Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تکبر کے ساتھ چلنے کی ممانعت اکڑ کر ، اترا کر ، تکبر کے ساتھ چلنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع فرماتا ہے ۔ یہ عادت سرکش اور مغرور لوگوں کی ہے پھر اسے نیچا دکھانے کے لئے فرماتا ہے کہ گو کتنے ہی بلند سر ہو کر چلو لیکن پہاڑی کی بلندی سے پست ہی رہو گے اور گو کیسے ہی کھٹ پٹ کرتے ہوئے پاؤں مار مار کر چلو لیکن زمین کو پھاڑنے سے رہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کا حال برعکس ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص چادر جوڑے میں اتراتا ہوا چلا جا رہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جا رہا ہے ۔ قرآن میں قارون کا قصہ موجود ہے کہ وہ مع اپنے محلات کے زمین دوز کر دیا گیا ۔ ہاں تواضع ، نرمی ، فروتنی اور عاجزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگ اسے جلیل القدر سمجھتے ہیں اور تکبر کرنے والا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کتوں اور سوروں سے بھی زیادہ حقیر جانتے ہیں ۔ امام ابو بکر بن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب المحمول والتواضع میں لائے ہیں کہ ابن الاہیم دربار منصور میں جا رہا تھے ریشمی جبہ پہنے ہوئے تھا اور پنڈلیوں کے اوپر سے اسے دوہرا سلوایا تھا کہ نیچے سے قبا بھی دکھائی دیتی رہے اور اکڑتا اینڈتا جا رہا تھا ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمایا افوہ نک چڑھا ، بل کھایا ، رخساروں پھولا ، اپنے ڈنڑ بازو دیکھتا ، اپنے تیئں تولتا ، مستوں کے ذکر و شکر کو بھولا ، رب کے احکام کو چھوڑے ہوئے ، اللہ کے حق کو توڑا ، دیوانوں کی چال چلتا ، عضو عضو میں کسی کی دی ہوئی نعمت رکھتا ، شیطان کی لعنت کا مارا ہوا دیکھو جا رہا ہے ۔ الاہیم نے سن لیا اور اسی وقت لوٹ آیا اور عذر بہانہ کرنے لگا ۔ آپ نے فرمایا مجھ سے کیا معذرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر اور اسے ترک کر ۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا آیت ( وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا 37؀ ) 17- الإسراء:37 ) ۔ عابد بختری رحمۃ اللہ علیہ نے آل علی میں سے ایک شخص کو اکڑتے ہوئے چلتا دیکھ کر فرمایا اے شخص جس نے تجھے یہ اکرام دیا ہے اس کی روش ایسی نہ تھی ۔ اس نے اسی وقت توبہ کر لی ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ شیطان کے یہی بھائی ہوتے ہیں ۔ حضرت خالد بن معدان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لوگو اکڑ اکڑ کر چلنا چھوڑو اس لئے کہ انسان ۔ ( اصل عربی میں کچھ عبارت غائب ہے ) اس کا ہاتھ اس کے باقی جسم سے ( ابن ابی الدنیا ) ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ جب میری امت غرور اور تکبر کی چال چلنے لگے گی اور فارسیوں اور رومیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک کو ایک پر مسلط کر دے گا ۔ سیئہ کی دوسری قرأت سیئتہ ہے تو معنی یہ ہوئے کہ جن جن کاموں سے ہم نے تمہیں روکا ہے یہ سب کام نہایت برے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہیں ۔ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو سے لے کر اکڑ کر نہ چلو تک کے تمام کام ۔ اور سیئہ کی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ آیت ( وقضی ربک ) سے یہاں تک جو حکم احکام اور جو ممانعت اور روک بیان ہوئی اس میں جن برے کاموں کا ذکر ہے وہ سب اللہ کے نزدیک مکروہ کام ہیں ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 اترا کر اور اکڑ کر چلنا، اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ قارون کو اسی بنا پر اس کے گھر اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا (فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ ۣ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ ) 28 ۔ القصص :81) حدیث میں آتا ہے ایک شخص دو چادریں پہنے اکڑ کر چل رہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] متکبرانہ چال سخت مذموم ہے اور اس اصل میں استثناء :۔ متکبرانہ چال اللہ تعالیٰ کو سخت ناگوار ہے اور جو انسان، اکڑ اکڑ کر، گال پھلا کر اور اور اپنے تہبند کو زمین پر گھسٹتے ہوئے چلتا ہے۔ اللہ ایسے انسان کو دنیا میں ضرور سزا دیتا ہے مثل مشہور ہے کہ غرور کا سر نیچا تو اس کا سر نیچا ہو ہی جاتا ہے۔ متکبر ہونا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور کسی کو یہ صفت زیبا نہیں۔ انسان کی چال میں انکساری اور وقار ہونا چاہیے لیکن ایسی بھی نہ ہو کہ انسان حقیر اور ذلیل معلوم ہو بلکہ چال میں میانہ روی کی روش اختیار کرنا چاہیے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ( وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ 19؀ ) 31 ۔ لقمان :19) یعنی اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور فرمایا : ( وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا 63؀) 25 ۔ الفرقان :63) (جو لوگ زمین پر انکساری کے ساتھ چلتے ہیں) یہاں ھَوْن کا لفظ فرمایا جس میں انکساری اور وقار دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ھُوْن نہیں فرمایا جس کا معنی ذلت اور حقارت ہوتا ہے۔- اس کلیہ میں بھی ایک استثناء کا مقام ہے اگر کفار کے سامنے مظاہرہ مقصود ہو تو اس وقت اکڑ کر چلنا ہی اللہ کو پسند ہے۔ جنگ احد میں سب صحابہ کے مقابلہ میں آپ نے اپنی تلوار ابو دجانہ کو عنایت فرمائی تو وہ کافروں کے سامنے اکڑ اکڑ کر چلنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ یہ چال اللہ کو پسند نہیں مگر اس وقت پسند ہے۔ عمرہ قضاء کے وقت آپ نے صحابہ کرام (رض) کو رمل کا حکم دیا۔ اس سے بھی یہی مقصود تھا۔ فتح مکہ کے وقت آپ نے اور سب صحابہ نے کافروں کے سامنے ایسا ہی پر شکوہ مظاہرہ فرمایا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا : ” مَرَحًا “ اصل میں حد سے بڑھی ہوئی خوشی کو کہتے ہیں، جس کے ساتھ تکبر اور لوگوں سے اونچا ہونے کا اظہار ہو۔ ” فِي الْاَرْضِ “ سے اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ تو اسی زمین سے پیدا ہوا اور اسی کی آغوش میں سمٹ جائے گا۔ (دیکھیے طٰہٰ : ٥۔ مرسلات : ٢٥ تا ٢٧) پھر اس پر یہ تکبر کیسا ؟ اسلام کے سکھائے ہوئے ادب کے مطابق اپنی چال میں تواضع اور میانہ روی اختیار کر۔ دیکھیے سورة لقمان (١٨، ١٩) اور فرقان (٦٣) ۔- اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ ۔۔ : اس میں انسان کو مذاق کے انداز میں اس کی حیثیت یاد دلائی گئی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبر کا برا انجام بہت سی احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً ، قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر وبیانہ : ٩١ ] ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر کبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا خوبصورت ہو اور اس کا جوتا خوبصورت ہو ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، کبر تو حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ اور ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلاَءَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ بخاری، اللباس، باب من جر إزارہ۔۔ : ٥٧٨٤۔ مسلم : ٢٠٨٥ ] ” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو اپنی چادر تکبر سے کھینچے۔ “ - افسوس کہ مسلمان مردوں نے کفار کی تقلید میں اپنی شلواریں، پتلونیں ٹخنوں سے نیچے رکھنے کو عادت بنا لیا ہے اور عذر یہ کرتے ہیں کہ ہم تکبر سے ایسا نہیں کرتے، حالانکہ اگر بےدھیانی میں بےاختیار کپڑا لٹک جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے تکبر سے ایسا نہیں کیا، لیکن جان بوجھ کر لمبی شلوار سلوانا اور اسے جان بوجھ کر ٹخنوں سے نیچے رکھنا صاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور واضح تکبر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے از خود چادر لٹکانے ہی کو تکبر میں شمار کیا ہے، چناچہ جابر بن سلیم (رض) سے ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَارْفَعْ إِزَارَکَ إِلٰی نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَیْتَ فَإِلَی الْکَعْبَیْنِ وَإِِیَّاکَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِِنَّھَا مِنَ الْمَخِیْلَۃِ وَإِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَخِیْلَۃَ ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب ما جاء في إسبال الإزار : ٤٠٨٤ ] ” اور اپنی چادر نصف پنڈلی تک اٹھاؤ، پھر اگر تم نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور (ٹخنوں سے نیچے) چادر لٹکانے سے بچو، کیونکہ یقیناً یہ تکبر سے ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ “ شیخ البانی (رض) نے اسے صحیح کہا ہے۔ بےدین لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے، آج کل بہت سے لوگ بلکہ کئی جماعتیں جو پاکستان میں، بلکہ دنیا بھر میں اقامت دین کا علم اٹھائے ہوئے ہیں، ان کے مرد دھڑلے سے کپڑا ٹخنے سے نیچے رکھتے ہیں، بلکہ کپڑا اٹھانے والوں کو طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہیں، اس کے برعکس مسلم عورتوں کی اکثریت جنھیں اپنے پاؤں تک چھپانے تھے وہ کپڑا اٹھا کر اپنے حسن کی نمائش کرکے اللہ تعالیٰ کی لعنت کا نشانہ بن رہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مذکورہ دو آیتوں میں سے دوسری آیت میں تیرھواں حکم یہ ہے کہ زمین پر اترا کر نہ چلو یعنی ایسی چال نہ چلو جس سے تکبر اور فخر و غرور ظاہر ہوتا ہو کہ یہ احمقانہ فعل ہے گویا زمین پر چل کر وہ زمین کو پھاڑ دینا چاہتا ہے جو اس کے بس میں نہیں اور تن کر چلنے سے بہت اونچا ہونا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کے پہاڑ اس سے بہت اونچے ہیں تکبر دراصل انسان کے دل سے متعلق شدید کبیرہ گناہ ہے انسان کے چال ڈھال میں جو چیزیں تکبر پر دلالت کرنے والی ہیں وہ بھی ناجائز ہیں متکبرانہ انداز سے چلنا خواہ زمین پر زور سے نہ چلے اور تن کر اونچا نہ بنے بہرحال ناجائز ہیں تکبر کے معنی اپنے آپ کو دوسروں سے افضل واعلی سمجھنا اور دوسروں کو اپنے مقابلہ میں کمتر و حقیر سمجھنا ہے حدیث میں اس پر سخت وعیدیں مذکور ہیں۔- امام مسلم نے بروایت حضرت عیاض بن عمار نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے پاس بذریعہ وحی یہ حکم بھیجا ہے کہ تواضع اور پستی اختیار کرو کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی پر فخر اور اپنی بڑائی کا طرز اختیار نہ کرے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کرے ( مظہری)- اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں داخل نہیں ہوگا وہ آدمی جس کے دل میں ذرہ کی برابر بھی تکبر ہوگا (مظہری بحوالہ صحیح مسلم)- اور ایک حدیث قدسی میں بروایت ابوہریرہ (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار جو شخص مجھ سے ان کو چھیننا چاہئے تو میں اس کو جہنم میں داخل کروں گا (چادر اور ازار سے مراد لباس ہے اور اللہ تعالیٰ نہ جسم ہے نہ جسمانی جس کے لئے لباس درکار ہو اس لئے اس سے مراد اس جگہ اللہ تعالیٰ کی صفت کبریائی ہے جو شخص اس صفت میں اللہ تعالیٰ کا شریک بننا چاہے وہ جہنمی ہے۔- اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تکبر کرنے والے قیامت کے دن چھوٹی چیونٹیوں کے برابر انسانوں کی شکل میں اٹھائے جاویں گے جن پر ہر طرف سے ذلت و خواری برستی ہوگی ان کو جہنم کے ایک جیل خانہ کی طرف ہانکا جائے گا جس کا نام بولس ہے ان پر سب آگوں سے بڑی تیز آگ چڑھی ہوگی اور پینے کے لئے ان کو اہل جہنم کے بدن سے نکلا ہوا پیپ لہو دیا جائے گا (ترمذی بروایت عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ از مظہری)- اور حضرت فاروق اعظم (رض) نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جو شخص تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سربلند فرماتے ہیں تو وہ اپنے نزدیک تو چھوٹا مگر سب لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوتا ہے اور جو شخص تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرتے ہیں تو وہ خود اپنی نظر میں بڑا ہوتا ہے اور لوگوں کی نظر میں وہ کتے اور خنزیر سے بھی بد تر ہوتا ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا 37؀- مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ می کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- مرح - المَرَحُ : شدّة الفرح والتّوسّع فيه، قال تعالی: وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً- [ الإسراء 37] وقرئ : ( مَرِحاً ) «3» أي : فَرِحاً ، ومَرْحَى: كلمة تعجّب .- ( م ر ح ) المرح - کے معنی ہیں بہت زیادہ اور شدت کی خوشی جس میں انسان اترانے لگ جائے قرآن میں ہے : وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء 37] اور زمین پر اکڑا کر ( اور اٹھلاکر ) مت چل ۔ اس میں ایک قرآت مرحا بمعنی فرحا بھی ہے ۔ مرحی یہ کلمہ تعجب ہے ( اور احسنت یا اصبت کی جگہ استعمال ہوتا ہے ) یعنی خوب کیا کہنے ہیں - خرق - الخَرْقُ : قطع الشیء علی سبیل الفساد من غير تدبّر ولا تفكّر، قال تعالی: أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف 71] ، وهو ضدّ الخلق، فإنّ الخلق هو فعل الشیء بتقدیر ورفق، والخرق بغیر تقدیر، قال تعالی: وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 100] ، أي : حکموا بذلک علی سبیل الخرق، وباعتبار القطع قيل : خَرَقَ الثوبَ ، وخَرَّقَه، وخَرَقَ المفاوز، واخْتَرَقَ الرّيح . وخصّ الخَرْق والخریق بالمفاوز الواسعة، إمّا لاختراق الریح فيها، وإمّا لتخرّقها في الفلاة، وخصّ الخرق بمن ينخرق في السخاء «1» . وقیل لثقب الأذن إذا توسّع : خرق، وصبيّ أَخْرَقُ ، وامرأة خَرْقَاء : مثقوبة الأذن ثقبا واسعا، وقوله تعالی: إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ- [ الإسراء 37] ، - فيه قولان :- أحدهما : لن تقطع، والآخر : لن تثقب الأرض إلى الجانب الآخر، اعتبارا بالخرق في الأذن، وباعتبار ترک التقدیر قيل : رجل أَخْرَقُ ، وخَرِقُ ، وامرأة خَرْقَاء، وشبّه بها الریح في تعسّف مرورها فقیل : ريح خرقاء . وروي : «ما دخل الخرق في شيء إلّا شانه» «2» . ومن الخرق استعیرت المَخْرَقَة، وهو إظهار الخرق توصّلا إلى حيلة، والمِخْرَاق : شيء يلعب به، كأنّه يخرق لإظهار الشیء بخلافه، وخَرِقَ الغزال «3» : إذا لم يحسن أن يعدو لخرقه .- ( خ ر ق ) الخرق - ( ض) کسی چیز کو بلا سوچے سمجھے بگاڑنے کے لئے پھا ڑ ڈالنا ۔ قرآن میں ہے :۔ أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف 71] کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ مسافروں کو غرق کردیں ۔ خرق خلق کی ضد ہے ۔ جس کے معنی اندازہ کے مطابق خوش اسلوبی سے کسی چیز کو بنانا کے ہیں ۔ اور خرق کے معنی کسی چیز کو بےقاعدگی سے پھاڑ ڈالنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 100] اور لے سمجھے ( جھوٹ بہتان ) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا گھڑی ہیں ۔ یعنی بےسوچے سمجھے یہ بات کہتے ہیں ۔ پھر معنی قطع کے اعتبار سے کہا جاتا ہے : خرق الثوب وخرقہ کپڑے کو پھاڑ ڈالا خرق المف اور ریگستان طے کئے اخترق الریح ہوا کا تیز چلنا ۔ الخرق والخریق خاص کر کشادہ بیابان کو کہاجاتا ہے اس لئے کہ اس میں ہوائیں تیزی سے چلتی ہیں اور یا اس لئے ک وہ وسیع ریگستان کی صورت میں پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔ الخرق ( خاص ) کپڑے میں سوراخ اور کان میں کشادہ سوراخ ۔ صبی اخرق امراۃ خرقاء جس کے کان میں کشادہ چھید ہو اور آیت کریمہ :۔ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء 37] کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ تو زمین کو طے نہیں کرسکے گا ۔ یا یہ کہ تو زمین کو پانے پاؤں سے پھاڑ نہیں ڈالے گا ۔ یہ دوسرا معنی خرق فی الاذن سے ماخوذ ہے اور بےسوچے سمجھے کام کرنے کے اعتبار سے احمق اور نادان شخص کو اخرق وخرق کہاجاتا ہے اس کی مونث خرقاء ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے (108) مادخل الخرق فی شئی الا شانہ جس چیز میں نادانی کا عمل دخل ہو وہ عیب ناک ہوجاتی ہے اور خرق سے مخرقۃ کا لفظ لیا گیا ہے جس کے معنی کسی کام میں حیلہ جوئی کے لئے بےوقوفی کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ المخراق کپڑے کا کوڑا جس سے بچے کھلیتے ہیں گویا اسے بھی کسی چیز کو واقع کے خلاف ظاہر کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے ۔ خرق الغزال ہر ن کا نادانی کی وجہ سے دوڑ نہ سکنا ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- طول - الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ- [ القصص 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ- [ غافر 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ.- ( ط و ل ) الطول - یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔- طالوت - یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) اور زمین پر تکبر کے ساتھ اتراتا ہوا مت چل کیوں کہ تو اپنے اترانے اور زمین پر زور سے قدم رکھنے ے ساتھ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ (بدن تان کر) پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا)- تم جس قدر چاہو طاقتور ہوجاؤ اور ہماری زمین پر جتنا بھی اکڑ اکڑ کر اور پاؤں مار مار کر چل لو تم اپنی طاقت سے زمین کو پھاڑ نہیں سکتے اور جس قدر چاہو گردن اکڑا لو اور طرہ و دستار سے سربلند کرلو تم قد میں ہمارے پہاڑوں کے برابر تو نہیں ہوسکتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :43 مطلب یہ ہے کہ جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو ۔ یہ ہدایت بھی انفرادی طرز عمل اور قومی رویے دونوں پر یکساں حاوی ہے ۔ اور یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ طیبہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی اس کے فرماں رواؤں ، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔ حتی کہ عین حالت جنگ میں بھی کبھی ان کی زبان سے فخر و غرور کی کوئی بات نہ نکلی ۔ ان کی نشست و برخاست ، چال ڈھال ، لباس ، مکان ، سواری اور عام برتاؤ میں انکسار و تواضع ، بلکہ فقیری و درویشی کی شان پائی جاتی تھی ، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور بتختُر سے کبھی اپنا رعب بٹھانے کی کوشش نہ کرتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: اکڑ کر چلنے کے لیے ایک تو کچھ لوگ زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلتے ہیں۔ دوسرے سینہ تان کر چلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پہلی صورت کے لیے کہا گیا ہے کہ پاؤں چاہے کتنے زور سے مار لو، تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے، اور دوسری صورت کے لیے فرمایا گیا ہے کہ سینہ تان کر اپنا قد اونچا کرنے کی کتنی ہی کوشش کرلو، تمہاری لمبائی پہاڑوں سے زیادہ نہیں ہوسکتی، اور اگر لمبا قد ہی فضیلت اور بڑائی کا معیار ہوتا تو پہاڑوں کو تم سے افضل ہونا چاہئے تھا۔