازم ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ بھی دنیا اور آخرت میں اس کی نصرت فرمائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور جس شخص (کے قتل کرنے کو) اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق پر (قتل کرنا درست ہے یعنی جب کسی شرعی حکم سے قتل کرنا واجب یا جائز ہوجائے تو وہ حرم اللہ میں داخل نہیں) اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے وارث (حقیقی یا حکمی) کو اختیار دیا ہے (قصاص لینے کا) سو اس کو قتل کے بارے میں حد (شرع) سے تجاوز نہ کرنا چاہئے (یعنی قاتل پر قتل کا یقینی ثبوت ملے قتل نہ کرے اور اس کے اعزہ و اقارب وغیرہ کو جو قتل میں شریک نہیں ہیں محض جوش انتقام سے قتل نہ کرے اور اس کے اعزہ و اقارب وغیرہ کو جو قتل میں شریک نہیں ہیں محض جوش انتقام سے قتل نہ کرے اور قاتل کو بھی صرف قتل کرے ناک کان یا ہاتھ پاؤں وغیرہ کاٹ کر مثلہ نہ کرے کیونکہ) وہ شخص (قصاص میں حد سے تجاوز نہ کرنے کی صورت میں تو شرعا) مدد کے قابل ہے (اور اس نے زیادتی کی تو پھر فریق ثانی مظلوم ہو کر اللہ کی مدد کا مستحق ہوجائے گا اس لئے ولی مقتول کو چاہئے کہ وہ اپنے منصور حق ہونے کی قدر کرے حد سے بڑھ کر اس نعمت حق کو ضائع نہ کرے)- معارف و مسائل :- یہ آٹھواں حکم قتل ناحق کی حرمت کے بیان میں ہے جس کا جرم عظیم ہونا دنیا کی ساری ہی جماعتوں اور مذہبوں اور فرقوں میں مسلم ہے حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ساری دنیا کی تباہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے اہوں (ہلکی) ہے کہ کسی مومن کو ناحق قتل کیا جائے (اور بعض روایات میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ) اگر اللہ تعالیٰ کے ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کے باشندے کسی مومن کے قتل ناحق میں شریک ہوجائیں تو ان سب کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل کردیں گے (ابن ماجہ بسند حسن والبیہقی از مظہری) - اور ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں قاتل کی امداد ایک کلمہ سے بھی کی تو میدان حشر میں جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا (ائس من رحمۃ اللہ) (یعنی یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کردیا گیا ہے) (مظہری از ابن ماجہ واصبہانی )- اور بیہقی نے بروایت حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) و حضرت معاویہ (رض) روایت کیا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر ایک گناہ کو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف کر دے مگر وہ آدمی جو حالت کفر میں مر گیا یا جس نے جان بوجھ کر قصدا کسی مسلمان کو ناحق قتل کیا۔- قتل ناحق کی تفسیر :- امام بخاری ومسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں جو اللہ کے ایک ہونے اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو بجز تین صورتوں کے ایک یہ کہ اس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو (کہ اس کی شرعی سزا یہ ہے کہ پتھراؤ کر کے اس کو مار دیا جائے) دوسرے وہ جس نے کسی انسان کو ناحق قتل کیا ہو (کہ اس کی سزاء یہ ہے کہ ولی مقتول اس کو قصاص میں قتل کرسکتا ہے) تیسرے وہ شخص جو دین اسلام سے مرتد ہوگیا ہو (کہ اس کی سزاء بھی قتل ہے)- قصاص لینے کا حق کس کو ہے :- آیت مذکور میں بتلایا گیا ہے کہ یہ حق مقتول کے ولی کا ہے اگر نسبی ولی کوئی موجود نہیں تو اسلامی حکومت کے سربراہ کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ بھی ایک حیثیت سے سب مسلمانوں کا ولی ہے اسی لئے خلاصہ تفسیر میں ولی حقیقی یا حکمی لکھا گیا ہے۔- ظلم کا جواب ظلم نہیں انصاف ہے مجرم کی سزا میں بھی انصاف کی رعایت :- فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ اسلامی قانون کی ایک خاص ہدایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ظلم کا بدلہ ظلم سے لینا جائز نہیں بدلہ میں بھی انصاف کی رعایت لازمی ہے جب تک ولی مقتول انصاف کے ساتھ اپنے مقتول کا انتقام شرعی قصاص کے ساتھ لینا چاہئے تو قانون شریعت اس کے حق میں ہے یہ منصور حق ہے اللہ تعالیٰ اس کا مددگار ہے اور اگر اس نے جوش انتقام میں شرعی قصاص سے تجاوز کیا تو اب یہ مظلوم کے بجائے ظالم ہوگیا اور ظالم اس کا مظلوم بن گیا اب معاملہ برعکس ہوجائے گا اللہ تعالیٰ اور اس کا قانون اب اس کی مدد کرنے کے بجائے دوسرے فریق کی مدد کرے گا کہ اس کو ظلم سے بچائے گا۔- جاہلیت عرب میں یہ بات عام تھی کہ ایک شخص قتل ہوا تو اس کے بدلہ میں قاتل کے خاندان یا ساتھیوں میں جو بھی ہاتھ لگے اس کو قتل کردیتے تھے بعض جگہ یہ صورت ہوتی کہ جس کو قتل کیا گیا وہ قوم کا کوئی بڑا آدمی ہے تو اس کے بدلہ میں صرف ایک قاتل کو قصاصا قتل کرنا کافی نہ سمجھا جاتا تھا بلکہ ایک خون کے بدلہ دو تین یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی جان لی جاتی تھی بعض لوگ جوش انتقام میں قاتل کے صرف قتل کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی ناک کان وغیرہ کاٹ کر مثلہ کردیتے تھے یہ سب چیزیں اسلامی قصاص کی حد سے زائد اور حرام ہیں اس لئے آیت فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ میں ان کو روکا گیا ہے۔- یاد رکھنے کے قابل ایک حکایت :- بعض ائمہ مجتہدین کے سامنے کسی شخص نے حجاج بن یوسف پر کوئی الزام لگایا حجاج بن یوسف اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا ظالم اور انتہائی بدنام شخص ہے جس نے ہزاروں صحابہ وتابعین کو ناحق قتل کیا ہے اس لئے عام طور پر اس کو برا کہنے کی برائی لوگوں کے ذہن میں نہیں رہتی جس بزرگ کے سامنے یہ الزام حجاج بن یوسف پر لگایا گیا انہوں نے الزام لگانے والے سے پوچھا کہ تمہارے پاس اس الزام کی کوئی سند یا شہادت موجود ہے انہوں نے کہا کہ نہیں آپ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ حجاج بن یوسف سے ہزاروں مقتولین بےگناہ کا انتقام لے گا تو یاد رکھو کہ جو شخص حجاج پر کوئی ظلم کرتا ہے اس کو بھی انتقام سے نہیں چھوڑا جائے گا حجاج کا بدلہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی لیں گے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کوئی جنبہ داری نہیں ہے کہ برے اور گناہگار بندوں پر دوسروں کو آزاد چھوڑ دیں اور وہ جو چاہیں الزام و اتہام لگا دیا کریں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۭ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ ۭ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا 33 ؀- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك :- وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً- [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن،- ( ح ر م ) الحرام - وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- سرف - السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً- [ النساء 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] ، أي :- المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة .- ( س ر ف ) السرف - کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جنوْں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قتل کی ممانعت - قول باری ہے (ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق اور قتل کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ) اللہ تعالیٰ نے (الا بالحق) فرمایا اس لئے کہ قتل نفس حق نہ ہونے کے باوجود بھ یبعض دفعہ حق بن جاتا ہے جس کی صورتیں یہ ہیں۔ قصاص اور ارتداد کی بنا پر قتل اسی طرح غیر مسلموں سے قتال اور محاربت کی وجہ سے قتل، نیز محصن زانی کا رجم۔- مقتول کے قصاص کا حکم - قول باری ہے (ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لولیہ سلطاناً اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے) حضرت ابن عباس ، سعید بن جبیر اور مجاہد سے مروی ہے کہ سلطان حجت کو کہتے ہیں جس طرح یہ قول باری ہے (اولیا تینی بسلطن مبین یا میرے سامنے کوئی واضح حجت اور دلیل پیش کرے) ضحاک کا قول ہے کہ سلطان سے مراد یہ ہے کہ مقتول کے ولی کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو قاتل کو قتل کر دے اور چاہے تو دیت قبول کرلے۔ نیز سلطان یعنی حاکم وقت کا یہ فرض ہے کہ وہ قاتل کو پکڑ کر ولی کے حوالے کر دے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلطان ایک مجمل لفظ ہے اور معنی، مراد کو واضح کرنے کے لئے خود کفیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک مشترک لفظ ہے جس کا کئی معانی پر اطلاق ہوتا ہے۔ - اس کا ایک مفہوم حجت اور دلیل ہے، دوسرا مفہوم وہ سلطان اور حاکم ہے جو صاحب بست و کشاد ہوتا ہے تاہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں اس سے قصاص مراد ہے اس طرح اس آیت کے ذریعہ قصاص ایک منطوق حکم قرار پا گیا۔ آیت کا مفہوم یہ ہوگا ہم نے مقتول کے ولی کو سلطان یعنی قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے۔ “ یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ آیت میں دیت مراد ہے۔ اس لئے ہم نے دیت کا اثبات نہیں کیا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصاص مراد ہے تو ظاہر آیت اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اگر مقتول کے ورثاء ہیں کچھ بالغ ہوں اور کچھ نابالغ تو بالغ ورثاء نابالغ ورثاء کے بالغ ہونے سے پہلے قصاص لے سکتے ہیں اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک ولی ہوتا ہے جبکہ نابالغ ورثاء میں سے کوئی بھی ولی نہیں بن سکتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر نابالغ ولی قاتل کو معاف کر دے تو اس کا یہ اقدام جائز نہیں ہوتا۔ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک جب تک نابالغ ورثاء بالغ نہ ہوجائیں اس وقت تک بالغ ورثاء قاتل سے قصاص نہیں لے سکتے۔ جب وہ بالغ ہوجائیں تو پھر بالغ ورثاء کے ساتھ مل کر قاتل سے قصاص لیں گے یا معاف کردیں گے۔ ایک روایت کے مطابق امام محمد نے امام ابوحنیفہ کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا۔- قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہیے - قول باری ہے (فلا یسرف فی القتل۔ پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے) عطاء حسن مجاہد، سعید بن جبیر، ضحاک اور طلق بن جلیب سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ مقتول کا ولی، قاتل کے سوا کسی اور کو قتل نہ کرے نیز قاتل کا مثلہ بھی نہ کرے۔ اس لئے کہ عرب کے لوگ قاتل ہاتھ نہ آنے پر اس کے دوستوں اور رشتہ داروں میں سے جو بھی ہاتھ آ جاتا اسے قتل کردیتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ولی کو قصاص لینے کا حق عطا کردیا تو اسے قتل میں حد سے گزرنے سے منع فرما دیا۔ انہی معنوں پر قول باری (کتب علیکم القصاص فی انقتلی الحر بالحر والعبد بالعبد والا نثی بالانثی مقتولین کا قصاص لنیا تم پر فرض کردیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور مئونث کے بدلے مئونث) بھی محمول ہے اس لئے کہ زمانہ جاہلیت میں بعض قبائل کو بعض پر فوقیت حاصل تھی اگر ان کا کوئی غلام قتل ہوجاتا وہ اس کے بدلے میں قاتل کے قبیلے کا آزاد آدمی قتل کردیتے، اس کے سوا وہ کسی اور بات پر رضا مند نہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرما دیا کہ ولی قاتل کو قتل کرنے میں بایں معنی حد سے نہ گزرے کہ وہ قاتل کے سوا کسی اور کو قتل نہ کرے۔ ابوعبیدہ کا قول ہے کہ آیت زیر بحث میں بعض نے نہی کی بنا پر فعل کی مجزوم قرأت کی ہے اور بعض نے اسے مرفوع رکھا ہے کہ یہ مجازاً خبر ہے اور مفہوم یہ ہے کہ ” ولی کا قاتل کو قتل کردینا کوئی زیادتی نہیں ہے اس لئے کہ ولی کا اس کا حق حاصل ہوگیا تھا۔- مقتول منصور ہوگا - قول باری ہے (انہ کان منصوراً ۔ اس کی مدد کی جائے گی) قتادہ کا قول ہے کہ ضمیر ولی کی طرف عائد ہے اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ مقتول کی طرف راجع ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کی یا تو دنیا میں مدد کی جائے گی یا آخرت میں۔ اس کی مدد کی یہ صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یعنی ولی کو قصاص لینے کا حکم دیا ہے ایک اور قول کے مطابق اس کی مدد کی یہ صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تمام مسلمانوں کو اس کی اعانت کا حکم دیا ہے۔ قول باری (فقد جعلنا لولیہ سلطاناً ) عورتوں کے لئے قصا ص کے اثبات کا مقتضی ہے۔ اس لئے یہاں ولی سے مراد وارث ہے جس طرح یہ ارشاد ہے (والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض۔ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں) نیز ارشاد ہے (ان الذین امنوا وھاجروا جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی) تاقول باری صاولئک بعضھم اولیاء بعض وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں) نیز فرمایا (والذین امنوا ولم یھاجروا مالکم من ولایتھم من شیء حتی یھا جروا رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے دارالاسلام میں ) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ )- اس حکم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس وقت تک کے لئے ان کے درمیان توارث کے اثبات کی نفی کردی جب تک وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ پھر ارشاد ہوا (و اولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین۔ اور اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار دوسرے مومنین اور مہاجرین کی بہ نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں) اللہ تعالیٰ نے خون کے رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا ولی قرار دے کر ا ن کے مابین میراث کا اثبات کردیا۔ نیز فرمایا (والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض کافر لوگ ایک دوسرے کے ولی ہیں) ولایت کا ذکر کر کے کافروں کے مابین تو وارث کا اثبات کردیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فقد جعلنا لولیہ سلطاناً ) تو یہ تمام ورثاء کے لئے قصاص لینے کے اثبات کا مقتضی ہوگیا۔ مقتول کا خون یعنی قصاص وراثت کے طور پر اس کے رشتہ داروں یعنی وارثوں کو مل جاتا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ خونبہا جو قصاص کا بدل ہوتا ہے وراثت کے طور پر ان مردوں اور عورتوں کو مل جاتا ہے جو اس کے وارث ہوتے ہیں۔ اگر عورتیں قصاص کی وارث نہ ہوتیں تو وہ اس کے بدل یعنی مال کی بھی وارث نہ ہوتیں۔ یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ بعض ورثاء میت کی میراث کے بعض حصوں کے تو وارث قرار دیئے جائیں اور یعض دوسرے حصوں کے وارث نہ بن سکیں۔ یہ بات نہ صرف ظاہر کتاب کے خلاف ہے بلکہ اصول شرعیہ کے بھی خلاف ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ عورتوں کے ساتھ قصاص کے حق کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ قصاص لینا صر مردوں کا ح ہے لیکن اگر یہی قصاص دیت کی بنا پر مال میں تبدیل وہ جائے تو اس صورت میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اس مال کی وارث ہوں گی۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قصاص کا حق ہر وارث کے لئے میراث میں اس کے حصے کی مقدار کے مطابق واجب ہوتا ہے خواہ یہ وارث مرد ہو یا عورت یا بچہ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣) اور جس مومن کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرما دیا ہے اس کو مت قتل کرو ہاں مگر حق پر جیسا کہ زانی کو رجم کردیا جائے اور قصاص میں قاتل کی اور حال ارتداد میں مرتد کی گردن اڑا دی جائے۔- اور جس شخص کو ناحق دانستہ قتل کردیا جائے تو ہم نے ولی مقتول کو قاتل کے قتل کے بارے میں حد شرعی تجاوز نہیں چاہے وہ قاتل کو قتل کردے اور اگر چاہے تو معاف کردے تو ولی مقتول کو قاتل کے قتل کے بارے میں حد شرعی تجاوز نہیں کرنا چاہیے یعنی غیر قاتل کو نہ قتل کرے یا یہ کہ ایک کے عوض دس کو نہ قتل کرے، وہ طرف داری کے قابل ہے کہ قاتل کو قتل کردیا جائے اور اس کو معاف نہ کیا جائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ )- یہاں ” حق “ سے مراد چند وہ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کا قتل جائز ہے۔ ان میں خون کا بدلہ خون ‘ اسلامی ریاست میں مرتد کی سزا موت ، شادی شدہ زانی اور زانیہ کا رجم اور حربی کافر کا قتل شامل ہے۔- (وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا)- اسلامی قانون میں مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ جان کے بدلے جان کی سزا پر اصرار کریں یا معاف کردیں یا پھر خون بہا لے لیں۔ یہ تینوں اختیارات مقتول کے ورثاء ہی کو حاصل ہیں۔ کسی عدالت یا سربراہ مملکت کو اس میں کچھ اختیار نہیں۔- (فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ )- یعنی جان کے بدلے جان کا فیصلہ ہو تو اس میں تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک آدمی کے بدلے مخالف فریق کے زیادہ لوگ قتل کردیے جائیں طریقہ قتل میں کسی قسم کی زیادتی کی جائے یا کسی بھی انداز میں اپنے اس اختیار کا ناجائز استعمال کیا جائے۔- (اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا)- قاتل کو پکڑنے اس پر مقدمہ چلانے اور انصاف دلانے تک کے طویل اور پیچیدہ عمل میں ہر مرحلے پر مقتول کے ورثاء کی مدد کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قتل کے مقدمات میں ریاست یا حکومت مدعی نہیں بنے گی بلکہ مقتول کے ورثاء ہی مدعی ہوں گے۔ ہمارے ہاں جو ” سرکار بنام فلاں “ کے عنوان سے مقدمہ بنتا ہے وہ معاملہ سراسر غیر اسلامی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :33 قتل نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں ہے ، بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے ۔ اس لیے کہ نفس ، جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے ، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے ۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتل انسان ہے ، اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے ۔ آدمی کو بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی جان کا مالک ، اور اپنی اس ملکیت کو باختیار خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے ۔ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے ، اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار ، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں ۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالی جس طرح بھی ہمارا امتحان لے ، اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے ، خواہ حالات امتحان اچھے ہوں یا برے ۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصدا ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے ، کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرم عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے ۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :34 بعد میں اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتل عمد کے مجرم سے قصاص دوسرے دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ ۔ تیسرے اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا ۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا ۔ پانچویں ارتداد کی سزا ۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :35 اصل الفاظ ہیں” اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے“ ۔ سلطان سے مراد یہاں ” حجت “ ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔ اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں ، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجائے خوں بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :36 قتل میں حد سے گزرنے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں ۔ مثلا جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا ، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا ، یا مار دینے کے بعد اس کی نعش پر غصہ نکالنا ، یا خوں بہا لینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :37 چونکہ اس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولا گیا کہ اس کی مدد کون کریگا ۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظام عدالت کا کام ہے ۔ کوئی شخص یا گروہ بطور خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصول انصاف کے لیے اس سے مدد مانگی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: کسی کو قتل کرنے کا حق صرف چند صورتوں میں پہنچا ہے جن میں سے ایک اہم صورت کا ذکر اگلے جملے میں آرہا ہے اور وہ یہ کہ کسی شخص کو ظالمانہ طور پر قتل کردیا گیا ہو تو اس کے ولی یعنی وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بدلے میں عدالتی کارروائی کے بعد قاتل کو قتل کریں، یا کاروائیں، یا کروائیں، اس بدلے کو ’’ قصاص‘‘ کہا جاتا ہے۔ 18: قاتل کو قصاص میں قتل کروانے کا حق تو اولیاء مقتول کو حاصل ہے لیکن اس سے زیادہ کسی کارروائی کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ ہاتھ پاؤں یا دوسرے اعضاء کو کاٹنا یا قتل کرنے کے لیے کوئی زیادہ تکلیف دہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو اسے قرآن کریم نے حد سے تجاوز قرار دیا ہے۔