Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یتیم کا مال یتیم کے مال میں بد نیتی سے ہیر پھیر نہ کرو ، ان کے مال ان کی بلوغت سے پہلے صاف ڈالنے کے ناپاک ارادوں سے بچو ۔ جس کی پرورش میں یہ یتیم بچے ہوں اگر وہ خود مالدار ہے تب تو اسے ان یتیموں کے مال سے بالکل الگ رہنا چاہئے اور اگر وہ فقیر محتاج ہے تو خیر بقدر معروف کھا لے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں تو تجھے بہت کمزور دیکھ رہا ہوں اور تیرے لئے وہی پسند فرماتا ہوں ، جو خود اپنے لئے چاہتا ہوں ۔ خبردار کبھی دو شخصوں کا والی نہ بننا اور نہ کبھی یتیم کے مال کا متولی بننا ۔ پھر فرماتا ہے وعدہ وفائی کیا کرو جو وعدے وعید جو لین دین ہو جائے اس کی پاسبانی کرو اس کی بابت قیامت کے دن جواب دہی ہو گی ۔ ناپ پیمانہ پورا پورا کر دیا لوگوں کو ان کی چیز گھٹا کر کم نہ دو ۔ قسطاس کی دوسری قرأت قسطاس بھی ہے پھر حکم ہوتا ہے بغیر پاسنگ کی صحیح وزن بتانے والی سیدھی ترازو سے بغیر ڈنڈی مارے تولا کرو ، دونوں جہان میں تم سب کے لئے یہی بہتری ہے دنیا میں بھی یہ تمہارے لین دین کی رونق ہے اور آخرت میں بھی یہ تمہارے چھٹکارے کی دلیل ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اے تاجرو تمہیں ان دو چیزوں کو سونپا گیا ہے جن کی وجہ سے تم سے پہلے کے لوگ برباد ہو گئے یعنی ناپ تول نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی حرام پر قدرت رکھتے ہوئے صرف خوف اللہ سے اسے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں اسے اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 کسی کی جان کو ناجائز طریقے سے ضائع کرنے کی ممانعت کے بعد، اتلاف مال (مال کے ضائع کرنے) سے روکا جا رہا ہے اور اس میں یتیم کا مال سب سے زیادہ اہم ہے، اس لئے فرمایا کہ یتیم کے بالغ ہونے تک اس کے مال کو ایسے طریقے سے استعمال کرو، جس میں اس کا فائدہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ سوچے سمجھے بغیر ایسے کاروبار میں لگا دو کہ وہ ضائع یا خسارے سے دو چار ہوجائے۔ یا عمر شعور سے پہلے تم اسے اڑا ڈالو۔ 34۔ 2 عہد سے وہ میثاق بھی مراد ہے جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے اور وہ بھی جو انسان آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے عہدوں کا پورا کرنا ضروری ہے اور نقص عہد کی صورت میں باز پرس ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] یتیم کے مال کی نگہداشت اور اس کے حقوق کے لیے سورة نساء آیت نمبر ١ تا ٦ اور سورة انعام کی آیت نمبر ١٥٢ کے حواشی ملاحظہ کرلیے جائیں۔- [٤٣] ایفائے عہد کے سلسلہ میں سورة اعراف آیت نمبر ١٠٢ اور نحل آیت نمبر ٩١، ٩٢ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

؀ وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ۔۔ : احسن یہ کہ ہر طرح اس کی حفاظت کرو، اسے کسی کاروبار میں لگا کر بڑھانے کی کوشش کرو، جب جوان ہوجائے تو اس کا مال اس کے سپرد کر دو ، یا اس سے اجازت لے کر کاروبار کرو۔ اس مضمون کی تفصیل سورة نساء (٢ تا ١٤) میں ملاحظہ فرمائیں۔ - ۠وَاَوْفُوْا بالْعَهْدِ ۔۔ : اس میں وہ عہد شامل ہے جو اللہ تعالیٰ سے یا بندوں سے کیا جائے، کیونکہ عہد کے متعلق سوال ہوگا اور جو عہد و اقرار توڑے گا اسے سزا ملے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ (یعنی اس پر تصرف نہ کرو) مگر ایسے طریقہ سے جو کہ (شرعا) مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے اور عہد (جائز) کو پورا کیا کرو بیشک عہد کی قیامت میں باز پرس ہونے والی ہے (عہد میں وہ تمام عہد بھی داخل ہیں جو بندہ نے اپنے اللہ سے کئے ہیں اور وہ بھی جو کسی انسان سے کئے ہیں) اور (ناپنے کی چیزوں کو) جب ناپ کردو تو پورا ناپو اور (تولنے کی چیزوں کو) صحیح ترازو سے تول کردو یہ (فی نفسہ بھی) اچھی بات ہے اور انجام بھی اس کا اچھا ہے (آخرت میں تو ثواب اور دنیا میں نیک نامی کی شہرت جو ترقی تجارت کا ذریعہ ہے)- معارف و مسائل :- ان دو آیتوں میں تین حکم نواں، دسواں، گیا رہواں مالی حقوق کے متعلق مذکور ہیں سابقہ آیات میں مدنی اور جسمانی حقوق کا ذکر تھا یہ مالی حقوق کا بیان ہے۔- یتیموں کے مال میں احتیاط :- ان میں پہلی آیت میں نواں حکم یتیموں کے اموال کی حفاظت اور ان میں احتیاط کا ہے جس میں بڑی تاکید سے یہ فرمایا کہ یتیموں کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ یعنی ان میں خلاف شرع یا بچوں کی مصلحت کے خلاف کوئی تصرف نہ ہونے پاوے یتیموں کے مال کی حفاظت اور انتظام جن کے ذمہ ہے ان پر لازم ہے کہ ان میں بڑی احتیاط سے کام لیں صرف یتیموں کی مصلحت کو دیکھ کر خرچ کریں اپنی خواہش یا بےفکری سے خرچ نہ کریں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ یتیم بچے جوان ہو کر اپنے مال کی حفاظت خود نہ کرسکیں جس کا ادنیٰ درجہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچنا اور زیادہ اٹھارہ سال تک ہے۔- ناجائز طریقے پر کسی کا مال بھی خرچ کرنا جائز نہیں - یہاں یتیموں کا خصوصیت سے ذکر اس لئے کیا کہ وہ تو خود کوئی حساب لینے کے قابل نہیں دوسروں کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی جس جگہ کوئی انسان اپنے حق کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو وہاں حق تعالیٰ کا مطالبہ اشد ہوجاتا ہے اس میں کوتاہی عام لوگوں کے حقوق کی نسبت سے زیادہ گناہ ہوجاتی ہے۔- معاہدات کی تکمیل و تعمیل کا حکم :- دسواں حکم عہد پورا کرنے کی تاکید ہے عہد دو طرح کے ہیں ایک وہ جو بندہ اور اللہ کے درمیان ہیں جیسے ازل میں بندہ کا یہ عہد کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے اس عہد کا لازمی اثر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کی رضا جوئی ہوتا ہے یہ عہد تو ہر انسان نے ازل میں کیا ہے خواہ دنیا میں وہ مومن ہو یا کافر دوسرا عہد مومن کا ہے جو شہادت ان لا الہ الا اللہ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس کا حاصل احکام الہیہ کا مکمل اتباع اور اس کی رضا جوئی ہے۔- دوسری قسم عہد کی وہ ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام معاہدات سیاسی تجارتی معاملاتی شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔- پہلی قسم کے تمام معاہدات کا پورا کرنا انسان پر واجب ہے اور دوسری قسم میں جو معاہدات خلاف شرع نہ ہوں ان کا پورا کرنا واجب اور جو خلاف شرع ہوں ان کا فریق ثانی کو اطلاع کر کے ختم کردینا واجب ہے جس کا پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی پورا نہ کرے تو دوسرے کو حق ہے کہ عدالت میں مرافعہ کر کے اس کو پورا کرنے پر مجبور کرے معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریق کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو اور جو کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کر دوں گا اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے اور بعض حضرات نے اس کو بھی عہد کے اس مفہوم میں داخل کیا ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ معاہدہ فریقین کی صورت میں اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو دوسرا فریق اس کو بذریعہ عدالت تکمیل معاہدہ پر مجبور کرسکتا ہے مگر یک طرفہ وعدہ کو عدالت کے ذریعہ جبرا پورا نہیں کرا سکتا ہاں بلاعذر شرعی کے کسی سے وعدہ کرکے جو خلاف ورزی کرے گا وہ شرعا گناہگار ہوگا حدیث میں اس کو عملی نفاق قرار دیا گیا ہے۔- اس آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا یعنی قیامت میں جیسے اور فرائض و واجبات اور احکام الہیہ کے پورا کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہوگا ایسا ہی باہمی معاہدات کے متعلق بھی سوال ہوگا یہاں صرف اتنا کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ اس کا ہوگا آگے سوال کے بعد کیا ہونا ہے اس کو مبہم رکھنے میں خطرہ کے عظیم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔- گیارھواں حکم لین دین کے معاملات میں ناپ تول پورا کرنے کی ہدایت اور اس میں کمی کرنے کی ممانعت کا ہے جس کی پوری تفصیل سورة المطففین میں مذکور ہے۔- مسئلہ : حضرات فقہاء نے فرمایا کہ آیت میں ناپ تول میں کمی کا جو حکم ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس کا جتنا حق ہے اس سے کم دینا حرام ہے اس لئے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی ملازم اپنے مفوضہ اور مقررہ کام میں کمی کرے یا جتنا وقت دینا ہے اس سے کم دے یا مزدور اپنی مزدوری میں کام چوری کرے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ حَتّٰى يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۠وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚاِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا 34؀- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی:- أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه :- يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملي چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مال یتیم کی حفاظت کا حکم - قول باری ہے (ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتیھی احسن حتی یبلخ اشدہ اور مال یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے) مجاہد کا قول ہے کہ (التیھی احسن) کی صورت تجارت ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ مال یتیم کے ذریعے اللہ کا فضل تلاش کیا جائے اور تلاش کرنے والے کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یتیم کا خصوصی طور پر ذکر ہو) اگرچہ تمام لوگوں کے اموال کے بارے میں یہی حکم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یتیم کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اس کے مال میں لوگ دندان حرص و آز زیادہ تیز کرتے ہیں۔ قول باری (الا بالتیھی احسن) یتیم کے مال میں اس کے سرپرست کے ایسے تمام تصرفات کے جواز کو متضمن ہے جن سے یتیم کو فائدہ پہنچ سکتا ہو خواہ یہ سرپرست یتیم کا وادا ہو یا یتیم کے باپ کا مقرر کردہ وصی۔ اس لئے کہ احسن طریقہ وہی ہوگا جس کے ذریعہ ایک طرف اس کے مال کی حفاظت ہوتی رہی اور دوسری طرف اس میں اضافہ ہوتا رہے۔ اس لئے یتیم کا سرپرست یتیم کے لئے ایسے طریقے سے خرید و فروخت اور کاروبار کرسکے گا جس سے یتیم کو کوئی نقصان اٹھانا نہ پڑے۔ اسی طرح وہ بازاری قیمت پر اور بازاری سے کم قیمت پر ایسے سودے کرسکتا ہے جن میں عام طور پر لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ لوگوں کو ایسے سودوں میں منافع کمانے اور نفع حاصل کرنے کی امید ہوتی ہے اور جب یہ امید پوری نہیں ہوتی تو وہ اسے گھاٹا سمجھ لیتے ہیں۔ نیز نقصان کی اس مقدار کے متعلق قیمتیں لگانے والوں کی آراء باہم مختلف ہوتی ہیں اس لئے حقیقت کے لحاظ سے ایسے سودوں میں کوئی گھاٹا نہیں ہوتا لیکن سرپرست کے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ یتیم کے لئے بازاری قیمت سے زائد دے کر کوئی چیز خریدے جس میں عام طور پر لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں نقصان اٹھانا نہیں پڑتا ہے۔ اس لئے کہ خریداری کی یہ صورت یتیم کے لئے نقصان دہ ہے۔ یہ نقصان بالکل واضح اور یقینی ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے یتیم کے مال کے قریب پھٹکنے سے منع فرما دیا ہے مگر یہ کہ احسن طریقہ اختیار کیا جائے۔ یتیم کے مال کو اجارہ پر دینے اور مضاربت میں لگانے کے جواز پر بھی آیت دلالت کر رہی ہے اس لئے کہ یتیم جس منافع کا حقدار بنے گا وہ منافع اسے مضارب کے عمل کے ذریعے حاصل ہوگا اس لئے اس مال کو یونہی پڑا رہنے دینے سے مضاربت میں لگانا بہتر ہوگا۔- عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے عمرو کے داد اسے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (ابتغوا ب اموال الایتام خیراً تاکلھا الصدقۃ یتیموں کے اموال کے ذریعے خیر یعنی منافع تلاش کرو ان اموال کو صدقہ نہ کھاجائے) ایک قول کے مطابق اس کا مفہوم یہ کہ یتیم کا نفقہ یعنی اخراجات اس کے مال کو ختم نہ کر دے اس لئے کہ نفقہ کو بھی صدقہ کہا اجتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ انسان جو کچھ اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہوتا ہے۔- حضرت عمر، حضرت ابن عمر، حضرت عائشہ اور تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ وصی یتیم کے مال میں تجارت کرسکتا ہے اور اسے مضاربت میں بھی لگا سکتا ہے۔ اس میں دلالت پائی جاتی ہے کہ باپ نابالغ کا مال اپنی ذات کے لئے خرید سکتا اور فروخت بھی کرسکتا ہے۔ اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ وصی یتیم کا مال خود خرید سکتا ہے بشرطیکہ اس میں یتیم کے لئے فائدہ کا پہلو موجود ہو۔ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ امام صاحب نے یہ فرمایا کہ اگر وصی یتیم کا مال پوری قیمت پر خریدے گا تو اس کی یہ خریداری جائز نہیں ہوگی۔ جواز کی صورت صرف یہ ہے کہ یتیم کو ملنے والا مال قیمت میں زیادہ ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (الا بالتیھی احسن) امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ کسی بھی صورت میں اس کا جواز نہیں ہے۔ قول باری (حتی یبلغ اشدہ) کی تفسیر میں زید بن اسلم اور ربیعہ کا قول ہے کہ وہ بالغ ہوجائے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ایک اور مقام پر قول باری ہے صولا تاکلوھا اسرافاً وبداراً ان یکبروا ایسا کبھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے ان کے مال جلدی جلدی کھا جائو کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے) اس آیت میں کبر یعنی یتیم کے بڑے ہوجانے کا ذکر ہے اور آیت زیر بحث میں اشد یعنی شباب کو پہنچ جانے کا ذکر ہے۔ نیز یہ ارشاد بھی ہے صوابتلوا لیتا می حتی اذا بلغوا النکاح فان انستم منھم رشداً فاد فعولا الیھم اموالھم اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہے یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پائو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ۔ ) ایک آیت میں علی الاطلاق کبر یعنی بڑے ہوجانے کا ذکر کیا۔ دوسری آیت میں اشد یعنی شباب کو پہنچ جانے کا ذکر کیا اور تیسری آیت میں اہلبیت پائی جانے کے ساتھ نکاح کی عمر کو پہنچ جانے کا ذکر فرمایا۔ عبداللہ بن عثمان بن خثیم نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے (حتی اذا بلغ اشدہ) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ جب اس کی عمر تینتیس سال ہوجائے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ (واستوی اور اس کا نشو و نما مکمل ہوگیا) چالیس برس کی عمر ہے۔ قول باری صاولم نعمرکم کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی) کی تفسیر میں آپ نے فرمایا کہ عمر کی جس حد پر اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کے عذر کو ختم کردیا وہ ساٹھ برس ہے۔ نیز فرمایا (حتی اذا بلغ اشدہ وبلغ اربعین سنۃ قال رب او زعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی وعلی والدی ۔ یہاں تک کہ جب اپنے شباب کو پہنچ جاتا ہے اور اس کی عمر چالیس برس ہوجاتی ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے اس پر مداومت دے کہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ کو اور میرے والدین کو عطا کی ہیں) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں بلوغ الاشد (شباب کو پہنچ جانے اور استواء (نشو و نما کی تکمیل) کا ذکر کیا۔ اس آیت زیر بحث میں بلوغ الاشد کا اور دوسری آیت میں بلوغ الاشد اور بلوغ اربعین سنۃ (چالیس سال کی عمر کو پہنچ جانے) کا ذکر کیا۔ ہوسکتا ہے کہ بلوغ الاشد سے ایک قول کے مطابق چالیس برس کی عمر مراد ہو اور ایک قول کے مطابق استوار مراد ہو جب بات اس طرح ہے تو عرف اور عادت میں اللہ کی کوئی مقدار معین نہیں ہوسکتی کہ جس میں کمی یا جس پر اضافہ ممکن نہ ہو۔ اشد یعنی شباب کو پہنچنے کے لحاظ سے لوگوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں بعض لوگ اتنی مدت میں شباب کو پہنچ جاتے ہیں جتنی مدت میں دوسرے نہیں پہنچ سکتے۔ اس لئے کہ اگر بلوغ الاشد بالغ ہونے کے بعد عقل کی پختگی اور سمجھداری پیدا ہوجانے کا نام ہے تو اس لحاظ سے بھی عادۃ لوگوں میں اختلاف ہوتا ہے اگر اس کے معنی جسمانی قویٰ کے نشو و نما پا کر مکمل ہوجائے کے ہیں تو اس لحاظ سے بھی لوگوں کے احوال ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔- دراصل جو چیز عرف اور عادت پر مبنی ہو اس کے متعلق قطعیت کے ساتھ کوئی رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے لئے وقت کا اس طرح تعین ہوسکتا ہے کہ جس میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ سکے۔ اس کا تعین صرف توقیف یعنی شرعی رہنمائی اور دلالت کے ذریعے یا پھر اجماع امت کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں فرمایا (ولا تقربوا مال الیتیم الا بلتیھی احسن حتی یبلغ اشدہ) تو یہ اس امر کا مقتضی ہوگیا کہ جب ” بلوغ الاشد “ ہوجائے تو یتیم کا مال اس کے حوالے کردیا جائے اور اس میں ” ایناس الرشد “ یعنی اہلیت پائی جانے کی شرط نہ لگائی جائے۔- دوسری آیت میں فرمایا (حتی اذا بلغوا النکا ح فان اتستم منھم رشداً فادفعوا الیھم اموالھم) س میں یتیم کا مال اس کے حوالے کرنے کے لئے نکاح کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد اہلیت پائی جانے کی شرط لگا دی جب کہ یہ شرط بلوغ الاشد (ثبات کو پہنچ جانے) نیز بلوغ الکبر (بڑے ہوجانے) کی صورتوں میں نہیں لگائی گئی جس کا ذکر اس آیت میں ہے صولا تاکلوھا اسرافاً بدا راً ان یکبروا) آیات کے اس پورے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ بالغ ہوجانے کے بعد یتیم کو اس کا مال اس وقت تک حوالے نہیں کیا جائے گا جب تک اس میں اہلیت پیدا نہ ہوجائے اور جب تک وہ بڑا ہو کر شباب کو نہ پہنچ جائے۔ اس کی حد امام صاحب نے پچیس برس مقرر کی ہے۔ اس عمر پر پہنچ جانے کے بعد اس کا مال اس کے حوالے کردیا جائے گا بشرطیکہ وہ عاقل ہو دیوانہ اور پاگل نہ ہو۔ ہوسکتا ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک پچیس برس کی عمر عہد شباب کو پہنچ جانے کی مدت ہو۔- وعدہ کی پاسداری - قول باری ہے (واوفوا بالعھد اور عہد کی پابندی کرو) یعنی …… واللہ اعلم …… ایک انسان اپنے اوپر اللہ کے ساتھ کوئی عہد باندھ لے مثلاً کوئی نذر مان لے یا تقرب الٰہی کی نیت سے کوئی عبادت شروع کر دے اس پر اسے پورا کرنا واجب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عہد کا اتمام اس پر لازم کردیا ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ومنھم من عاھد اللہ لئن اتاتامن فضلہ لتصدقن ولنکونن من الصالحین فلما اتاھم من فضابہ بخلوا بہ وتولوا وھم معرضون ۔ اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کر دیاتو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پرواہ نہیں ہے) ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یتیم کے مال کی حفاظت کے سلسلے میں اپنے عہد کو پورا کرو جبکہ اس کے مال کی حفاظت کے وجوب کی حجت تم پر قائم ہوچکی ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کے سلسلے میں جس چیز کی حجت قائم ہوجائے وہ عہد کہلاتی ہے۔- قول باری ہے (ان العھد کان مسئولاً بیشک عہد کے بارے میں تمہیں جواب دہی کرنی ہوگی) اس کے معنی ہیں ” جزا و سزا کے لئے جواب دہی کرنی ہوگی۔ “ دلالت حال پر نیز اس کی مراد کے متعلق مخاطب کے علم پر اکتفا کرتے ہوئے اسے محذوف رکھا گیا ۔ ایک قول ہے کہ عہد سے سوال کیا جائے گا کہ تجھے کیوں توڑا گیا جس طرح زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تجھے کس جرم کی بنا پر قتل کیا گیا تھا۔ اس دوسری تفسیر کا مفہوم بھی پہلی تفسیر کے مفہوم کی طرف راجع ہے اس لئے کہ اس کے ذریعے عہد توڑنے والے کو آگاہ کردیا گیا ہے اور اس سے بات منوا لی گئی ہے جس طرح زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سے سوال کے ذریعے اس کے قاتل کو آگاہ کردیا جائے گا اور اس سے یہ بات منوا لی جائے گی کہ اس نے اسے ناحق اور کسی جرم کے بغیر قتل کردیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) اور یتیم کے مال میں اس کے مال کی حفاظت اور اس کے مال کے بڑھانے کی غرض سے تصرف کرو تاکہ وہ پندرہ یا اٹھارہ سال کا ہوجائے اور تمہارے اور لوگوں کے درمیان جو عہد مشروع ہوا کرے، اس کو پورا کیا کرو کیوں کہ ایسے عہد کے توڑنے والے سے اس کے عہد کے بارے میں قیامت کے دن حساب ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ )- یہ آیت قبل ازیں ہم سورة الانعام (آیت ١٥٢) میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ یعنی یتیم کے مال کو ہڑپ کرنے اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے یا اسے ضائع کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اس کی حفاظت کرو اور اسے ہر طرح سے سنبھال کر رکھو :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :38 یہ بھی محض ایک اخلاقی ہدایت نہ تھی بلکہ آگے چل کر جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے انتظامی اور قانونی ، دونوں کی طرح کی تدابیر اختیار کی گئیں جن کی تفصیل ہم کو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے ۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ اسلامی ریاست اپنے ان تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اشاد اَنَاوَ لِیُّ مَنْ لَّا وَلِیَّ لَہُ ( میں ہر اس شخص کا سرپرست ہوں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو ) اسی طرف اشارہ کرتا ہے ، اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :39 یہ بھی صرف انفرادی اخلاقیات ہی کی ایک دفعہ نہ تھی بلکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی کو پوری قوم کی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگ بنیاد ٹھیرایا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: یہ یتیم کے رشتہ داروں اور خاص طور پر اُس کے سرپرستوں کو خطاب ہورہا ہے کہ اگر یتیم کو اپنے مرحوم باپ سے میراث میں کوئی مال ملا ہو تو اُسے امانت سمجھو اور اُس میں وہی تصرف تمہارے لئے جائز ہے جو یتیم کے حق میں فائدہ مند ہو، کوئی ایسا کام جائز نہیں جس میں اُس کو نقصان پہنچنے کا اِحتمال ہو، مثلاً کسی کو قرض دے دینا، یا اس کی طرف سے کسی کو تحفہ دینا۔ البتہ جب وہ پختگی کو پہنچ جائے، یعنی بالغ ہو کر اُسے اتنی سمجھ آجائے کہ وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھنے لگے تو اُس وقت اُس کا مال اسی کے حوالے کردینا واجب ہے۔ یہ مسئلہ قرآنِ کریم نے تفصیل کے ساتھ سورۂ نساء(۴:۲) میں بیان فرمایا ہے۔