Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 اجر وثواب کے لحاظ سے بہتر ہے، علاوہ ازیں لوگوں کے اندر اعتماد پیدا کرنے میں ناپ تول میں دیانت داری مفید ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] ماپ تول پورا کرنے سے انجام بہتر ہوگا :۔ ناپ اور تول میں کمی بیشی کرنا یعنی خود زیادہ لینا اور دوسرے کو کم دینا، ڈنڈی مار جانا اور کاروباری بددیانتی کرنا اتنا بڑا جرم ہے جس کی وجہ سے شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل ہوا تھا اور جو شخص ایسے کام کرتا ہے اس کے رزق سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔- [٤٥] ناپ اور تول پورا پورا دینے سے دنیا میں تو انجام اس لحاظ سے بہتر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی ساکھ قائم ہوجاتی ہے۔ اور اس کی تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ اور ایسے شخص کا اخروی انجام بہتر ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ ۔۔ : ” الْكَيْلَ “ سے مراد کسی برتن وغیرہ کو پیمانہ بنا کر غلہ وغیرہ کو ماپنا، مثلاً صاع (ٹوپا) اور مد (پڑوپی) وغیرہ۔ وزن کا معنی تولنا، مثلاً کلو وغیرہ۔ ” اَلْقِسْطَاسُ “ ترازو۔ مجاہد نے فرمایا، رومی میں قسطاس عدل کو کہتے ہیں۔ ” تَاوِیْلاً “ (انجام) یہ ” أَوْلٌ“ سے مشتق ہے جس کا معنی رجوع ہے، یعنی کوئی کام جس نتیجہ کی طرف پلٹتا ہے، تعبیر کو بھی تاویل کہتے ہیں اور کسی چیز کے اصل مفہوم و مطلب کو بھی۔ انجام کے لحاظ سے بہتر اس لیے کہ پورے ماپ اور تول کی وجہ سے سب لوگوں کا اس پر اعتماد قائم ہوجائے گا، اس کے کاروبار میں برکت اور ترقی ہوگی اور یہ شخص قیامت کے دن کی رسوائی اور لوگوں کے حقوق کے مطالبہ سے محفوظ رہے گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مطففین کی ابتدائی آیات۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ناپ تول میں کمی کی ممانعت :- مسئلہ : (آیت) وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ تفسیر بحر محیط میں ابو حیان نے فرمایا کہ اس آیت میں ناپ تول پورا کرنے کی ذمہ داری بائع (بیچنے والے) پر ڈالی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ناپنے تولنے اور اس کو پورا کرنے کا ذمہ دار بائع ہے۔- آخر آیت میں ناپ تول پورا کرنے کے متعلق فرمایا (آیت) ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا اس میں ناپ تول صحیح اور برابر کرنے کے متعلق دو باتیں فرمائیں ایک اس کا خیر (بہتر) ہونا اس کا حاصل یہ ہے کہ ایسا کرنا اپنی ذات میں اچھا اور بہتر ہے شرعی کے علاوہ عقلی اور طبعی طور پر بھی کوئی شریف انسان ناپ تول کی کمی کو اچھا نہیں سمجھ سکتا دوسری بات یہ فرمائی کہ مآل اور انجام اس کا بہتر ہے جس میں آخرت کا انجام اور حصول ثواب و جنت تو داخل ہے ہی اس کے ساتھ دنیا کے انجام کی بہتری کی طرف بھی اشارہ ہے کہ کسی تجارت کو اس وقت تک فروغ نہیں ہوسکتا جب تک بازار میں اس کی ساکھ اور اعتبار قائم نہ ہو اور وہ اس تجارتی دیانت کے بغیر نہیں ہو سکتا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 35؀- كَيْلُ :- كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3]- ( ک ی ل ) الکیل - ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے معی ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے معیْ ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے معید ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔- وزن - الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً- [ الكهف 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] - ( و زن ) الوزن )- تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے - قِسْطَاسُ- : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] . چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ناپ تول کے احکام - قول باری ہے (واوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم۔ اور جب پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو) آیت میں یہ دلالت ہے کہ جو شخص کوئی چیز ناپ کر یا تول کر خریدے تو اس پر یہ امر واجب ہے کہ ناپ کر خریدی ہوئی چیز کو ناپ کرے اور تول کر خریدی ہوئی چیز کو تول کرے، نیز اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ کیل یا وزن کے ذریعے دی جانے والی چیز کو یونہی انداز سے لے لے اس مں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ مبیع اور ثمن میں جبکہ وہ ہم جنس ہوں تفاضل کی تحریم کا اعتبار کیل اور وزن کے اندر کیا جائے گا یعنی تمام مکیلات اور موزو نالت میں خواہ وہ ماکولات ہوں یا غیر ماکولات ہم جنس ہونے کی صورت میں تفاضل حرام ہوگا۔ اس لئے کہ آیت نے مکیل میں ایجاب کیل کو اور موزوں میں ایجاب وزن کو صرف ماکولات یعنی اشیائے خوردنی کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ اس حکم میں تمام مکیلات اور تمام موزونات داخل ہیں۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ جب کوئی شخص مکیلا ت اور موزونات کے تحت آنے والی اشیاء کی خریداری کرے اور مبیع اور ثمن ہم جنس ہوں تو کیل کے بدلے کیل اور وزن کے بدلے وزن کی صورت میں خریداری کرے۔ اٹکل اور اندازے سے خریداری کی صورت جائز نہیں ہوگی۔ مکیلات کے تحت آنے والی اشیاء کا تعلق خواہ کو لات یعنی اشیائے خوردنی کے ساتھ ہو یا غیر ماکولات کے ساتھ مثلاً گچ، چونہ، چونے کا پتھر وغیرہ اسی طرح موزونات کے تحت آنے والی اشیاء مثلاً ، لوہا ، سیبہ اور دیگر تمام موزونات۔- ناپ تول کی طرح اجتہاد بھی ظن غالب ہے - آیت میں اجتہاد کے جواز پر نیز اس پر کہ ہر مجتہد درست رد ہوتا ہے دلالت پائی جاتی ہے۔ اس لئے کہ ناپ تول میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ کرنا صرف اجتہاد اور ظن غالب کی بنا پر وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب ایک شخص کسی دوسرے کو کوئی چیز ناپ کر یا تول کر دے رہا ہو تو اس کے لئے یہ دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہوگا کہ اس نے ناپ یا تول میں ایک حبہ برابر نہ کمی کی ہے نہ بیشی۔ بلکہ خریدار کو اس کا پورا پورا حق دینے کے لئے وہ اپنے اس غلبہ ظن سے کام لے گا کہ اس نے پورا بھر کرنا چاہے یا درست ترازو سے وزن کیا ہے۔ جب ایک کیل کرنے والا یا وزن کرنے والا صرف اپنے غلبہ ظن کی بنا پر مذکورہ بالا صورت میں کیل یا وزن کر کے اللہ کے حکم کو پورا کرسکتا ہے اور اسے حقیقی مقدار کے حصول کا مکلف نہیں بنایا جاسکتا جس کا علم صرف اللہ کو ہے تو پھر اجتہادی مسائل میں مجتہد کو بھی اپنے اجتہاد اور غلبہ ظن سے کام لینے کی بنا پر مصیبت یعنی درست قرار دیا جائے گا۔- قسطاط کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ میزان اور ترازو کا نام ہے خواہ یہ چھوٹا ہو یا بڑا حسن قول ہے کہ قسطاس قبان یعنی بھاری اشیاء کو تولنے کے آلے کا نام ہے۔ ہم نے مکیل اور موزون کا جو مفہوم بیان کیا ہے اس کے پیش نظر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی پر مکیل اور موزون کے تحت آنے والی اشیاء میں سے کوئی شے قرض ہو تو قرض خواہ کے لئے وہ چیز یونہی اٹکل اور اندازے سے وصول کرنا جائز نہیں ہوگا خواہ اس پر طرفین کی رضا مندی کیوں نہ حاصل ہوجائے ۔ آیت میں کیل اور وزن کا ظاہری امر اس بات کا موجب ہے کہ طرفین باہمی رضا مندی کے ذریعے بھی کیل اور وزن کو ترک نہیں کرسکتے اسی طرح دو شریکوں کے درمیان ایسی اشیاء کی اندازاً تقسیم بھی اس علت کی بنا پر جائز نہیں ہوگی جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ اگر اشیاء کا تعلق تکیلات اور موزونات سے نہ ہو بلکہ کپڑوں اور سامان کی صورت ہو تو پھر باہمی رضا مندی سے اٹکل اور اندازے کے ذریعے ان کی خریداری بھی درست ہوگی اور شریکین کے درمیان تقسیم بھی اس لئے کہ دریں صورت ہم پر کیل اور وزن کو پورا کرنے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔- قول باری ہے (ذلک خیرو احسن تاویلاً یہ اچھا طریقہ ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے۔ ) مفہوم یہ ہے کہ یہ طریقہ اچھا ہے اور دنیا و آخرت میں انجام کے لحاظ سے بھی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تاویل اس مفہوم کا نام ہ جو ایک چیز کا مرجع اور اس کی تفسیر ہو۔ جب کوئی شخص لوٹ کر آئے تو عرب کہتے ہیں ۔ ” ال یئول، اولاً ۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٥) اور جب ماپنے کی چیز ماپ کر دو تو پورا ماپوا اور تولنے کی چیز کو صحیح ترازو سے تول کر دو ، یہ ماپ وتول اور وعدوں کو پورا کرنا یہ بدعہد اور چیزوں کو کم دینے سے بہتر ہے اور انجام بھی اس کا اچھا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا)- اگر تم ناپ تول پورا کرتے ہو اور لین دین کے تمام معاملات دیانتداری سے سر انجام دیتے ہو تو حضرت شعیب کے فرمان کے مطابق : (بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) (ھود : ٨٦) ” اللہ کا دیا ہوا منافع ہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو “۔ دیانتداری سے کمایا ہوا منافع تھوڑا بھی ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا کرے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :40 یہ ہدایت بھی صرف افراد کے باہمی معاملات تک محدود نہ رہی ، بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ حکومت کے فرائض میں داخل کی گئی کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کو بزور بند کر دے ۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سد باب کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :41 یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ دنیا میں اس کا انجام اس لیے بہتر ہے کہ اس سے باہمی اعتماد قائم ہوتا ہے ، بائع اور خریدار دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں ، اور یہ چیز انجام کار تجارت کے فروغ اور عام خوشحالی کی موجب ثابت ہوتی ہے ۔ رہی آخرت ، تو وہاں انجام کی بھلائی کا سارا دارومدار ہی ایمان اور خدا ترسی پر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani