بلا تحقیق فیصلہ نہ کرو یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس میں زبان نہ ہلاؤ ۔ بغیر علم کے کسی کی عیب جوئی اور بہتان بازی نہ کرو ۔ جھوٹی شہادتیں نہ دیتے پھرو ۔ بن دیکھے نہ کہہ دیا کرو کہ میں نے دیکھا ، نہ بےسنے سننا بیان کرو ، نہ بےعلمی پر اپنا جاننا بیان کرو ۔ کیونکہ ان تمام باتوں کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی ۔ غرض وہم خیال اور گمان کے طور پر کچھ کہنا منع ہو رہا ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ 12 ) 49- الحجرات:12 ) ، کہ زیادہ گمان سے بچو ، بعض گمان گناہ ہیں ۔ حدیث میں ہے گمان سے بچو ، گمان بدترین جھوٹی بات ہے ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے انسان کا یہ تکیہ کلام بہت ہی برا ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے بدترین بہتان یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ کوئی خواب گھڑ لے اور صحیح حدیث میں ہے جو شخص ایسا خواب از خود گھڑ لے قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ دو جو کے درمیان گرہ لگائے اور یہ اس سے ہرگز نہیں ہونا ۔ قیامت کے دن آنکھ کان دل سب سے باز پرس ہو گی سب کو جواب دہی کرنی ہو گی ۔ یہاں تلک کی جگہ اولئک کا استعمال ہے ، عرب میں استعمال برابر جاری ہے یہاں تک کہ شاعروں کے شعروں میں بھی ۔
36۔ 1 فَفَا یَقْفُوْ کے معنی ہیں پیچھے لگنا، یعنی جس چیز کا علم نہیں، اس کے پیچھے مت لگو، یعنی بدگمانی مت کرو، کسی کی ٹوہ میں مت رہو، اسی طرح جس چیز کا علم نہیں، اس پر عمل مت کرو۔ 36۔ 2 یعنی جس چیز کے پیچھے تم پڑو گے اس کے متعلق کان سے سوال ہوگا کہ کیا اس نے سنا تھا، آنکھ سے سوال ہوگا کیا اس نے دیکھا تھا اور دل سے سوال ہوگا کیا اس نے جانا تھا ؟ کیونکہ یہی تینوں علم کا ذریعہ ہیں۔ یعنی ان اعضا کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن قوت گویائی عطا فرمائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا۔
[٦ ٤] ہر قول اور فعل کی تحقیق ضروری ہے بدظنی سے پرہیز :۔ شریعت کی ایک بہت بڑی اصل یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظن رکھنا چاہیے تاآنکہ اس کی کوئی بددیانتی یا غلط حرکت کھل کر سامنے نہ آجائے۔ اسی مضمون کو ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ 12) 49 ۔ الحجرات :12) (یعنی بسا اوقات محض گمان سے بات کہہ دینا گناہ ہوتا ہے) اور صحیح حدیث میں ہے کہ کفی بالمرء کذبا ان یحدث بماسمع (یعنی کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ جو کچھ سنے اسے تحقیق کیے بغیر آگے بیان کردے) (مسلم) لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ بلاتحقیق کوئی بات نہ کرے۔ نہ ہی بلاوجہ کسی سے بدظنی رکھے جب تک پوری تحقیق نہ کرلے۔ بلاسوچے سمجھے کسی پر نہ الزام لگائے اور نہ تہمت تراشی کرے۔ نہ کوئی افواہ پھیلائے نہ کسی سے بغض و عداوت رکھے۔ اسی طرح عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک مجرم کا جرم ثابت نہ ہو اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہ دی جائے۔ پھر یہ تحقیق کا سلسلہ انھیں باتوں میں منحصر نہیں بلکہ وہ رسم و رواج بھی اسی ذیل میں آتی ہیں جو آباء واجداد سے چلی آرہی ہیں ان کے متعلق یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ ان کی اصل شریعت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔- آنکھ اور کان کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ ہمیں بیشتر معلومات انھیں ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں اور دل کا کام ان میں غور و فکر کرکے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا ہے۔ گویا ایسے بدظنی رکھنے والوں، بےبنیاد افواہیں پھیلانے والوں اور تحقیق کیے بغیر ہی کسی بات کو قبول کرلینے والوں کے اعضاء سے بھی باز پرس ہوگی۔
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ :” وَلَا تَــقْفُ “ ” قَفَا یَقْفُوْ “ (ن) سے نہی کا صیغہ ہے، جس کا معنی پیچھے چلنا ہے۔ ” قَفَوْتُ أَثَرَ فُلاَنٍ “ ” میں فلاں کے نقش قدم پر چلا۔ “ ” قَفَا “ گردن کے پچھلے حصے (گدی) کو کہتے ہیں، قافیہ ہر شعر کے آخر میں آنے والا لفظ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک مبارک نام ” اَلْمُقَفِّيْ “ بھی ہے، یعنی سب سے پیچھے آنے والا۔ ( مستدرک حاکم : ٤١٨٥) یعنی جس قول یا فعل کے درست ہونے کا علم یعنی یقین نہ ہو اس کا پیچھا مت کرو، مطلب یہ کہ نہ خود اس پر عمل کرو نہ آگے کسی کو بتاؤ۔ علم وہ ہے جس کا یقین ہو، صرف گمان کے پیچھے چلنا منع ہے، کیونکہ گمان علم نہیں ہوتا، فرمایا : (وَمَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ) [ النجم : ٢٨ ] ” حالانکہ انھیں اس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ “ ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ ) [ بخاری، الأدب، باب : ( یأیھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن۔۔ ) : ٦٠٦٦ ] ” گمان سے بچو، یقیناً گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔ “ اسی طرح سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرنا بھی منع ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَفَی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) [ مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع : ٥، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر وہ بات آگے بیان کر دے جو اس نے سنی ہو۔ “ علاوہ ازیں جھوٹی گواہی، کوئی بھی تہمت، جھوٹا خواب بیان کرنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث اس کے صحیح ہونے کا علم ہونے کے بغیر بیان کرنا، قرآن و حدیث کی موجودگی میں کسی کی شخصی رائے یا قیاس پر عمل کرنا (تقلید کرنا) یہ سب چیزیں اس میں شامل ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب سے منع فرمایا ہے۔ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ ۔۔ : یہاں ” كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا “ سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس کے کان، آنکھیں اور دل ہیں، یعنی آدمی سے ان تینوں چیزوں میں سے ہر ایک کے بارے میں سوال کیا جانے والا ہے کہ تونے ان اعضا کو کہاں استعمال کیا ہے ؟ جس چیز کا علم نہیں تھا اس کا پیچھا کرنے میں اللہ کے عطا کردہ اعضا کیوں استعمال کیے ؟ (دیکھیے حجر : ٩٢، ٩٣) اور ” كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا “ کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کان، آنکھیں اور دل میں سے ہر ایک سے خود اس کے متعلق سوال ہونے والا ہے کہ بتاؤ تمہیں اس شخص نے کہاں اور کیسے استعمال کیا۔ دیکھیے سورة یس (٦٥) اور حم السجدہ (١٩ تا ٢٣) بہرحال قرآن کی آیات میں یہ دونوں مفہوم موجود ہیں، دونوں صورتوں میں قیامت کے دن کی اس ہولناک پیشی سے ڈرایا گیا ہے۔ اس آیت کی ہم معنی یہ آیات بھی ملاحظہ فرمائیں سورة اعراف (٣٣) اور سورة بقرہ (١٦٨، ١٦٩) ۔- حقیقت یہ ہے کہ یہ چند الفاظ اسلام کے مکمل منہج کی ترجمانی کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ اس بات کی اپنی حد تک پوری تحقیق کرلے کہ میری زبان جو بات کہہ رہی ہے، یا واقعہ بیان کر رہی ہے، یا روایت نقل کر رہی ہے، یا میری عقل جو فیصلہ کر رہی ہے، یا جو کچھ میں نے قطعی طے کیا، یا جو کام میں کرنے جا رہا ہوں اس کا مجھے پورا علم ہے اور میں اس کے نتائج کو پوری طرح جانتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی قرآن نے بات کا رخ تکبر سے ممانعت کی طرف موڑ دیا، کیونکہ یہ انسان کے اپنی حقیقت سے حد سے زیادہ لا علم ہونے کی دلیل ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اور جس بات کی تجھ کو تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کیا کرو (کیونکہ) کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے ان سب کی (قیامت کے دن) پوچھ ہوگی (کہ آنکھ اور کان کا استعمال کس کس کام میں کیا وہ کام اچھے تھے یا برے اور بےدلیل بات کا خیال دل میں کیوں جمایا) اور زمین پر اتراتا ہوا مت چل (کیونکہ) تو (اس زمین پر زور سے پاؤں رکھ کر) نہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ (اپنے بدن کو تان کر) پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے (پھر اترانا عبث) یہ سارے (مذکورہ) برے کام تیرے رب کے نزدیک (بالکل) ناپسند ہیں۔- معارف و مسائل :- ان آیات میں دو حکم بارھواں اور تیرھواں عام معاشرت سے متعلق ہیں بارھویں حکم میں بغیر تحقیق کے کسی بات پر عمل کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔- یہاں یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تحقیق کے درجات مختلف ہوتے ہیں ایک ایسی تحقیق کہ یقین کامل کے درجہ کو پہنچ جائے مخالف جانب کا کوئی شبہ بھی نہ رہے دوسرے یہ کہ گمان غالب کے درجہ میں آجائے اگر جانب مخالف کا احتمال بھی موجود ہو اس طرح احکام میں بھی دو قسم ہیں ایک قطعیات اور یقینیات ہیں جیسے عقائد اور اصول دین ان میں پہلے درجہ کی تحقیق مطلوب ہے اس کے بغیر عمل کرنا جائز نہیں دوسرے ظنیات جیسے فروعی اعمال سے متعلق احکام اس تفیصل کے بعد مقتضیٰ آیت مذکورہ کا یہ ہے کہ یقینی اور قطعی احکام میں تحقیق بھی درجہ اول کی ہو یعنی قطعیت اور یقیین کامل کے درجہ کو پہنچ جائے اور جب تک ایسا نہ ہو عقائد اور اصول اسلام میں اس تحقیق کا اعتبار نہیں اس کے مقتضی پر عمل جائز نہیں اور ظنی فروعی امور میں دوسرے درجہ یعنی ظن غالب کے درجہ کی تحقیق کافی ہے (بیان القرآن )- کان آنکھ اور دل کے متعلق قیامت کے روز سوال :- (آیت) اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤ َادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا اس آیت میں بتلایا ہے کہ قیامت کے روز کان آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا مطلب یہ ہے کہ کان سے سوال ہوگا کہ تو نے عمر میں کیا کیا سنا آنکھ سے سوال ہوگا کہ تمام عمر میں کیا کیا دیکھا دل سے سوال ہوگا کہ تمام عمر دل میں کیسے کیسے خیالات پکائے اور کن کن چیزوں پر یقین کیا اگر کان سے ایسی باتیں سنیں جن کا سننا شرعا جائز نہیں تھا جیسے کسی کی غیبت یا حرام گانا بجانا وغیرہ یا آنکھ سے ایسی چیزیں دیکھیں جن کا دیکھنا شرعا حلال نہ تھا جیسے غیر محرم عورت یا امرد لڑکے پر نظر بد کرنا وغیرہ یا دل میں کوئی ایسا عقیدہ جمایا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو یا کسی کے متعلق اپنے دل میں بلا دلیل کوئی الزام قائم کرلیا تو اس سوال کے نتیجہ میں گرفتار عذاب ہوگا قیامت کے روز اللہ کی دی ہوئی ساری ہی نعمتوں کا سوال ہوگا (آیت) ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ (یعنی تم سے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی سب نعمتوں کا سوال ہوگا) کان آنکھ دل ان نعمتوں میں سب سے زیادہ اہم ہیں اس لئے یہاں ان کا خصوصیت سے ذکر فرمایا گیا ہے۔- تفسیر قرطبی اور مظہری میں اس کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے جملہ میں جو یہ ارشاد آیا ہے کہ (آیت) لَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ یعنی جس چیز کا تمہیں علم اور تحقیق نہیں اس پر عمل نہ کرو اس کے متصل کان آنکھ اور دل سے سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے بےتحقیق مثلا کسی شخص پر کوئی الزام لگایا اور بلاتحقیق کسی بات پر عمل کیا اگر وہ ایسی چیز سے متعلق ہے جو کان سے سنی جاتی ہے تو کان سے سوال ہوگا اور آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہے تو آنکھ اور دل سے سمجھنے کی چیز ہے دل سے سوال ہوگا کہ یہ شخص اپنے الزام اور اپنے دل میں جمائے ہوئے خیال میں سچا ہے یا جھوٹا اس پر انسان کے یہ اعضاء خود شہادت دیں گے جو حشر کے میدان میں بےتحقیق الزام لگانیوانے اور بےتحقیق باتوں پر عمل کرنے والے کے لئے بڑی رسوائی کا سبب بنے گا جیسا کہ سورة یسین میں ہے (آیت) اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ یعنی آج قیامت کے دن ہم مجرموں کے مونہوں پر مہر لگا کر بند کردیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور پاؤں گواہی دیں گے کہ اس نے ان اعضاء سے کیا کیا کام اچھے یا برے لئے ہیں)- یہاں کان آنکھ اور دل کی تخصیص شاید اس بناء پر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ جو اس اور دل کا شعور و ادراک اسی لئے بخشا ہے کہ جو خیال یا عقیدہ دل میں آئے ان حواس اور ادراک کے ذریعہ اس کو جانچ سکے کہ یہ صحیح ہے تو اس پر عمل کرے اور غلط ہے تو باز رہے جو شخص ان سے کام لئے بغیر بےتحقیق باتوں کی پیروی میں لگ گیا اس نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی۔- پھر وہ حواس جن کے ذریعہ انسان مختلف چیزوں کو معلوم کرتا ہے پانچ ہیں کان آنکھ ناک زبان کی قوتیں اور پورے بدن میں وہ احساس جس سے کسی چیز کا سرد و گرم وغیرہ ہونا معلوم ہوتا ہے مگر عادۃ زیادہ معلومات انسان کو کان یا آنکھ سے ہوتی ہیں ناک سے سونگھنے اور زبان سے چکھنے ہاتھ وغیرہ سے چھونے کے ذریعہ جن چیزوں کا علم ہوتا ہے وہ سننے دیکھنے والی چیزوں کی نسبت سے بہت کم ہے اس جگہ حواس خمسہ میں سے صرف دو کے ذکر پر اکتفاء کرنا شاید اسی کی وجہ سے ہو پھر ان میں بھی کان کو آنکھ پر مقدم کیا گیا ہے اور قرآن کریم کے دوسرے مواقع میں بھی جہاں کہیں ان دونوں چیزوں کا ذکر آیا ہے ان میں کان ہی کو مقدم رکھا گیا ہے اس کا سبب بھی غالبا یہی ہے کہ انسان کی معلومات میں سب سے بڑا حصہ کان سے سنی ہوئی چیزوں کا ہوتا ہے آنکھ سے دیکھی ہوئی چیزیں ان کی نسبت سے بہت کم ہیں۔
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا 36- وقف - يقال : وَقَفْتُ القومَ أَقِفُهُمْ وَقْفاً ، ووَاقَفُوهُمْ وُقُوفاً. قال تعالی: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ- [ الصافات 24] ومنه استعیر : وَقَفْتُ الدّارَ : إذا سبّلتها، والوَقْفُ : سوارٌ من عاج، وحمارٌ مُوَقَّفٌ بأرساغه مثلُ الوَقْفِ من البیاض، کقولهم : فرس مُحجَّل : إذا کان به مثلُ الحَجَل، ومَوْقِفُ الإنسانِ حيث يَقِفُ ، والمُوَاقَفَةُ : أن يَقِفَ كلُّ واحد أمره علی ما يَقِفُهُ عليه صاحبه، والوَقِيفَةُ : الوحشيّة التي يلجئها الصائد إلى أن تَقِفَ حتی تصاد .- ( و ق ف )- وقعت القوم ( ض) وقفا ر ( متعدی ) لوگوں کو ٹھہر انا اور دقفو ا وقو قا لازم ٹھہر نا ۔- قرآن میں ہے : ۔ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات 24] اور ان کو ٹھہرائے رکھو کہ ان سے کچھ پوچھنا ہے اور سی سے بطور استعارہ وقفت الدار آتا ہے جس کے معنی مکان کو وقف کردینے ہیں ۔ نیز الوقف کے معنی ہاتھی دانت کا کنگن بھی آتے ہیں اور حمار موقف اس گدھے کو کہتے ہیں جس کی کلائوں پر کنگن جیسے سفید نشان ہوں جیسا کہ فرس محجل اس گھوڑے کا کہا جاتا ہے جس کے پاؤں میں حجل کی طرح سفیدی ہو ۔ مرقف الانسان انسان کے ٹھہرنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور الموافقتہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے معاملہ کو اسی چیز پر روک دے جس پر کہ دوسرے نے روکا ہے ۔ ( ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا ہونا ) الوقیفتہ بھگا یا ہوا شکار جو شکاری کے تعاقب سے عاجز ہوکر ٹھہر جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اسے شکار کرلے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - فأد - الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ.- ( ف ء د ) الفواد - کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔- إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔
لاتقف کی تشریح - قول باری ہے (لا تقف مالیس لک بہ علم۔ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو) کسی نشان کا پیچھا کرنا ” القفوا “ کہلاتا ہے۔ جبکہ اس کا کوئی علم نہ ہو اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بصیرت کہ یہ نشان کہاں جا کر اختتام پذیر ہوگا۔ اسی سے قافۃ کا لفظ بنا ہے جس کے معنی قیاذ شناس کے ہیں۔ یہ قائف کی جمع ہے۔ عرب کے اندر ایسے لوگ بھی تھے جو قدموں کے نشانات کا کھوج لگاتے تھے۔ (ہمارے ہاں عرف عام میں انہیں کھوجی کہا جاتا ہے) اور ایسے بھی تھے جو نسب کے سلسلہ میں قیاذ شناسی کا کام کرت ی تھے یعنی ایک شخص کے جسمانی اعضاء دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ اس کا تعلق فلاں نسب سے ہے۔ تاہم عربوں کے نزدیک یہ اسم اس خبر کے لئے وضع کیا گیا تھا جو کوئی شخص یونہی آ کر سنا دے اور اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ جب کوئی شخص باطل یعنی غلط بات کہتا تو اس موقعہ پر یہ فقرہ استعمال ہوتا۔ ” تقوف الرجل “ جریر کا شعر ہے۔- وطال حذاری خیفۃ البین والنوی واحد وثۃ من کاشح متقوف - علیحدگی اور جدائی نیز ایک کینہ ور دروغ گو دشمن کی افواہوں سے ڈرتے ہوئے میں نے طویل عرصے تک محتاط رویہ اختیار کئے رکھا۔ اہل لغت کا کہنا ہے کہ جریر نے متقوف سے غلط باتیں کہنے والا مراد لیا ہے۔ ایک اور شاعر کا قول ہے :- ومثل الدمی شم العرانین ساکن بھن الحیاء لایشعن التقافیا - وہ ستواں ناک والی پتلیوں کی طرح خاموش ہیں۔ ان کے اندر حیا داری موجود ہے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالتی ہیں۔- یہاں تفافی تفاذف یعنی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے معنوں میں ہے۔ اس اسم کو تقاذف کے معنوں میں اس لئے استعمال کیا گیا کہ اس میں اکثر باتیں بےحقیقت اور غلط ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قاذف یعنی زنا کی تہمت لگانے والے کو گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں کاذب قرار دیا ہے چناچہ ارشاد ہے (لوہ اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیراً و قالوا ھذا افک مبین۔ جب تم لوگوں نے یہ افواہیں سنی تھی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے حق میں نیک گمان کیا اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح جھوٹ ہے۔- قتادہ نے قول باری صولا تقف مالیس لک بہ علم) کی تفسیر کرتے ہوئے کہا۔” جو بات تم نے نہ سنی ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنی ہے۔ جو چیز تم نے نہ دیکھی ہو اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھی ہے اور جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ مجھے علم ہے۔ “ یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ اللہ کے احکام کے متعلق اپنے گمان اور خیال سے علم کے بغیر کوئی بات کہنے کی ممانعت ہے نیز یہ کہ لوگوں کے متعلق کسی ایسی سنی سنائی بات کو زبان پر لانا ممنوع ہے جس کی صحت کا علم نہ ہو۔ نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کوئی شخص علم کے بغیر کسی بات کی خبر دے گا وہ گنہگار قرار پائے گا۔ خواہ اس کی سنائی ہوئی بات سچی ہو یا جھوٹی اس لئے کہ اس نے علم کے بغیر یہ بات کہی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا ہے۔- قول باری ہے (ان السمع والبصر والفوادکل اولئک کان عنہ مسئولاً یقینا آنکھ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری آنکھ، کان اور دل پر اللہ کا حق ہے اور انسان کو اپنے ان تمام اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی جو اس نے ان اعضاء کے ذریعے سر انجام دیئے ہوں گے۔ اسے یہ حساب دینا ہوگا کہ اس نے کون کون سی غلط باتیں سنی تھیں، کہاں کہاں غلط نظر ڈالی تھی اور کیسی کیسی غلط اور قبیح باتیں سوچی تھیں۔- بعض لوگ قول باری (ولا تقف مالیس لک بہ علم) سے شریعت کی فروعی مسائل میں قیاس کی نفی پر استدلال کرتے ہیں نیز خبرواحد کا ابطال کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ قیاس اور خبر واحد دونوں ہمیں کسی مسئلے کے متعلق علم کی منزل تک پہنچاتے ہیں اس لئے جو شخص ان دونوں باتوں کی بنیاد پر کوئی مسئلہ بیان کرے گا وہ علم کے بغیر بات کرنے والا گردانا جائے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا ہے اس نے غلط کہا ہے۔ اس لئے جس مسئلے کے بیان کے لئے شرعی دلالت قائم ہوجائے اس کے قائل کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے علم کے بغیر بات کی ہے۔ قیاس اور خیر واحد کے سلسلے میں ایسے دلائل قائم ہوچکے ہیں جو ان کی صحت کے موجب ہیں۔ اگرچہ ہمیں دی گئی خبر کی سچائی کا علم نہیں ہوتا لیکن خبر کی سچائی کا علم نہ ہونا اس خبر کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا جس طرح اگر دو گواہوں کی ظاہری حالت ان کی عدالت یعنی سچائی، نیک روی وغیرہ پر والی ہو تو ان کی گواہی قبول کرلینا واجب ہوتا ہے اگرچہ ہمیں ان کی دی ہوئی گواہی کی سچائی کے بارے میں یقینی علم نہیں ہوتا۔ اسی طرح تمام اہل علم کے نزدیک معاملات سے متعلق دی گئی خبریں قابل قبول ہوتی ہیں اگرچہ ان خبروں کی صحت کا ہمیں یقینی علم نہیں ہوتا۔- قول باری (ولا تقف مالیس لک بہ علم) اخبار آحاد کو رد کرنے کا موجب نہیں ہے جس طرح یہ گواہیوں کو رد کردینا واجب نہیں کتا۔ جہاں تک قیاس شرعی کا تعلق ہے تو جو قیاس اجتہاد کے دائرے کے اندر کیا جاتا ہے اور جس قول میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے اس قیاس کے نتیجے میں ایسے قول کے قائل کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا ک ہ اس نے علم کے بغیر یہ بات کہی ہے بلکہ اس کا یہ قول علم پر بمین ہوتا ہے اس لئے کہ جس بات پر وہ اپنے اجتہاد کے نتیجے میں پہنچا ہے وہی اس کے لئے اللہ کا حکم قرار پاتا ہے۔- علم حقیقی اور علم ظاہری میں فرق - ایک اور جہت سے اس پر نظر ڈالیے، علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم حقیقی اور علم ظاہر۔ ہم جس علم کے مکلف ہیں وہ علم ظاہر ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ارشاد باری ہے ۔ (فان علمتموھن مومنات فلا ترجعوھن الی الکفار۔ اگر تمہیں ان عورتوں کے مومن ہونے کا علم ہوجائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو) اس علم سے علم ظاہر مراد ہے اس لئے کہ ان کے دلوں میں پوشیدہ باتوں کی معرفت کا کوئی ذریعہ نہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے جو کہا تھا قرآن میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ (وما شھد نا الا بما علمنا وما کنا للغیب حافظین ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کرسکتے تھے) یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ بتایا کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ علم ظاہر کی بنیاد پر بیان کیا ہے۔
(٣٦) اور جب تک کسی بات کی تحقیق نہ ہو اور اس کو صحیح طور پر دیکھی اور سنی نہ ہو تو مت بیان کرو، کیوں کہ کانوں سے جن باتوں کو سنا ہے اور آنکھوں سے جن کو دیکھا ہے اور دل میں جن باتوں کی تمنا کی ہے قیامت کے دن ہر ایک شخص سے ان کے متعلق باز پرس ہوگی۔
آیت ٣٦ (وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ)- بحیثیت اشرف المخلوقات انسان کا طرز عمل خالص علم پر مبنی ہونا چاہیے۔ اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے کسی عمل یا نظریے کی بنیاد توہمات پر رکھے یا ایسی معلومات کو لائق اعتناء سمجھے جن کی کوئی علمی سند نہ ہو۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود انسانی علم کی بنیاد اور اس کا منبع کیا ہے ؟ اس سلسلے میں ہم جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر انسانی علم کی دو اقسام ہیں۔ ایک اکتسابی علم ( ) اور دوسرا الہامی علم ( ) ۔ اکتسابی علم کی بنیاد وہی علم الاسماء ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو سکھایا تھا اور جس کا ذکر ہم سورة البقرۃ کے چوتھے رکوع میں پڑھ آئے ہیں۔ اس علم کا تعلق انسانی حواس اور ذہن سے ہے۔ انسان اپنے حواس کی مدد سے یہ علم حاصل کر کے اپنے ذہن میں محفوظ کرتا رہتا ہے۔ جوں جوں انسان کے تجربے اور مشاہدے کا دائرہ پھیلتا ہے اس علم میں بھی توسیع ہوتی جاتی ہے اور یوں یہ علم کرۂ ارض پر انسانی زندگی کے روز اوّل سے لے کر آج تک مسلسل ارتقا پذیر ہے۔ دوسری طرف الہامی علم ہے جس کا انسان کے حواس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اس علم کے تمام ذرائع مثلاً وحی (جلی یا خفی) الہام کشف اور رؤیائے صادقہ (سچے خواب) کا تعلق انسان کے حیوانی وجود کے بجائے اس کے روحانی وجود سے ہے۔ انسانی روح اس علم کو براہ راست موصول کرتی ہے اور اس کا مسکن و مرکز انسانی قلب ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انبیاء پر نازل ہونے والی وحی۔ چاہے جلی ہو یا خفی نبوت کا حصہ ہے اور علمی لحاظ سے ایک قطعی دلیل یا برہان قاطع ہے۔ لیکن کسی عام شخص کو وحی خفی الہام یا کشف کے ذریعے ملنے والا علم دوسروں کے لیے کوئی علمی دلیل فراہم نہیں کرتا۔ ایسا علم صرف متعلقہ شخص کے لیے دلیل ہوسکتا ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب وہ خلاف شریعت نہ ہو۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو آیت زیر نظر میں انسان کا اکتسابی علم زیر بحث ہے۔ - (اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا)- اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کے اکتساب و استعمال کے لیے حواس خمسہ (جن میں سے دو اہم ترین حواس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے) اور عقل سے نوازا ہے اور اس لحاظ سے اس کی ان صلاحیتوں کا احتساب بھی ہوگا۔ یہاں پر لفظ فؤاد بہت اہم ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ” دل “ کیا گیا ہے ‘ مگر اس ترجمے کے لیے کوئی لغوی بنیاد موجود نہیں۔ اس لفظ کا مادہ وہی ہے جس سے لفظ ” فائدہ “ مشتق ہے اور لفظ ” فائدہ “ کے معنی کسی چیز کے اس جوہر یا لب لباب کے ہیں جو اس چیز میں سے اصل مقصود ہوتا ہے۔ پرانے دور کی کتب میں یہ انداز عام ملتا ہے کہ کوئی حکایت یا روایت بیان کرنے کے بعد اس کا نتیجہ بیان کرنے کے لیے لفظ ” فائدہ “ یا صرف ” ف “ لکھ دیا جاتا تھا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تفصیل کے خلاصہ یا کسی کام کے نتیجہ کو فائدہ کہا جاتا ہے۔ لفظ ” فئید “ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ عربی میں ” فئید “ کسی سبزی یا گوشت وغیرہ کی بھجیا کو کہا جاتا ہے اور اس لفظ (فئید) میں بھی نتیجہ یا خلاصہ وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی گوشت وغیرہ کو ابالنے یا بھوننے سے جب اس کا فالتو پانی خشک ہوجاتا ہے تب اس میں سے بہت تھوڑی مقدار میں وہ چیز حاصل ہوتی ہے جس پر لفظ فئید کا اطلاق ہوتا ہے۔- اس لغوی وضاحت کے بعد لفظ ” فؤاد “ کے مفہوم اور انسانی حواس کے ساتھ اس کے تعلق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ حواس انسانی اپنے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کر کے دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ دماغ کا کمپیوٹر ان معلومات کو کرتا ہے پہلے سے موجود اپنے ذخیرۂ معلومات کے ساتھ ان کا تطابق ( ) یا تقابل ( ) کرکے اس سارے عمل سے کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے اور پھر اس نتیجہ کو اپنے ذخیرۂ معلومات ( ) میں محفوظ ( ) کرلیتا ہے۔ اسی ذخیرۂ معلومات کا نام علم ہے اور انسان کی وہ قوت یا صلاحیت جو اس سارے عمل کو ممکن بناتی ہے ” فواد “ کہلانے کی مستحق ہے۔ عرف عام میں اس قوت یا صلاحیت کو عقل یا شعور کہا جاتا ہے۔ چناچہ میرے نزدیک ” فواد “ کا درست ترجمہ عقل یا شعور ہی ہے۔ - اس پورے تناظر میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفید حواس ( ) عطا کیے ہیں اور ان حواس سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے اسے نوازا ہے۔ اب اگر انسان اپنے ان حواس سے استفادہ نہ کرے عقل و شعور کی صلاحیت سے کوئی کام نہ لے اور اپنے نظریات کی بنیاد توہمات پر رکھ لے تو وہ بہت بڑے ظلم کا مرتکب ہوگا۔ مثلاً زلزلے کے بارے میں کبھی لوگوں میں یہ نظریہ مشہور تھا کہ ہماری یہ زمین ایک بیل نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھی ہے۔ جب وہ تھک جاتا ہے تو اسے دوسرے سینگ پر منتقل کرتا ہے جس سے زلزلہ آجاتا ہے۔ اس مضحکہ خیز نظریے کے لیے نہ تو قرآن و حدیث میں کوئی دلیل موجود ہے اور نہ ہی انسان کے اکتسابی اور تجرباتی علوم اس کے لیے کوئی دلیل فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنی ان صلاحیتوں کے حوالے سے اس ہستی کے سامنے جوابدہ رکھا گیا ہے جس نے اسے یہ سب کچھ عطا کیا ہے۔ چناچہ انسان کو چاہیے کہ جس چیز یا خبر کی بنیاد میں الہامی یا اکتسابی و تجرباتی علم کی کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو اسے قابل اعتناء نہ سمجھے اور اپنے فکار و نظریات کی بنیاد ایسے ٹھوس علمی حقائق پر رکھے جن کی وہ سائنٹیفک انداز میں توثیق و تصدیق بھی کرسکتا ہو۔ یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس نے علمی میدان میں نوع انسانی کی راہنمائی اس راستے کی طرف کی ہے جو انسان کے شایان شان ہے۔ - یہاں پر ارسطو کے استخراجی فلسفے کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ایک مدت تک پوری دنیا میں اس فلسفے کا ڈنکا بجتا رہا۔ عالم اسلام میں بھی یہ فلسفہ بہت مقبول رہا اور کئی صدیوں کے بعد اب جا کر کہیں اس کی گرفت ڈھیلی ہوئی ہے۔ استخراجی منطق ( ) کے مطابق صرف دستیاب معلومات سے ہی نتائج اخد کیے جاتے تھے۔ چناچہ کسی موضوع پر جو تھوڑی بہت معلومات دستیاب ہوتی تھیں وقت کے فلسفی اور حکیم انہی میں سے بال کی کھال اتار اتار کر نتائج اخذ کرتے رہتے تھے۔ اس کے مقابلے میں قرآن نے استقرائی منطق ( ) کا فلسفہ متعارف کرایا اور انسان کو مشاہدے اور تجربے کی مدد سے مسلسل علم حاصل کرنے کی راہ دکھائی : (اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ ) (الغاشیۃ) ” کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹ کی طرف کہ کیسے پیدا کیا گیا ہے۔ اور آسمان کی طرف کہ کیسے بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے نصب کیے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کیسے ہموار کی گئی ہے “ علامہ اقبال نے اس فکر قرآنی کی ترجمانی یوں کی ہے : - کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ - مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ - فطرت اور مظاہر فطرت کے بارے میں ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے قوانین بہت مضبوط اور مستحکم ہونے کے باوجود اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔ اللہ جب چاہے فطرت کے ان قوانین کو معطل کرسکتا ہے یا بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اصل حقیقت یہی ہے کہ اس کائنات کا عمومی نظام بہت مضبوط محکم اور اٹل طبعی اصول و قوانین پر چل رہا ہے اور ان قوانین کو معطل کرنے کے معجزات روز روز رونما نہیں ہوتے۔ سمندر حضرت موسیٰ کے لیے نوع انسانی کی تاریخ میں ایک ہی دفعہ پھٹا تھا اور آگ نے ایک ہی دفعہ حضرت ابراہیم کو جلانے سے انکار کیا تھا۔ بہر حال دنیا میں طبعی سائنس ( ) کی مختلف ٹیکنالوجیز کا وجود فطرت کے اٹل قوانین کا ہی مرہون منت ہے اور اسی وجہ سے آج طرح طرح کی سائنسی ترقی ممکن ہوئی ہے۔ اسی بنیاد پر قرآن ان مظاہر فطرت کو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں قرار دیتا ہے اور انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اللہ کی ان نشانیوں کو غور سے دیکھے ان کے اندر کارفرما قوانین کا تجزیاتی مطالعہ کرکے نتائج اخذ کرے اور پھر ان نتائج کو کام میں لاکر اپنی زندگی میں ترقی کی نئی منازل تلاش کرے۔ - علامہ اقبال نے اسی حوالے سے اپنے خطبات میں فرمایا ہے : " . " کہ موجودہ مغربی تہذیب کا اندرونی محور خالص قرآنی ہے ‘ کیونکہ اس کی بنیاد سائنس پر ہے اور سائنسی علوم کی طرف انسان کی توجہ قرآن نے مبذول کروائی ہے۔ بہرحال قرآن انسان کو ہر قسم کے توہمات رمل نجوم پامسڑی وغیرہ سے بیزار کر کے اپنے معاملات اور نظریات کی بنیاد ٹھوس علمی حقائق پر رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ - انسانی زندگی کے سفر میں توازن رکھنے کے لیے مذکورہ دونوں قسم کے علوم (اکتسابی اور الہامی ) اپنے اپنے دائرۂ عمل میں نہایت اہم ہیں۔ دونوں کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش کے فوراً بعد آپ کو علم الاسماء (یہ وہی علم ہے جس کا تعلق انسانی حواس سے ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے) سے بھی نواز دیا گیا تھا اور آپ کو زمین پر بھیجتے وقت الہامی علم کی اتباع کی ہدایت بھی کردی گئی تھی : (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (البقرۃ) ” پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جس نے پیروی کی میری ہدایت کی تو ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ “- یورپی معاشرہ اس سلسلے میں بہت بڑی کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے کہ اس معاشرے میں ساری توجہ اکتسابی علم پر مرکوز کر کے الہامی علم سے بالکل ہی صرف نظر کرلیا گیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں دی تھیں ‘ ان میں ایک اکتسابی علم کی آنکھ تھی اور دوسری الہامی علم کی۔ یورپ میں ایک آنکھ کو مکمل طور پر بند کر کے ہرچیز کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے دوسری اکیلی آنکھ پر ہی انحصار کرلیا گیا۔ نتیجتاً نہ تو انسان کی سوچ میں اعتدال رہا نہ عمل میں توازن اور یوں اس پورے معاشرے نے یک چشمی دجالیت کی شکل اختیار کرلی۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :42 اس دفعہ کا منشاء یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کے بجائے ”علم“ کی پیروی کریں ۔ اسلامی معاشرے میں اس منشاء کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں ، قانون میں ، سیاست اور انتظام ملکی میں ، علوم و فنون اور نظام تعلیم میں ، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور ان بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں ۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شہبے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے ۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں ۔ نظام تعلیم میں بھی ان نام نہاد علوم کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن و تخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو ۔
20: مثلاً جب تک کسی شخص کے بارے میں شرعی دلیل سے کوئی جرم یا گناہ ثابت نہ ہوجائے، اس وقت تک صرف شبہ کی بنیاد پر نہ اس کے خلاف سزا کی کارروائی جائز ہے، اور نہ دل میں یہ یقین کرلینا جائز ہے کہ واقعی اس نے جرم یا گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جن باتوں کا نہ یقینی علم حاصل ہے اور نہ ایسے علم پر دنیا اور آخرت کا کوئی کا موقوف ہے بلا وجہ ایسی چیزوں کی تحقیق اور جستجو میں پڑنا بھی جائز نہیں ہے۔ 21: اگر شرعی دلیل کے بغیر کوئی شخص دوسرے کے بارے میں یقین کر کے بیٹھ جائے کہ اس نے فلاں گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس سے آخرت میں باز پرس ہوگی۔